یہ عید کے پیچھے ٹر کیسی۔۔۔ شمس جیلانی

چونکہ اس مرتبہ عید جمعہ رات کو تھی اور ہمارا وہ لکھنے کا دن نہیں تھا لہذا ہم اپنے قار ئین کو عید کی مبارکباد نہ دے سکے۔ جبکہ ہمارے خیال میں یہ دینا ضروری تھا اچھا ہوا کہ نہیں دی، کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ اس کے بندے کے لیے بہتر ہوا کرتا ہے ہمیں کیا پتہ تھا کہ عید یوں آ ہوں میں بدل جا ئے گی اور اتنے بہت سے لوگ اس عید پر کام آجائیں گے جو کسی نہ کسی کے پیارے ہونگے اورسب اللہ سبحانہ تعالیٰ کے مہمان بھی ! ان میں ہمارے ملنے والے ایک صاحب کے دوپیارے بھی تھے وہ بھی دو نوں خواتین۔ سعودی شاہ نے فرمایا کہ اللہ کے مہمانوں کو سہولت فراہم کرنا ہمارا فرض ہے؟ ہم اس میں کوتاہی نہیں کریں گے اور انہوں نے اس سلسلہ میں تحقیقات کے لیے کمیشن بھی بنا دیا ہے؟ اس سے پہلے امام کعبہ نے یوم عرفہ پر خطبہ دیتے ہو ئے بہت در مندانہ انداز میں امت کو للکارا اور کہا کہ فرقہ پرستوں نے تمام دنیا میں بد امنی پیدا کر رکھی ہے کاش وہ اس کابھی انکشاف کرتے کہ اسکی دوبارہ تجدید کا منبہ کہاں ہے؟ عید سے چند دن پہلے پاکستان کے وزیر ِ داخلہ چودھری نثار علی خانصاحب نے فرمایا کہ ہم فرقہ پرستی کو اس کے منطقی انجام تک پہونچا کر رہیں گے؟ یہ ساری باتیں سننے میں بہت ہی خوشگوار ہیں اور طمانیتِ قلب کا باعث بھی ؟ اب لوگ پوچھیں گے کہ پھر یہ عید کے پیچھے ٹر کیوں ؟ اس کے کئی جواب ہیں پہلا تو یہ ہے کہ ابھی تک ہم وقت کے اندر ہیں کہ یہ عید تین دن چلتی ہے اور اس دفعہ دنیا کی مسلم اکثریت نے عید جمعرات کو منائی، پاکستان میں انہوں نے بھی اتفاق کیا جو بقیہ قوم سے کبھی اتفاق نہیں کرتے تھے ،لہذا لازمی تھا کہ پاکستانی قوم بھی اس مرتبہ ان کے ساتھ اتفاق نہ کرے؟ اس نے واقعی نہیں کیا کیونکہ علامہ اقبال (رح) ہمیں درس ِ خودی دے گئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے دوسرے دن عید منائی، لیکن ایک بات سب کے یہاں یکساں تھی کہ سب نے درس اتحاد کا ہی دیااور باتیں فرقہ پرستوں کے خلاف کیں ؟ مگر مشکل یہ ہے کہ انہیں سب کو  کچھ مجبوریا ں لاحق ہیں کہ وہ ایکسی لیٹر اور بریک دونوں پر بہ یک وقت پاؤں رکھے رہیں، ایسے میں گاڑی آگے بڑھے تو کیسے؟
اس سلسلہ میں باب علم (رض) کامجھے یہ قول یاد آگیا کہ “ مومن وہ ہے جو اچھی بات کہے اور اس پرعمل بھی کرے، ورنہ اچھی باتیں تو برے لوگ بھی کر لیتے ہیں “ اس لیے ہم بھی اس محاورے کے طنزیہ اثر کو اس کان سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں کہ اس کا اطلاق ہم پر نہیں ہوتا۔ بلکہ من حیثیت قوم اس کا ہم پر مثبت پہلو لاگو ہوتا ہے کہ ہم لوگ اللہ کا ذکر تو کرتے ہیں، چند لمحہ ہی صحیح،البتہ ٹر جو ہے پارٹیوں اور میلوں کی شکل میں، تین دن تو کیا پورا مہینہ مناتے ہیں ۔ اور اس دوران اتنا کھانے پینے پر زور رہتا ہے کہ اس میں جو پیغام پنہا ں ہے وہ ہی بھول جاتے ہیں۔ کیوں کہ قوم کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے۔ آپ ہماری بات نہ مانیں اور اپنے یہاں کے لوگوں کو بھی چھوڑدیں اورصرف ٹی وی پروگرام ہی دیکھ لیں، ادھر غلاف کعبہ بدلتا ہوادکھارہے ہوتے ہیں اور “ اللہھم لبیک“ کی صدا گونج رہی ہوتی ہے کہ یکایک گانا شروع ہو جاتا ہے جو کسی اشتہارکا حصہ ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ ٹی وی چلتے ہی اس پر ہیں ؟ اگر یہ نہ کریں تو مالکان کی تجوریاں کیسے بھریں اور وہ اپنے اینکرز کو بڑی بڑی تنخواہیں کہاں سے دیں ،جو لاکھوں میں ہوتی ہیں لہذا یہ ان کی مجبوری ہے۔ پھر بھی اینکرز کا یہ عالم ہے کہ صورت ِ سیماب رہتے ہیں ۔ آج اس ٹی وی پر ہیں اور کل دوسرے سے ابھر تے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر یہ بھی محاورہ ہے کہ اللہ شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ ہم پھر بھی کہیں نہ کہیں سے اپنے پڑھنے والوں کے لیے کچھ ڈھونڈ ہی لاتے ہیں اور جو ہم نے ان تین دنوں میں تعطیل نہ کرکے حاصل کیا ہے وہ پیش خدمت ہے کیونکہ مسلمان ہونے کے رشتے سے تعطیل تو ہم پورے سال ہی کر تے ہیں اور کام کرنے کی طرف دل کبھی مائل ہو تو پہلا ہی قدم غلط اٹھ جاتا ہے کہ ہم جو اجرت لیتے ہیں ان اوقات میں جتنا کام ہو ناچاہیئے وہ پورا کرتے ہی نہیں ہیں اس میں ہمارے پارسا اور غیر پارسا دونوں ہی شامل ہیں۔اسی طرح جو ملازم نہیں ہیں وہ ہر وقت کم تولنے ، کم ناپننے ، ذخیرہ اندوزی ، منافع خوری کرنے سے بعض نہیں رہتے؟چونکہ ہمارا یہ جو مصنوئی درجہ اشرافیہ بن گیا ہے  اس کے ساتھ کولہے سے کولہا ملاکر چلنا بغیر اس کے مشکل ہے، لہذا یہ ان کی مجبوری ہے؟ لیکن قربانی کے سلسلہ میں اس کے علاوہ بقیہ ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں ؟ جب کہ رزق ِ حلال اور اخلاص کو نکالدیا جائے تو اس کے علاو ہ جو اس کے حضور پیش ِ کرنے جارہے ہیں اس میں سب کچھ  ہوتاہے اور اس اعتبار سے ہم سب سے افضل قوم ہیں۔ مثلا ً حکم ہے کہ قربانی کا جانور خود پالیں تاکہ اس سے بہت زیادہ محبت ہو جائے اور یہ شرط پوری ہو سکے کہ اللہ کی راہ میں وہ چیز قربان کرو جس سے تمہیں سب سے زیادہ محبت ہو، اس کو پالنے والے اچھا کھلاتے بھی ہیں، پلا تے بھی ہیں اور زیورات پہنا کے سجاتے بھی ہیں لیکن یہ کام ہم خود کم کرتے ہیں اور اجرت پر زیادہ کراتے ہیں پھر تصویر کے ساتھ یہ اعلان کراتے ہیں کہ فلاں صاحب نے اتنے لاکھ میں یہ جانور خریدا جو منڈی کی جان تھا! جیسے کہ مرنے والے کے ورثہ اگر نیک ہوں اور اس پر یقین بھی رکھنے والے ہو ئں تو کچھ رقم حصہ بانٹ کے دوران اس کے لیے بھی مخصوص کر دیتے ہیں کہ مولوی صاحب چالیس دن قبر پر قرآن خوانی کریں گے یہ ان کو دینا ہے؟ بلکہ یہاں تک بھی ہو تا ہے جو ہم نے اپنے قیام ِ بنگال میں لوگوں سے سنا جو کہ ثقہ قسم کے لوگ تھے کہ ایک آدمی ریلوے اسٹیشن پر مر گیا جو کہ بے گھر تھااور رات کو آکر وہاں سوجاتا تھا، اس کی تہجیز اور تکفین کے لیے چندہ ہوا ۔ تو مولوی صاحب کے لیے نمازِ جنازہ پڑھانے کی فیس پندرہ ٹکے (روپیہ) رکھی گئی کیونکہ مولوی صاحب بغیر اجرت کے نماز نہیں پڑھاتے تھے۔ جو کہ اس دور میں بہت بڑی رقم تھی !بس یوں سمجھ لیں کہ ہمارے پاس ایک میٹرک پاس ملازم تھا اس کی پورے مہینے کی تنخواہ، پندرہ (روپیہ) اور کھانا تھی۔ پھر دوسرے نمبر پر سفید پوشوں کی قربانی کا مرحلہ آتا ہے وہ نمائش جسکو مذہبی اصطلاح میں ریاکاری کہا جاتا ہے اس کے زیادہ تر مرتکب ہوتے ہیں؟ وہ ہے جانوروں کی نمائش اور محلہ میں اس کا گشت اور دروازے پر باندھنا ۔
ہمارے ایک دوست جو کہ حلال کی کمائی کھاتے ہیں اور پورے بازار میں ایسے واحد تاجر ہیں؟ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمارے حالات پچھلے کئی سالوں سے کراچی کی آئے دن کی ہڑتالوں کی وجہ سےا تنے خراب ہو گئے ہیں کہ ہم اس سال قربانی کاجانور نہیں خرید سکے ؟ لہذا جو بھی ہمارے دروازے کے سامنے سے نکلتا ہے وہ عجیب نظروں سے دیکھتا ہوا گزرتا ہے جیسے کہ گویا ہم مسلمان ہی نہیں ہیں؟ اس سے یہ بات ثابت ہے کہ اس معاشرے میں رہنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قر بانی ضرور کرو؟ رقم چاہیں کیسی بھی ہو کہیں سے آئے اور کچھ دنوں دروازے پر باندھو بھی تاکہ معاشرتی رکھ رکھاؤپو را ہو سکے ورنہ عقیدے کے بارے میں لوگ مشکوک ہو جا ئیں گے؟ اس طرح قربانی ہر آدمی کی مجبوری بن چکی ہے چاہے رقم حلال کی ہو یا نہ ہو؟ کل کسی سوال کے جواب ہم نے اپنے کانوں سے ایک مولوی صاحب کو کہتے سنا کہ جو صاحب ِ نصاب ہیں ان کی تعریف یہ ہے کے جن کے پاس اکیاون تولے چاندی ،یا ساڑھے سات تولے سونا یا اس کے مساوی اثاثے ہوں تو وہ صاحب ِ نصاب ہے اس پر زکات اور قربانی فرض ہے؟ انہوں نے شاید حج کانام اس لیے نہیں لیا کہ اس میں زادِ راہ، بیوی بچوں کا نان و نفقہ بھی شامل ہوتا ہے۔ البتہ مساوی ا ثاثوں کے بارے میں جب سوال ہوا تو انہوں نے صحیح یاد نہیں رقم چھتیس ہزار یااڑتیس ہزارروپیہ بتا ئی؟ یہ غالباً چاندی کی قیمت ہوگی، جوانہوں نے مد ِ نظر رکھی ، ورنہ سونا لیتے تو ساڑھے سات تولے سونا تو تقریبا ً چار لاکھ روپیہ کابنتا ہے؟ جبکہ اڑتیس ہزار میں میں تو اچھا بکرا ہی بمشکل آتا ہے جوکہ اس قابل ہو کہ دروازے پر باندھا جا سکے لہذا یہاں بھی مال حرام کمانا اور اس سے قربانی ان کی مجبوری ہے؟ اب آگے بڑھتے ہیں یہ سب بندوبست ہو بھی جائے تو پوری قوم رات بھر جاگنے اور دیر تک سونے کی عادی ہوچکی ہے جبکہ عیدین کا وقت وہی چلا آرہا ہے کہ علی الصبح اور عید الاضحی کی نماز تواور بھی جلدی ہوتی ہے کہ قربانی جن پر واجب ہے وہ جلد سے جلد اس فریضہ سے فارغ ہونا چاہتے ہیں؟ رہاخود جاکر خطبہ حج سننا تو وہ کچھ فرقوں کے نزدیک واجب ہے اور کچھ کے نزدیک فر ض ہے، وہ قوم کے دیر سے اٹھنے کی عادت کی بنا پر مشکل بن چکا ہے یہ عید کی نماز نہ پڑھنے کی مجبوری ہے۔ لہذا لوگ بمشکل اٹھ پاتے ہیں یہ ہیں ہماری ملی مجبوریاں۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کوئی نیک عمل بھی ان شرائط کو پورا کیئے بغیر قبول نہیں فرماتا، وہ ہیں ہر چیز حلال اور پاک کمائی سے ہو ،وہ بھی پورے خلوص کے ساتھ، یعنی ہر نیک  عمل صرف اللہ کی رضا کے لیئے ہو اس میں کوئی اور خواہش شامل نہ ہو اور کام وقت پر بھی ہو تب ہی وہ قبول فر ماتا ہے؟ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے سارے نیک اعمال ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہونچاتے ؟ اور اسکا حل یہ ہے کہ اجتماعی توبہ کی جائے جو ہم تو سالوں سے کہہ رہے تھے؟ مگر اب تو حالات دیکھ کر بہت سے لوگ کہنے لگے ہیں، کاش کہ ہم سب کو احساس ہو جائے اور ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرسکیں اور عیدیں مناسکیں؟ اور آئندہ عید سے پہلے عید کے درمیان اور بعد۔ آہوں سے واسطہ نہ پڑے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.