یہ کلیہ قطعی غلط ہے ؟ اس لیے کہ ہماری زندگی پاند احکامات خدا وندی ہے، جبکہ اوروں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ۔ گائے کا مسئلہ ہندو ستان میں بہت پرانا ہے۔ جس کو کہ آرین جب ہندوستان آئے تو اپنے ساتھ لے آئے ۔اس سے پہلے ہندوستان میں نہ گائے کی پوجا ہوتی تھی نہ کوئی مسئلہ تھا، جب وہ آئے تو یہ مسئلہ اپنے ساتھ لا ئے اصل باشندو ں کو غلام بنا لیا اور ساتھ میں اچھوت بھی، جیسے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی خد مت کے لیے چن لیا تھا۔ جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں یہ پہلے سے ہی موجود تھااور آرین کے ساتھ ہندوستان آگیا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ گو سالہ سامری کا ذکر اس کی پرستش ذکر قر آن میں موجود ہے ۔ جس سے ثابت ہو تا ہے کہ دریائے نیل کے پار جو قوم بستی تھی وہ گائے کی پوجا کر تی تھی۔آرین چونکہ اسی علاقہ سے آئے تھے وہیں سے گائے اور اس کی پرتش ساتھ لیکر آئے ۔ گائے کی پوجا کب اور کیوں شروع ہوئی اس کا ذکر تاریخِ قدیم میں نہیں ملتا ممکن ہے کہ اسکی تعداد کہیں کم رہی ہو اور اس کی افادیت کھیتی باڑی میں محسوس کر کے اس کو محفوظ کر نے کے لیے اور افزائش نسل کے لیے، اس دور کے بزرگوں نے اسے مقدس قرار دیدیا ہو، ورنہ لوگ کاٹ کر کھا جاتے اور اسکی نسل معدوم ہو جاتی۔ یہ کوئی انوکھی مثال نہیں ہے۔ عرب حضرت اسمعٰیل (ع) سے لیکر حضور (ص) تک دین ِ ابراہیمی پر قائم رہے اور پکے توحید پرست رہے۔ لیکن حضور (ص) سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے بت پرستی نے وہاں رواج پایا۔ اس کی وجہ یہ ہے ہر ایک یہ ہی چاہتا ہے کہ وہ جس کی عبادت کرتا ہے اس کو دیکھ بھی سکے جبکہ جب اسلام بن دیکھے خدا کو ماننے کا حکم دیتا ہے اور یہ ہی دین آدم (ّع) سے چلا آرہا ہے۔عرب کا ایک خاندان جو تجارت کے سلسلہ میں شام گیا وہاں سے وہ متاثر ہوکرواپسی میں بت لے آ یا اور وہ اتنا مقبول ہو گیا کہ پرانی ساری تعلیمات لوگوں نے آہستہ ترک کر دیں اور اسکی ہر بدعت اپناتے چلے گئے۔ ان کے یہاں گائے نہیں تھی تو انہوں نے مقدس اونٹوں کی دسیوں قسمیں بنا ڈالیں؟ پہچان کے لیے کسی کے کان کاٹ دیے وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ حرام مہینے ااس کا خاندان حلال کرنے لگااور حرام مہینوں کو اپنے مرضی کے مطابق حلال کرنے لگا اس کے باوجود کے کعبہ کا متولی اس کا خاندان نہ تھا۔ لیکن عقیدہ بت پرستی کا بانی ہونے کی وجہ سے وہ اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ بات اسی ہی کی چلتی تھی۔ اس قبیلہ کا سردار عکاظ کے بازار میں آکر ہر سال اعلان کر تا کہ آج یہ اختیار میرے پاس ہے کہ جس مہینے کو میں چاہوں حلال،اور جس مہینوں کو میں چاہوں حلال کردوں؟ اور جو وہ اعلان کر تا وہی ہوتا جبکہ مذہبِ ابراہیمی موجود تھا اور حضور (ص) کی پیدائش کے وقت حضور (ص) کے دادا حضرت عبد المطلب متولی تھے۔ مگر عوام کی خواہشات آگے بے بس تھے۔ کیونکہ عوام اس خاندان کی بات مانتے تھے۔ حتی ٰ کے اس بگاڑ کو روکنے کے لیے اپنی سنت کے مطابق اللہ نے حضور (ص) کو مبعوث رسالت فرمایا۔ان پر قر آن بتدریج نازل فرمایا اور وہ تمام رسم رواج جن کو بعد میں دین ِ ابراہیمی کا نام دیدیا گیا تھا وہ آہستہ آہستہ ختم کرتاگیا۔
یہاں قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ یہ فر ماتا ہے کہ تم پہلے ایک ہی امت تھے اوران کے نبیوں (ع) کا سبق ایک ہی تھا وہ توحید تھا، یعنی خد ائے واحد کا تصور جس میں بعد میں لوگوں نے اپنی تعلیمات شامل کر لیں کچھ نے مانا کچھ نے نہیں مانا اور اس طرح فرقہ پرستی کی ابتدا ہوئی۔ لیکن ہم اگر غور سے دیکھیں تو سب کے یہاں ایک بات مشترکہ ملے گی وہ ہے ایک ایسی ہستی کا تصور جو سب سے بڑا ہے۔ اور باقی کہیں اسکے خاندان کے افراد ہیں ، جیسے کہ یونانی اور ہندوستانی مذہب۔ عربوں کا حال ذرا ان سے مختلف تھا کہ ایک چھوٹی سی اقلیت فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے جیسے کہ بنو ثقیف یعنی طائف والوں کا بت نائلہ عورت کی شکل کا تھا۔ جبکہ عرب اکثریت کے بت اپنے اپنے جدااور مرد تھے۔ لیکن لوگ ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بقول انکے پوجتے تھے۔ جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ یہ تیرے سوا اپنی جانوں کے بھی مالک نہیں ہیں۔ یعنی خود اپنی بات کی نفی کرتے تھے۔ جب کہ تمام مذاہب میں تصور ایک ہی بڑے کا موجود ہے۔ آخری دین جو آیا وہ منکران کا دین تھا۔ جس کی قسمیں سوشیل ازم اور کمیون ازم ہے ۔ جو جس تیزی چھا رہا تھا اللہ کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے۔ وہ اسی تیزی سے معدوم ہو گیا۔ ان کے یہاں بھی ان معنوں میں نہ سہی، مگر ایک بڑے کا تصور موجود تھا جسے وہ مدر نیچر کہتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں نے پہلے بھی یہ واقعہ تحریر کیا ہے اور اپنی کتاب حقوق العباد اور اسلام میں بھی تحریر کیا ہے کہ ایک مقامی کنیڈین اسی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے ایک دن میری مزاج پرسی کی تو میں نے ہمیشہ کی طرح جواب دیا کہ اللہ (گاڈ )کی مہربانی سے اچھا ہوں ۔اس دن نہ جانے ان کا کیاموڈ تھا کہنے لگے کونسا گاڈ؟ میں تو کسی گاڈ کونہیں مانتا۔ میں نے کہا ہم ایک گاڈ مانتے ہیں ۔ اور اس کوآپ بھی مانتے ہوجس کو میں ثابت کر سکتا ہوں! اگر آپ میرے ایک سوال جواب دیدیں؟ میں نے جب سوال کیا کہ “ یہ پوری کائنات کس نے بنائی ہے “ تو جواب ملا کہ یہ تو سیکڑوں سال کا پوچھاہوا سوال ہے ؟ مگرمیں نے کہا کہ میری دلیل آپ کے جواب میں ہی مضمر ہے ۔کہنے لگے مدر “ نیچر “ نے۔ میں نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ بھی اسی ہستی کو مانتے ہیں مگر مدر نیچر کے نام سے مانتے ۔ اور قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ما رہاہے کہ تم کسی بھی اچھے نام پکارو وہ اسی کانام ہے۔ اس کے بعد وہ لا جواب ہو گئے۔ اس تمام بحث سے یہ ثابت ہے کہ جو قرآن کا دعویٰ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ہی جماعت بنا یا تھا اور یہ بھی کہ ہم نے ایک ہی شخص آدم (ع) سے بنایاانہیں سے حضرت حوا (رض) بنائیں اور یہ کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنا ئے ، پھر ہمیں یہ بھی ہدایت کی جارہی ہے کہ کسی معبودوں کو برا مت کہو ؟ ان تمام باتوں سے یہ چیز ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر مذہب توحید لیکر آیامگر اس کو بعد میں بت پرستی نے آلیا؟ پہلی بت پرستی کی ابتدا یہ تھی کہ حضرت آدم علیہ کے کافی عرصہ بعد تک تو ایک ہی دین چلتا رہا۔پھر ان کے بعد جن لوگوں نے اپنی توحید پرستی سے بزرگی کا درجہ حاصل کیا چونکہ انسان تھے لمبی عمروں کے باوجود ان کو موت نے آلیا تو انہیں کی کمی ماننے والوں کو محسوس ہونے لگی۔ مفسرین کے مطابق شیطان نے بہکایا اور سب سے پہلے ان کی تصویر بنا دی اور اس کے بعد اسن نے بت بنانے کی رائے دی اور جب بت بن گئے تو ان کے کی پرستش ہونے لگی۔ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت نوح (ع)کو مبعو ث فرمایا جوکہ تقریبا ً اتنا ہی عرصہ ہے جتنے میں بیگاڑ پیدا ہوا تھا وہ تبلیغ میں مصروف رہے مگر صرف بیاسی آدمی متاثر ہو کر مسلمان ہو ئے تنگ آکر نوح نے بد دعا کہ اللہ تعالیٰ ان سے کسی کو زندہ نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں بہکا تے رہیں گے۔ دعا قبول ہوئی طوفان نوح اور آیا اور ان کا نام و نشان ختم کر دیا گیا۔ پھر یہ ہی معاملہ بہت سی قوموں کے ساتھ پیش آیا ۔ جن کے بارے میں قرآن میں حضور (ص) سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ “ ہم نے ہر قریہ کی طرف نبی (ع) بھیجا کچھ کا ذکر تم سے فرمایا باقی کا نہیں کیا ۔ ان کی تعداد کیا تھی ایک روایت ملتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ مگر ان کی مشکل یہ ہے کہ جو تعلیمات ان کے پاس آج ہیں ۔ وہ اصلی حالت می نہیں ہیں ۔ اس کی پہلی وجہ تو وہی ہے کہ وقت کے ساتھ مذہب میں ہیر پھیر ہوتی رہی۔ جس کی مثال میں نے عرب میں دین ابراہیمی کے سلسلہ میں دی دوسری یہ کہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا نہ کاغذ ایجاد ہوا تھا وہ اس طرح محفوظ نہیں رہ سکیں جیسے کہ قرآن ہے۔ تیسرے ان کے ساتھ یہ بھی مشکل رہی کہ بادشاہ عقائد میں دخیل رہے۔ انکی مقدس کتابوں کے ترجمعے ایک سے دوسری زبان میں ہوتے رہے اور ترجمہ کتنیٰ ہو اصل جیسا نہیں ہوسکتا۔ جبکہ ہماری کتاب کی شروع سے ہی حفاظت کی ذمہ داری اللہ سبحانہ تعالیٰ نے لی ہوئی ہے ۔ اس کے محافظ وہ تمام کروڑوں حفاظ ہیں جن کے حافظہ میں پورا قر آن محفوظ ہے۔ اس کے باوجود ہم اس کو نہ مانیں اور بات بات پر اڑ جائیں؟ تو کیا ہم اس کی پکڑ سے بچ جا ئیں گے؟ کیونکہ قر آن ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے پوری تحقیق حکم دیتا ہے۔ ہم صرف اس افواہ پر کہ کسی شخص نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے مشتعل ہو جاتے ہیں،لوگوں کو زندہ بھٹے میں جھونک دیتے ہیں ۔ اس سے ہم دنیا کو وہ سبق دے رہے ہیں جس کاخمیازہ ہمارے دوسرے بھائیوں کو بھگتنا پرتا ہے؟ ہندوستان میں گائے کے مسئلہ پر ایک مسلمان کی شہادت پر جس طرح میڈیا نے اسکو اپنی نیوز بلیٹین کی زینت بنا یا ہے۔ مجھے ڈر ہے ،پاکستان میں ری ایکشن نہ ہو؟وہاں مسلمانوں ایک عجیب عقیدہ صدیوں سے کار فرما ہے وہ یہ ہے۔ کہانہوں نے کچھ چیزوں کو مقدس قرار دے رکھا ہے۔ وہ ہیں بندر، طا ؤس ، اور گائے۔ ان کے لیے ان میں سے دو چیزین مسئلہ بنی ہوئی ہیں ۔ ایک بند ر اور دوسرے گائے؟ان میں ایک جانور نیل گائے بھی شامل ہے ۔ جس کے صرف کھر گائے جیسے ہیں۔ جبکہ گردن گھوڑے سے مشابہ ہے۔ اس نے ان کی فصلیں تباہ کر نے کی ٹھانی ہوئے ۔ لیکن وہ مجبور ہیں یہ ہی معاملہ گائے کا بھی ہے، دوسری طرف مسلمانوں میں نہ جانے کہاں سے یہ عقیدہ آگیا کہ سال میں ایک مرتبہ گائے کا گوشت ڈالنا تجدید ِ ایمان کے لیے ضروری ہے؟ ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو نماز نہیں پڑھتی روزہ نہیں رکھتی ، البتہ گائے کا گوشت ہانڈی ڈالنا ضروری سمجھتی ہے اور یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے فساد کی جڑ ہے اور صدیوں سے وہاں افواہوں فسادات ہوتے رہے ہیں۔ کبھی کوّا کہیں سے ہڈی اٹھالاتا ہے تو ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ یہ گائے کی ہڈی ہے۔ ؟وہاں کے جاہل مسلمان چھپا چراکر کہیں سے بھی گائے کا گوشت لاتے ہیں اور تجدید ِ ایمان کے لیے ہانڈی میں ڈالتے ہیں۔ جبکہ اتر پردیش میں گائے کاٹنے پر پابندی ہے اس کے باوجود کہیں نہ کہیں ایسی جگہائیں موجود ہیں جہاں رشوت کے ذریعہ گئو کشی ہو تی ہے۔ جبکہ ہمیں ان کے معبودوں کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اگر وہاں کے علما ءکوشش کریں تو اس غلط عقیدے کو دور کر سکتے ہیں جو اس جھگڑے کی جڑ ہے۔ کہ مسلمان رہنے کے لیے گائے کا گوشت کھانا ضروری ہے ۔ جبکہ دین کو تازہ رکھنے کے لیے کلمہ پڑھنے کے بعد نیک عمل کرنےکی ضرور ت ہے نہ کہ گائے کا گوشت کھانےکی۔ جس میں نماز سب سے اول ہے ، ہادی اسلام (ص)کا ارشاد گرامی ہے کہ “ مسلم اور غیر مسلم میں فرق ہی یہ ہے کہ مسلمان نماز پڑھتا ہے جبکہ کافر نہیں پڑھتا ً اللہ ہم سب کو قرآن اور ہادی ِاسلام (ص) کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے ۔ آمین۔ تاکہ مسلمان دنیا میں امن و چین سے رہ سکیں ۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے