اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے۔ جس نے اپنے ماننے والوں کو اٹھنے ،بیٹھنے ، چلنے ، پھرنے ،سونے ، جاگنے ،بات کرنے ، لین دین اورعبادت کرنے تک ،سارے آداب بتائے ہوئے ہیں۔ ایک دور تھا جب مسلمان اس پر عامل تھے اور دنیا کے سب سے مہذب انسان کہلاتے تھے۔ ان کے ہاتھوں سے انسان تو کیا ایک کیڑا تک خود کومحفوظ سمجھتا تھا۔ کیونکہ ہادی ِ اسلام (ص) نے اس مقام کو جسے قرآن نے بیت العتیق کے نام سے یاد فرمایا ہےاور جس کے حدود بھی معین ہیں اپنے آخری خطبہ میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے“ حرم “ تو اللہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محترم ہے ۔ مگر انسان تجھ سے بھی زیادہ محترم ہے (اگر وہ صاحب ِ ایمان ہو ) اور عرفات ، پھر منیٰ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ جس طرح یہ سارے مقامات اور آج کا دن محترم ہے اسی طرح تم پر تمہارے بھائی کی جان، مال، عزت اور آبرو حرام ہے۔ یہ چونکہ وہ مقام تھا جہاں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے لہذا خطاب صرف مسلمانوں سے تھا؟ کہیں اس سے دوسرے لوگ یہ قیاس نہ کرلیں کہ یہ ہدایات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں! میں انہیں بتاتا چلوں کہ قرآن میں یہ آیت بھی موجود ہے کہ“ ایک ا نسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے “ اس کے علاوہ ، ہمسایہ کے حقوق ، مہمان اور قیدی کو اپنے سے اچھا کھلانا ، وغیرہ وغیرہ وہ بہت سے شعبے ہیں جس میں انسانیت کے حقوق بتائے گئے ہیں۔ مثلاًسب سے بڑی برائی وہ ہے جو اپنے ہمسایہ سے یا ہمسائی کے ساتھ کی جائے ۔ حدیث میں ہے کہ وہ مسلمان نہیں جس کے ہاتھوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں دوسری حدیث میں ہے کہ اس پر کھانا حرام ہے اگر اسکا پڑوسی بھوکا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان بنانے کامقصد کیا تھا وہ اس نعرے سے ظاہر ہے ً لا الہ لا اللہ ً یعنی ایک ایسی ریاست قائم کرنا جس میں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بالا دستی ہو کسی انسان یا انسانوں کی نہیں۔ کیونکہ وہ ریاست ہم سے کہیں گم ہوگئی تھی، جس کو گم کرنے کی سزا دنیا میں مسلمان ذلیل ہوکر بھگت رہے تھے۔ ویسی ہی ریاست قائم کرکے وہ اپنی کھوئی میراث واپس لینا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ تصوراتی ریاست نہ ہو جو صرف کتابوں میں رہے۔ بلکہ دنیا کے لیے ایک عملی نمونہ ہو تاکہ لوگ اسے دیکھیں برتیں اورمتاثر ہوں۔
جب یہ ریاست بنی تو دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ اس میں وہی مدنی کردار ابھر آیا تھااور اس کی مثال واقعی دنیا میں نہیں تھا ۔ اسی طرح انصار نے مہاجرین کا استقبال کیا جس طرح مدینہ والوں نے کیا تھا؟ لیکن کچھ دنوں کے بعد لوگ مایوس ہونے لگے کیونکہ وہ اپنے رہنماؤں میں اپنے نبی (ص)جیسی خوبیاں تلاش کرتے تھے، پھر یہ سوچ کر وہ دل کو تسلی دے لیتے تھے۔ کہ ا ن جیسا تونہ کوئی پیدا ہوا نہ آئندہ ہوگا۔ کوئی خلفائے راشدین یا عام صحابی (رض) کاپرتو ہی مل جائے؟ بار بار کے تجربوں اور تلاش کے باوجود جب وہ بھی نہیں ملا تو عوام بھی مایوس ہو کر اسی راہ پر ہولیے جس پر پہلے تھے، جس پرساری دنیا تھی اور جس کی بنیاد خود غرضی پر ہے جوکہ اسلام کا الٹ ہے۔ چونکہ قوم صلاحیتوں سے مالا مال تھی اگر اسوقت اسے صحیح راستے پر ڈالدیا جاتا تو یہ بھی اسی طرح چلتی جیسے کہ انقلاب سے گزرنے والی ہر قوم چلی اور کچھ عرصے تک کامیاب بھی رہی ۔
مگر ہر حکمراں کے قول اور عمل نے قوم کو بار بار مایوس کیا۔ جبکہ ہر آنے والے نے صرف نعرہ بدلا جس میں اسلام ٹیپ کا بند تھا اور بس ۔ حکمراں آتے رہے جاتے رہے خود ساختہ اسلام کے نئے نسخے ا پنے ساتھ لاتے رہے، مگر وہ اسلام سے مخلص نہ تھے لہذ اسلام نہ آکے دیا۔ ایک زمانہ تھا کہ بھٹو صاحب کو بہت پزیرائی ملی کہ وہ اسلام کو مشرف بہ سو شیل ازم کر نا چاہتے تھے۔انہیں بھی عوام نے کچھ عرصہ برداشت کیا۔ ان کو جنرل ضیاءالحق نے الٹ دیا اور کہا کہ اور لوگ صرف وعدے کرتے رہے ہیں میں اسلام نافذ کر کے دکھا ؤںگا؟ انہوں نے بھی اسلامی کوڑا متعارف کرایا جو کہ بجائے مجرموں کے صرف جیالوں پر برسا؟
پھر وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اور آنے والوں نے جمہوریت کی مٹی پلید کرنا شروع کردی ۔ اس کے بعد جنرل مشرف صاحب ماڈرن اسلام کے ساتھ تشریف لائے۔ انہوں نے بہت سی برائیاں عام کردیں جو پہلے چھپ کر ہوتی تھیں ۔ جبکہ انہوں نے جو اپنی پہلی کابینہ چنی وہ واقعی بے مثال تھی، اس کے بارے میں ایک بہت ہی معتبرگورے کی جب ہم نے یہ رائے سنی کہ ان کا انسانی حقوق کا ریکارڈ گواچھا نہیں ہے۔لیکن میں یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ “ان کی کابینہ میں جو لوگ شامل ہیں ۔ا ن کا کردار بے داغ ہے ً یہ سن کر پہلی دفعہ ہمارا سر فخر سے بلند ہو ا؟ کہ شاید یہ بندہ پاکستاں کے لیے کچھ کام کر دکھائے گا؟ لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے بھی اپنے ایماندار وزیروں سے جان چھڑالی ،کوئی مجبوری رہی ہوگی؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے، انہیں لوگوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا جو پہلے والوں کے مشیر، وزیر یا سفیر رہ چکے تھے۔ پھر ان کے مشوروں نے انہیں سیاسی بصارت عطا فرمائی ور انہوں نے اپنے جیسوں سے مکمکاؤ این ، آر ، او کی شکل میں کرادیا۔ انہیں آنے والوں نے رخصت کردیا! جو صاحب تشریف لائے! انہوں نے ہر ایک کے ساتھ مصالحانہ پالیسی اپنائی تاکہ سب خوش رہیں اور چلتے نظام ِ زندگی میں مزید سہولت پیدا کر دی کہ ہر میز ٹھیکے پر دے دی۔ کہ اتناتمہیں دینا ہی دینا ہے تاکہ حساب کتاب کی جھنجٹ سے بچے رہیں اور سامنے آئے بغیر بنک بیلینس غیر ملکوں میں بڑھتا رہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں افراتفری پھیل گئی ۔ اور قانون نام کی کوئی چیز نہیں رہی ۔ ان سب کاوشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ان آخری دو دہایوں میں قوم وہاں پہونچ گئی ہے کہ یہ سب کو یقین ہے کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ لہذا ہر ایک قانون کے منہ پر تھپڑ مارنے کو تیار رہتا ،کیونکہ یہ اب قومی مزاج بن گیا ہے؟کچھ ان دیکھے بندہِ خدا چاہتے ہیں کہ اسے واپس ٹریک پر لے آئیں ؟ انہوں نے اس سلسلہ میں کوششیں شروع کیں تو لوگوں کو ہمیشہ کی طرح امیدیں بندھیں کہ اب عدل کا دور آگیا ہے؟ جو اس حالیہ خبر سے ظاہر ہے کہ ایک چوکیدار نے اپنے ڈپٹی ڈائیریکٹر کونو پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کرنے سے منع کیا؟ اس نے اس جرا ءت رندانہ پر جواب میں اس کے رخصار پر جس پر سفیدی چھائی ہوئی تھی تھپڑ رسید کردیا۔ میڈیا نے شور مچادیا وزیراعلیٰ بنجاب نے سنا ہے کہ انہیں معطل کر دیا ۔بے فکر رہیں وہ جلد ہی بہال ہو جائیں گے۔ اور اس کی خبر بھی ا خبار میں نہیں آئےگی ۔اس لیے کہ وہ کسی بڑے کے بھائی یا رشتہ دار ضرور ہونگے۔ رہے میڈیا والے وہ پرانی خبر کو چھوڑ کر بریکنگ نیوز کی تلاش میں کہیں اور گھوم رہے ہونگے؟
دوسری خبر ہماری نظر سے جوگزری وہ اس سے بھی دلچسپ ہے کہ سندھ کی وزارتِ داخلہ نے اس پر بڑی برہمی کا ظہار کیا ہے کہ بغیر لائسنس کار اور موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف مہم چلا کر عوام میں بے چینی کیوں پیدا کی ؟ اس کے مداوے کے لیے مزید تین مہینے کے لیے ان موت کے فرشتوں کو بغیر لائسنس کار اور موٹر سائیکل چلانے کی مہلت عطا فرمادی ہے کہ عوام میں بے چینی پیدا نہ ہو۔ کیونکہ بغیر لا ئسنس ڈرائیوروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ جبکہ واقفِ راز یہ کہہ رہے کہ جو بغیر لائسنس کار چلاتے ہیں وہ بڑے آدمیوں کے بیٹے ، بھائی یارشتہ دار ہیں۔ چھوٹا آدمی تو پہلے ہی یہ ہمت نہیں کر سکتا؟ کہ بیچارہ پکڑا جا ئے اور روزانہ ٹریفک پولس کو خراج ا داکرے؟ رہی ٹریفک پولیس وہ اور روں کو کیا کہے گی ۔ کیونکہ ایک سروے کے مطابق جو جیونیوز کے نمائندے جناب ڈوگر صاحب نے ثبوت کے ساتھ انکشاف کیا ہے کہ 88 فیصد ٹریفک پولیس کے پاس لائسنس نہیں ہیں ۔ جن بارہ فیصد کے پاس ہیں وہ، وہ ہیں، جنہیں سرکاری گاڑیاں نکلوانے لیے ڈرائیونگ لائسنس کا حامل ہونا لازمی تھا۔ جب کہ ٹریفک پولس کا یہ حال ہے تو باقی پولس کو بھی قیاس کر لیجیے کہ ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس کا تناسب کیاہو گا۔ ان سے یہ کون پوچھنے کی ہمت کرے گا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں ۔ا ور اسی پران روساءاور وڈیروں کے بچوں کو قیاس کرلیجئے۔ یہ بھی اسی شان کا حصہ ہے کہ دیکھیں ہمارا کوئی کیابگاڑسکتا ہے۔ یہ معاملہ وہیں تک نہیں ہے۔ بری عادت بڑی مشکل سے چھٹتی ہے۔ وہی لوگ جب یہاں آجاتے ہیں توا ن کو مجبوراً بری عادت چھوڑنا پڑتی ہیں ۔ لیکن ان کا جی جب بہت زیادہ قانون شکنی کو چاہے، تو وہ مسجد میں آکر غلط پارکنگ کر کے اس شوق کو پورا کر لیتے ہیں ۔ اس لیے کہ باہر تو پولس چالان کر دیتی ہے۔ یہاں اپنے لوگ ہیں وہ انہیں کچھ نہیں کہتے؟ کیونکہ وہ ان کا درد جانتے ہیں
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے