چند روزقبل اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک پریس نوٹ ا خباروں میں نظر سے گزرا۔ اس کے عنوان کے ابتدائی دونوں لفظ بڑے اہم تھے ۔ یعنی گڈ گورنینس اور طرہ امتیاز ایک انگریزی تھا دوسرا عربی کا اور جنہیں ملاکر “ عنوان مکمل “ کیا گیا تھا اس میں جوواحد لفظ ا ردو کا تھا وہ تھا “ ہے “چونکہ انگریزی اور عربی دونوں میں ہماری شد بد واجبی سی ہے ہماری سمجھ میں اس کا جو با محاورہ اردو میں ترجمہ اور تفسیر ہوسکتی تھی وہ یہ کہ حکومت کی اولین ترجیح ملک میں انصاف اور امن امان کی بحالی ہے؟ یا پھر یہ کہ ہماراعدل کا نظام دنیا میں لاثانی ہے جوکہ ہمارا طرہِ امتیاز بن چکا ہے؟ لیکن ہمیں اپنی کم علمی کی بنا پر اپنے کی ہوئی تفسیر اور ترجمہ پر اعتماد نہیں تھالہذا فوراً لغات کو اپنی لائبریری میں سے نکالااورا سے اچھی طرح کھنگالنے بیٹھ گئے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں پہلی تو یہ تھی کہ گڈ گورنینس جس کو پاکستانی حکومت نے اپنا طرہ امتیاز بتایا ہے۔ یہ ہماری معلومات میں اضافہ تھا کیونکہ یہ وہاں کے لیئے با الکل عملی طور پر اس کا الٹ لگی ؟ ہم مذبذب تھے کہ اسے درست قرار دیں یا اسی دن کی اس خبر کو جو اس سے کہیں زیادہ معتبر تھی اور اس کا الٹ بھی تھی۔ وہ تھا سپریم کورٹ میں ا ٹارنی جنرل کا وہ بیان جو چیف جسٹس صاحب کے پہلے ازخود نوٹس کے مقدمہ میں ا ٹارنی جنرل نے دیا تھاکہ یہ مقدمہ اس لیے ہنگامی عدالت کو خارج کرنا پڑا کہ “ اس کے تمام گواہ پیسے لیکر منحرف ہو گئے تھے“ پھر الیکشن کمیشن میں ایک پریزائڈنگ آفیسر کا مقدمہ سنتے ہو ئے عجیب ماجرا دیکھا جس پر مدعی سست اور کمیشن چست والا مقولہ صادق آتا ہے۔ جس میں شکایت یہ تھی کہ ایک بڑے آدمی نے پریزائڈنگ آفیسر کے منہ پر تھپڑ مار اتھا جبکہ وہ اپنے سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے، مگر وہ انکاری تھے کہ مجھے تھپڑ نہیں مارا گیا ہے ۔جس پر اس انوکھے مقدمہ کی سماعت کرنے والوں میں سے ایک نے یہ ریمارک دیا کہ “ ابھی تو تھپڑ کے انکاری ہو، کل کو لات کھا ؤگے “ان عدالتی مثالوں سے جو چیز واضح ہورہی ہےوہ یہ تھی کہ وہاں گڈ گورنینس نام کی کوئی شہ نہیں ہے، بلکہ بیڈ گورنینس ہے جو کہ عدالتوں میں حکومت کی بے بسی ظاہر کر رہی ہے اور یہ ریکارڈ ثابت کر رہا ہے کہ وہاں گڈ گورنینس نام کی کوئی شہ نہیں پائی جاتی ہے کیونکہ ریکارڈ نیچے کی طرف جا رہا ہے جبکہ “ طرہ پگڑی “ کے اوپر ہوتا ہے اسی لیے وہ “ طرہ امتیاز “ کہلاتا ہے۔ جبکہ ٹانگ ہندو فلسفہ کے مطابق ذات پات کے اعتبار سے وہ حصہ ہے برہما جی کے جسم کا جس سے شودر یعنی اچھوت پیدا ہوئے تھے۔ جو کہ اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اونچی ذات کے ہندؤں کے برابر بھی نہیں بیٹھ سکتا ہے۔ گوکہ قانون میں ان کے ہاں ایسا کہنا بھی جرم ہے جو کہ سیکولر بھارت میں گاندھی جی کی مہاتمائی کوششوں کی بنا پر بنا تھا۔ مگر اس معاملے میں وہ ہم سے بہت پیچھے ہیں ان کے یہاں تو صرف ایک دفعہ ہے جو معطل دکھائی دیتی ہے؟ ہمارے یہاں پورا دستور ہی معطل ہے۔ جس کی بہت سی مثالیں ہیں ؟ ان کے بر عکس ہمارے ہاں قرآن میں سب ایک حضرت آدم (ع) اور حضرت حوا سے پیدا ہو ئے ہیں نہ کوئی سر سے نہ کوئی پیر سے بلکہ سب رحم مادر سے گزرے ہیں لہذا کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ ؟ مگر کیا ہمارے ہاں اسلامی نظام قائم ہے؟ جو اس پر ہاں کہے گا؟ وہ دنیا کا سب سےجھوٹا ترین انسان ہو گا کیونکہ اس کو جھٹلانے کے لیے عملی طور پورا نظام موجود ہے جو اپنی بدترین شکل وی آئی پی کلچر کی صورت میں نافذ ہے اور وہی پھل پھول رہا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ لوگ دن دہاڑے سڑ کوں پرشراب پی کر نشہ میں دہت کار چلاتے ہیں ہوائی جہاز اڑاتے ہیں، کبھی چھوٹی سی بات پر کبھی بے بات کے قتل کر دیتے ہیں۔ مگر کسی کو سزا پاتے آج تک نہیں دیکھا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اس حدتک غریب ہو کہ خرچ کرنے کہ قابل نہ ہو یا کسی کے اشاروں پر اس نے قتل کیے ہوں اور وہ بعد میں ہاتھ کھینچ لے تب ہی ملزم سے وہ مجرم بن کرسزا پاسکتا ہے ورنہ نہیں ؟ جبکہ ہمارے دستور کے سر ورق پریہ لکھا ہوا ہے کہ “ یہاں بالا دستی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی “۔ ایک دفعہ اس میں یہ بھی ہے کہ کوئی ایسا شخص جو “امین“ نہ ہو وہ کسی اسمبلی کا رکن نہیں بن سکتا؟ سب قوموں کی طرح ہمارے یہاں بھی اردو قومی زبان ہے اور سرکاری زبان بھی ہے ۔ مگر اس کے عدم نفاذ کو ثابت کرنے کے لیے یہ پریس نوٹ خود منہ بولتا ثبوت ہے؟ لوگ اردو کے سلسلہ میں منتظر رہے، تنگ آکر ایک صاحب ایک کم سترسال کے بعد سپریم کورٹ چلے گئے اور انہوں نے وہاں سے مرکزی حکومت کے نام حکم بھی جاری کرالیا کہ “ تین ماہ کے اندر اس کو نافذ کیا جائے “ جیسے دستور میں لکھے ہوئے اسے عشرے گزر گئے انشا ءاللہ یہ تین ماہ بھی گزرنے والے ہونگے یا گزر بھی گئے ہو نگے؟ جبکہ بھارت کا ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے منشور میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہندوستان میں یہ زبان ہوگی جو آجکل اپنی سسنکرتی شکل میں رائج ہے؟ یہ مہا سبھا کا مطالبہ تھا، مگر نافذ کانگریس نے کی وہ بھی ایک ووٹ کی اکثریت سے جو کہ ایک مسلمان خاتون کاتھا۔
جبکہ ہمارے یہاں وہ تمام دفعات ابھی طاق ( شیلف) میں پڑی ہوئی ہیں جن کے نفاذ کے لیے دستور میں ایک مدت دی ہوئی تھی۔ مگر قانون سازوں اور نافذ کرنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ قانون فرشتوں کے لیے بنا ئے گئے ہیں جو اس سرزمین میں ڈھونڈے نہیں ملتے لہذا ہم ایسے مسلمان کہاں سے لائیں جو امین بھی ہوں اور ان قوانین کا ان پرنفاذ ہو۔ اس لیے ایسے تمام قوانین پر “انتظار فرما ئیے کا بورڈ لگا رہنے دو “ اس لیے “ طرہ امتیاز “کے وہ معنی تونہیں لیے جاسکتے ۔ جو فیروزا لغات میں لکھے ہیں کیونکہ وہاں اس کے معنی یہ ہیں ۔ ٹوپی کا پھندنا، پگڑی کے اوپر کا سراجو اٹھا رہتا ہے، جانور کی کلغی ،انوکھی بات، (صفت) انوکھا، عجیب انہونی بات۔ وغیرہ وغیرہ۔البتہ اس تمام وضاحت کے باوجوداگر “ طرہ “ کو استعمال کرنا ضروری ہے اورتو اس کو صفت کی شکل میں استعمال کریں تو چل سکتا ہے مثلا ً “طرہ باز “ طرم خان“ کیونکہ اس پر وہاں کا ہربڑا آدمی پورا اتر تا ہے۔ گڈ گور نینس چونکہ قانون کی پابندی لاتی ہے لہذا یہ موزوں نہیں ۔کونکہ وہاں ہر ایک قانون کی مٹی پلید کرتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتا ہے؟ جبکہ اس کے باوجود بھی حکومت مصر ہے کہ ہمارے یہاں گڈ گورنینس ہمارا طرہ امتیاز ہے؟ جس کے معنی ہم اگر وہی لیں جو لغت میں ہیں تو وہ یہ ہونگے کہ حکومت کی اولین ترجیح سب کو یکساں انصاف اور سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس کے لیے ایک اور قانون بنانے کی ضرورت ہوگی کہ دنیا میں جو کوئی اس دعوے کو سن کر ہنسے تو اس کو سزائے موت دی جائے؟ اس کے لیے ایک ایسا عالمی ادارہ چاہیئے جس کا خود انصاف دلانے میں عالمی رکارڈ اچھا ہو؟۔ ورنہ اسی پر ہی نہیں اور بھی اس جیسی بہت سی باتوں پر لوگ ہنسیں گے اور پورا ملک “ مذاق رات “ یافارسی میں کشت زعفران بن جائے گا؟ کیونکہ یہ پریس نوٹ مصرع طرح تھااس کے بعد سے ملک میں مشاعرہ جیسی پوزیشن پیدا ہوگئی ہے وہ بھی اخباروں اور میڈیا سے ثابت ہے کہ ایک مولانا نے فر مایا کہ “ کسی ادارے کے سربراہ کوحق حاصل نہیں ہے کہ وہ وزیر اعظم سے جواب طلب کر سکے ؟ یہ کون کہہ رہا ہے ایک مولانا جن کی نظر سے یقیناً وہ واقعہ گزرا ہو گا کہ اس وقت کے امیر المونین حضرت عمر (رض)کو ایک مسلمان نے ٹوک دیا تھا کہ “ ہر ایک کے حصہ میں ایک چادر آئی تھی اس میں کسی کا پیراہن نہیں بن سکا تو آپ کا کیسے بنا، جبکہ ہم میں آپ سب سے زیادہ طویل قامت ہیں“ انہوں نے ا س کے جواب کوڑا نہیں اٹھایا بلکہ انتہائی بے نیازی سے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو ئے کہ بیٹا اس کا جواب تم دو ، اور حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے انکشاف فرمایا کہ ابّا کو میں نے اپنی چادر دیدی تھی۔میرا مولوی سے سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادارے کا سربراہ ہونے کے بعد اسلام میں مسلمان اپنے بنیادی حقوق بھی کھودیتا ہے۔ اور کوئی مسلم حکمراں احتساب سے بالا تر بھی ہوتا ہے۔ اگر نہیں تو انہوں نے یہ فتویٰ کس قانون کے تحت دیا ۔ اگر جمہوری روایات کے مطابق دیا تو کیا ، کسی قانون کو وہ اسلامی قانون سے بہتر سمجھتے ہیں؟ جواب گر اثبات میں ہے تو پھر دوسرے قوانین کو اسلامی قوانین سے بہتر سمجھنے والے کے بارے میں اسلام کیا کہتا اور اسلام میں اس کا مقام کیا ہے؟ ذرا اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالدیں جزاک اللہ خیرا ۔ رہے جمہوریت پسند وہ بہت کچھ کہہ رہے ہیں ۔ اس میں سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ حکومت صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہے جو عنوان کا الٹ ہے؟ وہ جمہوروں اور جمہوریت کو خوامخواہ بیچ میں لا رہے ہیں ان سے توصرف انگوٹھا لگوایا جاتا ہے، وہ بھی ایک دن اگر وہ نہ بھی لگائیں تو کوئی بھی یہ خدمت ان گی جگہ انجام دے سکتا ہے۔کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ کسی وڈیرے رئیس اور خان کا ہاتھ پکڑسکے اوراگر پکڑے گا توگڈ گورنینس کی تعزیرات میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ تھپڑ کھائے گا، اگر شکایت کہیں کردی بھی تو تو مکرنا پڑے گا؟ ورنہ جان سے جائے گا،نہ خود اس کی خیر ہے نہ بال بچوں خیر ہے نہ گواہوں کی خیر ہے۔ وہ بیچارا توٹیچر ہوتا ہے یا کوئی اور چھوٹا آفیسر وہ بھی کسی مقامی محکمہ کا، جبکہ وہ مال خرچ کرکے اس عہدے پر بھی بڑی مشکل سے آتا ہے جبکہ نکالے جانے اور جان سے جانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا ؟ سن تیرہ کے نتخابات میں اس میں عدلیہ کو کو بھی شامل کر کے دیکھ لیا؟ نتیجہ وہی رہاکہ ان کے ہاتھ پیر تووہی تھے۔ رہی میڈیا وہ روز ہی چیختی چلاتی رہتی ہے ۔ شروع میں کچھ دن اس کی سنی گئی مگر گڈ گورنینس کی کسی ان کہی دفعہ کے مطابق حکومت روز روز نہیں سنتی ہے، بس سال میں ایک دفعہ سن لیتی ہے کہ وہ بھی اسکور بنا سکیں کہ ہماری بات سنی گئی اور سب سے پہلے یہ خبر ہم نے ہی دی تھی؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہم بھی خوش تم بھی خوش؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے