فوج یا الہ دین کا چرا غ۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی
ہمارے اور وطن عزیز کے درمیان آجکل تیرہ گھنٹہ کا فرق ہے یعنی ہم تیرہ گھنٹے پیچھے ہیں؟ جب وہاں سورج نکل رہا ہوتا ہے تو ہمارے ہاں غروب ہورہا ہوتا ہے اس لیے جب ہم سوکر اٹھتے ہیں تو وہاں کی خبریں ملتی ہیں؟ بلدیاتی ا لیکشن کے بعد جب ہم دوسرے دن حسبِ َ معمول سو کر اٹھے تو بیچنی اپنی انتہاپر تھی اور دل ہول رہا تھا کہ خدا خیر کرے نہ جانے کل کے الیکشن میں وطن ِ عزیز پر کیا گزری ہو؟ لیکن ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم اپنے لیپ ٹاپ پر جانے سے پہلے روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہو تے ہیں کہ“ اول رب کا نام بعد میں کوئی اور کام“ابھی ہم نے لیپ ٹاپ کھولا ہی تھا کہ ہماری ہمیشرہ سکائپ پر آگئیں جو کراچی میں رہتی ہیں؟ ان سے پوچھا کہ کیا حال ہیں وہاں کہ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ان بیچاروں کی حالت بہت پتلی ہے دفتر تک کھولنے نہیں دیتے اگرکھولتے ہیں تو پکڑ لے جاتے ہیں۔ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکل گیا اللہ تیری شان !کہاں یہ حال تھا کہ جو ان کے سامنے منہ کھولے اس کی جان چلی جاتی تھی ؟اور پھر فل البدیہ شعر موزوں ہو گیا ع سنا ہے حالت ہے انکی پتلی سانپ لگتی تھی جن کی سُتلی۔ یہ پہلی اچھی خبر تھی جس سے ہماری صبح شروع ہوئی؟ ورنہ ہمارا عشروں پرانا ایک شعر پاکستان پر کئی عشروں سے صادق آیا کرتا تھاکہ “ ناشتہ صبح تو لاشوں سے شروع ہو تا ہے آج کتنے ہیں مرے تازہ خبر کو دیکھو “کیونکہ پچھلے الیکشن کی خبر میں بھی جو رینجرز کی نگرانی میں ہوئے تھے بارہ لاشیں گرنے کی خبر خیر پور (سندھ) سے اور ایک کی فیصل آباد سے آئی تھی؟ جبکہ کراچی چونکہ تیسرے مرحلے میں ہے لہذا یہاں ابھی “ دیکھو اور انتظار کرو والا مسئلہ تھا۔
الیکشن اور پر امن اس مرتبہ ہمیں نہ اپنے کانوں پر یقین آرہا تھا نہ آنکھوں پر، پورا خبار دیکھ ڈالا وہ خبر نظر نہیں آئی جو ہمارا روزانہ منہ چڑاتی تھی ،جس کو ہم نہیں دیکھنا چاہتے تھے نہ ہی سننا چاہتے تھے اور اگر نظر آتی بھی تو پڑھے بغیرآگے بڑھ جاتے؟ اخبار کھنگال رہے تھے کہ الیکشن کمشنر صاحب کا بیان نظر آیا جس میں وہ قوم کو پر امن انتخابات پر مبارک دے تھے اور سیاسی جماعتوں کا بھی شکر یہ ادا کر رہے تھے۔ ہم پریشان ہو گئے کہ آخر یہ انہونی کیسے ہوئی؟ جب کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ اس مرتبہ پچھلے تجربات سے فائیدہ اٹھاتے ہو ئے؟ انہوں نے احتیاطً بعض حساس پولینگ اسٹیشن پر فوج لگا دی تھی؟ دوسرے الیکشن کمیشن کی تاریخ کے مطابق آئندہ چار سال کا عرصہ شکایتو ں کو نبٹانے میں گزارنے کے بجا ئے ہاتھ کہ ہاتھ ہی نبٹادیں ۔جو کہ ان کے ہی بیان سی ظاہر ہورہا تھا کہ اس مرتبہ ا یک سو چھ شکایات آئیں جو کہ معمولی نو عت کی تھیں۔ یہ ریمارک جو کچھ بتا رہا تھا اس سے یہ ثابت ہورہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی روش بدل دی ہے ؟ورنہ وہ بغیر سنے کیسے کہہ سکتے تھے کہ تمام شکایتیں معمولی نو عیت کی ہیں؟ جبکہ وہ عام آدمی نہیں، عدالت عظمیٰ کے ریٹائرد جج بھی ہیں ۔ اس میں یہ سبق چھپا ہوا ہے کہ مقدمات جب جنم لیتے ہیں ؟اگر فوری طور پر انصاف نہ ملے ، اگر فوراً مل جائے تو دم توڑدیتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں جو حکمراں کلاس ہے وہ زیادہ تر فارن کوالیفائڈ ہے اگر ان میں سے کوئی باہر نہیں بھی جا سکا تو بھی بغیر چھت کے اسکول میں نہیں پڑھا ہے، انگلش اسکول میں پڑھا ہے اس لیے سب نے یہ انگریزی کامقولہ ضرور پڑھا ہوگا، جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ انصاف میں دیرکرنا انصاف نہ کر نے یانصاف سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ ً لیکن وہ نہ جانے کیوں یہاں آکر بھول جاتے ہیں ؟ اور انصاف کی راہ میں بلا تخصیص وہ روڑے اٹکاتے ہیں کہ اللہ پناہ دے ، مثلا ً آج ہی کی خبر ہے کہ ایان علی پر فرد جرم عائد کر دی گئی یہ کتنے دنوں کے بعد مرحلہ آیا اس کا حساب ہمیں یاد نہیں ہے؟ البتہ یہ یاد ہے کہ اس میں کتنے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور کس کس نے کیئے؟ تفصیل میں ہم اس لیے نہیں جا رہے ہیں ۔اس سے وہاں کا پیدا ہونے والا ہر بچہ واقف ہے کہ کیا کیا رکاوٹیں آتی ہیں پہلی رکاوٹ تو یہ ہو تی ہے کہ متعلقہ دفتر میں کا غذ نہیں ہو تا ؟ سائل جب بازار سے لاکر دیتا ہے اور اس پر ٹکٹ قائد اعظم والا لگاتا ہے تب جاکر کہیں رپورٹ درج ہوتی ہے۔ درج ہونے کے بعد بھی اگر نہلے پر دہلا پڑگیا تو اب گواہ نہیں ملتے ، کیوں نہیں ملتے ،اس لیے کہ انہیں دنیا میں اور بھی بہت سے کام ہیں گواہی کے سوا ؟ اس لیے کہ مقدمہ ایک دوسال تو چلے گا نہیں، ممکن ہے تا حیات چلے ،کبھی مدعی کا وکیل نہیں آئے گا ، تو کبھی مدعا علیہ کا وکیل مصروف ہو جائے گا کہ ان کے بھی بال بچے ہیں، بہت زیادہ ایماندار ہوں تو انہیں دھمکیا ں مل جاتی ہیں۔ کبھی اوپر سے ا شارہ آجاتا ہے کہ اس کوا بھی مت چھیڑو تو مجسٹریٹ چھٹی پر چلا جا تا ہے ۔ اگرگواہ کہیں سے مل بھی جائیں اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہے اور فیصلہ بھی صادر ہو جا ئے تو اب اپیلوں کا سلسلہ شروع ہو تا۔ غرضیکہ ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال ہو تا جو انصاف ٹالنے میں معاون ہو سکے ؟ نتیجہ یہ ہے کہ ہر کام کے لیے فوج کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔اگر آگ کہیں لگ جا ئے تو بجھانے کے لیے بجائے متعلقہ محکمے کے فوج کو آواز دی جاتی ہے! ۔ بلنڈنگ گر جائے تو فوج ، سیلاب آجا ئے تو فوج ، زلزلہ آئے تو فوج ؟ غرضیکہ کہ ہر مرض کا علاج فوج ہے؟ کوئی پوچھے کہ باقی محکمے کس کام کے لیے ہیں؟ تو س کا جواب روزمرہ کے ٹی وی ٹاک شو میں دیکھ لیں؟ وہاں آپ کو پتہ چل جا ئے گا کہ وہ کس کام لیے ہیں اور وہ اپنے مالکوں اور سرپرستوں کے لیے اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ پھر آپ پوچھیں گے کہ جب فوج کے “ سوا وہاں پتہ نہیں ہلتا “ تو پھر باقی محکموں کی کیا ضرورت ہے؟ اور جو بھی صاحب ِ اختیار ہیں وہ پہلے ہی مرحلے پر فوج کو بلالیاکریں تو مسائل کم پیدا ہونگے جیسے کہ ابھی انتخابات میں جہاں جہاں نقص امن خطرہ میں تھا وہاں فوج بلا لی گئی۔ لیکن فوج بھی جبھی کا رآمد ہو گی کہ اسے ایمانداری سے اختیار منتقل کیے جا ئیں ،یا پھر وہ اتنی طاقتور ہو جا ئے کہ حسب ضرورت اپنے ا ور غیروں، دونوں کے اختیارات استعمال کر سکے۔ تو بہت سے مسئلہ راتوں رات حل ہو سکتے ہیں ۔ ورنہ وردی پہنا کر اسے کہیں بھی کھڑا کر دیا جائے تو کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہو گا؟ جیسے کہ کراچی میں ضمنی ا نتخاب میں فوج کھڑی کر دی گئی تھی، مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا کیو نکہ اس کو کا شن نہ دیا جا ئے تو اس کی پوزیشن ایسی ہو تی ہے جیسے کہ کھیت کو رکھانے میں ان ہوّ ؤ ں کی جو لکڑی کو کپڑے پہنا کے کھڑے کر دیئے جاتے ہیں، شروع میں پرندے ان سے کچھ ڈرتے ہیں اور بعد میں وہ بھی جان لیتے ہیں کہ یہ بے ضرر ہیں ؟ اگر میری بات سمجھنا ہے تو جنرل ایوب خان کے مارشلاءکو لے لیجئے کہ وہ جب لگا تھا تو لوگوں نے ملاوٹ والی چیزیں نالیوں میں بہادیں دی تھیں۔ اور گھی اور تیل نالیوں میں بہہ رہا تھا بجائے پانی کہ! اس کے بعد اس ملک نے یحییٰ خان کا مارشل لاءدیکھا ،پھر اسی کی کوکھ سے جنم لیتا سول مارشلا ءبھی دیکھا کہ فوج بھٹو صاحب کے ماتحت تھی اس کے بعد مشرف صاحب کا بھی مارشلاءدیکھا ؟ لیکن بات وہ کہاں مالوی مدن کی سی لاکھ داڑھی بنا لی سن کی سی؟ اسی لیے اب لوگ مارشل لاءپلس کی بات کر رہے ہیں جبکہ جنہوں نے پہلا مارشل لاءنہیں دیکھا وہ مار شل لاءپلس کے معنی معلوم کر رہے ہیں؟ اگر معنی معلوم کر نا ہیں تو ہم اس کی ایک مثال بتا ئے دیتے ہیں ۔ سکھر میں ایک فوجی عدالت میں مقدمہ آیا ؟ ملزم کے بجائے اس کی طرف سے وکیل صاحب پیش ہو ئے ۔اور ساتھ میں انکا نائب قانون کی کتابوں کا ایک پلندہ اٹھا ئے ہو ئے تھا؟ مجسٹریٹ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے بتا یا کہ یہ قانون کی کتابیں ہیں ،ان کو حکم ہوا کہ ان کو باہر رکھ آئیے پھر عدالت میں تشریف لا ئیں؟ وہ باہر تو چلے گئے مگر واپس نہیں آئے، شاید کوئی کام آگیا ہوگا ؟ ہم خوابوں کی دنیا کے آدمی ہیں ایک خوشی پراتنے اچھلے کودے اور آپ کا اتنا وقت بھی برباد کردیا ؟ دوسرے دن تو اور بھی پر امید تھے کہ آج اچھی اچھی خبریں ملیں گی؟ مگر پہلی خبر یہ ملی کہ شاید الیکشن کمشنر نے پولنگ کے اوقات سرکاری طور پر ختم ہوتے ہی اور ماتحتوں کی طرف سے “سب ٹھیک “ کا سنگنل آ نے پربیان دیدیا تھا ، جبکہ تلہار ضلع ٹھٹھہ میں پولنگ ٹائم کے بعد ووٹ ڈلوانے پر جھگڑا ہو گیا اور خون بہہ گیا۔ پھر چار رینجرز کی نماز جنا زہ پڑھاتے ہو ئے امام صاحب کو دیکھا جو کراچی میں شہید ہو ئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ہ
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے