عالی جی تو شہزادے تھے۔۔ از۔۔۔شمس جیلانی

دراصل ہمارے  میرکارواں صفدر ھمدانی صاحب کی یہ خواہش تھی کہ میں بھی عالی جی بارے میں کچھ لکھوں جبکہ عالمی اخبار میں پہلے ہی بہن شاہین اشرف علی کا ایک طویل مضمون آچکا ہے۔
نواب زادہ مرزا جمیل الدین عالی جو پاکستان میں اپنے تخلص کی بنا پر عالی جی کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ اصل میں اس ثفاقت کے امین تھے جو اب ہندوستان میں بھی دم توڑچکی ہے جہاں وہ پیدا ہوئے ۔ گوکہ اس کا انہیں بہت کم حصہ ملا مگر جو کچھ وراثت میں ملا وہ بھی بہت تھا ۔ کم ملنے کی دووجوہات تھیں ایک تو انکے والد کا انتقال جب کہ وہ ابھی  کم سن تھے  دوسرے ملک کی تقسیم جس کی وجہ سے انہیں صدیوں پرانی اپنی ساکھ اور پہچان بھی پاکستان کے عشق میں چھوڑنا پڑی کیونکہ۔ انہوں نے پاکستان آنا پسند کیا اور وہ13 اگست 1947 ءکو دہلی سے چلنے والی آخری ٹرین سے جبکہ دہلی جل رہا تھ راستے غیر محفوظ تھے پاکستان  کے لیےروانہ ہوگئے۔ حالانکہ انکا خاندان جنگ آزادی کے نتائج کے طور پر پہلے ہی اپنا ایک نامورفر زند اور ریاست کا بڑا حصہ قربان کرچکا تھا ۔ لیکن انہوں نے جو حصہ سنبھال کر رکھاوہ ان کا ورثہ تھاکہ وہ جدی اور پشتینی نواب اور والیِ ریاست لوہارو کے نواب مرز سر امیر الدین خان کے بیٹے تھے اور ماں کی طرف سے حضرت درد دہلوی کے نواسے ،اور نواب مرزا شمس الدین (شہید) جیسے مجاہد جنگ آزادی کے پوتے تھے ۔چاہتے وہ اور بہت سوں کی طرح پدرم سلطان بود بنے بیٹھے رہتے۔ مگرانہوں نے ان بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیا، حتیٰ کہ نوابزادہ بھی کبھی اپنے نام کے ساتھ استعمال نہیں کیا۔ وہ یہاں آکر جو کچھ بھی بنے اور جو میدان بھی چنا اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اس میں عروج تک پہونچے اور جیسے  کہ ایک سے زیادہ صلاحیتیں رکھنے والے ہر شخص میں یہ بات ہوتی ہے کہ جب وہ کسی ایک میں ا نتہائی بلندی پر پہونچ جاتا ہے تو وہ دوسری پر چھلانگ لگادیتاہے۔ انہوں نے بھی اپنے کئی پیشے بلندی پر پہونچ کر بدلے، لیکن آزادی کے سلسلہ میں جو لگن ان کو وراثت میں ملی تھی اس کی وجہ سے ادب کے میدان  میں اتنا کام کر گئے اور حب الوطنی سے بھر پور ایسے ملی نغمے تخلیق کر گئے کہ کسی کا اس میدان میں ان سے آگے بڑھنا اور اتنا مقبول ہونا ممکن نہیں ہے ۔؟
جنہوں نے 1947 کا انقلاب دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بڑے بڑے نوابوں اورر جواڑوں کے اسی پدرم سلطان بود کے چکر میں نام و نشان تک مٹ گئے۔ لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عالی جی کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازہ ہوا تھا۔ جس کی بنا پر انہوں نے یہاں کے معاشرے میں خود کو ہر میدان میں منوایا ۔  لطف یہ  ہےکہ انہوں نہ سادگی چھوڑی نہ اپنی قدریں چھوڑیں۔اگر وہ شاعری کی طرف بڑھے تو انہوں نے نئی نئی جہتیں اپنائیں ؟ لافانی اور لا ثانی گیت اور دوہے کہے جوکہ حب الوطنی سے شرسار تھے۔ جوآج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ وہ بینکنگ میں گئے تو بھی انتہائی اعلیٰ عہدوں تک پہونچے حالانکہ یہ انکامضمون نہ تھا۔ سیاست میں آئے تو سینیٹر تک پہونچے؟ اردو کی بقا کے لیے جوکام انہوں نے ایک سپاہی کی حیثیت شروع سے  کیا تھا وہ ان کو اپنے آخری لمحوں تک یادرہا اور وہ پاکستن میں اردو کی تاریخ کا ہمیشہ ایک حصہ رہے گا۔ بعض بچے اپنے آبا و اجداد کے نام سے مشہور ہوتے ہیں اور ان کا بھرم نہ رکھنے کی بنا پر ان کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جیسے عالی جی جو اپنے کارناموں کی وجہ سے اپنے اجداد کا نام روشن کرتے ہیں۔ بلا شبہ ان میں سے عالی جی ایک تھے؟ کہ انہوں نے اپنی ریاست لوہارو کا نام روشن کیا  اوراپنے دادا اور پردادا کا نام  بھی روشن کیا؟ ان کی روحیں اپنی قبروں میں لیٹی ہوئی خوش ہو رہی ہونگی۔ وہ بطور انسان کیسے تھے اس سلسلہ میں صرف اپنی دو آخری ملاقاتیں پیش کر کے بات ختم کر تا ہوں۔
اس صدی کے پہلے عشرے کی بات ہے اور یہ انکا آخری غیر ملکی  دورہ تھا جب کہ وہ امریکہ تشریف لائے، بہت سے مشاعروں میں حصہ لیتے ہو ئے نیو یارک پہونچے تو اتفاق سے میں بھی وہاں اپنی بیٹی سے ملنے گیا ہوا تھا۔ میں نے انہیں فون کیا کہ میں ملنے آنا چاہتا ہوں ۔ بڑی اپنایت سے فر مایاکہ کیا تمہیں بھی اجازت لینے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہ پھر بھی آپکے لیے کونسا وقت مناسب ہوگا؟ کہنے لگے میں نے ابھی تک صبح خیزی کی عادت نہیں چھوڑی ہے ۔ صبح ہی صبح آجاؤ تاکہ آرام سے بیٹھ کر باتیں کر سکیں۔ کیونکہ اس وقت تک مشاعروں کے مارے لوگ سو رہے ہونگے؟
میں چونکہ لونگ آئی لینڈ میں مقیم تھا اور وہ  شہر میں  تھے،فاصلہ طویل تھا۔میں نے اپنے داماد جمیل وقار کو ساتھ لیا  اور10 بجے پہونچ گیا۔ دروازے پر دستک دی اندر سے آواز آئی کہ میاں! اندر آجاؤ تم سے کیا ر کھ کھاؤ۔ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ بجائے سلیپنگ سوٹ میں ملبوس ہو نے کہ بنڈی ( زمانہِ قدیم کی موٹے کپڑے کی صدری جو پہلے بنیان کی جگہ استعمال ہوتی تھی) اور زیر جامہ پہنے پلنگ پر دراز ہیں ؟ فرمانے لگے کہ اس ہوٹل کی ایر کنڈیشنگ کچھ واجبی سی ہے! لہذا میں نے زمانِہ ایر کنڈیشنگ سے پہلے کا لباس پہنا ہوا ہے؟ باتیں شروع ہو ئیں ان کے ایک صاحبزادے میرے داماد جمیل وقار کے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی میں کلاس فیلو تھے۔ انہوں نے ان کے بارے میں جاننا چاہا کہ آجکل وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں ۔ تو انہوں بتایا کہ وہ لبیا سے پاکستان واپس آگئے ہیں اور اب ایک بینک میں ہیں ۔ پھر وہ جمیل وقار سے بھی بے تکلف ہو گئے اور کہنے لگے اس ہوٹل میں روم سروس نہیں ہے۔ جیب سے کچھ پیسے نکالے اور کہنے لگے جوتمہیں پسند ہو وہی ہمارے لیے بھی کھانے، پینے کو نیچے سے لے آؤ! جمیل وقار نے تکلف کیا اور کہا کہ ہم ناشتہ کر کے آئے ہیں اور پیسے نہیں لیے، توکہنے لگے مگر میں نے تو ابھی تک ناشتہ نہیں کیا ہے؟ وہ ناشتہ لینے چلے گئے؟پھر اپنی مشاعروں کی روداد سنانے لگے جن میں پڑھ کر وہ واپس تشریف لا رہے تھے۔ دورانِ گفتگو انہوں نے بتایا کہ لاس اینجیلس کے ایک ہوٹل میں مری بیاض رہ گئی ہے ۔ میری ساری نئی تخلیقات اس میں تھیں۔ اب پریشان ہوں کہ شام کو پڑھونگا کیا؟ کیونکہ اب تازہ کلام یاد نہیں رہتا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ کے تو پرانے نغمے وغیرہ بھی بہت ہی مقبول ہیں وہ تو یاداشت میں محفوظ ہونگے کیونکہ پرانی یادشت عمر نہیں کھاتی ،و ہی پڑھ دیجئے گا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف ان کی بیگم صاحبہ فون پر تھیں ان سے باتیں کرتے رہے، پھر کہنے لگے کہ میری تلاش کراچی  میں ہورہی ہے اور مجھے سندھ کا گورنر بنا نا چاہتے ہیں ؟ میں نے مبارکباد دی کہنے لگے نہیں سابقہ تجربات کی بنا پر  “اب طبیعت ادھر نہیں آتی“ ا تنے میں جمیل وقار ناشتے کے لواز مات لے آئے ہم نے ملکر ناشتہ کیا اور ان کو خدا حافظ کہا، کہنے لگے اب آئندہ کسی  غیر ملکی مشاعرے میں نہیں آؤنگا۔ اب عمر اسی سال سے تجاوز کر گئی ہے سفر نہیں ہوتا۔ مجھے اس دن کہیں اور جانا تھا میں نے معذرت کی کہ میں شام کے مشاعرے میں شریک نہیں ہو سکونگا۔
اس کے کچھ دنوں بعد مجھے ٹورنٹو جانا تھا وہاں بھی میں ان کے مشاعرے کے بعد پہونچا تو ایک صاحب نے کہا کہ آپ کے عالی جی وہی کلام سنا گئے جو انہوں نے1984 ء  جب یہاں تشریف لائے تھے تو سنایا تھا۔ میں نے جب ان کو اصل بات بتائی تو وہ بڑے شرمندہ ہو ئے؟ میں نے انہیں کہا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسی لیے تو بدگمانی سے بچنے اور آپس میں خوش گمانی برتنے کاحکم دیا ہے۔
پھر آخری ملاقات ان سے کراچی میں اردو ڈکشنری بورڈ کے دفتر میں ہو ئی۔ بہت خوش ہو ئے مجھے بتایا کہ میں آجکل ایک منصوبے پر کام کر رہا ہوں ،اردو کے ان تمام جزیروں میں جو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں انجمن ترقی اردو کی شاخیں قائم کر کے ایک دھاگے میں پرونا چاہتا ہوں ؟ اس سے پہلے یہاں کراچی میں اس سلسلہ میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تمہیں بلاؤنگا آنا ضروراور تم ذرا ہماری لائبریری دیکھ لو اور ٹیلیفوں کر کے لائبریرین صاحب کو ہدایات دیں؟ پھر پوچھا کہ تم آئے کیسے تھے ، میں نے عرض کیا کہ ٹیکسی سے ،کیونکہ یہاں کار چلانا میرے بس کی بات نہیں ہے ؟ فرمایا یہ پیر زادہ تمہیں وہاں چھوڑ دیں گے وہ اسی طرف جارہے ہیں ۔ اتنے میں جنگ کے ایک سب ایڈیٹر تشریف لے آئے ۔ان سے کہنے لگے میاں اچھے وقت پر آئے ! انہوں نے ہر میدان میں وہاں بہت کام کیاہے انکا ایک انٹرویو کر لو۔ وہ کہنے لگے کہ شامی صاحب سے پوچھنا پڑیگا پھر وقت لیلونگا میں نے کہا کہ میں کل جا رہا ہوں ۔ آپ زحمت نہ کریں ؟ اس کے بعد پھر ملاقات نہ ہوسکی میرا کراچی جانا نہیں ہوااور وہ امریکہ آئے نہیں ! میں نے جناب طاہر سلطانی کے ہاتھ ان کو اپنی کتاب  “روشنی حرا سے“ جو کہ حضور (ص) کی سیرت پر ہے بھجوائی انہوں نے بتایا کہ وہ بہت خوش ہوئے اور مبارکباد دی ۔ اب ایسے وضعدار وں سے زمانہ خالی ہو گیا ہے۔ کیسے کیسے عظیم لوگ تھے جو اس خاندان سے متعلق تھے۔ غالب دہلوی تھے جنہوں نے اردو نثر کو سلیس بنایا، سرسید تھے جنہوں نے علی گڑھ یونیوسٹی دی،داغ دہلوی تھے جنہوں نے علامہ اقبال جیسا اپنا شاگرد عطا کیا۔ اور اس سلسلہ کی آخری کڑی عالی جی تھے جو ہم سے 23۔ نومبر کو جدا ہوگئے ان للہ وان الیہ راجعون۔ جنہو ں نے پاکستان کی بہت سے شعبوں میں خدمت کی، اردو ڈکشنری اور بہت سے بھڑکتے  ہوئےملی نغمے اور کالم عطا فر مائے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.