جانکنی میں کی اس نے جفا سے توبہ!۔۔۔ از۔۔۔ شمس جیلانی

ہمارے شہر رچمنڈ بی ۔ سی میں ایک ہی اہلِ تشیع کی اور ایک ہی سنیوں کی مسجد ہے دونوں دس دس ایکڑ پر ہے، یہ اس شہر کی مونسپلٹی کا اچھوتا منصوبہ ہے جس نے ہر مذہب کی عبادت گا ہوں کو روڈ نمبر5پر جمع کر دیا ہے کہ مل جل کر رہو ؟جبکہ عوام نے اس سڑک کانام بدل کر شاہراہِ جنت رکھدیا۔ اس ضافے کے بعد شہر میں کوئی دوسری عبادت گاہ نہیں بنی؟ سوائے ایک بدھ مت کی عبادت گاہ کے ،وہ بھی ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی ساتویں منزل پر ہے جس کو اس کے مالک نے اپنے مالک کے شکرانے کے طور پر کہ اسکو اتنے بڑے ہوٹل کا مالک بنایا بطور تشکر وقف کیا ہے۔ یہاں نئی عبادت گاہیں نہ بننے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ لہذا ہر کو ئی آسانی سے اپنی ڈیرھ اینٹ کی مسجدالگ نہیں بنا سکتا؟اس لیے جو بھی جمعہ کی نماز ادا کرنا چاہے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اسی مسجد میں نماز پڑھے ۔جو لوگ اپنے عقیدے میں بہت کٹر ہیں ان کی تسکینِ روح کے لیے ، برابر میں 20 منٹ کی ڈرائیو پر ایک شہر سرے نام کا ہے جو سستا ہے؟ جہاں چھوٹی بڑی ملاکر ڈیرھ درجن سے زائد مساجد ہیں جہاں وہ اپنی من پسند مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔البتہ دونوں جگہ آپ ایک بات مشترکہ طور پر دیکھیں گے کہ نئی نسل مسجدوں سے گریزاں ہے اور وہ مسجد یہ کہہ کر نہیں جاتی ہے کہ وہاں ان کی تسکین کاسامان نہیں ہے۔ ہم نے اس نسلی خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی کتاب حقوق العباد اور اسلام میں تفصیلی بات کی ہے۔ جس کا “ اسلام وے آف دی لائف کے نام سے “ انگریزی میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے وہ لائبریریوں موجود ہے، قارئین وہاں یا ہماری ویو سائد http://www.bazm-e-shamsjilani@0rg پر جا کرپڑھ سکتے ہیں اس تعارف کے بعد اب ہم آگے بڑھتے ہیں ۔
گزشتہ جمعہ کو ہم برقی ڈاک کے ذریعہ مطلع ہوچکے تھے کہ آج مکہ معظمہ کی ام القرایٰ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب جن کی وہاں پڑھانے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری بھی ہے خطاب فرمائیں گے؟ خطاب شروع ہوا تو وہ الفاظ جن سے کان آشنا تھے ان کی زبان ِ مبارک سے نہیں سنے! جسے ہم ہر جمعہ کو26 سال سے سنتے آرہے تھے، چاہیں خطیب مقامی ہو یا غیر مقامی ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔ جو ہر ایک خطیب یہاں سے شروع کرتا تھا جس کا اردو میں با محاورہ ترجمہ یہ ہے کہ “ ہر بدعت گمراہی ہے اور اس پر عمل کرنے والا جہنمی ہے “ وہ جب ہمیں سنائی نہیں دیے،تو ہم ہمہ تن گوش ہو گئے ، اس کے آگے بھی جو سنا وہ بھی بڑا خوش آئند تھا، امام صاحب امت ِ واحدہ کی بات کر رہے تھے۔بہت سے لوگ ہم سے پوچھنا چاہیں گے کہ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم نے اس مسئلک کے تمام خطیبوں کو یہ تو کہتے سنا کہ بدعت گمراہی ہے یہ سچ بھی ہے، اور اس کے بارے میں دو رائیں بھی نہیں ہیں پوری امت اس مسئلہ میں ایک ہی پیج پر ہے؟ مگر اختلاف ہے تو تفہیم پر؟ کیونکہ اگر اس سے عربی زبان کے لغوی معنی لیے جائیں تو پھر ہر نئی ایجاد بدعت ہے اور ہر نئی چیز بد عت ، تو زندگی اجیرن ہو جا ئیگی؟ لیکن اس کے معنی اسلامی اصطلاح میں لیے جا ئیں تو “ صرف وہ اعمال بدعت ہیں جن کو کہ حضور (ص) نے تواتر کے ساتھ اپنے اسوہ حسنہ میں تاحیات اپنائے رکھا؟ اگر اس کے خلاف کوئی عمل کرے تو وہ بدعت ہے، گمراہی ہے اور اسے اختیار کرنے والا جہنمی ہے؟ مگر اس باریک فرق کوکو ئی خطیب زیر بحث نہیں لاتا۔کیونکہ اس سے وہ معنی نہیں نکلتے جو جو ایک مسئلک کے داعی نکالنا چاہتے ہیں۔ لہذا یہ چند الفاظ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں،مگر مزید تفصیل میں نہیں جاتے؟ اس خود ساختہ سند کے تحت وہ جس فعل کو چاہیں بدعت قرار دیدیتے ہیں جس کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن نازل ہوچکا ،آخری نبی )ص) اپنا کام مکمل فرماکر پردہ فرماچکے اور خلیفہ کوئی ہے نہیں ۔ دوسرے ایسی کوئی عالمی جماعت بھی موجود نہیں ہے جس کو سب تسلیم کرتے ہوں ،اور وہ کسی نئے پیدا ہونے والے مسئلہ پر اجمائے امت کراکر اجتہاد کے ذریعہ کوئی اپنا فیصلہ نافذ کراسکے۔ اس افراتفری کا پھل وہ شدت پسندی ہے جو کہ آج دنیا کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے؟ جبکہ اس سلسلہ میں قرآنی ہدایات، اور ہادی اسلام کی ہدایات واضح ہیں جہاں کوئی ابہام نہیں ہے۔ سورہ مائدہ ا ور الانعام میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا حلال اور کیاحرام ہے ۔ وہاں جو چیزیں حرام ہیں۔ انہیں تفصیل سے قرآن میں دیکھ لیا جائے؟ اس کی مزید تفسیر حضور (ص) نے فرمائی ہے اسے لوگ سمجھنا چاہیں تو حضرت معا ذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب حضور (ص) نے یمن اپنا نمائندہ (عامل ) بنا کر بھیجا تو انہیں رخصت کرتے وقت ان سے پوچھا کہ تم وہاں جاکر فیصلہ کیسے کروگے ؟ جواب میں انہوں نے فرما یا کہ پہلے میں قرآن میں تلاش کرونگا، پھرمیں سنت میں تلاش کرونگا ، حضور (ص) نے لقمہ دیا کہ اگر ان میں بھی کچھ نہ ملا تو! فرمایا کہ پھر میں اپنی رائے استعمال کرونگا ؟ یہ جواب سماعت فرماکر حضور (ص) خوش ہو گئے اور ان کے سینے پر ہاتھ رکھ فرمایا کہ اس اللہ کا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی کے نمائندہ کو یہ فہم عطا فرمائی۔ لیکن گزشتہ صدی کے ا وائل سے اس میں تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کا باعث ایک نیا فقہ تھا جس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ فقہ حنبلیہ کو بدعتوں سے پاک کر نے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اس نے آکر تیرہ سو سال سے زیادہ پرانی تفسیر جہاں ضرورت ہوئی بدل دی اور پوری دنیا پر نئے فقہ کو نافذ کرنے کامنصوبہ بنایا۔ اور ہر ایک کو بدعتی کہنا شروع کر دیا جو ان کے مسئلک کے خلاف کچھ کرے؟ یعنی جسے وہ بجا کہیں وہی بجا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملت کا شیرازہ بکھر گیا؟ کیونکہ ان کے پاس اس عقیدے کو پھیلانے کے لیے دولت بھی تھی اور ان کی اپنی یونیورسٹیوں کے علاوہ وہ تمام مدرسے اور تعلیمی ادارے بھی جو دنیا بھر میں پھیلے ہو ئے اور مالی معاونت کے طلبگار تھے ،اس کارخیر میں وہ بھی ان کے آلہ کار بنتے گئے ۔ نصاب کی اس تبدیلی سے دنیا کا امن و چین تباہ ہو گیا۔ اب جبکہ ساری دنیا اس سے واقف ہو چکی ہے اور وہی خود ا ن کے منہ کو آرہے ہیں تو انہیں اسکا احساس ہوا گوکہ دیر میں ہوا ؟
ہم اس لہجہ کی تبدیلی سے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے گو کہ بہت دیر کے بعد سہی؟ لیکن نفرت ایسی بلا ہے کہ ایک لمحہ میں کوئی بھی شر پسند، شر پھیلا توسکتا ہے۔ مگر جب اس کے نتیجہ کے طور پر دلوں میں دراڑیں پڑ جائیں تو نفرت دورکر نا بہت ہی مشکل ہو تا ہے۔ چونکہ نفرتوں کی تشہیر کرتے ہوئے ایک صدی گذر گئی ہے اس کو دور کرنے کے لیے بھی صدیاں چاہیئے؟ آپ تاریخ میں چلے جائیں تو سابقہ تجربہ یہ ہے کہ اس کی بیخ کنی میں تقریبا ً سات سو سال لگے تھے،جو خارجیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں شروع کیا تھا اور وہ ختم ہلاکو کے دور ہوامیں ہوا۔ خارجیوں کا بھی یہ ہی عالم تھا کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتے تھے۔ اور آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتے ، اور نہ ہی اپنے سوا دنیا میں کسی کو جینے کا حق دینا چاہتے ہیں۔ اگرا صل اسلام یہ ہی ہو تا جو ان کا اسلام ہے تو؟ عالم اسلام میں کوئی معابد ، گرجاگھر، مندر وغیرہ نہیں بچتا اور نہ ہی آثارات قدیمہ ہوتے۔ ان کا سب جگہ موجود ہونا( سوائے سعودی عرب کے جوکہ گذشہ صدی میں عالم میں وجود میں آیا ہے) کچھ کا شدت پسندوں کے ہاتھوں حالیہ دور میں ڈھانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام ا یک انتہائی ٹالرینس والا مذہب ہے۔ اور ایک چھوٹا سا طبقہ دنیا کے سامنے جو اسلام پیش کر رہا ہے وہ اس سے قطعی مختلف ہے؟ مسلمان تو صرف انسانوں سے ہی نہیں جانوروں سے بھی محبت کرنے والا ۔ سچ بولنے والا ! صادق ا ور امین ، صبر کرنے والا، غصہ پی جانے والا، اچھے اخلاق والے کا نام ہے۔ جبکہ جھوٹوں، بد عہدوں ہر ایک سے نفرت کرنے والوں اور بات بات پر مشتعل ہو نے اور ہر ایک سے نفرت کرنے والوں یا کام چوروں، بربریت کرنے والوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے؟ اسلام عفو اور درگذر کی تعلیم دیتا ہے۔
لیکن اسلام میں توبہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ باتیں چھوڑ دی جائیں اور تائب اس کی طرف دوبارہ راغب نہ ہو ؟ اس کا ثبوت ان کو عمل سے دینا پڑیگا جو اب اگر واقعی اس برائی کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہاں تک جانا ہوگا کہ ہر ایک سے محبت کر نا ہوگی ۔ تب کہیں جاکرایک صدی پرانی یہ نفرت دور ہوگی؟ اس کے لیے نفرت پھیلانے والوں کو دل کی گہرائیوں سے مسلسل جدو جہد کرنا پڑے گی ، صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا؟
دوسرے میں اان لوگوں سے معدبانہ عرض کرونگا کہ اسلام بدگمانی سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی تائب ہونا چاہے اور اس میں استقامت دکھائے تو اسے معاف کردیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہدایت دے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق بھی عطا فرمائے (آمین) تاکہ دنیا میں دوبارہ امن اور چین قائم ہوسکے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Uncategorized. Bookmark the permalink.