یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شر مائیں۔۔۔ ؟ ز۔۔ شمس جیلانی

ہمیشہ کی طرح حضور (ص) کی پیدائش کا دن گزر گیا مگر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہر سابقہ یوم ِ پیدائش کی طرح اس سال بھی ہمارا خیال تھا کہ شاید قوم کو یاد آجائے کہ ہم جن (ص) کے امتی ہیں ان کی پیدائش پر بجائے صرف ان کا دن منانے اور جلوس نکالنے کے ان کا اتباع بھی کرنے کا فیصلہ کرلیں تاکہ اس طرح آنے والے سال میں تمام دکھ دلدر دور ہو جائیں ؟  لیکن تمام امیدیں خاک میں مل گئیں کیونکہ کسی کونے سے کسی عالم کی یہ آواز نہیں سنی ،اس کے بجائے اس کے بدعت ہونے پر اپنی اپنی مجالس میں زور دیتے رہے! جبکہ کچھ اس کے فرض ہونے پر، مگر عمل کی بات دونوں ہی نہیں کی اب دیکھیے گا کہ2016 کا پہلادن آرہا ہے اس دن پوری قوم ایک چھوٹی سی اقلیت کے سوا نیا سال بہت دھوم دھام سے منائے گی اس دن اشرافیہ آتش بازی کاعام اہتمام کرے گی۔ ہماری بات کو نہ مانیں؟ اگر آپ کی رسائی شراب خانو ں کے ریکارڈ تک ہو سکے تو جاکر چیک کرلیں کہ ان کی سیل آپ کو اپنے عروج تک پہونچی ملے گی ۔لیکن اس کارِ خیر پر اس کی مخالفت میں وعظ فرمانے کی کوئی کوشش نہیں کریگا اور نہ بدعت اور حرام کہنے کی کوشش کریگا؟ حالانکہ یہ بات متنازع نہیں بلکہ متفق علیہ ہے کہ اسلام میں شراب حرام ہے ؟
ہم بھی خوابوں کی دنیا کے آدمی ہیں کیسے کیسے منصوبے باندھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستانی اپنی دھن کے پکے اور بات کے دھنی ہیں ۔اپنی ہٹ پر ہمیشہ کی طرح قائم رہیں گے؟ قوم بدستور اسی خواب میں رہے گی کہ ہمارے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے؟ دل کعبہ میں رکھا رہے گا۔ اور بت خانے بھی من میں آبادرہیں گے ؟ یہ دو عملی کیا رنگ لائیگی جواب کوئی اچھا نہیں ہے لہذا ہم پنے تمام علماءکرام کوا ور مسلمانوں کو دعوت دیں گے کہ وہ ایسی قوموں کے حشر بارے میں قرآن میں جاکر دیکھ لیں خصوصا ً سورہ الشعرا میں آیات24 سے لیکر 29 تک ملاحظہ فرمالیں! جس میں قوم ِ عاد کی عادات بتائی گئی ہیں ( ترجمہ “تم اپنی شان بڑھانے کے لیے بڑے مکان بنا تے ہو اتنے بڑے کہ جس میں رہ نہیں سکتے ، کھانے کے لیے اتنا جمع کرتے ہو جو کھا نہیں سکتے ۔۔۔الخ)۔ اس موقعہ پر ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قوم یک سو ہو کر حضور (ص) کے دامن ِرحمت میں پناہ لیتی اور اللہ سے اپنے گناہوں پر تو بہ کرتی ، تاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیتا؟ مگر ہوا کچھ بھی نہیں؟ لیل و نہار وہی رہے پرنالہ وہیں گرا جہاں اسے گر نا چاہیے تھا ؟ اس مرتبہ ایک نمایاں تبدیلی یہ ضرور دیکھی کہ وزیر اعظم صاحب جو ہمیشہ پہلے سالانہ تبلیغی اجتماع میں جایا کرتے تھے، اس مرتبہ نعت خوانی کی ایک محفل میں بھی تشریف لے گئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کی سمجھ میں بھی یہ نہیں آرہاہے کہ کیا کریں؟ یہ با لکل وہی پوزیشن ہے جو پہلی صدی ہجری کی چوتھی دہائی سے لیکر اور ساتویں دہائی میں تھی؟ اس وقت بھی ایک طبقہ جو خارجی کہلاتا تھا وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان نہیں مانتا تھا؟ ایک قدرے چھوٹا گروہ تھا جو ان سے بر سرِ پیکار تھا۔ ایک تیسرا گروہ بھی تھا کہ جو کہتا تھا کہ ہم نے بہت جہاد کر لیا اب نہیں کرنا ہے؟ کیونکہ وہ جہاد کو صرف قتال کے معنی میں ہی لیتا تھا ۔ جبکہ حضور (ص) نے امن کے دوران اعمال صالح کر نا سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے اور وہ اس کے بجائے اس حدیث پر عمل کرتا تھا کہ “ مسلمانو ں کے دو گروہوں میں جب لڑائی ہو تو جو کھڑا ہے وہ بیٹھ جا ئے اورجو بیٹھا ہے وہ لیٹ جا ئے “ اور اس نے قرآن کی وہ آیت نظر انداز کردی تھی کہ اگر مسلمانو ں کے دو گروہوں میں جنگ ہو تو ان میں صلح کرانے کوشش کرو اگر نہ مانیں تو اس کا ساتھ دو جو حق پر ہو؟ جبکہ اُس آنے والے دور کے لیے ہادی (ص) اسلام نے ایک ایک پہچان حق پرستوں پر کھول کر بیان کردی تھی کہ وہ (خارجی) کیسے ہونگے؟ لیکن پہچان نے کے باوجود ان پر عامل ہو نے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا؟ اورفرمان باری تعالیٰ کے تحت “جب کسی مسئلہ پر کوئی تنازع پیدا ہو جا ئے تو اللہ اور رسول (ص) کی طرف رجوع کرو “ اس پر عمل کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا؟ا س پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں وہاں پڑھ لیجئے ،اگر قوم کو دنیا کمانے سے فرصت ملے تو؟حالانکہ کے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بار بار قرآن میں فرمایا ہے کہ تم کو یہاں بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ “ وہ تمہیں آزما ئے کہ کون نیک کام کر تا ہے اور کون برے کام کر تا ہے تاکہ قیامت کے دن وہ انہیں جنت یا دوزخ کے لیے منتخب کر سکے ً( کیونکہ وہ دونوں کا رازق ہے اور اسے جنت اور جہنم دونوں کا پیٹ بھر نا ہے)
آج بھی ہم اسی صورت ِ حال سے دو چار ہیں؟اور سب آپس میں دست بہ گریباں ہیں؟ کچھ شدت پسندوں کے لیڈروں کو بھی پورا پور ٹوکول ملا ہوا ہے۔ کچھ ان کے لیڈروں کو بھی جنہیں شدت پسند بد عتی کہتے ہیں ۔ ملزم عدالتوں کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے طلب کر نے پر عام طور پرحاضر نہیں ہو تے وہ انہیں مفرور قرار دیکر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کر دیتی ہیں؟ وہ بدستور شہر میں گھومتے پھر تے ہیں پولس ان سے آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ عد الت تاریخیں دیکر جب تنگ آجاتی ہے تو ان کی جائیداد ضبط کر کے مکان سیل کر دیتی  ہے۔ ملزم جب چاہیں تالہ توڑ کر قبضہ کر لیتے ہیں؟اور اس میں آکر رہنے لگتے ہیں، کوئی کچھ نہیں کہتا؟ جبکہ جس زمین پر وہ محل بنا ہوا تھاا سے رہائش کے لیے نہیں بلکہ اطراف کے لوگوں کے لیے تازہ سبزیاں اگانے کے لیے الاٹ کیا گیا تھا۔ جبکہ پولس کی اتنی قسمیں ہیں جواے سے لیکر زیڈ تک آپ گن لیں مگر وہ صاحب لو گوں کی حفاظت پر مامور ہیں، اور اکثر سڑکیں بند کرنے پر مامور دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی وجہ سے بہت سے مریض راستے میں دم توڑ دیتے ہیں کہ صاحب اقتدار جہاں ہوں پرندہ پر نہیں مار سکے چاہیں وہ استپال ہی کیوں نہ ہو ؟ لہذا شر پسندوں کے لیے پولس بچتی ہی نہیں مجبوراًنیم فوجی ادارے رینجرز کو بلانا پڑتا ہے؟ وہ اپنی جانوں کی قر بانی دیکر ملک میں امن قائم کر نے میں جب کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ تو ان کے ہاتھ پا ؤں باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ملزموں کے ڈانڈے کچھ بڑوں سے ملتے ہیں ۔ جب مرکز اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کر تا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ صوبے پر حملہ کر دیا؟ یہ ہمارے یہاں عدل کی حالت ہے کہ دل چاہا تو مان لیا بنے ٹھنے ملزم اور ملزَمائیں فوٹو گرافروں کے جلوس میں ہر دفعہ نئے فیشن میں آتے ہیں ۔ جتنی شہرت ان کو اس طرح ملتی ہے ،اگر اربوں روپیہ وہ اس مد میں خرچ کریں تو بھی نہیں مل سکتی ہے، وہ بھی انہیں اس طرح مفت میں حاصل ہو جاتی ہے؟ جبکہ وکیلوں کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے مقدمے مہینوں نہیں بلکہ سالوں نہیں چلتے ہیں۔ کہ عدالتیں سزائیں تو دے سکتی ہیں، مگر عمل کرانے کے لیے انکااپنا کچھ نظام نہیں ہے جبکہ انتظامیہ ہی ان کے ہاتھ پاؤں ہیں۔ جبکہ کسی بڑے آدمی پرہاتھ پڑ جاتا ہے تو دوسرے بڑے یا سب بڑے مل کر اس کی حمایت کو آجاتے ہیں ۔ اور وہ ان کے جو ہاتھ پاوں ہیں انہیں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ انہوں نے بڑا اچھا کام کیا ہے ۔ ہم ان کے خلاف نہیں ہیں اور کن انکھیوں سے ان کی بغل کو بھی تکتے رہتے ہیں جس میں ایک چھوٹا سا علامتی ڈنڈا دبا ہوتا ہے۔
یہ اس ملک کا حال ہے جو اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے ، جس کی پارلیمنٹ پر اتنا بڑا کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے کہ آپ آج کے دور میں ہزاروں میل دور سے بیٹھ کر دیکھ لیں ۔ جس میں عوام کی طرف سے اعتراف ظاہر ہو تا ہے کہ ہم نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا ہے ا ور اپنا سر اس کے آگے جھکا دیا ہے۔ لیکن عملی طور پر اس کی تمام کلیدی اسلامی دفعات بغیر لکھی  کسی دفعہ کی تحت معطل ہیں ۔ پچھلے دنوں عام مشاہدہ تھا کہ شراب کی بوتلیں اسکے چاروں طرف بکھری ہو ئی ملتی تھیں ؟ اب نہیں معلوم اس سلسلہ میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا۔ اس کا کیا بنا وہ ہمارے علم میں نہیں ہے؟ البتہ یہ ہمارے علم میں ہے کہ اقلیتی ممبر وہاں اتنے نہیں ہیں جتنے کہ اکثریتی ممبر ہیں ۔ لیکن ان کے پرمٹ اپنے ساتھیوں کو ضرور مل جاتے ہیں تاکہ وہ بھی اپنی پیاس مٹا سکیں ا ور اس کے بدلے میں وہ اپنے ناجائزکام ان سے کراسکیں ؟ یہ بھی ہمارے علم میں ہے کہ روز بروز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب خانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کا گواہ سندھ اسمبلی کا وقفہ سوالات ہے جس میں ایک معزز وزیر نے ایک رکن کے سوال پر بتایا کہ کراچی میں پہلے 64شراب خانے تھے۔ اب 69 ہو گئے ہیں ؟ معززرکن نے جب ضمنی سوال پو چھا کہ یہ بڑھ کیوں رہے ہیں؟ تو جواب معقول تھا کہ آبادی بڑھ رہی ہے ، جس طرح آٹے اور چاول کا خرچ بڑ رہا ہے ۔اسی طرح شراب کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ نئی نسلِ اشرافیہ اس کی عادی ہوتی جارہی ہے اور اقلیتی طبقہ کو ملنے والے پرمٹ شراب کو رواج دینے میں معاون ہو رہے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے تاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا غضب ٹھنڈ ا ہوسکے (آمین)

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.