پچھلے دنوں مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس فقیر کے غریب خانے پر جناب یاور مہدی صاحب کراچی سے تشریف لا ئے جبکہ رہبری کے فرائض کیپٹن منصور صاحب انجام دے رہے تھے۔ خیرو عافیت سے بات آگے بڑھی تو یہ راز کھلا کہ ذکی صاحب نے اپنی کتاب “صدائے پاکستان کی دو جلدیں یاور بھائی کو مجھے پہچانے کے لیے دیں ہیں جبکہ وہ میرے ہمسایہ شہر سیاٹل ( امریکہ ) میں اپنے علاج کے سلسلہ میں تشریف لا رہے تھے۔ ا ور اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی تھی کہ ایک میں رکھ لوں اور اس پر تبصرہ بھی کروں اور دوسری جناب صفدر ھمدانی کو لندن روانہ کردوں جوکہ جناب علی ھمدانی (مرحوم)جیسی تاریخ ساز شخصیت کے نامور فرزند ہیں کیونکہ میں عالمی اخبار سے وابستہ ہوں ۔ حسب الحکم تبصرہ کالم کی شکل میں پیش ِ خدمت ہے۔
یہ ریڈیو پا کستان پر ایک بہت ہی سیر حاصل اور سودمند کتاب ہے جوکہ جناب ذکی احمد ذکی کی تحقیق و جائزہ کی شکل میں 384 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے جنرل نالج اکیڈمی کراچی نے“ صدائے پاکستان “ کے نام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کیا ہے بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے، اس میں وہ سب کچھ ہے جو کسی طالب علم کی ہی نہیں بلکہ محقق کی بھی علمی پیاس پوری کرسکتی ہے؟ کیونکہ یہ ریڈیو کے موجد مارکونی سے شروع ہو کر، بابائے ریڈیو پاکستان جناب زیڈ ے بخاری (مرحوم) سے ہوتی ہوئی اس افراتفری کے دورمیں نئی نسل پر توجہ دینے والی پہلی شخصیت جناب یاور مہدی پرختم ہوتی ہے! میں نے انہیں پہلی شخصیت اس لیئے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے، کیونکہ ہر ایک کو اپنی بقا کی فکر لاحق تھی۔ کسی کے پاس اِدھراُدھر دیکھنے کی فرصت نہ تھی۔ لہذا جو جہاں تھا وہاں پیر جمانے کی کوشش کر رہا تھا ،نئی نسل ہی کیا سب کچھ سب نے فراموش کر رکھا تھا۔ مگر یہ ان کی انفرادیت تھی کہ انہوں نے نئی نسل کو یاد رکھا ! یہاں تک کہ ان کے اپنے بچوں کو ا ن سے شکایت پیدا ہو گئی، جس میں ان کی صاحبزادی محترمہ فوزیہ عسکری شامل ہیں ،جن کا مضمون اسی کتاب کے صفحات پر موجود ہے۔ “ میرے والد نے ہم پر بھی اپنے مشن کو ترجیح دی اور ہم ان کی توجہ سے پوری طرح استفادہ نہیں اٹھا سکے “ وہ وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنا گھر ہی ریڈیو اسٹیشن کو بنا لیا تھا، کہ کچھ اس طرح ریڈیو پاکستان میں بچوں کی پھلواڑی سجا ئی جو کہ بعد میں شاعروں اور ادیبو ں کی نر سری ا گانے کا باعث ہوئی ،اس طرح پاکستان ادب اور ثقافت میں خود کفیل ہوگیا۔ اگرموجودہ نسل سے ایک نسل پیچھے کی طرف جھانک کر دیکھا جائے تو زیادہ تر ادیبوں اور شاعروں کا تعلق ریڈیو پاکستان کی اسی پھلواڑی سے نظر آئے گا، جنہوں نے بہت سے میدانوں میں نام پیدا کیا۔ اور یاور بھائی نے اس طرح ایک مثبت کام کر کے تاریخ ساز شخصیت ہونے کا فخر حاصل کیا۔ جس کے لیئے قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ کیونکہ اپنے بچوں پر اوروں کو ترجیح دینا بڑے دل اور گردے کا کا م ہے۔
ان کے علاوہ جن لوگوں نے ریڈیو پاکستان کو ریڈیو پاکستان بنا نے میں مدد دی ان کی بھی خدمات اس کتاب میں اجاگر کی گئی ہیں وہ فہرست بہت طویل ہے ، یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ پیش کی جاسکے، آپ بھی اسی فہرست میں تلاش کیجئے شاید کو ئی شناسا نکل آئے ۔
فاضل مصنف نے اسے جس طرح سجاکر نوک پلک سنوارے ہیں یقیناً یہ انہیں کا حصہ ہے۔ یہ لاہور اور پشاور اور ڈھا کہ پر مشتمل ادارہ تین شہروں سے بچپن شہروں تک کیسے پہونچا ا ولعزمی کی ایک طویل داستان ہے جو کہ اس کتاب میں بڑی خوبصورتی سے سموئی گئی ہے۔ ان کے قلم نے مجھے بھی فخر کرنے کا موقعہ عطا فرمایا کہ میرے شہر “ پیلی بھیت کے دو فرزندوں کا اس میں ذکر کیا ہے! ایک گم نام یعنی جناب طاہر خانصاحب اور دوسرے بہت ہی نامور جناب رضی حیدر صاحب۔ اور اس طرح مجھے بھی فخر کے ساتھ ان کا ذکر کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اس میں طاہر خان صاحب کو یوں زیادہ ا ہمیت حاصل ہے کہ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی ، جبکہ عوام ان کے بھائی خان عبد الغفار خان (مرحوم ) کے والا اور شیدا تھے جوکہ سرحدی گاندھی کہلاتے تھے ، نیزاپنی ذاتی خدمات کی وجہ سے وہاں کے عوام میں بہت مقبول تھے وہ ان کو ہی اپنا سب کچھ مانتے تھے؟ جبکہ مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں ان کی وہی معلومات تھیں جو ان کے لیڈر اور سرحد ی حکومت کے ذرائع ابلاغ ان کو دن ، رات بتارہے تھے جو آپ خودسمجھ سکتے ہیں۔ جبکہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت ریفرنڈم سے مشروط کردی گئی تھی۔ ایسے میں ایک ریڈیو اسٹیشن طاہر خان نے بنا یا اور پھلوں کی ٹوکریوں کے ذریعہ پشاور پہونچاد یا ، جبکہ اس سے پہلے سردار نشتر صاحب کو جوکہ عبوری حکومت میں وزیر مواصلات تھے۔ ایمپلی فائر بنا کر دیا تھا۔ اسی کو دیکھ کر نشتر صاحب نے ان سے ریڈیو اسٹیشن بنانے کی فرمائش کی جو انہوں نے بناکر پیش کردیا، جس کی آواز صرف ستر میل تک سنی جاسکتی تھی۔ اُسی کے ذریعہ عوام کو مسلم لیگ سے روشناس کرایا گیا۔اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ پورٹ ایبل تھا جو پھلوں کے ٹوکروں میں روز اپنی جگہ بدلتا رہا، کیونکہ حکومت اس کی تلاش میں رہتی تھی۔ دوسری کاوشوں کے ساتھ یہ بھی عوام میں جاگ پیدا کرنے کا باعث ہوا۔ خان صاحب کی حکومت اپنی تمام کوششوں کے باوجود اسے تلاش کر نے میں ناکام رہی، اور مسلم لیگ ریفرنڈم جیت گئی۔ کوئی اور قوم ہو تی تو طاہر خان کو پاکستان بننے کے بعد سر پر اٹھا لیتی؟ لیکن قوم بھول گئی اور انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے راولپنڈی میں ایک ورکشاپ کھولنا پڑی۔ ممکن ہے نئی نسل کو میری بات سمجھ میں نہ آئے کیونکہ آجکل تو یہ سب چیزیں دکانوں پر عام ملتی ہیں جبکہ اسوقت ان کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا؟ اور دوسری شخصیت جناب رضی حیدر ہیں جن کا تعلق میرے شہر سے ہے، جوکہ پاکستان کے دانشوروں میں بہت ہی بلند مقام رکھتے ہیں ، وہ قائد آعظم اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر رہے اور ان کی سوانح حیات لکھی ،وہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی خدمات انجام دیں جنکی تفصیل اگر میں دوں تو جگہ چھوٹی پڑیگی۔
ذکی صاحب نے کتاب بہت اچھی طرح سے شروع کی کہ ابتدا ء بابائے ریڈیو پاکستان جناب زیڈ اے بخاری (مرحوم)کی کتاب کے ایک طویل اقتباس سے کی ، جس میں ریڈیو کی تاریخ کو بہت اچھی طرح پیش کیا گیا ہے، وہ تمام مشکلات ہیں جو انہیں قدم۔ قدم پر پیش آئیں جو کہ ایک نئے ملک میں نیا ریڈیو اسٹیشن بنا نے کے بارے میں ہیں، خاص طور پر کراچی ریڈیو اسٹیشن کے بارے میں ! جہاں پہلے فوجی بیرکوں میں دار الحکومت بنا اور دار الحکومت کے تقاضے پورے کر نے کے لیے پھر ایک انتہائی طاقتور ریڈیو اسٹیشن بنا۔ مگر اس کے کچھ پیرا گراف آگے جاکر جو جملہ اردو میں تحریر کیاگیا ہے اور قیام پاکستان کے متعلق ہے “ 14 اگست کی شب میں ٹھیک بارہ بجے “ جناب ظہور آزر کی زبان سے اعلان ہوا “ جو صفحہ 67 پر لکھا گیا ہے ،اس سے یہ پیغام یہ جارہا ہے کہ پاکستان 15 اگست کو بنا؟ (جسے کچھ لوگ پہلے ہی الجھانے کے لیے کوشاں ہیں) اس پر ذکی صاحب اگر تھوڑی سی وضاحت فرمادیتے تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ اصل پروگرام صبح آزادی صرف جناب علی ھمدانی (مرحوم) کی آواز میں نشر ہوا۔ ظہور آزر صاحب کا علامیہ جو ریڈیو کی اصطلاح میںاسٹیشن کال کہا جاتا ہے ،اس کے علاوہ اور جو کچھ پیش ہوا۔ وہ صبح کی نشریات میں تھا۔ جس میں تلاوت، علامہ اقبال کا ترانہ ہی نہیں بلکہ احمد ندیم قاسمی ( مرحوم )کے چند نغمے بھی شامل تھے۔ ۔ کیونکہ علی ھمدانی صاحب کا اعلامیہ کا دورانیہ صرف 35 سیکنڈ کا تھا۔ تلاوت بھی اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی بلکہ صبح کے پروگرام میں ہوئی ۔ تو اس کتاب کی حیثیت غیر متنازع رہتی۔ جبکہ موجودہ صورت میں ۔ یہ حصہ کئی غلط فہمیوں کو جنم دے رہا ہے اس میں ایک تو یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ اعلان چودہ اگست کی شب کو ہوا تو پھر پاکستان کا یوم آزادی 15ا گست بنتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ 13 اور 14کی درمیانی شب کو ٹھیک بارہ بجے ہونا چاہیے جبھی کہیں جاکر یوم آزادی 14 اگست بنتاہے۔ جو کہ تاریخی حقیقت ہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن نے کراچی آکر 14 اگست کو پاکستان کا اقتداربر طانیہ کے وائسرائے کی حیثیت سے مسلم لیگ کی قیادت کو منتقل کرنے کا اعلان کیا اور دوسرے دن 15 اگست کو ہندوستان کے گورنرجنرل کی حیثیت سے خود حلف لیا ۔ کیونکہ یہ سارا کچھ میری نگاہوں کے سامنے گزرا ہے اور یاداشت میں محفوظ ہے۔ اس کو تقویت دینے کے لیے میں یہ دو لنک یہاں پیش کر رہا ہوں جو کہ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کا ایک حصہ ہیں ؟
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=46208
http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=specialreport&article=46226