اچھے طالبان ،برے طالبان اور ان کی پہچان ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

آج کے دور میں یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ اچھا کون ہے اور برا کون ہے۔ کیونکہ اب معیار یہ بن گیا ہے کہ جو ہمارے ساتھ اچھا ہے وہ اچھاہے اور جو ہمارے ساتھ برا ہے وہ برا ہے۔ اس کو بھی دوام اس لیے نہیں ہے کہ  سیاست کے ساتھ وفاداریاں بدلتی رہتی  ہیں  ، اچھے برے اور برے اچھے ہوتے رہتے ہیں ۔جبکہ اسلام میں یہ معیار کبھی نہیں رہا کیونکہ وہاں یہ ہے کہ جو حضور (ص) کے راستے (اسوہ حسنہ) پر پوری طرح عامل ہے وہ اچھا ہے اور جس کا ایک فعل اسکے خلاف ہے وہ برا ہے؟ اس سلسلہ میں آیات بھی ہیں اور احادیث بھی ہیں۔ اور ان کے اتباع میں وہ بزرگ تو یہاں تک چلے گئے ہیں جنہیں کہ اسلام کے خود ساختہ ٹھیکید دار بدعتی کہتے ہیں کہ اگر کسی کا ایک فعل بھی خلاف سنت ہو تو وہ ولی نہیں ہوسکتا بلکہ شیطان ہے؟ اس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ اسلام نے ایک نظام حیات دیا ہوا۔ لہذا مومن کو کہیں اور سے ہدایت لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جیسے ہم یہ محاورہ اکثر استعمال کرتے ہیں کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے؟ سننے میں بہت اچھا ہے مگرقطعی غیر اسلامی ہے؟ کیونکہ اسلام میں معاف کرنا افضل ہے، اگر مظلوم بدلا لینا چاہے تو اتنا ہی  لے سکتاہے جتنا اسکو نقصان پہونچا ہو! لہذا اینٹ کا بدلا اینٹ ہے پتھر نہیں ِ جبکہ ہم نے دل کے بہلانے کو طرح طرح کے حیلے بہانے گڑھے ہوئے ہیں اور اس پر یہ زعم بھی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ؟ جبکہ مسلمان کی اسلامی تعریف یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اور آج کے مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ سچ نہیں بولتا؟ جھوٹ کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ ایک جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے ایک لامنتاہی سلسلہ جھوٹ کا شروع ہوجاتا ہے اور دوسرے ہزاروں جھوٹ اور بولنے پڑتے ہیں ۔ مشاہدہ ہے کہ اگر کوئی جھوٹ بولتا ہو تو اس کے چہرے تاثرات ساتھ نہیں دیتے ۔ لہذا جو سامنے والا ہے وہ مطمعن نہیں ہوتا اور اس ملاقات سے کوئی اچھا اثر لیکر نہیں اٹھتا ،نتیجہ یہ کہ اس شخص کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے؟
لہذاصورت حال یہ ہے کہ آج من حیثیت القوم ہماری کسی بات کاکوئی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔جنہوں نے یہ سانپوں کی نرسری اسلام میں اگائی تھی ۔ آج وہ انہیں سانپوں سے خود خائف ہیں ۔ کیونکہ ان کی توپوں کا رخ اب انہیں کی طرف ہے۔ جنہوں نے انہیں کاٹنا سکھا یا تھا۔ اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں ؟ جسے ہمارے حکمراں اور رہنماڈپلومیسی کہتے ہیں ۔ اور اپنے دل میں مطمعن رہتے ہیں کہ ہم پر لوگ عتبار کر رہے ہیں ۔ جبکہ کسی جھوٹے پر کوئی کبھی اعتبار نہیں کرتا، یہ اور بات ہے کہ منہ پر نہ کہے؟ کیونکہ نہ تو وہ وقت کاپابند ہوتا ہے، نہ بات کا پابند ہوتا ہے اور نہ وعدے کا پابند ہوتا۔ اس کی حضور (ص) نے  اس قسم کے کردار جوتعریف یہ فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ جو کہتا ہے اس پر عمل نہیں کرتا، وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا، امانت رکھو تو خیانت کرتا ہے؟ اس کا اسلام میں مقام کیا ہے؟ وہ احا دیث جاکر پڑھ لیجئے؟
اسلام نے ایک کلیہ بنا دیا کہ اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور برے کاموں میں نہیں ؟لہذا اگر کوئی مسلمان کسی ظالم کا ساتھ دے رہا تو وہ اتنا ہی بڑا مجرم ہے جتنا ظلم کرنے والا۔ اس میں ایسی کوئی شق نہیں کہ اچھا ظالم اور برا ظالم ، بس ظالم ، ظالم ہے؟ اور اس کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہے۔ حکم یہ ہے کہ اگر اسے طاقت کے ذریعہ سے روک سکتے ہو تو طاقت سے روک دو، زبان سے ٹوک سکتے ہو تو ٹوکو ! اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے ہو تو اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھو؟ ہم کیا کر رہے ہیں ۔ وہی جوکہ پچھلے ادوار میں جبکہ جنگلات ڈاکوؤں سے بھرے پڑے تھے، جنگلات کے قریب رہنے والے زمیندار کیا کرتے تھے۔ کہ ڈاکوؤ ں سے دوستی کر لیتے ،ان کا ماہانہ مقرر کر دیتے تھے۔ کہ بس ہمارے یہاں کچھ نہ کرنا باقی تم کہیں کچھ بھی کرتے پھرو؟ اور کوئی مظلوم آکر ان سے ان کے ظلم کی شکایت کر تا تھا وہ کہتے تھے۔ وہ ! یسا آدمی نہیں تمہیں غلط فہمی ہو ئی ہوگی وہ تو بہت شریف ہے بلکہ وہ تو بڑا مخیر بھی ہے؟
آج بھی ہمارا رویہ یہ ہی ہے؟ کیونکہ یہ ہی ہمارا اچھائی اور برائی کا معیار ہے۔ بات بنے تو کیسے بنے؟ ہم نے سب سے دوستی رکھی ہوئی اور ان کو اپنا ولی بنایا ہوا۔ اس لیے کہ ہمارے لیے وہی اچھا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک میں ان کو پرٹوکول بھی دینا پڑتا ہے؟ جس سے ہمارے کسی مربی کا تعلق ہو اور اسے بھی وہی مراعات دینا پڑتی ہیں جو ہم اپنے مربی کو دیتے ہیں ۔ صرف دعوے بڑے بڑے کرتے ہیں ۔ بہت سے سبز باغ دکھا تے ہیں لیکن کہیں سے اگر ایک “ ہالٹ “کاحکم فون پر بھی آجائے ؟ تو کسی ماتحت کی طرح گھبراہٹ میں کرسی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، سلوٹ مارکر اسوقت تک الرٹ کھڑے رہتے ہیں جب تک کہ فون بند نہ ہو جائے، جیسے کہ مربی فون پر بھی دیکھ رہا ہو ۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جو واقعی دیکھ رہا ہے اس سے قطعی نہیں ڈرتے؟ نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں“ حکومتی رٹ “کی رٹ بہت ہے ۔ مگر “ حکومت کی رٹ “عملی طور پر کہیں نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کریں کیا؟
جواب یہ ہے کہ حالات جب ہی درست ہوسکتے ہیں جبکہ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ دوبارہ استوار کرلیں، اور سچے مسلمان بن جا ئیں، جو اپنے لیے پسند کریں وہی عوام کے لیے بھی پسند کریں، تاکہ لوگوں کو انصاف مہیا ہو ؟ ورنہ کبھی خیبر پختون خوا میں ،تو کبھی بلوچستان میں تو کبھی ملک کے کسی اور حصے میں لوگ درندوں کے ہاتھوں شہید ہوتے رہیں گے ،معصوم بچے اور قوم کے محافظ گولیوں اور بموں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟سرکار سوگ مناتی رہے گی اور قوم ما تم کرتی رہی گی کبھی ایک واقعہ ہوگا کبھی دوسرا واقعہ ۔ پھر اس کے بعد لاکھوں کے معاوضے کا اعلان ہو گا۔ آخر یہ کھیل کب تک جاری رہے گا۔ کب تک ہم مصلحتوں کا شکار رہیں گے ۔ اس طرح تو قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا ئے گا۔ اور سال کے دن بھی سوگ کے لیے مخصوص کرتے کرتے ایک دن ختم ہوجائیں گےاور ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ سارے منصوبے دھرے کہ دھرے رہ جا ئیں گے ۔ ان سے متعلق جو بستیاں آباد ہونگی وہ کا لا باغ ڈیم کی طرح بھوت بستیاں بن جا ئیں گے۔ جیسے پہلے کہ ایک کا حشر ہو چکا ہے۔
حکمراں اگر پر تعیش زندگی نہیں چھوڑ سکتے ہیں اپنے عوام کا تحفظ حضرت عمر (رض) کی طرح نہیں کرسکتے ہیں۔توکم ازکم ان کی اس سنت پر ہی عمل کرلیں کہ جب وہ دلبرداشتہ ہو تے تھے۔ تو ان بستیوں کا رخ فرماتے تھے جو کبھی آباد تھیں۔ سونے گھرکے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز دیتے تھے۔ جب جواب نہیں آتا تھا تو جواب بھی خود ہی دے لیتے تھے؟ یہ سب سورہ القصص کے آخری رکوع میں ابن کثیر (رح) کی تفسیر میں پڑھ لیں اور وہیں آیت نمبر 83 اور 84 میں یہ بھی پڑھ لیں کہ جہا ں پہلی آیت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ ” جو دنیا سے نیکیا ں لے کر آئیں گے۔ا ن کو اس سے زیادہ ملے گا اور انہیں کو صرف جنت عطا کی جائے گی ” اس آیت کی یہاں زیادہ وضاحت نہیں ہے جبکہ دوسری جگہ وضاحت بھی ہے اور صلہ بے حساب بھی فرمایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خلوص پر منحصر ہے کہ نیک عمل خالصتا ً اللہ تعالیٰ کے لیے تھا؟ یہاں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ دکھاوے کے لیے یاکسی غیر اللہ کے لیے نہ ہو ورنہ۔۔۔ صفر بھی ہوسکتا ہے؟ جبکہ آیت 84میں یہ لکھا ہے کہ جو وہاں سے برا ئیاں لیکر آئیں گے انہیں اتنی ہی سزا دی جا ئے گی۔ جتنی برائیاں وہ لیکر آئیں۔ مگر یہ آئتیں، پورا قرآن اور حضور (ص) کاا سوہ حسنہ ان سب کے لیئے یا اس کے لیے ہے۔ جو اس پر یقین رکھتا ہو، تبھی مانے گا کہ اللہ مجھ پر نگراں ہے اور وہ دانا اور بینا بھی ہے؟ نیز مجھے ایک دن اس کے سامنے پیش ہو نا ہے۔ اور اپنا ہی نہیں اپنی پھیلائی ہوئی برا ئیوں کا بھی حساب دینا ہے اور اپنے ان ساتھیوں کا بھی حساب دینا ہے جن پر میں نے آج مصلحتاً آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہم سب کو عمل کرنے کی ہدایت دے اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین ورنہ سورہ عنکبوت کی آیت 23  پڑھ لیں جہاں صاف صاف فرمادیا گیا ہے۔ “ برائیاں کرنے والے میری رحمت سے مایوس ہوجائیں “

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.