میرے کچھ انتہائی مخلص دوستوں کی رائے ہے کہ “ تمہارے حالات حاضرہ پر لکھے ہوئے کالم بھی وقت کے ساتھ نہیں مرتے اس لیے کہ، جس طرح تم نے تاریخِ ِ اسلامی میں پرانی روش کو بدل کر ایک نیا طرز اپنایا اسی طرح یہاں بھی تم نے طنز و مزاح کے ذریعہ دین کا پیغام پہونچانے کی کامیاب کوشش کی ہے،جسے پڑھنے والوں نے بے انتہا پسند کیا۔ لہذا یہ کالم بھی تاریخ کی طرح کتابی شکل میں شائع ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ اور بات تھی کہ اس میں حضور (ص) ، صحابہ کرام اور صحابیات (رض) کی سیرت سے ابھی تک کچھ مسلمانوں کو دلچسپی تھی، جب کہ دین پر عمل کرنے میں اب کسی کو دلچسپی نہیں ، صرف مسلمان کہلانے میں دلچسپی ہے؟ عمل اور وضاحت کاکام ماڈرن مسلمانوں نے شدت پسندوں کے لیے چھوڑرکھا ہے تاکہ وہ جو چاہیں اسلام کو معنی پہنائیں۔ حالانکہ قر آن کہہ رہا ہے کہ “ دین کے معاملہ میں جبر نہیں ہے “ پھر القائدہ اور اسکی کوکھ سے پیدا ہونے والے گروہ جو اسلام کے نام پر ظلم ڈھا رہے ہیں اس کی سند کیا ہے؟ جبکہ یہ ہیں بھی ایک ہی مکتبہ فکر کے لوگ؟ دوسرے یہ کہ ہم 1944 سے لکھ رہے ہیں۔ جو زیادہ تر ضائع ہوچکا ہے، صرف کمپیوٹر کے دور کا کام محفوظ ہے وہ بھی کم ازکم پانچ ہزار کالم ہیں؟ انہوں نے جواب میں مشورہ دیا کہ ایک سوکالم چھانٹ لو اور ان کو کتابی شکل میں شائع کردو۔ چونکہ ہم ان کی بات ٹال نہیں سکتے تھے حالانکہ ان کو پڑھنا اورمنتخب کرنا بھی ایک کار کثیر ہے؟ کالم پڑھنا شروع کیے تو احساس ہوا کہ بدلا کچھ نہیں ہے صرف جدید اور قدیم طریقہ کارکا فرق ہے۔ لہذانمونے کے طور پر ایک پرانا کالم پیش کر رہے ہیں؟ تاکہ پڑھنے والوں کی رائے معلوم کریں جبکہ ہمارے یہاں عوام کی رائے معلوم کرنے کی بدعت رائج نہیں ہے؟
“ غیر منقسم ہندو ستا ن میں جس کو کہ اس کے دستور کے مطا بق “اب بھا رت یعنی کہ انڈیا کہا جا تا ہے “ایک شہر تھا سلطا ن پو ر اس کی و جہ تسمیہ ہمیں معلو م نہیں کہ اسے کو ن سے سلطا ن نے آبا د کیا، یا کسی ابن ِ سلطا ن نے بسایا ؟ البتہ یہ پٹھا نو ں کی بستی تھی ۔وہاں بہت سی نا مو ر ہستیاں پیدا ہو ئیں ان میں ایک مشہو ر شا عر مجر وح سلطا ن پو ری اور دوسرے ہما رے ایک دوست اور ہزل گو شاعر جنا ب سیف سلطا ن پو ری مر حوم تھے۔جن کا ایک شعر ہم آپ کو سنا ئے دیتے ہیں کہ جس سے آپکو پتہ چلے کہ وہ کس پائے کے شا عر تھے ۔ فر ما تے ہیں ع۔ “ وہا ں تو ایک سے ایک گو یا ٹیڈیا ں ہو نگی ، نما ئش میں تمہیں منےّ کی اما ں کو ن پو چھے گا “ انہیں نے ہمیں ایک وا قعہ سنا یا کہ “ وہا ں تین بھا ئی رہتے تھے اور کچھ نہیں کر تے تھے مگر گزر بسر بڑے آرا م سے ہو تی تھی ۔ ان کا طر یقہ وا ردات یہ تھا کہ دو بھا ئی صبح ہی صبح جنگل کی طر ف نکل جا تے شکا ر کی تلا ش میں اور سڑک پر پہرا دیتے رہتے ۔اکثر بیچا رے دیہا تی اپنے او نٹو ں پر سا ما ن لا دھ کر شہر فروخت کرنے آتے ، غلطی سے سڑک پر لگے درخت کو منہ ما ر لیتے کہ اونٹ جو ہوئے؟ بس پھر آگے ان کا کام تھا ان میں سے ایک اونٹ پکڑ لیتا ۔ کہ اس نے سر کا ری در خت کو نقصا ن پہنچا یا ہے لہذا چلو تھا نے اس زما نے میں دیہا تی تھا نے کچہری سے کچھ ایسے بھا گتے تھے جیسے قصا ئی کے نا م سے گا ئے ۔ لہذا وہ خو شا مد در آمد کر تے اور یہ نہ، نہ کر تا رہتا! اسی دو را ن دوسرا بھا ئی کہیں سے ظاہر ہوتا اور کہتا یہ تو بڑا کمینہ ہے! ایسے نہیں ما نے گا شہر چلا جا پتہ میں دیتا ہو ں اس کے بڑے بھا ئی کے پا س۔ وہ بیچا رہ شہر چلا جا تا ۔ وہا ں بڑے بھا ئی جو تے پہنے تیا رہو تے کہ میں تو کا م پر جا رہا ہو ں، بھا ئی مجھے بچو ں کا پیٹ پا لنا ہے وہ کہتا حضور دن بھر کی مزدو ری میں دیدو نگا؟ تو وہ کہتے کہ تو نہیں ما نتا ہے تو لا دے مزدو ری اور لا تا نگہ؟ منہ ما نگی مز دو ری ملتی اور تا نگے پر بیٹھ کر وہ ساتھ چلتے ۔اور جیسے ہی وہ سعا دتمند برادرِ خورد بڑے بھا ئی کو آتا دیکھتاتو او نٹ چھو ڑ کر فرا ر ہو جا تا، اور جب یہ وہا ں پہونچتے تو وہ بھا ئی جس نے پتہ بتا یا تھا ایک گا لی دیکر کہتا دیکھا بھا گ گیا نہ اور اس طر ح ان کی رو ٹی ملک کے بٹوا رے تک اچھی طرح چلتی رہی۔
ملک تقسیم ہوگیااور پا کستا ن بن گیا پھر کیا تھا ایسے لو گو ں کی لا ٹری نکل آئی کیو نکہ جو صا حب ِ حیثیت لوگ تھے وہ مذبذب رہے بعد میں پہو نچے ،جب کہ ہر طر ح کا بٹوارہ پہلے ہو چکا تھا جبکہ یہ طبقہِ مہا جرین پہلی یلغار کا ہر اول بنا اور کچھ سے کچھ بن گیا، وہی او نٹ چھڑانےوا لا یہا ں آکر کراچی کی سیاست میں جگہ پکڑ ،لیڈر بن گیا ۔یہ ہم نے آگے پو چھا نہیں اور انہوں نے بتا یا بھی نہیں کہ با قی دو کا کیا بنا؟ کیو نکہ ہم میں یہ خرا بی ہے کہ ہم ذاتی قسم کے سوا ل ذرا کم ہی کر تے ہیں ۔ ہمیں تو سمجھا نا یہ مقصو د تھا کہ امیج کیسے بنا یا جا تا ہے اور اس سے کا م کیسے لیا جا تا ہے۔ کیو نکہ آجکل آزادی ِ صحا فت کا ایک ڈرامہ الجز یر ہ ٹی وی کے نا م سے چلا یا جا رہا ہے ۔جو اچا نک عراق کی جنگ سے شروع ہو ا اور آپ نے سنا ہو تو سنا ہو؟ مگر ہم نے جبھی پہلی دفعہ سنا اور اب تک جو کا م اس کو سو نپا گیا وہ اس نے بہ خو بی انجا م دیا۔جب تک جنگ جا ری رہی وہ وہ خبر یں دکھا تا رہا اور اس کے بعد جب کبھی اس ڈرا مہ کا امیج ٹو ٹا اس نے فو را ً بر مو قعہ ایک ویڈیو اسا مہ بن لا دن کی یا اس کے کسی ما تحت کی جا ری کر دی تا کہ نشہ ٹو ٹے نہیں اور عوام خوا ب سے نکل نہ پائیں۔ اس کے لیئے ضرو ری ہے کہ ان کو ڈرا تے رہو جیسے بچو ں کے لیئے “ بیچا “ اب ایک اور انکشا ف ہو ا کہ جنا ب بش صا حب اس ٹی وی پر فو ج کشی یعنی بمبا ر منٹ کر نے والے تھے ۔مگر خدا بھلا کرے ٹو نی بلیر صاحب کا جو کہ اپنے یہاں آزادی ِ صحا فت کا اعلٰی معیار قا ئم رکھنے کے لیئے مشہو رہیں ۔انہو ں نے صدر بش کو رو کا کہ یہ آزا دی صحافت پر حملہ ہو گا ۔یہ با لکل ایسا ہے جیسے کہ چو زے کو تو پ سے شکا ر کیا جا ئے( امیج بڑھا نے کی با ت اور ہے ) ہم نے اسی قسم کی حما قت پر ایک شکا ری کہ گنجے سر پر ٹیپیں لگتے دیکھیں؟ہو ا یہ کہ لو گ جنگلی مر غ کے شکا ر کو گئے جس میں شکا ری کو پہلے خو د مر غا بننا پڑتا ہے ، بقیہ شکا ری تو اس “ بجھیا“ میں گھس گئے اور عقلمند شکا ری کو چا ر سو پینسنٹھ بو ر کی را ئیفل دیکر بجھیا (جنگلی جھاڑیوں کاجمگھٹا ) کے دا خلی در وا زہ پر کھڑا کر دیا کہ کو ئی در ندہ شکا ریو ں کا نہ شکا ر کر لے ؟انہو ں نے اپنے سر پر ایک مر غ کو بیٹھے دیکھا تو اپنی خو نخوا رگی نہ دبا سکے اور اس پر را ئیفل سے فا ئر کر دیا بقول ان کے وہ ننھی سی جا ن کئی فر لا نگ تک تو گو لی کے سا تھ جا تی ہو ئی دکھا ئی دی پھر نگا ہو ں سے اوجھل ہو گئی ؟اس کے بعدان شکا ریو ں کو شکا ر کر نے کے لیئے کچھ نہیں رہ گیا تھا کیونکہ ایک مر غ نے جا ن دے کر سب کی جا ں بخشی کرا دی تھی، یعنی با قی پرندے گو لی کی آوا ز سن کر پھر سے اڑ گئے ،اور اس بیچا رے کو خوا مخوا ہ اس کا ر نا مے پر ٹیپو ں کا نشا نہ بننا پڑا ،حالانکہ وہ کم ازکم تمغہ جرا ت کا مستحق تو تھا ہی۔ اب رہا “الجزیرہ ٹی وی“ اس کو بند کر نے کا آسا ن نسخہ تو یہ تھا کہ جو اس پو رے جزیر ے کا ما لک ( شیخ )ہے اس کو بش صا حب کا پٹے وا لا فو ن پر کہہ دیتا تو اس کا پیشا ب خطا ہو جا تا اور وہ الجزیرہ کے سا رے ٹین ٹپر اٹھوا کر امریکہ بھجو ادیتا، اسکے لیے اتنے جتن کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ آپ نے یہ تو دیکھا ہو گا کہ طو طا اپنے ما لک کے کہنے سے تو پ میں فلیتہ لگا کر چلا تا ہے مگر کبھی تو پ طو طے کے اوپر نہیں چلتی ۔آپ پو چھیں گے کہ صدام پر کیو ں چلی؟ کیو نکہ اس کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ اس لیئے وہ بہت بڑی طا قت بناد یا گیا؟جس سے کہ دنیا کو خطر ہ پیدا ہو گیا تھا؟ دوسری وجہ یہ تھی کہ “ خو گر حمد “ منہ زور ہو گیا تھا اور گلہ کر نے لگا تھا ۔اور تیسری وجہ یہ تجر بہ بھی کر نا تھا کہ کو ئی ملک فتح کر کے وا ئسرا ئے کہ ذریعہ اس دو ر میں بھی حکو مت چلا ئی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ چو تھی اور آخری با ت یہ تھی کہ اس حکو مت میں ان کا بھی حق بنتا تھا کہ تیل کی کمائی میں حصہ بٹائیں ۔ جوآخر بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے آئے اور کسی کو لا ئے تھے ۔اور تیل تو تلو ں میں سے ہی نکلنا تھا۔ مگر برا ہو القا عدہ وا لوں کا کہ بیچ میں آجا تے ہیں ۔ جس طر ح پہلے زما نہ میں انڈیا میں بر طا نیہ کا را ج تھا ۔ تو ہر خطہ میں ایک آدھ نا می گرا می ڈا کو ضرور ہو تا تھا، جسے پو لس والے زندہ رکھتے تھے ۔کہ پو لس کے سا تھ ملکر سب چو راچکے وا ردا ت کر تے رہتے اور ہر وا ردات اس ڈا کو کے کھا تے میں لکھی جا تی رہے جو اس علا قے میں ہو تی ۔اس سے ایک پنتھ دو کا ج ہو جا تے ،یعنی اس کے نا م پر پو لس اور بہت سو ں کا بھلا ہو تا ۔ بالکل یہ ہی صو رت حا ل اب القا عدہ کی ہے کہ اس دنیا میں کہیں بھی پتہ ہلا اور وا ئٹ ہا ؤس کی دیوا ریں چلا نے لگیں ،بلکہ کورس میں گا نے لگیں القا ئدہ القا ئدہ، القا ئدہ۔ہما رے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنگی جنو ن جا ری رکھنے کے لیئے القائدہ ضروری ہے اور القا ئدہ کو زند ہ رکھنے کے لیئے الجزیرہ ۔کل ہم نے ایک ایسے ہی آزا د ٹی وی چینل کو دیکھا جس میں ور جینا یو نیو رسٹی کے ایک پرو فیسر سے سوا ل کیا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ آج کل امر یکہ اخبا ر اورایڈیٹرو ں کو خرید رہا ہے ؟انہو ں نے جو اب دیا کہ بھو لے با د شا و یہ کو ئی نئی گل نئیں ہیگی۔ یہ تو ہمیشہ سے ہو تا آیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تا اور اسلامی و ایشا ئی ملکو ں میں اخبا ر اور مد یر نہ خریدے جا تے تو ،یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک جھگی سے شروع ہو نا والا پاکستانی اخبا ر نہ صرف ملٹی اسٹوری بلڈنگ میں ہو تا اور ملٹی ملینر ہو تا بلکہ ورلڈ ٹی وی چینل کا مالک بھی ۔ ورنہ اس کا انجا م بھی “ روزنا مہ انجا م “ جیسا نہ ہو تا کہ اپنی کم سنی میں ہی اللہ کو پیا را ہو گیا ہوتا ۔جس میں تحریک ِ پا کستا ن کے اچھے، اچھے لکھنے وا لے مو جو د تھے۔ مگر اس کا جھکا ؤ ذرا پا کستا ن کی طر ف زیا دہ تھا اور قصرِابیض کی طر ف کم۔ہم نے بہت سے کہنے وا لوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اس کے با وجو د کہ ویزا کی پا لیسی بڑی سخت تھی مگر امریکہ میں وہ غیر قا نو نی امیگر نٹ اس سے مستثنیٰ تھے جو یہاں رہ کر ا ور واپس جاکر ان کے کام آئیں ۔ بہر حال آج کے دو ر میں میڈیا ۔ہی سب کچھ ہے اور ہما رے آقا ئے نعمت نے یہ با ت بڑی حد تک بہت پہلے ہی محسو س کر لی تھی۔ کہ یہ ہی وہ کنجی ہے جس سے عوام کی عقلوں پر پر دے ڈا لے جا سکتے ہیں ۔اور یہ پو ری انڈسٹری انہوں نے خو د نہیں خریدی بلکہ اپنے کا رندوں کو خریدوا دی ۔مگر ہمیں خبر اب ہو ئی وہ بھی خر ید ی ہو ئی میڈیا کے ذریعہ۔ یہ اور با ت ہے کہ وہ کا رندے خو د با د شا ہ گر بن گئے ۔اور با د شا ہ سلا مت کی حا لت ان کے سا منے پتلی ہے ۔مگر یہاں یہ اصو ل کا ر فر ما ہے کہ دشمن کا دشمن دو ست ہو تا ہے لہذا جو میڈیا اسی کا م پر لگی ہو ئی ہے وہ دو ست ہے۔ ہم بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ کچھ نہیں ہے ، اصل مقصد مسلمان تارکین وطن کی بڑھتی ہو ئی یلغا ر کو رو کنا ہے ۔مگر اس کو لو گ ہما را وہم کہتے تھے ۔ لیکن بلی اب تھیلے سے با ہر نکل آئی ہے ۔لو گ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ جس طر ح کمیو نز م کو ختم کر دیا اسی طر ح ہم انتہا پسند وں کو بھی ختم کر دینگے ۔اگر اس کے معنی بین السطو ر بھی وہی ہیں جو کہہ رہے ہیں ۔ تو ہم بھی کہنے وا لو ں سے متفق ہیں؟ کیو نکہ یہ کئی مر تبہ پہلے بھی ہوا کہ اسلام میں انتہا پسندی آئی اور اپنی مو ت آپ مر گئی؟ مگر اسلا م زند ہ رہا اور بڑھتا رہا مگر کسی کا مقصد وہ نہیں ہے جو وہ زبا ن سے کہہ رہا ؟ بلکہ اسلام اور مسلما نو ں پر عر صہ حیا ت تنگ کر نا ہے اور اس نا م پر ان سے تما م انسا نی حقو ق چھیننا ہیں اور اسلام کو مٹا نا مقصود ہے ۔تو پھر ہم یہ کہینں گے کہ “ایں خیا ل است محال است جنو ں “ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ“ گمراہوں“ کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے میں اس دین کو بلند کرکے رہوںگا۔ “
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے