یہاں میں نے اس بچی کے ساتھ شہید علم کا لقب استعمال کیا ہے۔ اس سے ایک نئی بحث جنم لے سکتی ہے، اور میری جواب طلبی ہوسکتی ہے کہ تم نے یہ جرات کیسے کی؟ اسکے جواب میں عرض ہے میں یہاں “اسلامی اصطلاح میں جو شہادت کے معنی ہیں اسکی بات نہیں کر رہا ہوں“ بلکہ اردو لغت میں یہ لفظ شامل ہونے کے بعد اب چونکہ یہ ہرایک استعمال کر رہا اور سب کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ چاہیں مرنے والا اپنے اقتدار کے لیے مرا ہوا یا کسی اور مقصد لیے ؟مگرا سکے مدح خواں اسے شہید ہی کہتے ،لکھتے اور بولتے ہیں ؟ اور کسی حلقے کی طرف سے اس کے اس استعمال پراحتجاج نہیں ہوا،لہذا “ متفق علیہ “ سمجھ کر میں بھی ان ہی معنوں میں ا سے استعمال کر رہا ہو جس میں سب کر رہے ہیں؟
مسلمان اور کسی بات متفق ہوں یا نہ ہوں؟ مگر ان چیزوں پر متفق ہیں سب سے پہلے تو جہالت پر اور خصوصاً خواتین کو جاہل رکھنے پر، اس میں سب ہی شامل ہیں چاہیں وہ سلفی ہوں، شدت پسند ہوں یاماڈرن۔ جی ہاں ماڈرن بھی؟ اور اس میں یہ بھی نہیں کہ وہ صرف مرد ہیں بلکہ خواتین بھی ان میں شامل ہیں جس کا تازہ ثبوت بلوچستان کی ایک بیٹی ثاقبہ حکیم ہے جس نے اپنی ہی ہم جنس پرنسپل کے ظلم کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کر لی۔ اس لیے کہ وہ علم سے عشق رکھتی تھی اورپرنسپل نے اس کے انٹر میڈیٹ کے انرول منٹ فارم اس لیے فارورڈ نہیں کیے کہ اس نے بلوچستان کے دور دراز ضلع قلعہ عبداللہ کے مسلم باغ سے کوئٹہ آکر ایک مرتبہ اس احتجاج میں طالبات کی قیادت کی تھی کہ اس سکول میں اسا تذہ کی کمی ہے۔ جب تک خواتین استانیاں تیار نہ ہوں جوکہ تازہ بھرتی ہوئی ہیں اور سفارشی ہونے کی وجہ سے فل الحال طالبات سے کم تر علم رکھتی ہیں! انہیں علم سیکھنے دیں اور اسوقت تک اس درسگاہ میں پرانے مرد اساتذہ کوئی ہی رہنے دیا جائے۔ تاکہ اس کی اور اسکی ساتھی طالبات کی عمریں اور حصول علم کے لیے کاوشیں بے کار نہ جائیں ؟ یہ ہی بات پرنسپل صاحبہ اپنے دل پر لے بیٹھیں اور اسکے باوجود کہ بچی کے والد نے معافی بھی بڑوں کی شرائط کے مطابق مانگ لی! مگرپرنسپل کا دل نہ پسیجا ! اوراس کے فارم دبا دیئے گئے ،فارورڈ نہیں کیے گئے تو ثاقبہ نے دل برداشتہ ہو کر اور زہر کھاکر خود کشی کرلی جو اسے آسان نظر آئی۔ یہ خبر بھی روایت کے مطابق میڈیا میں چند دنوں چلے گی اسکے بعد آپ اس کانام بھی نہیں سنیں گے کہ اس نام کی کوئی مظلومہ بھی تھی۔ چونکہ پرنسپل خاندانی ہیں جوکہ معطل ہوئی ہیں،وہ چپچپاتے ہی کچھ دنوں کے بعدبہال ہوجائیں گی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی؟ اس لیئے کہ اس خبر میں کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے! کچھ دنوں کے بعد میڈیا کو بھی کوئی دلچسپی نہیں رہے گی کہ اس کے پاس کوئی تازہ خبر آگئی ہوگی۔
مطعون بھی وہ ہی بچی قرار پائے گی کہ وہ معاشرہ ہی ایسا ہے اور اس نے خودکشی کرکے بہت بڑا جرم کیا ہے؟ لہذا وہاں کے علما ءجوکہ حکومت میں ہیں وہ تو اس لیے اس کی دادرسی نہیں کرسکتے کہ وہ تو ویسے ہی چادر اور چار دیواری کے محافظ ہیں۔ پہلا جرم تو اس نے یہ کیا کہ علم کے لیے گھر سے باہر نکلی دوسرا یہ کہ اس نے جان دینے میں حرام طریقہ استعمال کیا، یعنی خوکشی کی مرتکب ہوئی جو حرام ہے ۔ اگر ان سے مشورہ کرتی تو وہ اسے صحیح راستہ بتادیتے کہ کہیں جاکر پھٹ پڑے اور شہیدوں میں نام لکھالے؟ رہے سر دار وہ اس لیے اس کی حمایت نہیں کریں گے؟ وہ خاتون تھی، وہ تو مردوں کی تعلیم میں بھی روڑے اٹکانے کے عادی ہیں؟ اور غیرت کے نام پر صنف نازک کو زندہ دفن کرنے کا بطور پنچایتی حکم آئے دن دیتے رہتے ہیں۔ اول تو وہ اسکول کو اپنی جاگیروں میں بننے نہیں دیتے اگرپھر بھی بن جائیں تو چلنے نہیں دیتے ؟اسکی بہت سی وجوہات ہیں ؟ پہلی تو یہ ہے کہ لوگ پڑھ لکھ سمجھدار ہوجاتے ہیں ،کل تک جو ان کے سامنے سر نہیں اٹھاتے تھے سائیں، سائیں کرتے اور ان کے پیر چھوتے تھے !وہ نہ سہی ان کے بیٹے، پڑھ لکھ کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگتے ہیں ۔ دوسرے وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے علاقے میں کوئی غیر مردآکر رہے لہذا اپنے آدمی بطور ٹیچر بھرتی کراتے ہیں جو اکثر گھر بیٹھے رہتے ہیں ۔ کچھ کی تنخواہ وہ خود اور کچھ کی تنخواہ ان کے بندے گھر بیٹھ کر لیتے رہتے ہیں ۔ رہی اسکول کی بلنڈنگ اگر وہ بستی میں ہو توسائیں کے اوطاق (یبٹھک) کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اگر وہ گاؤں سے باہر ہے تو اس میں جانور بھی نہیں باندھے جاسکتے کہ ان کے چوری ہوجانے کاخطرہ ہو تا ہے۔ لہذا ہر ضرورت مند کو اجازت ہوتی ہے کہ اسے اس بلنڈ گ کی جس چیز کی ضرورت ہو لے جاسکتا ہے ،پھر وہ آہستہ آہستہ آثارات قدیمہ میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
اس قسم کے اسکینڈل آجکل میڈیا ہر روز اجاگر کرتی رہتی ہے ؟ کیونکہ نمائندے کو دوبارہ اس علاقہ میں جانا نہیں ہو تا ،اگر چلا جائے تو پھر واپسی کا اللہ ہی مالک ہے۔ دوسری طرف شدت پسند ہیں جن کے نزدیک عورت کی آواز دروازے کے باہر نہیں سنائی دینا چاہئے؟ ان کے نزدیک تعلیم نسواں حرام ہے ، جبکہ اسلام کہتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے اگر چین تک جانا پڑے تو جاؤ؟ اور علم سیکھنے اور سکھانے کو بہت بڑا دینی فریضہ قرار دیا گیا ہے؟ مگر انہوں نے جہاں جہاں ان کی پہونچ تھی وہاں کوئی زنانہ اسکول نہیں چھوڑا ان کا مزاحم کوئی سردار یاوڈیرہ کیوں ہو؟ “ یعنی ہوئے تم دوست جس کے اسکا دشمن آسماں کیوں ہو “
اس لیے کہ ن کے ماننے تو ان کے ووٹر ہیں ۔ اور انہیں ان عہدوں تک پہونچاتے ہیں جہاں آجکل وہ پہونچے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں کوئی آسمان سے اترے تو ہی کچھ کر سکتا ہے۔ زمینی مخلوق صرف شور اور غوغا ہی کر سکتی ہے وہ بھی اتنا ہی ، جنتی اجازت ہو؟ اس سے بڑھیں تو گولی سے تواضع ہوتی ہے۔ گولی کدھر سے آتی ہے۔ عموماً پتہ ہی نہیں چلتا، اگر چل جائے تو گواہ نہیں ملتے، مل بھی جائیں تو با اثر لوگوں کے دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتے؟ اگر یہ سب کچھ بھی کسی کو حاصل ہوجائے تو وکیلوں کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے ان کی عمریں کم پڑجاتی ہیں اور عدالتوں کی پیشیاں بھگتے ، ہوئے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔
جبکہ سورہ روم کی آیت نمبر 41میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ” ظھرالفسادفی البرّوالبحر بما کسبت اایدی الناس لذقیھم بعض الذی عملوالعلھم یرجعون ہ جس کا اردوترجمہ یہ ہے کہ جب لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث خشکی اور تری میں میں مصیبتیں آن پڑیں اسلیے کہ ا ن کی بعض کرتوتوں کا ذائقہ (اللہ) انہیں چکھادے ،بہت ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں ” بہت سی دوسری جگہ قرآن میں بار بار یہ ہی مضمون اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دہرایا ہے کہ ” جب نافرمانیاں حد سے بڑھ جائیں تو ہم طرح طرح کے عذاب بھیجتے ہیں، تاکہ لوگ ڈر کر ہم سے رجوع کرلیں اور ہم ان کی توبہ کے بعد اپنے عذاب ان سے ہٹالیں؟ اس لیے کہ ہم کسی کو سزا دیکر خوش نہیں ہیں ؟ بس ہماری بات مان لیاکرو ” مگر ہماری ادا یہ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کی بات نہیں مانتے؟ اگر مانتے ہوتے تو ہم اسکے رسول(ص) کے راستے پر چلتے جس کے بارے میں یہ اس کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص)کا اسوہ حسنہ کافی ہے۔ اور جب صورت ِ حال یہ ہوجائے جس ملک کی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ؟ تواگلی آیت42 میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم چل پھر کر دیکھو کہ ہمارے ہاتھوں نا فرمانوں کا کیا انجام ہوا ۔۔۔الخ۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ“ جو کوئی بھی جیسا کچھ کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے “ پھر سورہ روم کی آیت نمبر 57 میں یہ فرماکر بات ختم فرمادی ہے کہ آج (بروز ِ قیامت) ظالموں کے کوئی عذر و معذرت کچھ کام نہیں آئے گی اور نہ ہی توبہ کی اجازت ہوگی۔
جبکہ ہم مسلمان مطمعن ہیں کہ ہم اس کی بات مانے یا نہ مانیں بس اس کا کلمہ پڑھ لیا ہے لہذا جنت پکی ہے؟ کیونکہ ہمارے علماءکہتے ہیں کہ ہم کلمہ گو ہیں ان (ص) کی امت ہیں جس پر عذاب آہی نہیں سکتا ،چاہیں وہ کچھ بھی کرتی رہے جنت اس کا حق ہے۔ کچھ گناہ ہوئے تو وہ اپنی رحمت سے معاف کردیگا، یا ہم نبی (ص) کی چادر میں پناہ لے لیں گے؟ لہذا مسلمان فکر کریں تو کیوں ؟جبکہ نبی (ص) فرما گئے ہیں کہ بے عمل ہم میں سے نہیں ؟ جھوٹا ہم میں سے نہیں ۔ بد عہد ہم میں سے نہیں ہے ، خائن ہم میں سے نہیں ، بد اخلاق ہم میں سے نہیں ، بد زبان ہم میں سے نہیں ہے اور ظالم ہم میں سے نہیں ہیں غاصب ہم میں سے نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔؟ جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاقول ہے کہ “ انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر جہاں عدل نہ ہووہاں زندہ نہیں رہ سکتا، حضرت عمر (رض)جوکہ اپنے بے مثال عدل کے لیے مشہور ہیں ان کی نصیحت حضرت سعد بن وقاص (رض)کو فارس بھیجتے ہوئے یہ تھی جو کہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور حضور (ص) کے ماموں بھی تھے؟ کہ دیکھو تمہیں یہ غرور ہلاک نہ کردے کہ تم حضور (ص) کے رشتہ دار ہو ؟ کیونکہ اللہ کی کسی کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہے سوائے اطاعت کے؟ پھرنہ جانے ہم اپنی مرضی کی توضیحات کہاں سے لاتے ہیں؟ حتیٰ کہ ہم سورہ الانعام کی آیت65 کو بھی بھول جاتے ہیں۔ جس کے نزول پر حضور (ص) سب سے زیادہ پریشان ہوئے تھے۔ جس کی تفسیر میں ابن ِ کثیر (رح) نے پوری تفصیل دی ہے جس سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا یہ جز باقی رکھا جو منظرہم آج کل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہ ہم تکڑیوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں؟ ہمارے نزدیک ظلم انصاف ہے اور ظالم معصوم ہیں۔ اس سلسلہ میں صرف ایک راستہ بچا ہے وہ ہے اجتماعی توبہ اور اللہ کی طرف واپسی؟ جو میں سالوں سے کہہ رہا ہوں؟ مگر اب میڈیا کادور ہے اور وہ بھی کہنے لگے ہیں جو میڈیا میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے؟ (آمین) اس سے پہلے کہ یہ چھوٹے چھوٹے جھٹکے کسی بڑے طوفان میں نہ بدل جائیں؟ کیونکہ مظلوموں کی آہیں کبھی خالی نہیں جاتیں؟