صعّرا “ اونٹ سی ٹیڑھی گردن (2)…از ۔۔۔ شمس جیلانی

ہم نے گزشتہ مضمون میں وعدہ کیا تھا کہ ہم حضرت لقمان (رح) کی حکمت بھری باتوں کو جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پسند فرمایا اور قرآن کا حصہ بناد یا، اگلی قسط میں پیش کریں گے۔ تاکہ تمام مسلمان اس سے مستفید ہوسکیں۔ گزشتہ قسط میں ہم نے آیت نمبر12تک بات کی تھی۔ اب ہم آیت 13 سے15 تک بات کریں گے۔اگلی آیت میں جس ظلم کی طرف اشارہ کیا ہے اس ظلم میں ہم آجکل بری طرح مبتلا ہیں اور اسے مذہب سمجھ کر کر رہے اس طرح ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔آگے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے ۔
“ اے میرے پیارے بچو! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے؟ ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے بارے میں ہدایت کی، اس کی ماں نے ضعف پرضعف تکلیف اٹھا کراسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ پلائی دوبرس ہے۔توُ میرے اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر،میری طرف لوٹ کر آنا ہے (14)۔ اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کے لیئے دباؤ ڈالیں کہ تواسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہوتو توُان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے بسر کرنااور اس کے پیچھے چلنا جس کا جھکاؤ میری طرف ہے۔ تمہارا سب کا لوٹ کر آنا میری طرف ہے۔تم جو کچھ کرتے ہو اس سے میں خبردار کردونگا۔ (15)
یہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ جن باتوں پر زوردے رہا ہے ان میں سے سب سے اہم ہے شرک سے بچنا جسے کہ ا س نے ظلم سے تعبیر فرمایا ہے؟ ہماری زبان میں ظلم اس کو کہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی جائے ,جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک کسی کے ،کسی بھی قسم کے جائز حق کا انکارظلم ہے۔ جس میں سب سے پہلا حق خالق حقیقی اللہ سحانہ تعالیٰ کا ہے اور دوسرا خالق ِ مجازی کاہے۔ وہ ہیں اس کے ماں باپ کیونکہ ماں مسلسل نو ماہ تکلیف اٹھاکرا نسان کو پال پوس کر بڑاکرتی ہے ،دوسری جگہ ماں کے بارے میں حکم یہاں تک ہے کہ ان کے سامنے اف بھی نہ کرنا؟ لیکن وہ بھی اگر شرک کو کہیں تو تم نہ ماننا اور اس سلسلہ میں کوئی تناؤ پیداہو جائے تو اس کی طرف جھکنا جو کہ میری بلاتا ہے۔ اس کے باوجو دبھی دنیا وی معاملات میں ان کے ساتھ بہترین بر تاؤ کرنا؟جبکہ ہم جو کرتے ہیں اس کا قطعی الٹ ہے کہ ہم ہر کام میں اللہ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ حلانکہ بحیثیت مسلمان ہمیں ہر بات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کو ہی ترجیح دینا چاہیے۔آج ہم اپنا رویہ دیکھیں تو ہم میں جو برائیاں نظر آئیں گی ان میں سب سے پہلی “ظلم “ہے جو کہ اللہ تعالیٰ سے شروع ہوکر ماں باپ سے ہوتی ہوئی معاشرے تک پہونچی ہو ئی ہے؟ اور معا شرہ اتنا بے حس ہوچکا ہے کہ اسے معیوب بھی نہیں سمجھتا، پھر بھی ہم کہتے خود کو مسلمان ہیں؟اور ہماری ان ہی حرکتوں کی وجہ سے اسلام دنیا بھرمیں بدنام ہورہا ہے۔ جبکہ المیہ یہ ہے کہ نئی نسل اسلام سے دور ہو تی جارہی ہے؟ آپ میری بات نہ مانیں مسجدوں میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ نئی نسل وہاں آپ کوخال، خال ہی نظر آئے گی۔ وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے ماں باپ سے پوچھتے ہیں کہ دنیا میں یہ جو کچھ اسلام کے دعوےدار کر رہے ہیں؟ کیا یہ ہی ہمارا دین ہیں ؟ تو وہ اپنی کم علمی یا پھر کسی خوف کی بنا پر کہ وہ سب سے ڈرتے ہیں سوائے اللہ کے؟ پنا منہ کھولنے کی ہمت نہیں کرتے ۔ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ سب سے زیادہ مجھ سے ڈرو اور ایسے ڈرو جیسا کہ مجھ سے ڈرنے کا حق ہے۔ کیا اس طرح ہم اس کا حق ادا کر رہے ہیں جو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہم سب سے وہ توقع فرماتا ہے؟ اس آیت میں جن کی طرف جھکنے کاحکم ہے وہ، وہ ہیں جن کا نام محمدمصطفی (ص) ہے ۔ کیونکہ ان کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بہت ہی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کا اسوہ حسنہ کافی ہے۔ اور اس کا جواب بھی پوچھے بغیر دیدیا ہے کہ کیوں کافی ہے ؟ وہ وجہ یہ ہے کہ وہ “اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے وہی فر ماتے ہیں جو انکی طرف ہماری طرف سے وحی کیا جاتا ہے“ اس لیے کہ ہم نے انہیں تمہاری طرف بشیر اور نذیر یعنی( خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا) بنا کر بھیجا ہے۔ لہذا سب کو چھوڑ کر ان کا اتباع کرو؟ س سے واضح ہوتا ہے اوپر کی آیت میں بھی انہیں (ص) کی طرف اشارہ ہے ، جبکہ وہ (ص) فرما گئے ہیں کہ “ وہ فلاح پا گیا جس نے میرا (ص) اتبا ع کیا ،یا ان کا اتباع کیا جومیرے ساتھی (صحابہ) آج میرے راستے پر ہیں ؟ ہم نے اس کی توضیح ہی بدل دی یہ وسعت دیکر کہ “ جس نے  بھی نبی (ص) کو ایمان کی حالت میں دیکھا وہ سارے صحابی ہیں اور ان میں سے جس کا بھی اتباع کروگے فلاح پاجا ؤگے؟ اگر یہ معیار مان لیا جا ئے ۔ تو بچےتو کیا !اچھا خاصا مسلمان دین سے بے زار ہو جائے گا؟ کیونکہ اس سے وہ تضاد پیدا ہو گا کہ عقلیں کند ہوجائیں گی اور ذہن پریشان ہو جائیں گے۔ مثلاً قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میدان جنگ سے پیٹھ مت موڑو ؟ جبکہ اس توضٰیح کو مان لیا جائے تو ایک دوسری مثال بھی مل جائے گی؟ جس میں صحابہ میں عبد اللہ بن ابی اور اس کی قیادت میں وہ تین سو لوگ بھی ہیں شامل ہوجائیں گے جنہوں نے احد کے میدان ِ جنگ میں نبی (ص) کو چھوڑ دیا اور پیٹھ موڑ کرچلے گئے۔؟دوسری مثال اس سے یہ بدعت بھی جنم لیتی ہے ۔ کہ امیر ِ وقت کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے! جبکہ اسلام اسے منع کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس کردارکو جائز مان لینے کے بعد کوئی حکومت مستحکم رہ سکتی ہے۔ایسے میں ان الجھے ذہنوں کو کون راہ دکھائے گا جبکہ شدت پسند اور ان کے مربی تمام دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ جو اسلام شدت پسندوں نے پیش کیا ہے وہی ( نعوذباللہ ) اسلام کا اصل چہرہ ہے۔ اس کے لیے ہمیں دنیاوی وفاداریوں سے سوائے خدا کے رشتے کے ، دوسرے تمام مفاداتی رشتوںسے یہ کہہ کر جان چھڑانا پڑےگی کہ یہ شرک ہے ؟ چونکہ حضور (ص) نے تو بقول حضرت معاذ  (رض)بن جبل یہاں تک منع فرمادیا کہ جو کام بھی “ ریاکاری“ یعنی دکھاوے کے لیے کیا جائے وہ بھی شرک ہے “کیونکہ یہ بھی غیر اللہ کوا للہ پر تر جیح دینا ہے“ یعنی جب تک کہ مسلمان شرک خفی اور شرک ِ جلی دونوں نہ چھوڑدیں اس وقت تک وہ بچوں کو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکتے اور بچوں کے ذہن کو دہرا رویہ رکھ کر اس الجھن ِ وقت سے یہ کہہ نہیں نکالا جاسکتاکہ یہ بھی صحیح وہ بھی صحیح ہے؟ کیونکہ ایک سے فریق ہوں تو ایک ہی صحیح ہو سکتا ہے دونوں نہیں ؟ اس کا حل وہی ہے جو خود اللہ سبحانہ تعالیٰ نے چودہ سو برس پہلے بتادیا تھا کہ جب کسی بات پر تم میں تنازع پیدا ہو جائے تو اللہ اور رسول  (ص)کی طرف رجوع کرو؟ جب ہم اتباع رسول (ص) کی طرف لوٹیں گے تو ہم جواب دینے کے قابل ہو جائیں گے؟پھر جب بچے شدت پسندوں کی بر بریت اور مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں آپ سے یا ماں باپ سے پوچھیں گے تو آپ بے  دھڑک بتا سکیں گے کہ “ نہیں یہ اسوہ حسنہ کے خلاف ہے لہذا یہ کسی مسلمان کا فعل نہیں ہو سکتا “حضور (ص) تو منافقین تک کو برداشت کرتے رہے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اب محمد  (ص)اپنے ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمیشہ انہوں نے عفو اور در گرز سے کام لیا؟ جب بچے پوچھیں گے کہ یہ اسلام میں آثار ات قدیمہ کو صرف بدعت کے نام پر ڈھانا اور ان کی جگہ فائیو اسٹار ہوٹل بنانا، کبھی حضور (ص) کے زمانے میں یا ان کی راہ پر چلنے والے صحابہ کرام کے زمانے میں ہوا؟ تو جواب ہوگا کہ نہیں یہ نبی  (ص)کا طریقہ کار نہیں ؟اگر ہوتا تو وہ آثارات قدیمہ اب تک کیسے باقی بچے رہتے، جنہیں یہ شدت پسند اور انکے پیش رو نہ بلڈوزروں سے ڈھاتے نہ ہی بموں سے اڑاتے ۔ کیونکہ اس وقت آپ نڈر ہوکر صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے بات کر رہے ہونگے۔ دنیا کے لیے نہیں ، اور وہ اپنے بندوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے؟ آپ اس کے ہوجائیں وہ آپ کی تمام ضروریات کو پوری کرے گا کیونکہ یہ اسکا وعدہ ہے۔ آیت نمبر 18کو تو ہم نے عنوان بنادیا تھا لہذا ہم گزشتہ قسط میں بات کرچکے ہیں ۔ رہیں باقی آیات ان میں حضرت لقمان (رح)  نے جو فرمایا وہ سورہ لقمان میں آیت نمبر 19 تک ہے؟ ان میں انہوں نے اللہ کو بہت باریک بین بتایا ہے اورفرمایا ہے کہ کوئی کیڑاکہیں بھی چھپا ہوا وہ اس سے بھی باخبر ہے۔ نماز کی پابندی کی تلقین فرمائی ہے اور اچھی باتیں اوروں تک پہچانے کی تلقین فرمائی ہے ، زمین پراکڑ کر چلنے کو منع کیا ہے اور بدتریں آواز گدھے کی بتائی ہے ۔ جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ہر کام میں میانہ روی ہونا چاہیئے ، وہ چال ہو یا آواز ہو ۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.