مصطفی کمال اور ساتھی کس سلوک کے مستحق ہیں؟ ۔۔۔از ۔۔شمس جیلانی

آجکل اس پر بحث چل رہی ہے؟ کہ ان کے پیچھے کون ہے اور مقاصد کیا ہیں ۔ جبکہ میں نے ابھی تک وہ حسنِ ظن کہیں نہیں دیکھا جو کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے بارے میں ہونا چاہیئے؟ ایسا کیوں ہے اسکے ذمہ دار ہم خود ہیں کہ ہم نے سچ بولنا چھوڑدیا ہے جس پر میں روز ہی بات کرتا ہوں ؟لہذا کوئی بھی ان کے خلوص پر یقین نہیں کر رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ یہ اقتدار کی لڑائی ہے کسی نے کہا کہ اس کے پیچھے کوئی اور ہے۔ ابھی تک مجھے ایک آواز بھی ایسی نہیں ملی جو اس گروہ کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھتی ہو۔ اس سلسلہ میں اب تک پاکستانی حکومت کی جو پالیسی رہی اس میں دونوں پارٹیاں شامل ہیں ۔ کہ انہیں حکومت چلانا ہے لہذا وہ متحدہ کے لیڈر کو ناراض نہیں کر سکتے بلکہ اس سے پہلے کی حکومت نے توایک وزیر کی ڈیوٹی ہی لگار کھی تھی کہ وہ لندن جہاں اسکا کارو بار اور گھر بار بھی ہے باقائدگی سے آتا جاتا رہے اور قائد کی غلط فہمیاں دور کرتا رہے کیونکہ ان دنوں وہ اتنے زود رنج ہوگئے تھے کہ بات بات پر روٹھتے رہتے تھے؟ جبکہ وہ اگر کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرلیتے تو انہیں وہ بتادیتا کہ ہر بچے کی عمر کا کچھ حصہ ایسا ہو تا جس میں ہم سنی کا دباؤ ( Peer pressure) بہت زیادہ اثر کرتا ہے اور یہ پاکستان کی بد قسمتی تھی کہ وہ جب کراچی میں طالب علم تھے تو اسوقت فارورڈ بلاک کا طوطی بول رہا تھا اور وہ بہک گئے ۔یہ انہیں کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ان جیسے بہت سے اس دور نے پیداکیے مگر سب اپنی عملی زندگی میں ناکام رہے۔ یہ ہی نہیں اس دور میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی یہ ہی کیفیت تھی وہاں بھی اس دور میں کوئی نامور آدمی پیدا نہیں ہوسکا ۔ شروع میں الطاف بھائی بھی انہیں میں شامل تھے، پھر وہ اپنے بھائی کے پاس شکاگو چلے گئے اور نہ جانے کیسے ان کے سر پر ہما بیٹھ گیا۔ اور جس طرح پہلے سنا کرتے تھے کہ بزرگوں کی نظر کیا پڑی فلاں کی کایا پلٹ گئی وہ بھی کسی حادثے سے گزرے اور شہرت اور کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ جب الطاف بھائی کو شکاگو سے لاکر مہاجروں پر مسلط کیا گیا تو بھی کسی کو پتا نہیں تھا کہ ان کا مقصد کیا ہے ان کے پیچھے کون ہے؟ چونکہ وہ خود پہلے پیر پریشر کا شکار ہ چکے تھے انہوں نے وہی طریقہ اس دور کے بچوں کے لیے اپنا یاکہ تیتر سے تیتر کا شکار کیا جائے؟ دیکھتے ہی دیکھتے اسی ہزار فارم ان کی وفاداری کے بھر کر کراچی کے بچے اپنی تعلیم چھوڑ کر ان کی طرف راغب ہوگئے۔ کیونکہ انہیں یہ باور کرا یا گیا کہ تمہارے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ تم کو جو لیڈر حکم دے اسے مانو؟ جب لوگوں میں تجسس پیدا ہوا؟ توانہوں نے اس جال سے نکلنا چاہا تو کوئی ان دیکھی طاقت ان کے ساتھیوں کو نگلنے لگی؟ اس دن سے بچے بتانے لگے کہ اس کاذمہ دار کون ہے مگر کبھی کوئی ثابت نہیں کرسکا نہ کرسکے گا؟
اس تمام معاملے کو سمجھانے کے لیے تھوڑا سا تاریخ میں مجھے پیچھے جانا پڑےگا ؟ جب تک ون یونٹ نہیں تھا مہاجر اور انصار میں کوئی جھگڑا نہیں تھا، سب بھائیوں کی طرح رہ رہے تھے۔ جب مشرقی پاکستان کے لو گوں نے جنکا تناسب پاکستان میں54 فیصد تھا قربانی دیکر برابری تسلیم کرلی تو اسے ان کے مساوی لانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت مغربی پاکستان میں ون یونٹ بنا نا پڑا ؟ لہذا صوبائی دار الحکومت لاہور بن گیا جبکہ اس زمانے میں لاہور تک کا سفر کسی کام کے لیے کرنا بڑا مشکل کام تھا ۔ کہ اسوقت غربت کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص کندھے پر بینگی میں انڈے اٹھائے ہو ئے پیدل ساٹھ ستر میل پیدل جاتا تھا کوئٹہ بیچنے کے لیے  تو چار پیسے ملتے تھے؟ اسی طرح تھر پارکر سے ایک بھوسے کی گٹھری کی شکایت اپنے وڈیرے کے خلاف اس دور میں اپنے حلقے کے ممبر اسمبلی تک پہونچانے کے لیے اس سے بھی زیادہ سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ موقعہ پرستوں کو موقع ملا کہ بے انصافی کریں ۔ جب بے انصافیاں شروع ہوئیں تو ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا ہوئی، مگر اس کا ذمہ دار اکثریتی صوبے کے لوگوں کو سمجھتے تھے جو بدقسمتی سے ویسٹ پاکستان کا دار الحکومت بھی تھا۔ پھر جمہوریت کا بستر ایوب خان نے لپیٹ دیا۔ وہاں ملک امیر محمد خان کی حکومت آگئی جو ون یونٹ کے گورنر تھے۔ ان کی ایک کابینہ بھی تھی اس میں دو ہی وزیر سندھ سے لیے گئے جن میں ایک عبد القادر سنجرانی نواب شاہ سے اور دوسرے محمد خان جونیجو سانگڑھ سے، دونوں ہی پیر پگارا کے نمائندے تھے۔ محمد خان مغربی پاکستان ریلوے کے منسٹر تھے۔ پیر صاحب نے ایک چٹھی دیکر ایک شخص کو ان کے پاس ملازمت کے لیے بھیجا انہوں نے اپنے پاس مہمان ٹھیرایا اور کھلایا پلایا اور جھنڈا لگی کار میں لاہور کی سیر کرائی ، مگر اس سے زبانی کہلا بھیجا کہ سائیں میں یہ ہی کچھ کر سکتا تھا وہ میں نے کردیا ،نوکری دینا میرے بس میں نہیں ہے؟ مختصر یہ کے بے انصافیاں بند نہیں ہوئیں اور بےچینی بڑھتی گئی اسی دوران مشرقی پاکستان الگ ہوگیا بھٹو صاحب کی حکومت آگئی ۔ اس وقت سندھی محاذ سندھ میں ون یونٹ توڑنے کی تحریک چلا رہا تھا طے یہ ہوا کہ بلا تفریق سندھ کے سب باشندے سندھ محاذ میں شامل ہو جا ئیں۔مہاجروں کا ایک نمائندہ اجلاس پہلے نواب زاہد علی خان کی کوٹھی پر ہواجو کہ سب کی نگاہ میں بلند مقام رکھتے تھے۔ پھر عبد المجید سندھی کی زیر صدارت ٹھٹہ میں دوسرا بڑا اجتماع ہواجہاں مہاجروں نے سندھ محاذ میں شامل ہونےکا اعلان کر دیا؟ جو لوگ لڑاؤ اور حکومت کرنے کے عادی تھے انہوں نے انہیں کے برادر نسبتی نواب مظفر حسین خان پر ہاتھ رکھا اور انہوں نے اسکی ٹکر پر پنجاب پٹھان مہاجر محاذبنا لیا؟اور سندھ میں پہلی دفعہ مہاجر سندھی فسادات ہو ئے ۔ زبان کے مسئلہ کوہوا دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کی فضا زہر آلود ہوگئی ۔نواب مظفر کی زندگی نے وفا نہیں کی جلدہی وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔یہاں مہاجر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اتنے میں ضیاءالحق آگئے اور ان کے زمانے میں الطاف بھائی کو شکاگو سے لاکر راتوں، رات لیڈر بنا دیا گیا۔ اور اس کے بعد انہوں نے وہ کیا جو میں نے اوپر بتایا؟ ان کے نعروں میں سب سے بڑا نعرہ ان مہاجروں کو بنگلہ دیش سے لانا تھا جو وہاں پھنسے ہوئے تھے۔ بعد میں مہاجر تحریک نواز شریف صاحب کی حلیف ہو گئی؟ اخباری خبروں کے مطابق کچھ ان میں سے پاکستان لا ئے بھی گئے، مگر سندھ نے ان کو لینے سے انکار کر دیا البتہ فیصل آباد کچھ آئے مگر وہاں بھی سخت مخالفت ہو ئی اور نواز شریف صاحب کو پیچھے ہٹنا پڑا؟ کچھ دنوں کے بعد رات گئی بات گئی کے تحت انہیں سب بھول بھال گئے اور حکومتوں پر اِن کے راز کھلتے رہے۔ جب نواز شریف صاحب کی حکومت نے کچھ کر نا چاہا تووہ ہر بات کو جھوٹ کہتے رہے جو ہنوز جاری ہے؟
اب ایک بار پھر کھلے عام کچھ لوگ خم ٹھوک کر کہہ رہے ہیں کہ اور اقبالی بیان بھی دے رہے ہیں ۔ لیکن لوگ اور حکومت دونوں انکی بات پر تحقیقات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ یاتو وہ پالیسی ہے کہ لڑاؤ اور حکومت کرو، جو ہمیں انگریزوں سے ورثہ میں ملی ہے؟ یا پھر کوئی بھی ان سے بگاڑنا نہیںچاہتا ۔ جبکہ اس پالیسی کا نتیجہ ملک بھگت رہا ہے کہ کراچی تباہ ہوگیا، صنعتیں تنگ آکر یاتو پنجاب چلی گئیں یا ملک سے باہر چلی گئیں ۔ اور ایک عرصہ تک یہ علاقہ ہر قسم کے شر پسندوں کی جنت بنا رہا آخر میں نوبت یہاں تک پہونچی کہ لوگ! ہڑتالوں کی بہتات کی بنا پر بھوکوں مرنے لگے؟ تب کہیں جاکر موجودہ سپہ سالار کو ترس آیا۔ اور انہوں نے اس میدان میں نواز شریف صاحب کے ساتھ ملکر بہت کام کیا ہے؟ جو ابھی نا مکمل ہے ان کے بعد کیا ہوگا اللہ ہی جانتاہے؟
اب آپ پوچھیں گے اس کا حل کیا ہے ؟ جو ماڈرن مسلمان پاکستان میں ہیں وہ تو ڈر کر بات نہیں کریں گے؟ مگر جس اسلام کے نام پر یہ ملک بنا ہے اور جس کے صفحہ اول پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی ۔اور اگر کوئی واقعی مسلمان ہے تو وہ یہ کہہ کر چونکہ عقیدہ کے اعتبار سے مسلمان نہیں رہ سکتا کہ اسلامی قوانیں سے کوئی قانون بہتر ہے؟ ان کے لیے قرآنی آیتوں کی شکل میں حل موجود ہے سورہ 5کی آیت نمبر 34دیکھیئے کہ ” جن لوگوں نے اس سے پہلے کہ قابومیں آجائیں توبہ کرلی تو جان رکھو کہ اللہ معاف کرنے والا اور مہربان ہے ” دوسری سورہ 4کی آیت17 ” جن لوگوں نے نادانی سے برا کام کیا اور پھر توبہ کرلی تو تمہارا پروردگا ر ان کو بخشے والا اور رحمت کرنے والا ہے ۔ سورہ4 کی آیت نمبر 146ہے “ جنہوں توبہ کرلی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا اور اپنی اصلاح کرلی اور خاص اللہ کے فرمانبر دار ہوگئے تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہونگے اور اللہ عنقریب مومنوں کو بڑا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں بہت سے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پھر وہی حرکتیں لگیں تو کیا کریں گے؟ اس کا جواب قرآن میں موجود ہے؟ سورہ نمبر 4 ی آیت نمبر38  "(اے پیغمر) کفار سے کہدیجئے کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو کیے ہیں معاف کر دیئے جائیں گے، اگر پھر وہی حرکات کرنے لگیں (تو وہی سزا دی جائےگی جس کے وہ مستحق تھے) اس آیت میں بعض نکتہ چین یہ نکتہ پیدا کر سکتے ہیں کہ یہ رعایت تو کافروں کے لیے ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تمام علماءاور فقیہ اسپر متفق ہیں کہ انسان جب گناہ کر تا ہے تو وہ ایمان کی حالت میں نہیں ہوتا بلکہ حالت ِ کفر میں ہو تاہے۔ کیونکہ اللہ کو حاضر اور ناظر (نگراں) مانتے ہو ئے کوئی گناہ کر ہی نہیں سکتا؟ اس کے لیے تھوڑی سی قانون سازی کی ضرورت ہوگی جوکہ جوکہ نواز شریف صاحب کے لیے اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ورنہ یہ سب اسی طرح مارے جاتے رہیں گے۔ جیسے پہلے والے جیسے وہ دو سوپولس آفیسر، نامہ نگار وغیرہ وغیرہ اور کبھی جرم ثابت نہیں ہو گا اور ملک اسی طرح تباہی کے دہانے پر کھڑا رہے گا۔ لہذا میری حقیر رائے میں ایک مرتبہ انہیں آزمالینے میں کوئی حرج نہیں ہے ،کیا پتا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ان کا ضمیر بیدار کردیا ہو

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.