پاکستانی حکومت ایک نیا تجربہ کر رہی ہے وہ ہے بکری سے بھی موّدت اور بیریوں سے بھی محبت؟ اس انوکھے تجربے کو پورا کرکے دنیا کو ساتھ ہی یہ بھی دکھانا چاہتی ہے کہ ہم ماڈرن مسلمان ہیں، تا کہ یہ ثابت کرے کہ راہنما پنی بات کے دھنی اور گانٹھ کے پکے ہیں ؟ جبکہ عوام کو وہ یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ بطور مسلمان ہم پکے مسلمان ہیں اس لیے کہ سلام میں احسان کا بدلہ احسان ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں ؟ حالانکہ وہ دوسرے اسلامی قوانین کوپسِ پشت ڈال چکے ہیں مگر اس پر سختی سے اس لیے عمل پیرا ہیں کہ ان سے آنے والے الیکشن میں بھی کام لیناہے۔ جبکہ کس نے کیا احسان کیا اور وہ دو تہائی اکثریت کس طرح حاصل کرسکے وہ انہیں یاد نہیں ہے؟ مگرمعاونوں سےدوبارہ سن 18 میں بھی ویسی ہی معاونت چاہتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ مرتبہ احسان کرتے ہوئے کر نے والوں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسی صورت حال میں یہ حکومت کس کس کے احسان چکا ئے گی اور کیسے چکائے گی ؟ حالانکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ہمارے یہاں بعض فرقوں میں بعد المشرقین ہے یعنی زمین اور آسامان کا فرق ہے ایسا فرق کہ ایک ہی عمل میں ایک گروہ کی موت ہے تو دوسرے کی زندگی ؟ جبکہ ہم بطور مذہب اتنی ٹکریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کہ فل الحال مردم شماری کی طرح ان کی گنتی بھی مشکل ہے؟ دور کیوں جائیے خود کابینہ بٹی ہوئی ہے جوایک کر رہا ہے دوسرے کو اس کی خبر نہیں ہوتی؟ہر افسر کسی پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے کہ ڈھاٹا باندھے جس شخصیت کو وہ پکڑ رہا ہے، کہیں اس میں چہرہ چھپائے کو ئی سومناتھ نہ نکل آئے؟ اور وہ عہدہ ہی چلا جا ئے جو ساری جمع پونجی خرچ کرکے خریداتھا۔ جبکہ انتظامیہ کو بعض فیصلے فوراً بھی کرنے ہوتے ہیں مثلا “ کسی کو کوئی گولی ماررہا ہے تو اسے حکام بالا سے اجازت لینے کا وقت ہی کہاں ملے گا ؟ جبکہ پہلے زمانے میں ایسے مسائل نہ ہو نے کی وجہ یہ تھی مسائل سے نبٹنے بڑے آسان تھے کہ سب اللہ کے بندے ہوتے تھے کوئی غیر کا بندہ نہیں ہوتا ہی نہیں تھا۔ آسانی یہ تھی کہ اسوقت ان چھوٹے چھوٹے معاملات کووزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علم میں لانا اور ان سے پوچھنا نہیں پڑتا تھا۔ پولیس کے ساتھ ایک ڈیوٹی مجسٹریٹ رہتا تھا اور وہ اپنی آنکھوں سے بپھرے ہوئے مجمع دیکھ رہا ہو تا اکثر پولس کو اس سے رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی تی تھی اور وہ اپنی صوابدید پر فائر کا حکم دے دیتا تھا؟ پھرگولی کسی کو پہچانتی نہیں تھی کہ کون کس کا بندہ ہے “ جائے احتجاج کی نشان دہی صرف مجمع کی چھوڑی ہوئی جو تیوں سے ہو تی تھی جو بطور یاد گار وہاں پڑی رہجاتی تھیں اور بس؟
جبکہ یہاں معاملہ الٹ تھا کہ “بریلوی مکتبہ“ فکر کے ایک فردجو کہ اپنے جرم کے اقبالی بھی تھے ،کیونکہ ا نہوں نے اپنے یقین کے مطابق جو کچھ کیاصحیح کیا تھا۔ مگر کورٹ نے فیصلہ اس قانوں کے تحت دیا جو ابھی تک انگریزوں کے زمانے سے پاکستان میں چلا آرہا ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں وہ اس کے باوجود ابھی تک رائج ہے کہ قرار داد مقاصد جو کہ ایک شہید وزیر اعظم ، شہید ملت لیاقت علی خان نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں خود پیش کرکے پاس کرائی تھی اور جو جبھی سے جذدان میں بند تھی جس کو ضیا الحق صاحب نے نافذ کردیا اور اسی کے تحت حدود آرڈیننس اور ناموسِ رسالت کا قانون بھی، جوکہ عوام کا اس وقت سے جاری مطالبہ تھا، اس کا پس ِمنظر یہ ہے ایک گستاخ پنڈت مہاراج نے جو خیر سے وکیل بھی تھے، ہندوستان میں ایک کتاب لکھنے کی جراءت کی جو گستاخیوں سے بھری ہوئی تھی اور وہ ایک مسلمان غازی علم الدین شہید کے ہاتھوں اپنے بھیانک انجام کو پہونچے۔ اس وقت بھی گوکہ انگریزکی حکومت تھی احتجاج پر احتجاج ہوتا رہا مگر انہیں پھانسی دیدی گئی۔ جب سے غازی علم الدین آج تک قومی ہیرو چلے آرہے تھے کیونکہ اسوقت تمام علماءاس بات متفق تھے کہ وہ شہید ہیں۔ لہذا ان کے ہیرو ہونے میں کسی مسلمان کوکوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر اب معاملہ فرقہ بندی کا تھا کہ ایک گروہ جس کا مربی سعودی عرب اور اس مکتبہ فکر کے لوگ ہیں وہ اس کو ہیرو قرار دینے کے حق میں نہیں تھا اس لیے کہ اس سے مقبولیت بریلوی گروہ کی بڑھتی تھی؟ لہذا وہ علیحدہ رہا ، لیکن اب علیحدہ رہنا ان کے لیے مشکل تھا کہ دنیا میں سیا ست پھر پلٹا کھانے جارہی تھی یہ ہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جس طرح لیاقت باغ پنڈی میں نماز جنازہ کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اس سے بہتر طریقہ سے اس مرتبہ وہ پھر وہیں چالیسواں کرنے کی اجازت لینے میں بھی کامیاب ہو گئے۔اور اسی پولس کے ذریعہ انہیں گاڑیاں اور اراکینِ اسمبلی کے ذریعہ کچھ معاونت بھی ملی جنہیں انہیں اسلام آباد پہونچنے سے روکنا تھا تاکہ سن اٹھارہ کے الیکشن میں ان کے ووٹ کام آئیں اور اسی طرح احسان کا بدلہ احسان کے تحت حکمراں دوبارہ کامیاب ہو کر آئندہ بھی کریں؟ جسکا پہلے دفعہ وہ ادراک نہیں کرسکے تھے کہ اب وہ صورتِ حال نہیں ہے۔ جوکبھی پہلے تھی کہ سارے سعودی حکمرانوں نے حریمیں شریفین کے اطراف میں حجاج کے لیے وقف مسافر خانوں کو ڈھا کر حرم سے اونچے ہوٹل بنا لیے ، اور بدعت کے مقدس نام پر انہیں مزارات گرانے کی بھی دنیا اور ملت نے کھلی چھٹی دیدی ؟ بعد میں اس سے وہ نفرتیں پیدا ہوئیں کہ دنیا کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ بھی اس نظریہ کے نتائج سے واقف ہوگئے جس کی پہلے وہ سرپرستی کر رہے تھے۔جس کا ثبوت وہ حالیہ کانفرنس ہے جو کہ اقوام ِ متحدہ میں پاکستانی مندوب محترمہ ملیحہ لودھی کی کوششوں سے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہوئی جہاں ایک قوال کو بلا کر اس اعزاز سے نوازاگیا؟ کیونکہ وقتی پرندے ہوا کے رخ پر چلتے ہیں ۔ اب سارا یورپ اُس اسلام کو پہچان گیا ہے اور اِسے ترجیح دے رہا ہے ، جو صوفیان ِ کرام کا اسلام ہے جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ “ نفرت کسی سے نہیں اور محبت سب سے “ اور وہ اب اسے ہی اس بیماری کی دوا اور امن کے حصول کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مذہبی جنون اسی ذریعہ سے کام لے کر کم ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس قسم کی ہر چیز کی افادیت ثابت ہوچکی ہے اور مولانا روم کی تعلیمات آج کل کے یورپ کا مقبول ٹاپک ہے جو نئی نسل کے زیر ِ مطالع ہے؟ ہوا کا رخ اس سے بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ اس سے شاکی ہیں کہ امریکہ نے اسی (80 )سال کی پرانی دوستی فراموش کردی اور پاکستان کے ایک مقبول صحافی کے الفاظ روزانہ بطور ایڈ نشر ہورہے ہیں کہ ” سعودی عرب کا انفلوئنس کم ہوگیاہے” لہذا دوسرے گروہ کے علماءبھی موقعہ سے فائدہ اٹھا نے کے لیے ان کے ساتھ اکھٹے ہو گئے جنہیں کل تک بد عتی کہتے تھے۔ ورنہ وہ عوام کی نگاہ میں اپنا اثر کھو بیٹھتے، اور اس طرح پنڈی سے چہلم کے شرکاء بلا مزاحت اسلام آبادپہونچ گئے؟ کیونکہ اوپر والے اپنے ہی آدمیوں پر سختیوں کا حکم نہیں دے سکتے تھے؟ اور ادھر بعد میں علماءکی یہ دھمکی بھی کام آگئی کہ اگر سختی برتی گئی توہم خاموش نہیں رہیں گے؟اس مشکل وقت میں کابینہ اسی طرح بٹی رہی جس طرح اکثر بٹی نظر آتی ہے کہ ایک گرو ہ ان کے خلاف رہ کر ڈراتا دھمکا تارہا اور دوسرا انہیں پر ہاتھ رکھ کر گھیر تا اور راضی کرتا رہا۔ لہذا کابینہ کے دونوں گروپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اپنی جگہ درست ہیں کہ معاہدہ ہو ا بھی اور نہیں بھی ہوا۔ ان سے ملنے کوئی ذمہ دار نہیں بھیجا، نہیں گیا اورا حتجاجیوں کے نمائندے ان سے خودملنے گئے۔ رہا یہ کہ اس تمام کھیل میں جیتا کون ؟وہ جس نے بہترین وقت پر تمام مہرے صحیح چلے، جہاں جس کےساتھ پینگیں بڑھ رہی تھیں وہ بڑھتے بڑھتے وہیں رک گئیں ۔ جہاں سے روڑے اٹکا ئے جارہے تھے عوامی دباؤ اتنا بڑھا کہ وہ خود ہی راستے سے ہٹ کر راستہ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اب حکراں پریشان ہیں کہ بکریوں کو بچائیں یا بیریوں کو؟ جبکہ نقصان ان لوگوں کا ہوا جن کے پیارے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ یا معذور ہوگئے۔ ابھی تک حکومت نے ان کی مدد کا بھی کوئی ہمیشہ کی طرح اعلان نہیں کیا ، جیسے کہ ہمیشہ ہو تا تھا اس لیے کہ تعداد بڑی ہے اور بقول شیخ رشید صاحب کے چھاپہ خانوں کی سیاہی بھی نوٹ چھاپتے ، چھاپتےختم ہو گئی ہے؟ اور نہ ہی کوئی مخیر مدد کے لیے میدان میں آیا کہ انکا مستقبل بھی تابناک نہیں رہا؟ میرے خیال میں دانشمندوں کے لیے بہت کچھ ہے؟ کیونکہ میرا ایک ہی جیسا ہمیشہ حل بتانے سے لوگ پڑھتے پڑھتے تنگ آچکے ہیں۔ ایک خاتون نے مجھ سے یہ ہی شکوہ کیا؟ایک سفیر نے مجھے لقمہ دیا کہ آپنے پچھلی مرتبہ بھی یہ ہی کہا تھا ، میں انہیں کیسے سمجھاتا کہ سچ اور جھوٹ میں یہ ہی فرق ہے کہ سچ وقت کے ساتھ بدلتا نہیں ہے، جبکہ جھوٹ جب بولا جائے ہر دفعہ نیا ہوتا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے