اسلام اور ہادی ِ اسلام ابتدا سے صراطِ مستقیم اختیار کرنے کے لیے اپنے پیرؤں پر زور دیتے آئے ہیں اورا س کے صلے میں جنت الماویٰ عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے؟ اور کج روی پر ناراً حاویہ کی بعید ہے؟ جبکہ نئی صراط ِمستقیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک رہنما نے دریافت کی ہے کہ “اگر لندن جانا ہو تو براہِ ماسکو جاؤ یعنی کسی بھی کام کے لیے کبھی سیدھا راستہ اختیار نہ کرو؟ جبکہ ہمیں بطور مسلمان ہدایت خداوندی ہے کہ بدگمانی مت پیدا ہونے دو اس سے بچو جبکہ ہمارے حکمرانوں کارویہ ہے بدگمانیاں پیدا ہونے دو، دیکھیں کوئی ہمارا کیا بگاڑتا ہے؟ پہلے اجنبی راستے ایسے لوگ اختیار کیا کرتے تھے،جنہیں پکڑے جانے کا خطرہ ہوتا تھا،اب کوئی ایک شریف ہی نہیں پوری اشرافیہ یہ ہی طریقہ استعمال کرنے لگی ہے؟ کیوں؟ اسکاجواب کسی کے پاس نہیں ہے چونکہ قدریں بدل گئیں ہیں اب یہ محاورہ “ ایسے ہر سچے کے بارے میں بولا جاتا ہے جو کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے “ ۔ کہ جاتا پورب کو ہے اور بتاتا پچھم کو ہے۔ اس سے اور وں کاتو کچھ نہیں بگڑتا مگر ایسا کرنے والوں کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ بعضوں کا اعتبار تو اس حد تک اٹھ چکا ہے کہ اب ان پر کوئی اعتبار کرتا ہی نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا اعتبار کرتے نہیں۔ لہذا گر پرانی مثالوں کو لیں تو ہلاکو اور چنگیز خان کو اور حالیہ مثال کو لیں تو وہ صرف سعودی حکمرانوں کا اتباع کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ کلیدی عہدوں پر قریبی رشتہ دار اور ریاستی عہدوں پر اہلِ قبیلہ کو مسلط کردیتے ہیں تاکہ حکمراں محفوظ رہیں؟ لطف کی بات یہ ہے کہ اس پر جمہوریت کے چیمپئین بھی زبان نہیں کھولتے کہ دستور میں کہاں لکھا ہے کہ وزیر اعظم اپنی جگہ اپنے پیاروں سے پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر اپنی جگہ عارضی طور پر کر ے؟ جبکہ دوسرے لفظو ں میں یوں کہہ لیجئے کہ انہیں عوام کی پرواہ ہی نہیں ہے وہ ہر طرح سے خود کفیل ہیں اور اسطرح وہ اعتبار اورتحریک ِ اعتمادکے مرہون ِ منت ہی نہیں ہیں ؟ اپنی شاطرانہ چالوں کے ذریعہ حکومت بھی کرتے ہیں تجارت بھی کرتے ہیں جبکہ پہلے لوگ کہاکرتے تھے کہ تجارت اعتبار کے بغیر نہیں چلتی جبکہ اب چلتی ہے اور خوب چلتی ہے؟ ہم نے ایک جگہ نہیں بہت سی جگہ پڑھا ،کبھی حدیثوں کی شکل میں کبھی بزرگوں کے اقوال کی شکل میں جو کہ زیادہ تر قرآن اور سنت سے ماخوذ ہیں کہ یہ سب قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کہیں اب قریب ہی ہے۔
پہلا جھوٹ نہ جانے تاریخ میں کس نے اور کب بولا ہوگا مگر نوبت یہاں تک پہونچ گئی کہ پہلے ہم میں کوئی جھوٹا نہیں ملتا تھا اب سچا نہیں ملتا ہے اور پہلا گمنام جھوٹا اس صورت حال کا ذمہ دار ہے اسلامی عقیدے کے مطابق کہ جس نے بھی برائی کی طرح ڈالی قیامت تک تمام برائیاں اسکے کھاتے میں لکھی جاتی رہیں گی اور جو بھلائی کی طرح ڈالے گا تو بھلائیاں بھی اس کے کھاتے میں لکھی جائیں گی؟ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس کا کھاتا کتنے کروڑٹرکوں میں لدا ہوا روز قیامت منصف اعلیٰ کے سامنے پیش کیا جا ئے گا جس نے ہمیں صرف نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی بتادیا ہے کہ میں تم پر نگراں ہوں (سورہ صبا آیت نمبر١١)؟ جھوٹ کا بانی اور اس کا اتباع کرنے والے اسے کیسے جھٹلاسکیں گے جہاں ہر ایک کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک اور آنکھیں سب اس کے خلاف گواہیاں دے رہے ہونگے اور سامنے انصاف کی کرسی پر وہ منصف اعلیٰ تشریف فرما ہوگاجس کے ذاتی علم میں سب کچھ ہے؟ جبکہ یہ اہتمام بھی گناہ گار کی اس دلیل کے جواب میں ہوگا کہ ہرجھوٹا بقول غالب کہے گا کہ “ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق کوئی انسان ہمارا دم ِ تحریر بھی تھا؟ اسوقت منصف اعلیٰ اس کی منہ زوری کی صلاحیت چھین لے گا اور ان اعضا ءکو بطور گواہ بولنے کا حکم دیگا کے تم بتاو کہ تم نے یہ یہ کیا یانہیں کیا ؟ اور اس کا منصوبہ کس ذہن نے بنا یا اور اس پر عمل تم نے کس کی سوچ پر اور کس کے کہنے پر کیا؟ اور وہ جواب میں سارا کچا چٹھا کھول دیں گے! تب اب ہر ملزم اپنی کیے پر پجھتائے گا لیکن بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ چونکہ عدالت کے اوپر نہ کوئی عدالت ہے جہاں اپیل ہو سکے نہ ضمانت کی گنجائش ہے کہ جان چھٹ سکے، صرف ایک ہی حکم فرشتوں کو صادر ہوگا اس کو منہ کے بل جہنم میں پھینک آؤ وہی اسکی دائمی جگہ ہے جس میں یہ ہمیشہ رہے گا؟ جبکہ اس دن کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی کتابوں اور نبیوں (ع) کے ذریعہ سب کچھ پہلے ہی بتا چکا ہے۔ اور نبی آخر الزماں (ص) تو یہاں تک رعایت کا اعلان فرماچکے ہیں کہ تم چار باتیں اختیار کرلو تو میں تمہاری بخشش کاضامن بنتاہوں ۔ کھاؤتو حلال ، بولو توسچ ، تمہیں امین بنا یا جائے تو امانت کی حفاظت کرو، اور سب کے ساتھ حسن ِ سلوک اور اخلاق سے پیش آؤ ؟ اور اس پر انہوں نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عمل کر کے بھی دکھا دیا؟ سب سے پہلے انہوں (ص) نے جب ابھی پیغمبر بھی نہ تھے ؟ اس حد تک جاکر دکھایا کہ ساری دنیا صادق اور امین کہنے لگی، دعویٰ نبوت کے بعد اس وقت کے بدترین دشمن ابو سفیان سے جب قیصر روم نے اپنے دربار میں بلا کر پوچھا کہ تم نے کبھی انہیں جھوٹ بولتے ہوئے دیکھا؟ تو ان کا بدترین دشمن ہونے کے باوجود اسکا جواب تھا کہ کبھی نہیں! تب قیصر ِ روم نے جواب میں کہا کہ جو شخص عام زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا ،وہ خدا پر بہتان کیسے باندھ سکتا ہے ؟ اس پرپورا دربار گنگ رہ گیا کہ اسکا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا؟ امانت کا یہ عالم کے ان لوگوں نے بھی اپنی امانتیں واپس نہ لیں جواب حضور (ص) کے دعویٰ نبوت کے بعد ان کے جانی دشمن ہو گئے تھے؟ لیکن پھر بھی ان کی نگاہ میں پورے عرب میں ان (ص) سے زیادہ دیانتدار کوئی اور نہ تھا؟ انہیں یقین تھا کہ اگر ان کی امانتیں کہیں محفوظ ہیں تو صرف انہیں (ص) کے مقدس ہاتھوں میں ؟ حتیٰ کہ وہ دن بھی آگیا جس دن کے انہیں (ص) سب کفار سرداروں کو مل شہید کرنا تھا؟ لیکن امانتیں ابھی تک انہیں (ص) کی تحویل میں تھیں؟ جب کفار کے اس منصوبہ پر ان (ص)کواللہ سبحانہ تعالیٰ نے مطلع کیا تو انہیں (ص) اپنے بیٹوں جیسے چچا زاد بھائی کو جن کی پرورش انہوں (ص) نے خود فرمائی تھی۔خطرے میں ڈالنا پسند فرمایا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر سلادیا اس ہدایت کے ساتھ کہ تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا ، تم ان کی امانتیں واپس کرکے میرے (ص) پاس آجانا؟ فل الحال میری جگہ میرے بستر پہ سوجاؤ، اوران کے یقین کا عالم دیکھئے کہ وہ آرام سے ان کے بستر پر محوِ استراحت ہوگئے اور بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ اس دن مجھے جتنی اچھی نیند آئی پہلے کبھی اپنی زندگی میں نہیں آئی اور وہ امانتیں واپس کرکے ارشادات ِ عالیہ کے مطابق ان (ص)سے آملے؟اب آجائیے آخری شرط کے بارے میں انکا برتاؤ دیکھیں؟جس کے بارے میں ان (ص) کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ مجھے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مکرم الاخلاق بنا کر بھیجا ہے؟اس کی لاکھوں مثالیں ہیں جس کے لیے یہ چھوٹا سا مضمون ناکافی ہے؟ مگر مختصر یہ ہے کہ جس نے بھی ان کے ساتھ برائی کی اسکے ساتھ انہوں (ص)نے بھلائی کی حتیٰ کہ وہ دن اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عطا فرمادیا کہ مکہ معظمہ میں بطورفاتح انہیں (ص) داخل ہو نا تھا، اب وہ تنہا نہیں تھے بارہ ہزار جانثاروں کا لشکر جرار ان (ص) کے ساتھ تھا؟ وہ سب لوگ لرز رہے تھے جنہوں نے حضور (ص) پر ظلم کیے تھے صحابہ کرام اور صحابیات (ص) پر ظلم کیے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ مگرآج بھی فاتح مکہ، معلم اخلاق (ص) کا ،سر انکساری سے اس حد تک جھکا ہوا تھا کہ اونٹ کی پشت کو چھورہا تھا؟ کہ دیکھنے والوں کو بھی سجدہ شکر کا گمان نہیں بلکہ یقین تھا؟ اس لیے کہ انہوں نے ان (ص) کے قول اور فعل میں کبھی تضاد نہیں دیکھا ؟ آگے آگے منادی کرنے والا اعلان کرتا چل رہا تھا کہ آج کسی سے کوئی بدلہ نہیں جو گھر بند کیے بیٹھا رہے وہ محفوظ ہے، بچے محفوظ ہیں ، بوڑھے محفوظ، خواتین محفوظ ہیں، جو حرم میں پناہ لے وہ محفوظ ہے، جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے وہ بھی محفوظ ہے؟ یہ وہ گھر تھا جوکہ کبھی حضور (ص) کی سب سے پیاری شریک حیات حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) کی ملکیت تھا، جسے ابوسفیاں نے قبضہ کرکے اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کرلیا تھا؟اور ایک انہیں کا ہی گھر نہیں، بلکہ جتنے صحابہ کرام ہجرت کرکے کہیں گئے تھے ان سب کے گھروں پر کفارکا قبضہ تھا ؟ آج انہوں نے جب مطالبہ کیا کہ حضور (ص) ہمارے گھر تواب ان غاصبوں سے واپس دلادیجئے ؟ ارشاد ہوا کہ “ کیاتم نہیں چاہتے کہ تمہیں ان کے بدلے میں جنت میں گھر ملے“ سب نے کہا کہ حضور (ص) ہم اپنے گھروں کے بدلے میں جنت میں گھر چاہتے ہیں۔فاتح مکہ (ص) کے پاس جب تک وہ دنیا میں موجود رہے اسوقت تک مکہ میں ٹھیرنے کے لیئے جگہ نہیں تھی؟ جو اس سے ثابت ہے کہ حج الوداع کے موقع پر حضور (ص) نے منیٰ کے نشیبی علاقہ میں قیام فرمایا اور جب کسی نے پوچھا تو انہوں نے اپنے مکانوں کا ذکر کرکے ایک نام لیکر فرمایا کہ اس نے میرے لیے کوئی جگہ مکہ میں چھوڑی ہے، جہاں میں قیام کروں؟ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ منیٰ میں اسکے بعد وہاں قیام سنت بن گیا جس کو خلفائے راشدین نے بھی قائم رکھا اور آج تک وہ سنت جاری ہے؟ جبکہ بقیہ اراکان حج حضرت ابراہیم خلیل اللہ (ع) اور ان کنبے کی سنت تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان (ص) کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) تاکہ ہم بجائے “ ناراً حاویہ“ کے “جنت المعاویٰ“ اپنی دائمی رہائش گاہ میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوسکیں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے