ہم پہلے بھی بہت سی دفعہ عرض چکے ہیں کہ پاکستان سے ہم چھ مہینے، بارہ گھنٹے پیچھے اور بقیہ چھ مہینے 13 گھنٹے پیچھے رہتے ہیں ؟ اس وجہ سے دن کی خبریں رات کواوررات کی خبریں دوسرے دن صبح کو ملتی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی ہیڈماسٹر نے کسی بچے سے پوچھا کہ بیٹا تمہارے ابّا کیا کرتے ہیں؟ یہ پہلے زمانے کی بات ہے کہ اسوقت ٹیچروں کی تنخواہیں کم تھیں تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اساتذہ اپنے پاس پڑھنے والے بچوں سے انکے والدین کی مالی حیثیت ٹٹولا کرتے تھے اور وہ اس قسم کے سوالات کرکے اندازہ لگالیتے تھے کہ ان تلوں میں کتنا تیل ہے؟ وہ ہی نہیں بلکہ ایک ڈاکٹر صاحب کو بھی ہم نے اپنے مریضوں سے آمدنی پوچھتے دیکھا اور انہیں اس سے مریض کی حیثیت کے مطابق بل بناتے بھی دیکھا؟ ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر بل مریض کی حیثیت سے کم ہوگا تو اول تووہ دوا کو نالی میں پھینک د ےگا اور اگر کھابھی لی تو فائدہ نہیں کریگی؟ بعد میں بھٹو صاحب آئے تو تمام اسکولوں اور کالجوں کو یکساں بنانے کے لیے قومی ملکیت میں لے لیا۔ جب سے اساتذہ خود کفیل ہوگئے۔ اب ان کے ذرائع آمدنی اتنے ہیں کہ وہ ہر طرح سے خود کفیل ہیں اور اس قسم کے سوالات انہیں کرنے کی ضرورت نہیں رہی؟ یہ بہت پرانی بات ہے چونکہ بچے کاجواب بڑا دلچسپ تھا وہ ہم آپ کو سنا کر آگے بڑھتے ہیں۔ اس نے کہا سر! موسم ِ گرما میں وہ آئی سی ایس ہوتے ہیں اور سرما میں پی سی ایس؟ ماسٹر صاحب جواب سن کر چونک اٹھے! مگر انکا دل نہیں مانا کہ کسی، سی ایس پی آفیسر کابچہ اوروہ عام اسکول میں پڑھے ناممکن ! انہوں نے ضمنی سوال کرڈالا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہرسال تمہارے والد صاحب کاکیڈر بدل جاتا ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ سر ! وہ گرمیوں میں آئس کریم فروخت کرتے ہیں اس وجہ سے وہ آئس کریم سیلر کہلاتے ہیں اور سردیوں میں اسکولوں میں آلو کے چپس فروخت کرتے ہیں لہذا پٹیٹوچپس سیلر کہلاتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے یہاں نظریہ ضرورت کے تحت موسم بدلتے ہی، وقت بدل جاتا ہے، سورج چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حکم سے نکلتا ہے اس پر کسی کا زور نہیں چلتا اسلیے وہ کبھی دن سے ایک گھنٹہ چھنتے ہیں اورکبھی رات سے تاکہ ان کے کام کے اوقات گھٹیں نہیں؟ چونکہ پاکستان میں وقت ہر ایک کے پاس فالتو ہے وہ اپنے نظام الا وقات کو آگے پیچھے کرکے کام چلا لیتے ہیں۔مشرف صاحب نے وہاں بھی یہ تجربہ کرکے دیکھا تھا مگر کامیاب نہیں ہو سکا؟ یہ تھی ہم تک خبر لیٹ پہنچنے کی وجہ؟
چونکہ ہم آج بہت ہی خوش ہیں کہ صبح ہی صبح ایک اچھی خبر وہ بھی ایک کم انہتر سال کے بعد سنی کہ ایک نہیں بلکہ ایک کم ایک درجن فوجی افسران کا پاکستان میں احتساب ہوگیا۔ جو پاکستان بننے سے لیکر آج تک کبھی نہیں ہوا، حالانکہ ان کا بھی نہیں جنہوں نے پاکستان توڑا؟ لہذا ہم بلا خوفِ تردید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ایک انہو نی بات ہوگئی ہے؟ جبکہ پاکستان بنا مسلم معاشرہ پیدا کرنے کےلئے تھا؟ اسلام نے ہمیشہ خود احتسابی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔جسکی مثالیں حضور (ص) کی ابتدائی زندگی سے لیکر ان کے وصال اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے دور تک ملتی ہیں۔ یہاں ہم حضور (ص) کی زندگی سے صرف دو مثالیں پیش کررہے ہیں ؟
ایک یہودی سے انہوں (ص) نے پانچ من اور کچھ سیر کھجوریں ادھار لیں، جسے کہ وقت معینہ کے گزرنے کے بعد وصولی کے لیے دربار ِ رسالت میں اسےآناپڑا اور وہ مطالبہ کرتے ہوئے ادب ملحوظ نہیں رکھ سکا۔؟یہ صحابہ کرام کو بہت برا لگا اور وہ اس پر بہت ناراض ہوئے ؟مگر حضور (ص) نے صحابہ کرام کے رویہ پر یہ فرماکر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا کہ “ وہ حق پر ہے تمہارا رویہ غلط تھا؟ مزید یہ بھی کہ وہ اُمتیں زمین پر باقی نہیں رہتیں جس کے کمزور کو اس کے با اثر آدمیوں سے اپنا حق وصول کرنے میں دشواری پیش آئے“ تفصیل طویل ہے مختصر یہ کہ وہ بار بار پھیلتا رہا اور اس کے با وجود انہوں (ص)نے اس کے سارے مطالبات پورے کیے اور مزید احسان فرما کرکے اسے خصت فرمایا اور ایک روایت کے مطاق وہ خوش ہوکر اور دوسری روایت کے مطابق مسلمان ہوکر واپس گیا؟
جبکہ آخری واقعہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ حضور (ص) جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو انہوں نے احتساب کے لیے خود کو پیش فرمایا، ایک شخص کے تین دینار نکلتے تھےوہ اسکوادا کرنے کا حکم دیا، جبکہ دوسرا شخص اپنا ایک مقدمہ لیکرپیش ہوا کہ ایک دن حضور (ص) نے اس کی پِیٹ پر کوڑا مارا تھا جبکہ اس کی پشت برہنہ تھی اور وہ اس کا بدلہ لینا چاہتا ہے ۔سب نے اسے سمجھا یا،مگر وہ نہیں مانا حضور (ص) نے فرمایا کہ جس طرح یہ بدلہ لینا چاہتا ہے میں اس کے لیے تیار ہوں ؟ اسکی شرط کے مطابق حضور (ص) کی پشت مبارک کو برہنا کیا گیا اور اس نے وہاں کوڑا مارنے کے بجائے مہر نبوت کو چوم لیا ؟ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے بتایا کہ میں نے حضور (ص) کو ارشاد فرماتے سنا تھا کہ جس کا جسم میرے جسم سے چھو جا ئے وہ بھی جنت میں جائے گا اس لیے میں نے ایسا کیا؟ رہا جنرلوں اور افسروں کامعاملہ تو وہ حضرت عمر (رض) کے دور ِ حکومت میں حضرت خالد (رض)بن ولید کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ سب کو یاد ہوگا اور ان کانظام حکومت بھی ؟لہذا اب میں مزید تفصیل کو چھوڑتا ہوں اور وہ خبر سناتا ہوں جوکہ اب آپ سب کےکے لیے بہت پرانی ہوگئی ہے۔ مگر یہ پہلی انہو نی ہونے کی وجہ سے تاابد تازہ رہے گی؟ جس کی ابتدا جنرل راحیل شریف صاحب نے کی ہے ؟ جس نے ان سب کے منھ بند کر دیئے ہیں جو ان پر طنز کر رہے تھے ۔اب جو کو ئی بھی پاکستان میں ان کے اتباع میں آگے بڑھے گا، وہ عمل ان کے کھاتے میں بھی تا قیامت لکھا جاتا رہے گا؟ جس کی مثال پاکستان میں نہیں تھی کہ کبھی کسی ملٹری آفیسر کو سزا دی گئی ہو جوکہ جنرل سے شروع ہوئی اور میجر پر آکر ختم ہوئی ہو؟ اب لوگوں کا وہ اعتراض تو ختم ہوگیا ہے اور پوری قوم اس اقدام کی تعریف کر رہی ہے کہ انہوں نے احتساب اپنے محکمہ سے شروع کیا لہذا سب اپنے اپنے محکموں سے شروع کردیں اور جو سب سے بڑے ہیں وہ اپنی ذات اور اپنے خاندان سے شروع کردیں اور خود کو احتساب کے لیے قوم کے سامنے پیش کر یں ؟ تاکہ پھر کسی کو بیت المال خورد برد کرنے کی جراءت نہ ہو؟اگر آپ تاریخ میں جائیں تو وہ سنہری مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ اسی فوج میں جنرل اکبر خان سولجر جیسے جنرل بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نے سینیر ہونے کے باوجود خود کو اس عہدہ کا اہل نہ جان کر ریٹائر ہونے کو ترجیح دی۔ مگر بعد میں ایک سیاستدان نے اپنی کسی مصلحت کی بنا پر ایک ایسے شخص کو دس سینیر ترین آفیسروں پر ترجیح دیکر کمانڈر انچیف کے عہدے تک پہونچایا جس کے بارے میں فوج اور عوام میں بہت سی افواہیں اور غلط فہمیاں تھیں جبکہ وہ کرنل تھا ؟ اس کوشش میں شفاف قسم کے فوجی افسران میں سے ایک کو ایران میں سفیر بنا دیا گیا اور باقی کو اس غلط بخشی نے مجبور کردیا کہ یا تو وہ ایک جونیر کو سلوٹ کریں یا پھر استعفیٰ دیکر خودکواس ذلت سے بچا ئیں ؟ پھر اسی جنرل نے پاکستان میں جمہوریت کی بساط سمیٹ دی جس کا تسلسل ابھی تک چلتا رہا ہے کہ فوج نے کبھی سامنے آکر حکومت کی، کبھی پیچھے رہ کر حکومت کی؟ اب اس کا حل ایک ہے کہ جو سب سے بڑا ہے وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کرے ؟ یا پھرکوئی اور بشمول سیاست داں اسے اتنامجبور کردے کہ سب کو خود احتسابی کی روش اپنا نا پڑے ؟ اور احتساب کاسلسلہ اداروں میں بعد، میں پہلے اقتدارِ اعلیٰ سے شروع ہو؟ اس لیے کہ جہاں مقتدرِ اعلیٰ اس قدر مجبور ہو کہ وہ چوروں کی سرپرستی کرے ، رشوت خوروں کی سرپرستی کرے اور غیر ملکی ایجنٹوں کی سرپستی ،تو انصاف کہاں سے مہیا ہو گا ؟ جبکہ مسلمانوں کو اسلام یہ سکھاتا ہے کہ “صرف بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو برائیوں میں نہیں ؟ جس کی مثال میں نے شروع میں دی کہ ایک طرف وہ ذات اقدس (ص) تھی کہ جس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ انہیں (ص) اپنی جان سے بھی زیادہ چاہو ،تب مسلمان کہلانے کے مستحق ہوگے، مگر وہ (ص) سبق دے رہے ہیں کہ اگر ایسا کوئی معاملہ ہو جیسا کہ بھول چوک سے میرے ساتھ پیش آیا تو بھی میرا نہیں، حقدار کا ساتھ دو؟ لہذا جو مقتدرِ اعلیٰ اور ان کے خاندان سے احتساب کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ حق پر ہیں، اس لیے کہ قبلہ ٹھیک ہے تو سب کچھ ٹھیک ہے اور قبلہ ہی غلط ہے تو سب کچھ غلط ہے؟دوسری میں نے سیاسی مثال پیش کی پاکستان کے ابتدائی دور سے ہی اگر ابتدا سیا سی مصلحت سے نہ ہوتی تو آج یہ صورت حال نہ ہو تی کہ جس کے بھی “پیرے اٹھاو “ ( کھوجی کے ذریعہ کھوج لگانا)وہ وزیر مشیر اور اقتدار اعلیٰ تک جاتے ہیں ۔ تھانے بکتے ہیں ٹیبلیں روزانہ کی بنیاد پر ٹھیکے پر دی جاتی ہیں ، ڈاکوؤں سے ساجھے ہیں ،اکا دکا م اپنے دشمنو ں کو راہ سے ہٹا نے کے لیے بھی لوگ ن سے لیتے رہتے ہیں ؟ اکثرمقتدرِ اعلیٰ عوام کی مرضی سے نہیں اوروں کی مرضی سے آتے ہیں؟ کبھی پڑوسییوں کی مرضی سے آتے ہیں کبھی دور دراز ملکوں کے شاہوں کی مدد سے بچ بچاکر آتے ہیں اوران کے اشاروں پر ناچتے ہیں؟ ایسے میں ملک کامفاد کون دیکھے اور کیسے دیکھے ؟ تازہ مثال ہمارے سامنے ہے کہ صرف ایک بڑے آدمی کو پکڑا گیا ۔ اور ایک خاتون پکڑی گئیں ،جن کے مقدمات رواجی عدالتوں میں نہیں بلکہ خصوصی عدالتوں میں چل رہے ہیں، اس میں اتنے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے کہ کمانڈر اچیف کا دور ختم ہونے کو آگیا مگر ایک کو بھی سزا نہیں مل سکی جبکہ اسی کمانڈر چیف نے کچھ اپنے ساتھیوں کو ابھی ،اور کچھ کو پہلے سزا دیکر دکھا دی ؟ اس میں بہت سا سبق ہے پوری قوم کے لیے۔بجا ئے دستور اور جمہوریت کی دہائی دینے کہ کوئی کچھ کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟ اللہ ہم سب کو ہدایت دے (آمین)