۔یہ وبال شخصیت پرستی۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

آج دو چیزیں پڑھنے کا اتفااق ہوا۔ ایک توخبر تھی کہ ایک یونیورسٹی کے مہمان ِ خصوصی چار گھنٹے لیٹ پہونچے اور دوسری ایک تحریر تھی کہ ایک ادارہ جس کے لوگ جوکل تک بڑے مقدس سمجھے جاتے تھے وہ بھی پیسے بنا رہے ہیں خداکرے کہ یہ بات غلط ہو اور قوم کی امیدوں کو ٹھیس نہ پہونچے؟جبکہ ہمارے عرضِ پاک میں یہ دونوں چیزیں عام ہیں۔ پھر بھی ا نہیں ایسی کوئی نہ کوئی مجبوری حائل ہوتی ہے کہ لوگ مہمان خصوصی بنائے بغیر بعض نہیں آتے ؟اور وہ بھی خاص طور سے تعلیمی اداروں میں؟ جہاں کہ اگر بنانا بہت ہی ضروری ہو اور بنائے بغیر کام نہ چلتا ہو تو کم از کم اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ جو مہمانِ خصوصی بنایا جارہا ہے وہ س کا اہلِ بھی ہے اور ان مضامین کو بھی سمجھتا ہو جو اس تعلیمی ادارے میں پڑھائے جاتے ہیں؟ نیز انتظامیہ کو مہمان ِ خصوصی کے مزاج سے بھی واقف ہونا چاہیے؟ اور اس کے اوقات کار سے بھی کہ وہ کتنے بجے سوکر اٹھتا ہے اور کب ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے؟ پھر کب اپنے ہوش میں واپس آتا ہے؟ یہ باتیں اس کے نوکر چاکروں کی مٹھی گرم کے معلوم کی جا سکتی ہیں ؟ پھر انتظار کی سزا بچوں کو نہیں بھگتنی پڑے گی؟ بلکہ اس کے لیے کوڈ آف کنڈیکٹ بنا لینا چاہیے کہ تاکہ لوگوں کو اپنے ذوق کے مطابق مہمانِ خصوصی منتخب کرنے میں آسانی رہے۔ اور حاضریں محفل بھی آنرایبل مہمان ِ خصوصی کے انتظار کرنے کی سزا بھگتنے میں کوفت محسوس نہ کریں؟ پھر طعام کا بھی معقول نتظام ہوناچاہیے یعنی سلوپری وغیرہ سب کے لیے اور بچیوں کے لیے کھٹی مٹھی چیزیں، جن سے حاضرین شغل فرماتے رہیں ؟
جب ہم وہاں تھے تو رواج یہ تھا کہ مہمان ِ خصوصی کو ایک گھنٹہ لیٹ وقت دیتے تھے اور عام لوگوں کو ایک گھنٹہ جلدی آنے کی تاکید فرماتے تھے۔اب ملک اور بھی ترقی کر گیا ہے اور اسی وجہ سے وقفہ انتظار طول پکڑگیا ہے۔ کیونکہ عوام چارگھنٹے لیٹ پہونچتے ہیں تو مہمانِ خصوصی بھی اسی حساب سے اپنا پروگرام بناتے ہیں۔ لہذا جو جلد باز اور وقت کے پابند ہیں وہ اپنی غلط روی کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہیں؟ یہ 1957 کی بات ہے کہ ہمیں غلطی سے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بطور مہمان ِ خصوصی مدعو کرلیا؟ ہم اس رات اس خوشی میں ٹھیک سے سوئے بھی نہیں اور سوچتے رہے کہ ہمیں یہ کہنا ہے اور وہ کہنا ہے؟حالانکہ ہمیں جو وقت دیا گیا تھا وہ چار بجے شام کاتھا؟ مگر ہم صبح ہی سے تیار ہوگئے ۔اور جب چار بجے وہاں پہونچے تو دیکھا کہ ماسٹر صاحب اپنی نگرانی میں جھنڈیاں لگوارہے ہیں! وہ ہمیں دیکھ کر پریشان ہو گئے اوراپنا اتنا اہم کام چھوڑ کر ان کو ہمیں لے جاکر اپنے دفتر میں بٹھانا پڑا ، ان کے چہرے سے ظاہر ہورہا تھاکہ وہ ہماری اس حرکتِ پندیِ اوقات پر خوش ہونے کہ بجائے کچھ شاکی سے تھے کہ آپ وقت پر پہونچ  کیوں گئے؟ کیونکہ انہوں نے فرمایا کہ جب سامعین آجاتے تو ہم آپ کو فون کردیتے ؟ اب آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا ہوگی؟ ہمارا وہ دن کچھ اچھانہیں گزرا چونکہ ابتدا غلط ہوئی تھی ؟ ہمیں ہمیشہ سے اسلام سے دلچسپی ہے لہذا اسلام ہمار ااوڑھنا بچھوناہے، مگر خرابی یہ ہے کہ ہم بظاہر مذہبی آدمی دکھائی نہیں دیتے؟
جب ہماری تقریر ختم ہوئی تو جو صاحب تقریر بہت غور سے سن رہے تھے اور ہمیں امید تھی کہ ہمیں داد بھی سب سے زیادہ انہیں سے ملے گی ؟ انہوں نے داد تو واقعی دی، مگر چونکہ بظاہر ہم مسلمان نہیں لگ رہے تھے؟ لہذا انہوں نے یہ کہہ کر سب پر پانی پھیر دیا کہ بیٹا “آپ نے باتیں تو بڑی اچھیں کیں! اگر داڑھی رکھ لیتے ،اور کرتا شلوار میں ہوتے تو کتنا اچھا ہو تا“ پھر ہمیں خود بھی ایک بار بعد میں غلط بخشی کا شکار ہونا پڑا جسکو آپ ا یک قسط وار مضمون کی شکل میں مہنیوں پڑھنےکی سزابھگتے رہے، جو یہ تھا کہ ہمارے ایک کرم فر ما نے ہماری کتاب کے لیے جو کہ حضور (ص) کی سیرت پر تھی ایک مشہور شاعر کو مہمان ِ خصوصی بنا دیا ،وہاں وہ شگوفے پھوٹے جو بیان سے باہر ہیں۔ چونکہ واقعہ زیادہ پرانا نہیں ہے لہذا وہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا؟
وہ وقت وہ تھا جبکہ کہ قومی لباس انگریزی تھا بھٹو صاحب ابھی پاکستان میں نئے نئے وارد ہوئے تھے اور برسرِ اقتدار بھی نہیں آئے تھے؟ تمام حکمراں بمع قوانین اسی روش پر چل رہے تھے جو انگریزوں سے ورثے میں ملی تھی ۔ بہت سی جگہ توقومی لباس میں داخلہ تک ناممکن تھا؟خدا ان کا بھلا کرے کہ انہوں نے بر سرِ اقدار آکرقوم کو ایک قومی لباس دیا ۔ ورنہ ابھی تک وہی چل رہا ہو تا، دوسرا تازیانہ ہمیں اس وقت لگا کہ عوام کے لیٹ آنے کی وجہ سے ہماری لمبی لکھی ہوئی تقریر تھوڑے وقت میں ہم سے سموئی نہیں جارہی تھی لہذا اسکی وجہ سے تیز بولنا پڑا تو لائوڈ اسپیکر نے ہمارا ساتھ دینابند کردیا اور لوگ سمجھ نہیں سکے۔ جبکہ ہمارے سامنے پھر ایک امتحان تھا کہ مغرب کا وقت قریب آرہا تھااور ہمیں خود کو اچھا مسلمان بھی ثابت کرنے کے لیے اذان سے پہلے اسے ختم کرنا تھا ؟ جس پر بچوں نے چلتے ہوئے یہ تبصرہ کیا کہ “ سر آپ کی تقریر تو بہت اچھی تھی مگر لاوڈ اسپیکر خراب تھا“ یہ ہم نے اپنے مہمان ِ خصوصی ہونے کا یک تجربہ بیان کیا؟ اب ہم دوسرے مہمان خصوصیوں کی ایک دو باتیں بیان کر کے بات ختم کرتے ہیںِ۔ بھٹو صاحب انقلابی آدمی تھے لہذا انہوں نے اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ کس عہدے پر کیسا آدمی چائیے اس لیے کہ سب سے پہلے ا نہوں نے یہ سی ایس پی، پی ایس پی کا چکر ختم کردیا ؟ جو پہلے حکمرانوں کی خامیاں اکثرا پوری کردیا کرتا تھا، کیونکہ تقریر کا ڈرافٹ اور ہر قسم کا مسودہ وہ تیار کر دیتے تھے بس پڑھنا ان کا کام ہوتا تھا؟ چونکہ آنےوالے نو زائیدہ لیڈروں سے یہ سہولت چھین لی گئی اور معیار خوش آمد رکھا گیا تو عجیب عجیب لطیفے وجود میں آئے۔ ایسے میں کسی کو نہ جانے کیا سوجھی یا شاید تشخیص غلط ہوئی جیسے کہ اکثر عطائیوں سے ہوجاتی ہے کہ انہوں نے بچوں کے امتحان میں رعایتی نمبر ختم کر دیئے جو چند فیصد تھے ؟ طالب علموں کے ایک وفد نے گورنر کے سامنے ان کی شکایت کی تو آنر ایبل گورنر نے جواب میں کہا کہ کوئی بات نہیں ہے ہم دوسو فیصد نمبر بڑھادیں گے اور بچوں کے فلک شگاف قہقہے سنا ئی دیے؟
اب آئیے کچھ باتیں اس تضاد کے بارے میں ہوجائیں کہ یہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جانے والے کل میں جو فرشتے کہلاتے ہیں وہ آنے والے کل کو ،نظروں سے کیوں گر جاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود کو نہیں بدلنا چاہتے، اوروں کو بدلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جبکہ کہلاتے ہم مسلمان ہیں؟ حالانکہ ہادی اسلام  (ص)نے پہلے خود عمل کرکے دکھایا، پھر کہیں جاکے اوروں کو دعوت دی، اس سے جو مشینری پیدا ہوئی اس نے اسلامی نظام قائم کیا؟ مگر ہم لٹھ لیکر اسلام نافذ کر نے پر لگے ہوئے ہیں؟ اس پر میں وہ پرانا لطیفہ دہرا دیتا ہوں جو آپ نے بہت بار سنا ہے کہ ایک صاحب کسی غیر مسلم پر بندوق تان کر کھڑے ہوگئے اور کہنے تم کلمہ پڑھو ؟بیچارہ جان بچانے کو آمادہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ خان صاحب پہلے آپ پڑھ کر سنا ئیں تو میں دہرادونگا ؟ کہنے لگے وہ تو مجھے بھی نہیں آتا، تم پڑھو؟ یہ ہمارے یہاں آجکل عام پریکٹس ہے کہ خود نہ سیکھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں، جو اعمال ہیں وہ اسلام سے کوسوں دور ہیں، مگر ہم دوسروں کومسلمان بنانے پر لگے ہوئے ہیں؟ جبکہ جبر اً کسی کو مسلمان بنانااسلام میں منع ہے۔اس لیے کہ جبر کبھی پائیدر نہیں ہوتا؟ اور خوشی سے کوئی چاہے کہ مسلمان ہوں جاؤ ں وہ ہمار ےا پنے پیش کردہ عملی نمونوں کی وجہ سے اس میں اپنے لیے کوئی کشش نہیں پاتے نہ دین میں نہ دنیا میں لہذا اس طرح دین کا نقصان ہورہا ہے؟ برصغیر میں ا س کی مثال صرف مولانا مودودی مرحوم نے پیش کی ،مگر وہ پاکستان بننے تک کئی سالوں میں صرف بیاسی مسلمان ایسے بناسکے، جبکہ پاکستان میں بھی کافی عرصہ انہوں نے اپنی روش وہی رکھی اور فراہمی کا عالم بھی وہی رہا؟ حتیٰ کہ انہیں سزا ئے موت سنا دی گئی۔ اس کے بعد شاید ان کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نے سیاست میں سیااستدانوں کی طرح حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ؟اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے پرانے ساتھی انہیں چھوڑ گئے؟کیونکہ وہ اس نئی کھیپ کے ساتھ نہیں چل سکتے تھے؟ وہ اس خیال کے حامی تھے کہ چاہیں پوری عمر گزر جائے ،مگر جب تک پوری طرح کوئی مسلمان نہ ہو جائے اسوقت تک وہ اسلام کے کام کا نہیں ہے۔ جبکہ بعد میں کارو بارِ جماعت متاثرین اور متفقین کے ہاتھوں چلنے لگا اور جماعت کا وہ معیار نہیں رہا اور اس پر پہلی بار انگلیاں اٹھنے لگیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جبکہ تک ہم اسوہ حسنہ (ص) اختیار نہ کریں ہم ووہ مشنری تیار نہیں کرسکتے جو بےداغ ہو! اس کاوش میں ہم صرف دین کی بد نامی کا باعث ہو تے رہیں گے؟ دو میں سے ایک صورت حال ہوگی یاتو شدت پسندی یا پھر، ماڈرن ازم جبکہ اسلام صرف اسوہ حسنہ (ص) میں پنہاں ہے اس کی ا س کے سو١ کوئی اور شکل نہیں ہے؟ ورنہ یہ ہی ہوتا رہے گاکہ جیسا آج کل ہے کہ آج کے فرشتہ سے کل معیار پر پورا نہ اتر نے کی وجہ سے، کل کو لوگ شاکی ہو جائیں گے ؟ کیوں ! اس لیےکہ ہم خود کو بدلنا نہیں چاہتے ہیں؟ مگر دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں وہ ہمیں فرشتے بن کر دکھائیں، جبکہ وہ ہمارے جیسے بھی نہیں ہیں بلکہ ہم سے بھی کچھ آگے ہیں؟ اس کی مثال آپ اس سے سمجھ لیجئے کہ ہم چھوٹے اور بڑے پتھروں کو ہاتھوں سے رولیں تو جو بڑا ہوگا وہی ہاتھ میں آئے گا ۔ اسکا حل یہ ہے کہ پہلے ہمیں خود ا چھا بننا پڑےگا پھر کہیں جاکر ان اچھوں میں کچھ رولیں گے تو اچھے سامنے آئیں گے ایسے جوکہ قیادت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قیادت کی ذمہ داری اٹھانے سے بھاگیں گے جیسے کہ صحابہ کرام (رض) تھے؟

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Uncategorized. Bookmark the permalink.