واقف کاروں اور بہی خواہوں کو پتہ تھا کہ حکمراں خاندان پر بجلی گرنے والی ہے؟ اور وہ اس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے جبکہ حزب اختلاف اپنی پارٹی کے دراڑوں میں سیمنٹ بھرنے پر لگی ہوئی تھی، یازخموں کو چاٹ رہی تھی اس لیے اس نے کوئی تیاری نہیں کی ؟ اس کے برعکس حکومت نے شاید ان پیر تسمہ پا سے مشورے کے لیے کسی طرح اور کسی کے توسل سے رابطہ کرلیا جو تاسیس ِپاکستان سے اس قسم کے مشورے دینے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اس قانون خالق بھی ہیں جو ایسے موقعوں پر ہمیشہ بلامتیاز فوجی اور جمہوری آمروں کے کام آتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہی انہیں بھی راستہ دکھا دیا کہ تم سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک کمیشن بنانے کا اعلان کردو؟ کیونکہ یہ بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے۔ جس سے سانپ بھی مرجاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ اس کی افادیت نہ ہونے کی بناپر چھپن کا آئین تو ایوب خان نے توڑدیا تھا مگر اس کو باسٹھ کے آئین میں تحفظ دیدیا، جو کہ بعد میں سب آئین توڑنے والوں نے باقی رکھا اور ابھی تک چلا آرہا ۔ یہ عوام کے لیے وہی کام کر تا ہے جو لولی پاپ بچے کے لیے ؟ جب چیخے اس کے منہ میں لولی پاپ دیدو وہ نہ صرف خاموش ہوجائے گابلکہ منھ میں جب تک اس کی مٹھاس محسوس کریگا چپ بھی رہے گا۔ کیونکہ یہ شروع دن سے ہی بڑی کامیابی سے چلتا آرہا تھا اس لیے اسے 1973کے آئین میں بھی بھٹو صاحب جوخود بھی سیانے تھے ،انہوں نے بھی اپنے سیانوں کے مشورے سے باقی رکھا ؟پھر حمود الرحمٰن کمیشن بنا کرا س کی ا فادیت انہوں نے بھی فائدہ اٹھا یا کہ ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی جنہوں نے پاکستان توڑا تھا۔ اگر وہ چاہتے تو اسوقت توڑنے والوں کو سزا دے سکتے تھے کیونکہ انہیں یہ فخر حاصل تھا کہ انہوں نے ایک دن میں یہ کہہ کر25 میجر جنرل نکا ل دیے تھے کہ ً یہ سب فوجی وڈیرے ہیں ان کے گاؤں کے گاؤں فوج میں ہیں ؟جن میں ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں تھا اگر تھا تو ان کے اجداد کا کہ انہوں نے یا ان کے بھی بڑوں نے ر ہائش کے لیے وہ علاقہ کیوں پسند کیا جو سولجر لینڈ کہلاتا ہے ۔
جنہیں ہندوستان کی تاریخ سے تھوڑی سی بھی دلچسپی ہے وہ جانتے ہیں ، کہ جو حصہ اب پاکستان کہلاتا ہے اس میں کچھ علاقے ایسے ہیں جنکی پشتیں فوج میں گزریں کیونکہ اس علاقے کی زمین زرخیز نہیں ہے اوروہ ہمیشہ سے صرف فوج کے لیے سولجر پیدا کرنے کے کام آتے رہے ہیں اور اسی لیے سولجر لینڈ کہلاتے ہیں۔ لوگ ہمیشہ کی طرح اس ا مید پر بیٹھے رہے کہ اس کا ابکی نتیجہ ضرور نکلے گا کہ بھٹو صاحب انقلابی آدمی ہیں۔ جو نکلا بھی ؟ تاخیر سے سہی ۔اس کی رپورٹ آبھی گئی۔ مگر عوام تک نہیں پہونچی کیونکہ اسے بھٹو صاحب اپنی کرسی کی گدی کے نیچے رکھ کربیٹھ گئے جیسے اکثر عدالتوں میں ہیڈ کلرک کسی انتہائی اہم فائل کو اپنی کرسی کی گدی کے نیچے دبا کر بیٹھ جاتا ہے اوراَدھر اپیل کا وقت نکلتے دیکھ کر اس سے اسے حسب مرضی نیازی چراغی مل جاتی ہے۔ اگر نہ ملے،تو فائیل باہر نہیں آتی ہے کیونکہ یہ کسی کے خیا ل میں بھی نہیں ہوتا کہ ہیڈ کلرک صاحب اپنی گدی کے نیچے اسے دبائے بیٹھے ہونگے۔ اور نہ کسی کی جرات ہوتی ہے کہ کسی صاحب اختیار کی چاہیں وہ ہیڈ کلرک ہی کیوں نہ ہو؟ تلاشی لے سکے اور کہے کہ سر اٹھیے میں آپکی کرسی کی گدی کے نیچے سے فائل تلاش کرنا چاہتا ہوں؟ لیکن موجودہ حکمرانوں نے اندازہ غلط لگایا اور وہ جلدی میں شاید اس پر غور نہیں کرسکے کہ اب میڈیا وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ اور یہ کہ میڈیا حکومت کی تمام پیش بندیوں سے باخبر ہے اور سارا کچا چٹھا وقت نے پر کھول دیگا؟
لہذاا بھی کمیشن بننے کا وعدہ ہی ہوا تھا کہ اس نے عوام اور حزب ِ اختلاف دونوں کو خبردار کردیا کہ اگر اس کو مان لیا تو انتظار کے لمحے اتنے طویل ہو جائیں گے کہ کم ا ز کم سو نہیں تو ستر سال تو ضرور لگیں گے جتنی پاکستان کی عمر ہے؟ جبکہ اس سے پہلے جب بھی اس قانون کے تحت کمیشن بنا تو وہ بظاہر لا محدود اختیارات کا مالک ہوا کرتا تھا۔اب اسے مزید بے کار کردیا گیا تھا کہ وہ ایک ٹرمس آف ریفرینس کے ساتھ تھا ؟ جس کے معنی یہ تھے کہ وہ تحقیقات کرتے ہوئے بھی اپنے د ائرہ ختیار میں رہے گا۔ لہذااپوزیشن کے کان کھڑے ہوگئے وہ ہتھے سے اکھڑ گئی کہ وہ پرانے کھلونے سے کھیلنے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ وہ نئے ٹرمس آف ریفرینس کے ساتھ نیا قانون مانگ رہی ہے؟ یہ تو تھی قانونی داؤں پیچ کی صورت ِ حال۔ مگر دوسری طرف بھی کچی گولیاں کھیلنے والے نو آموز کھلاڑی نہیں ہیں ، انہوں نے حزب ِ اختلاف کی صفوں میں اپنے آدمی پہلے سے ہی داخل کیے ہوئے تھے جو اس میں بخوبی کردار ادا کر رہے ہیں۔ دوسرے ماشا اللہ پانامہ لیکس کے مارے دونوں طرف ہیں اور اپنی گردن دوسرے کے ہاتھ میں بھلا کون دیتا ہے؟ لہذا دونوں کھلاڑی میدان میں کود پڑے ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالتے پھر رہے ہیں اور محاورے تک بھی بے جوڑ استعمال کر رہے ہیں “جیسے کہ یہ منھ اور مسور کی دال؟ حالانکہ انہیں یہ کہنا چاہیئے تھا کہ وہ جانتے ہیں ان کا واسطہ کس سے پڑا ہے ۔سو سنار کی اور ایک لوہار کی ؟ کہاں سنار کی ٹک ٹک اور کہا ں لوہار کا ہتھوڑ ا؟
اوروں کی تو خیر ہے جیسے یہ ویسے وہ؟ مگر ہم نے ایک مولانا صاحب کویہ فرماتے ہوئے حیرت سے سنا جو وہ الہءدین کے جن کی طرح فرما رہے تھے کہ “بس سرکار حکم کریں ہم آپ کے مخالف کے گھر کی اینٹیں تک غائب کردیں گے“ یہ وہ صاحب ہیں جو اکیلے نہیں ہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن رکھتے ہیں، یعنی ایک جماعت کے سربراہ ہیں اور اسلامی مدرسوں کی ا یک چین کے مالک بھی ۔ ان کی نظروں سے یہ آیت ضرور گزری ہوگی کہ جس میں ہدایت ہے کہ “ مسلمان صرف بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں برائی میں نہیں “وہ گھر کے بھیدی ہیں اور انہیں اپنے ممدوح کی تمام خوبیاں بھی معلوم ضرور ہونگی! وہ دھوکا نہیں کھا سکتے اس لیے ان کا یہ کہنا ہمیں بہت ہی عجیب لگا؟ جب کہ ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ ایک مسلمان کا مال عزت اور آبرو دوسرے پر حرام ہے لہذ ا ہمیں پتہ نہیں کہ وہ آقا کے دشمن کا گھر مسمار کر کے اس کی اینٹیں رکھیں گے کہاں ؟کیونکہ وہ کچی اینٹیں توہیں نہیں، جن کو وہ کسی نالے میں ڈال کر اور اس پر قبضہ کرکے زرعی آراضی بنا کر بیٹھ جائیں ۔ جبکہ ہمارے علماءکا یہ عالم ہے تو قوم کو دین کا علم کون سکھائے گا؟ اور االلہ سے کون ڈرائے گا اورسیدھا راستہ کون بتا ئے گا؟ ویسے ہم ایک بات بتاتے چلیں کہ ہم بات جمہوریت کی کرتے ہیں جو پہلے دن سےخطرے میں ہے۔ مگرا سلام کی طرح عمل اس پر بھی نہیں کرتے۔ لہذا استعفیٰ اپنی مرضی سے پہلے کسی نے نہیں دیا سوائے چودھری محمد علی مرحوم کیونکہ وہ فقیر منش آدمی تھے؟مگر اب ملک اتنا ترقی کرگیا ہے کہ وہ فقیری جو اسلام کا خاصہ تھی، اب نام ونہاد علماء، فقرا ،عوام اور خواص ہی میں نہیں بلکہ اب کہیں بھی نہیں پائی جاتی ہے لہذا خود اخذ کرلیں؟ ٩مئی کو نئی قسط آنے والی تھی وہ بھی آگئی ہے؟
دیکھئے کیا ہوتا ہے ہم بھی انتظار کرتے ہیں اور آپ بھی انتظار کیجئے کہ اگلے ہفتہ تک اور کیاکیا عالم ظہور میں آتا ہے۔ اور ہاں ! پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرنا نہ بھولیے گا کہ جو ہو وہ ملک کے لیے بہتر ہو۔