آج پاکستان وہیں کھڑ ا ہے جہاں کہ کبھی محمد شاہ (رنگیلے ) کھڑا تھا ،جس نے اپنی حدسے بڑھی ہوئی رنگینوں کی وجہ سے یہ لقب حاصل کیا تھا مگر میرے خیال میں پھر بھی وہ موجودہ اور ہمارے بہت سے سابقہ حکمرانو ںسے بہتر تھاکہ اس نے اسوقت یہ اعترافیہ الفاظ ادا کیے جب دلّی لٹ رہی تھی اور نادر شاہ جو ہمیشہ کی طرح مغلوں کی مدد کے لیے اس کی دعوت پر آیا تھا! آج وہ خود اور اس کے سپاہی لوٹ رہے تھے۔ اس وقت یہ فقرہ اس نے بغیر کسی دباؤ کے دہلی کی تباہی پرکہا تھا؟ جس کے معنی یہ ہے ہیں کہ میری بد اعمالیوں کی وجہ سے (اللہ سبحانہ تعالیٰ نے) نادر شاہ کو بطورعذاب مسلط کردیا ہے؟ یعنی یہ اس کی طرف سے اظہار ِ افسوس تھا کہ اگر میں بد اعمالیاں نہ کرتا تو یہ صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوتی؟ ایسے مواقعہ تاریخ میں کئی بار آئے مگر من حیثیت القوم نہ اس پر مسلمان حکمرانوں نے کان دھرے نہ مسلمان رعیت نے۔ بلکہ ہمارے ہاں تو حد کردی کہ پہلے مشرقی پاکستان میں ظلم کی انتہا ہوئی اس پر ایک جنرل ٹکاخان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ we want land not men۔ یعنی ہمیں انسان نہیں زمین چاہیے ہے۔ یہ اس نے کس کے بارے میں کہا؟ اس آبادی کے بارے میں جو اکثریت میں تھی یعنی پورے ملک کل آبادی کا 54 فیصد اور وہ بھی وہ جس نے پاکستان کو بنانے والی جماعت مسلم لیگ بنائی اور نتیجہ کے طور پرپاکستان نام کی مملکت عالم وجود میں آئی ؟جبکہ جو اسے للکار رہا تھا۔ وہ اس خطہ سے تھا جس کی آبادی46 فیصد تھی جبکہ یہ دور جمہوریت کا تھا۔ مگر کسی نے بھی اعتراف کرنے کے بجائے، انہیں ہی جو ٹکا خان سے نہیں مارے جاسکے غدار قرار دیدیا۔ ویسے تو بہت سی مثالیں ہیں اس سے پہلے کی ایک مثال آخری خلیفہ معتصم بااللہ کے دربار کی ایسی ہی تھی کہ غدار اسکی جڑوں میں بیٹھ چکے تھے۔ ملت اسوقت سیکڑوں بادشاہتوں میں بٹی ہوئی تھی بادشاہ بننااس قدر آسان تھا کہ جوکوئی مٹھی بھر سپاہی جمع کر لے ا ور کسی علاقے پرقبضہ کرکے پھر خلیفہ کو نذرانہ پیش کردے ،تو اسے سندِ حکمرانی عطا ہوجاتی تھی؟ جبکہ یہ وہ وقت تھا چنگیز خان بغداد کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ مگر خلیفہ اس سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا تھا کیونکہ وہ اس کے ہاتھوں اس کے اور اپنے سب سے بڑے حریف شاہ خوارزم کو مروانا چاہتا تھا۔۔ وہ شاید یہ سوچ رہا تھا کہ چنگیز خان لوٹ مار کر کے اور اپنے اور اس کے درمیان میں دوستی کاخیال کرکے حکومت اسے بخش دیگا اور واپس چلا جائے گا۔ جبکہ اس وقت چنگیز خان کامقابلہ صرف شاہ خوارم کر رہا تھا؟ وہ واحد حکمرں تھا جو حریت پسند تھا اور اسلام کی نشاة ثانیہ چاہتا تھا یہ ہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا جس کی وجہ سے اپنے اور غیر سب دشمن تھے ۔ اس کے اس جرم کی وجہ سے سب مسلمان بادشاہ اس کی جان کے درپہ تھے، چنگیزی فوجیں اس کا پیچھا کرتی ہوئی دریائے سندھ کے کنارے تک پہونچ گئیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری؟ اور اپنا گھوڑا دریامیں ڈالدیا پھر اسکا پتہ نہیں چلا، نہ کسی نے چلانے کی کوشش کی جبکہ اسی کے وزیر نظام الملک طوسی کے دیئے ہوئے نصاب تعلیم درس نظامیہ سے آج تک لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں؟ حتیٰ کہ اس کی حمایت میں ایک آواز نہیں اٹھی بلکہ سب مطمعن ہوگئے کہ ان کی راہ سب سے بڑا کانٹا یہ ہی تھا جو دور ہوگیا۔ اسوقت وقت بھی خارجی چھوٹے ، چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں بکھرے ہوئے تھے۔ ماورا لنہر میں بھی ایک شاخ موجود تھی جس کے پاس فدائین ایک فوج تھی وہ جس کو چاہتے تھے قتل کرادیتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں فرانس کابادشاہ بھی نہیں بچا؟ اس نے بھی یہ ہی سوچا ہوا تھا کہ چنگیز اور اسکا بیٹا ہلاکو مجھے انعام سے نوازے گ۔ مگر دونو ں کو مایوسی ہوئی کہ اس نے فاتح بننے کے بعد اپنے دوست معتصم باللہ کے سامنے ایک لگن میں غلاف سے ڈھکے ہوئے اس کے بیٹوں کے سر اور اسے کھانے کے لیے ہیرے اور جواہرات پیش کیے۔ خلیفہ نے جب یہ کہا کہ یہ کھائے تو نہیں جاتے ہیں؟ تو جواب میں ملا کہ اگر تم ان کو فوج پر خرچ کرتے تو آج اس حالت میں میرے سامنے پیش نہ ہوتے؟ اور اس کے بعد پہلے اسے ہاتھی کے پاؤں سے بند ھواکر پورے شہر میں جلوس کی شکل میں گھمایا، گشت کرایا یہاں تک اس کے جسم کے پڑخچے اڑ گئے؟ جبکہ حسن بن سباح کے اسوقت جو جانشین تھے جب وہ اس کے دربار میں انعام لینے پہونچے تو انہیں ہلاکونے نصف زندہ زمین میں دفن کراکر بقیہ اوپر کا دھڑ تیروں سے اڑوادیا۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی اپنی تاریخ سے سبق نہیں لیا اور کُلنگ کی طرح آندھی کو دیکھ ریت میں منہ دیے بیٹھے رہے؟ وہ اسلامی تاریخ سے کیاسبق لیتے جبکہ انہوں نے قر آن سے کچھ نہیں سیکھا !جوانہیں صرف اپنے دست و بازو کو مضبوط بنا نے کا سبق دیتا ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنے کوکہتاہے۔ لیکن وہ اسے بھلا کر صرف اپنے دوستوں پر بھروسہ کر تے ہیں۔ اور ہماری آپس کی دشمنیاں اسی طرح بر قرار ہیں۔ ہوسِ زر کاوہی عالم ہے۔ آج پاکستان اسی نوبت کو پہونچ چکا ہے اور حکمراں جو ہیں ۔وہ اوروں ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس لیے کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں؟ یہ لا پروائی وہی دن دکھا ئے گی جو پہلے والوں کو بار ہا دکھا چکی ہے۔ خصوصی طور پرغداروں کا کسی قوم میں ہونا وہ لعنت ہے جس کی بنا پر مسلمان ہمیشہ مار کھاتے رہے ہیں ۔ اور مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اورظلم ایسی چیز ہے جو کہ سگے بھائیوں کو بھی دشمن بنا دیتا ہے، دوست کیا چیز ہیں ؟ کہنے کو 56 مسلمان ملک ہیں مگر وہ اس حد تک ایک دوسرے کے دشمن ہیں کہ ایک میز پر بیٹھ بھی نہیں سکتے. جبکہ حکمرانوں کی وفاداریااں بٹی ہوئی ہیں ان کے خاندان بٹے ہوئے ہیں جن کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک ملک کے وفادار رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ سب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ، جس کی ضرورت انہیں اس لیے پیش آتی ہے کہ اگر اپنا ملک ان پر کبھی تنگ ہوجائے تو تم نہ سہی اور پر پر عمل کرسکیں ؟ س وصف کی وجہ سے ان پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جبکہ شاہ ایران کا حشر دیکھ چکے ہیں ،صدام اور گذافی کا حشر دیکھ چکے ہیں۔شیکسپیر کا وہ جملہ حکمرانوں نے ضرور سنا ہوگا، تااریخ میں بڑا مشہور ہے جو اسکے ایک ڈرمہ کاحصہ ہے جس میں جب ایک آمر اپنے ہی دربارریوں کو تلواریں لیے اپنی طرف بڑھتے دیکھتا ہے جن میں اس کا جگری دوست بھی تھا تو اس نے کہا کہ “ بریٹو “ تم بھی مگر نہ ہماری آنکھیں کھلتی ہیں نہ کان کھلتے ہیں اور اسی پر آس لگا بیٹھے ہیں کہ یہ دوست اور ہماری دوستیاں کام آئیں گی؟ آئیے اس آئینہ میں دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ جبکہ کچھ اس آسرے پر بیٹھے ہیں کہ اللہ کوئی غیب سے صورت پیدا کرے گا۔ جب کہ اللہ قر آن میں بار بار فرماچکا ہے کہ وہ کن کی مدد کرتا ہے کن نہیں ؟ ایک طرف شدت پسند ہیں جنہوں نے زندگی اجیرن کی ہوئی دوسری طرف وہ بے عمل مسلمان ہیں جن میں دنیا بھر کی برا ئیں ہیں؟ جبکہ علما ءبجا ئے برائیوں پر انہیں ٹوکنے کے تسلی دیتے ہیں رہتے ہیں حالانکہ ایسے علماءکی قرآن بار بار مذمت کرچکا ہے۔؟ مگر ان کی یہ رٹ جاری ہے فکر مت کرو کہ تم بہترین امت ہو ؟ جبکہ بہتری اوروں کے یہاں تو ہے جنہوں ہماری تعلیمات لے لی ہیں ،ہمارے یہاں کہیں نہیں ہے۔ جیسے عدل ، ایمانداری ، بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا؟ ہماری رگ حمیت بھلائی کے کاموں کے لیے ہر وقت پھڑکتی تو ہے؟ مگرفنڈ ریزنگ کے بعد جس طرح وہ خرچ کرتے ہیں اللہ پناہ دے؟ نقالی عروج پر ہے اور ہر ایک، ایک ہی میدان میں کود جاتا ہے۔ جس سے انتظامی اور بار برداری کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں ؟ بعض باتیں تو بڑی مضحکہ خیز لگتی ہیں ۔ کینیڈا ان ملکوں میں سے ہے جو سوئیڈن کے بعد ویلفیر میں سب سے آگے ہیں۔ وہاں یار لوگ آتشزدگان کے لیئے پرانے کپڑے اور کمبل جمع کر رہے ہیں ۔ جو متاثرین با لفرض محال لے بھی لیں تو پھینک تو سکتے ہیں اپنے استعمال میں نہیں لاسکتے ۔ کیونکہ یہاں متاثرین کو حکومت فوراً ہوٹلوں میں منتقل کر دیتی ہے، ایک رات بھی کوئی بغیر چھت کے نہیں گزارتا؟ اس لیے کہ یہ قوم ٹیکس چور نہیں ہے ؟حکومت ہرایک سے اس کی آمدنی کے مطابق ٹیکس لیتی ہے ۔جوبہت زیادہ آمدنی رکھتے ہیں وہ اپنی آمدنی کا 55 فیصد تک ٹیکس دیتے ہیں رشوت ، عقربا پروری اور بد عنوانی کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے؟ لہذ ا جب جس کو جیسی ضرورت پڑتی ہے حکومت اس پر خرچ کرتی ہے؟ اگر پاکستانی ان کے تجربات سے استفادہ کریں تو سارے دکھ دلدر دو ہوسکتے ہیں؟ کیونکہ بدعنوانی وہاں قومی دولت کا زیادہ تر حصہ لیجاتی ہے۔اس وقت قوم میں جو بد عنوانیو ں کے خلاف مہم چل رہی ہے اسے مہمیز دینے کی ضرورت ہے اس میں فوج نے تو اپنے بدعنوانوں کو سزا دیکر اپنا حصہ ڈال کردکھا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی ادارے کیا کرتے ہیں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے