آئیں، بائیں ،شائیں از ۔۔ شمس جیلانی

آج ہم نے سوچا کہ آپ سے کچھ پرانی باتیں کریں اور آئینے میں اس طرح شکلیں دکھائیں کہ اس میں سب کو اپنی ،ا پنی تصویر یں نظر آئیں تا کہ خود کو کسی کو بھی پہچاننے میں پریشانی نہ ہو؟ پہلے تو آپ کااس آئیں ،بائیں ،شائیں سے تعارف کراتے ہیں ؟ یہ ایک محاورہ ہے جوکہ فیروز الغات میں بھی شامل ہے۔ اب آگے چل کراس کا پس منظر پیش کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے! ایک دور تھا کہ اس میں ہر ایک کا تکیہ کلام ہو ا کر تا تھا اور لوگ اپنی آسانی کے لیے اسی کو عرفیت بنا لیتے اور کثرتِ استعمال کی وجہ سے وہی اصل نام کی جگہ لے لیتا تھا۔ ایسے ہی ایک صاحب تھے جن کا اصل نام کچھ اور تھا مگر پورے جگ میں “جناب “ کے نام سے جانے جاتے تھے وجہ وہی تھی کہ وہ ہر بات یہاں سے شروع کرتے تھے کہ “  توجناب  “بات یہ تھی کہ   لہذا لوگوں نے انکا نام ہی جناب رکھدیا تھا۔ اور وہ کچھ ایسا مشہور ہوا  کہ اگر ان کے اصل نام سے ان کے دروازے پر پہونچ کر کوئی صاحب ان کا نام لیکر پوچھتے کہ یہ فلاں صاحب کا دولت کدہ ہے ؟ تو گھر و الے لا علمی کا اظہار کر دیتے اور جانے والے کو کو نامرد واپس آنا پڑتا ، اس کے علاوہ ان کے دو تکیہ کلام اور بھی تھے ، ان میں سے ایک یہ ہی  جوکہ آج کاعنوان ہے “ آئیں بائیں شائیں “  یہ محارہ وہ جب بولتے جبکہ کوئی دوران ِ گفتگو جھوٹ کا سہا را لیتا اور یکے بعد دیگرے پینترے بد ل رہا ہو تا۔ تو وہ اس کی عزت فزا ئی  فرماتے کہ کیوں “ آئیں بائیں شائیں“ بک رہے ہو! کام کی بات کرو ؟ اور تیسرا تکیہ کلام وہ اس وقت بولا کرتے تھے۔ جب کوئی اشراف میں سے نہ ہوتے ہوئے نو دولتیہ اشرافیہ میں شامل ہو جائے۔ تو کہتے تھے کہ “ تو بکریوں کا چر واہا ، اونٹوں کے کان ٹٹولنے چلا ہے“ اب وہ وضع دار لوگ ہیں نہیں۔ اور نہ ہی ایسے لوگ آج کل پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہ ہو تو آپ ٹی وی پر جاکر ایک تجزیہ نگار کو سن سکتے ہیں جو ابھی تک اپنی وضعداری نبھا رہے ہیں؟ اور ہر بات “ حضور والا “ سے شروع کرتے ہیں۔
اب آیئے اصل بات کی طرف ! جہاں یوم ِ تاسیس ِ پاکستان بہت سوں کے لیے مشکلات لایا ،تو وہیں کچھ کے لیے نئے مواقع پیدا کر ئے کا باعث بھی ہوا۔ مشکلا ت ان کے تھیں لیے جنہیں جعل سازی نہیں آتی تھی! وہی گھاٹے میں رہے اور جو ہوشیار تھے،انہوں نے بغیر جھگیوں کے محل اور بھٹوں اور بھٹیوں کے بدلے کارخانے الاٹ کرالیے۔ ہم نے ایک وضع دار رئیس کو مٹفورڈ روڈ ڈھاکہ پرجوکہ اسوقت نواب پور روڈ کہلانی لگی تھی ( اب معلوم نہیں کیا کہلاتی ہوگی؟ کیونکہ ہوا بدلتی ہے تو وفاداریاں اور نام بدل جاتے ہیں)؟ شیر وانی چوڑی دار پیجامہ اور دوپلو ٹوپی زیبِ تن کیے اور سر پر فیرنی کی تشتر یاں سینی  میں سجائے فروخت کرتے دیکھا ؟ پھر ہم نے مغربی پاکستان پہونچ کر ایک بہت بڑے رئیس کو جیکب لا ئنز ایریا میں جھگی میں رہتے دیکھا۔ اس کے بعد سندھ میں ایک باپ کو دیکھا کہ جس نے اپنے شیر خوار بچے کے نام سے بہت بڑا کلیم کر رکھا تھا، کیونکہ اس کااپنا نام کسی نواب کے نام سے نہیں ملتا تھا، جبکہ بیٹا کسی نواب کا ہم نام تھا؟ اس نے بیٹے کے نام سے کلیم کرکے کافی زرعی حاصل کر لی اور خود اس کا منیجر بنا اور کاروبارِ زندگی ٹھاٹ سے چلانے لگا؟  بیٹا اپنے والد محترم کی اس کارستانی کے نتیجہ میں نواب بن گیا۔ چونکہ اس دور میں انٹر نیٹ آیا نہیں تھا لہذا یہ وکی لیکس اور پنا مہ لیکس جیسے واقعات معرض وجود میں آنے کا امکان ہی نہیں تھا۔ اس لیے بعد میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ آرام سے باپ منیجر بنے رہے اور بیٹے نے بعد میں نواب بن کر پوری دنیا کا اعتماد حاصل کر لیا۔ کام چلتا رہا ؟
اب وہ دور نہیں ہے ۔ اس لیے کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ ایک کم سن بچہ بغیر اپنی ولدیت استعمال کیے کیسے معتبر ہو سکتا ہے۔ دوسرے لوگ خوداپنے دفاع میں بیان بدلتے رہتے ہیں اس میں اور بھی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اگر لوگ تھوڑی احتیاط  برتیں اور پہلے میٹنگ منعقد کر کے باجماعت جھوٹ بولیں تو پھر تضاد پیدا نہیں ہوگا۔ مگر بعض لوگوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ایک گھر میں نہیں رہتے ؟ بلکہ ایک ملک میں بھی نہیں ر ہتے کئی کئی ملکوں میں رہتے ہیں ؟ اس لیے پرانے خاندانوں کی طرح دن میں کئی بار ملنے کے بجائے سالوں نہیں ملتے۔ رہی یہ سہولت کہ فون پر بات کرلیں تو اس میں ٹیپ ہو جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ مجبوراً وہ “ آئیں بائیں شائیں “ کرتے ہیں ۔ اور کوئی “ جناب“ مل جائیں تو الجھ جاتے ہیں اور جب کہ وہ بات کی جڑ تک پہونچ جاتا  ہےاور کہتا ہے کہ کیوں “ آئیں بائیں شائیں  “ بک رہے ہو؟ سیدھی بات کرو؟ اور کبھی کبھی ان کی ڈینگیں سن کر کہدیتا ہے کہ بکریوں کا چر وہا ، اونٹوں کے کان ٹٹولتا ہے ؟ مجھے کیا الو سمجھ رکھا کہ میں یقین کرلونگا؟
کسی بھی ملک میں سہی چاہیں ا س کا باپ اس ملک کے بادشاہ کا دوست ہی کیوں نہ ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ بغیر باپ کی ضمانت اور دستخطوں کے  نابالغ بیٹا اتنا معتبر ہوجائے کہ باپ کے دوست کارخانہ لگا نے کے لیے اسے اتنی بڑی رقم فراہم کر دیں؟ اور پھر وہ چند سالوں میں اتنا مال بھی بغیر ہیر پھیر کے کمالے کہ سب کے قرضے بھی واپس کر دے اور آف شور کمپنی بنا کر اربوں روپیہ کی جائیداد بھی بنالے؟ اور وہ بھی یورپ میں؟ یورپ والوں کے ویسی ہی سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ اس لیے کہ وہاں بچہ جب تک اٹھارہ یا اکیس سال کا نہ ہو جائے اس کے اپنے دستخط برائے بیعت ہوتے ہیں اور اس کے دستخط کے ساتھ ساتھ ماں یا باپ کو تصدیق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر اسے ڈرائیونگ لائیسنس یا خود اپنی تعلیم کے لیے قرضہ ملتا ہے ؟
اگر جھوٹ بولنے سے پہلے متعلقین ایک خاندانی میٹینگ کسی طرح منعقد کر لیں تو با آسانی کامیابی سے جھوٹ بول سکتے ہیں ؟ اس صورت میں جھوٹ کے پکڑے جانے کی امکانات نہ ہونے کے برابر ہونگے۔ اس کو بھی ہم ایک مقدمے کی مثال دیکر بات کو آگے بڑھاتے ہیں ؟ یہ کوئی اسی نوے سال پہلے کی بات ہے کہ اسوقت کا ہندوستان لاکھوں بادشاہتوں میں بٹا ہوا تھا۔ کیونکہ انگریزوں کا دور تھاوہ حکومت درمیانہ لوگو ں کے ذریعہ ہی چلاتے تھے ۔براہ راست  حکومت کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ لہذا ہر جگہ نواب راجہ مہاراجے اور زمیندار اپنے اپنے علاقے میں حکمران ہو تے تھے۔ دو ہمسایہ زمینداروں میں تعلقات خراب تھے، ایک نے دوسرے  کےگاؤں میں وہاں کے کاشتاروں کو رات کی تاریکی بھگالے جانے کا منصوبہ بنا یا اس کوشش میں اس کے آدمی پکڑے گئے ۔ اس وقت زمیندار موجود نہیں تھا اس کا بیٹا نا تجربہ کار تھا،اس نے ان کے کندھے پر لوہیاہل رکھکر تھانے بھجوادیا کہ یہ ہل چرا کر لے جارہے تھے۔ جو ان کے خاندانی وکیل صاحب تھے انہوں نے مقدمہ لے تو لیا، مگر انہیں اپنی عزت بھی عزیز تھی ۔لہذا تاریخ لیکر کہلا بھیجا کہ اس میں جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں اگر آپ چاہیں تو کسی اور کو وکیل کر لیں ؟ دوسری طرف اگر زمیندار ہار جاتا تو ناک کٹ جاتی ؟ اس نے اس سے بڑا وکیل کر لیا کیونکہ اس زمانے میں وکیل کرنے کارواج تو تھا مگر “ جج “ کرنے کا رواج نہیں تھا۔ ا س نے زمیندار سے کہا کہ آپ تو موجود تھے  نہیں بہتر یہ ہے کہ میرے پاس اپنے صاحبزادے کو بھیجدیں؟ جب صاحبزادے ان کے پاس پہونچے تو انہوں نے کہا بیٹا سچ سچ مجھے بتا ؤ کہ واقعی یہ ہل چرانے آئے تھے ؟ اس نے جواب دیا نہیں! ۔ وکیل نے کہا کہ بیٹا یقین کرو تم ہی جیتو گے ؟ جبکہ جو پکڑے گئے  تھےانہوں نے بھی اپنے دفاع میں جھوٹ کاہی سہارا لیا ہوا تھا کہ انکا کہنا تھا وہا ں ہم “ مہاشے “ پوسا جاٹو “ کے یہاں پنچاہت تھی اس میں شرکت کرنے گئے تھے کہ زمیندار کے آدمیوں نے ہمیں پکڑ کر تھانے بھجوادیا۔ جب مقدمہ جراح کے مرحلہ پر پہونچا تو وکیل صاحب نے بند کمرہ میں سماعت کی درخواست کی جو مجسٹریٹ نے منظور کرلی کیونکہ وکیل بہت بڑا تھا اور کورٹ سیکنڈ کلاس مجسٹریٹ کی تھی، جبکہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں ہی جھوٹے تھے ۔ وکیل نے ایک ایک کو بلاکر جرا ح کی پہلے تو اس نے ایک سےپوچھا کہ تم پوسا کے گھر پنچایت کے لے گئے تھے، اس کے گھر کے سامنے  جوتالاب ہےا س کے کون سے کنا رے کی طرف سے گئے تھے؟ کسی نے داہنا بتا یا کسی نے با یا ں بتایا ۔ پھر پوچھا تم اس کے گھر کے آنگن میں نیم کا درخت  تھااس کے نیچے بیٹھے تھے یا اندر سائیبان میں ۔ کسی سے پوچھا کہ جو پا کر کا درخت تھا اس کے نیچے بیٹھے تھے؟ جب ان پر جراح مکمل ہو گئی تو وکیل صاحب نے تھانے دار سے جرح کی؟ انہوں نے ان سے سوال کیا کہ  کیاآپ نے موقعہ کا معائنہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہاں جی ہاں ! پھران سے پوچھا کہ پوساکے  گھر کےسامنے کیا کوئی تالاب ہے ؟انہوں نے کہا نہیں ۔ پھر انوں نے پو چھا کہ کیا اس کے آنگن میں کوئی در خت ہے تو انہوں نے بتا یا کہ نہیں ۔چونکہ اس زمانے میں عدالت میں جھوٹ بولنے پر سزا ہوجاتی تھی۔ کورٹ نے سزا سنادی ؟ اور وہ اپنے ہی جھوٹ کے ہاتھوں مارے گئے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.