ہمارے یہاں جب سے قدریں بد لی ہیں۔ اس دن سے ہم ان تمام اسباق کو بھو ل گئے ہیں۔ جن کی قرآن میں مذمت آئی ہے اور ہادی ِ اسلام (ص) نے جن کی سختی سے مذمت کی ہے؟ مثلا ً یہ کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا؟ اس سلسلہ میں بہت سی احادیث ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے اپنے تمام عیوب گناڈالے جو سننے میں اتنے گھناؤنے تھے کہ صحابہ کرام (رض) بہت برہم ہوئے مگر حضور(ص) بہت ہی غور سے اس کے انکشافات سماعت فرما تے رہے ۔ حتیٰ کہ جب وہ اپنی بات مکمل کرچکا تو سوالی ہو ا کہ میں یہ سب کام کرتا ہوں ، اب میں تائب ہونا چاہتا ہوں ان میں سے پہلے کون سا کام چھوڑوں ؟ حضور (ص) نے جواب میں فرمایا سب سے پہلے جھوٹ بولنا چھوڑ دو؟ اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ آج سے جھوٹ نہیں بولے گا جب دوسرے دن وہ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا تو پریشان ہوگیا کیوں کیونکہ اس کا ضمیر جاگ چکا تھا؟ پریشان تھا میں حضور (ص) کے سامنے جھوٹ بول نہیں سکتا اگر بولوں گا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں مطلع فرما دیگا وہ بغیر ملے ہی نماز پڑھ کر واپس چلاگیا۔ا س ارادے کے ساتھ کہ میں اب ان (ص)کے سامنے کل پیش ہونگا ،جب بقیہ بھی برے کام چھوڑدوں گا۔ اس ایک واقعہ میں ہمارے لیے کئی سبق ہیں پہلا تو یہ ہے کہ اگر کوئی بات کررہا ہو تو سنے والے کو ہمہ تن گوش ہوکر سننا چاہیے جیسے کہ کوئی طبیب خاموش ہوکر مریض کی پوری بات سنتا ہے۔ کیونکہ اسے علامات سن کر دوا تجویز کرنا ہوتی ہے۔ لہذا وہ پوری توجہ سے مریض کی پوری بات نہ سنے تو علاج میں غلطی کا امکان ہے ؟ چونکہ ہر طبیب کو مریض سے بھی ہمدردی ہوتی ہے، اپنی عزت اور پیشے سے بھی دلچسپی ہوتی جس پر اس کی پریکٹس چلنے اور نہ چلنے کا انحصار ہوتا ہے۔ طبیب اگر مسلمان ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ گندے سے گندے مریض کے ساتھ بھی ہمدردی رکھے نفرت کسی سے نہ کرے کون جاانے کہ اللہ نظر میں وہ اس سے بہتر ہو جیسے ایوب (ع) ؟ جبکہ ہمارے مبلغین جن کو حکم ہے۔ تبلیغ حکمت کے ساتھ کرو ۔ وہ اپنے تقوے کے گھمنڈ میں صرف کسی کی ظاہری شکل اور صورت دیکھ کر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہ چونکہ میرا جیسا نہیں ہے لہذا گمراہ ہے۔ انکے پاس تقوے کا معیار وہ ہوتا ہے جسے عرف ِ عام میں ظاہرداری کہا جاتا ہے جو اسلام میں تو منع ہے ۔ وہ صرف مرزا ظاہر دار بیگ کے یہاں تو درست سمجھا جاسکتاہے۔ کیونکہ وہ ایک افسانہ نویس کاا تراشا ہو افسانوی کردار ہے مگر مسلمان کے لیے ممنوع ہے۔ جبکہ جو اللہ والے تھے یا ہیں اور جن کے ذریعہ دنیا میں اسلام پھیلا وہ برے سے برے آدمی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس کی خدمت میں لگ جاتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے اور اس کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔ پھر وہاں سے وہ کندن بن کر نکلتا تھا؟ اور ان کے مشن کو آگے بڑھاتا تھا اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا رہتا تھا؟ اگرآج ہم انہیں خانقاہوں میں جھانکیںتو نوے فی صد میں ایک مغرور شخص مریدوں سے پاؤں دبواتا ہوا ملے گا؟
اگر مسجد کے دروازے پر کوئی بیٹھا رہے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ؟ لیکن جیسے ہی وہ دروازے کے اندر داخل ہوگا تو ہر نگاہ اسکے پورے جسم کا سینسر کر رہی ہوگی کہ اس میں برائیاں کہاں کہاں ہیں اور مسجد میں تمیز سے وہ بیٹھا ہے یا نہیں، ٹانگیں پھیلا ئے ہوئے تو نہیں بیٹھا ہے فوراا سے ٹوک دے گا ۔ اس سے یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ تمہیں کوئی معذوری تو نہیں ہے جس کی وجہ سے پیر پھیلا ئے بیٹھے ہو؟ جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ لاکھوں آدمی تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں ۔ لیکن مسلمان ایک بھی نہیں کر پاتے سوائے ان کے جو کہ پیشہ ور ہیں اور وہ ہر تھوڑے دن کے بعد شہر بدلکر کسی مسجد میں پہونچ کر مسلمان ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح وقتی طور پر کچھ منفعت اٹھاکر دوسرے شہر کی راہ لیتے ہیں ۔ اور سند کے طور پر ان اداروں کے کرتا دھرتا اعداد شمار تیار کرتے رہتے ہیں۔ جو ہر وقت یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام بہت تیزی پھیلنے والا مذہب بنتا جارہا لہذا خبردار رہو ؟۔ رہے نم نہاد مسلمان اسی کو آگے بڑھا کر خوش ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ بھلا ہمارے کردار دیکھ کر کون مسلمان ہو گا؟ وہ اس طرح ا سلام کونقصان پہونچانے والوں کے مکروہ مشن کو ان جانے میں آگے بڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ اگر یہاں وہ حضور (ص) کے اسوہ حسنہ سے مدد لیتے تو انہیں پہلے اپنے کردار سے متاثر کرتے پھر تالیف قلوب کا اہتمام کرتے اور جب کسی کو مسلمان بنا لیتے اور پھر اس کے ساتھ ربط بھی رکھتے تو انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ واقعی کوئی انہوں نے مسلمان بنایا ہے یا نہیں ۔ اسی طرح بہت سی لڑکیا ں اور لڑکے اسلام میں شادی کے لیے اضافے کا باعث بنتے ہیں ، جبکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ خود ہی عملی طور پر مسلمان نہیں ہیں۔ وہ اسےایک رواج سمجھ کر کلمہ پڑھ لیتے ہیں اور وہ بھی انہیں کی طرح کے مسلمان ہو جاتے ہیں۔ اور جب ان کے ساتھ مساجد میں امتیازی سلوک ہو تا ہے تو وہ اس سے بھی پھر جاتے ہیں ۔ ایک ایسے ہی نومسلم کاواقعہ ہے کہ وہ اپنے سسر کے انتقال پر مسجد گئے وہاں ان کی گوری چمڑی دیکھ کر امام صاحب نے نماز جنازہ سے نکالدیا اور وہ صاحب اپنی اس توہین پر مسجد اور اسلام دونوں ہی چھوڑگئے۔ یا پھر وہ لوگ ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کے لیے انہیں شدت پسند بناتے ہیں جن کے خیال ان کے سوا سب غلط ہیں ۔ اور واجب القتل بھی ۔ جب لوگ ان کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے ہیں یا دھماکو میں مارے جاتے ہیں۔ توان کے افعال دیکھ اور دوسروں سے طعنے سن کر نئی نسل یہ کہنے لگتی ہے کہ اگر یہ اسلام ہے تو عملی مسلمان بننے سے ہماری توبہ ہے؟ ایسے بچوں کی تعدد اتنی تیزی سے بڑھ رہی کہ اس کا تدارک نہ کیا گیا تو اوروں کی طرح عبادت گاہوں میں جانے والے نہیں ملیں گے؟ رفتہ ، رفتہ پرانی نسل ختم ہو جائے گی اور نئی جانا چھوڑ دے گی، چندہ ملنا بند ہو جائے گا تو مساجد بھی خود بخود بند ہو نے لگیں گی۔اس وقت شاید قوم کی آنکھیں کھلیں جبکہ بہت دیر ہوچکی ہوگی؟ اب ہم مسلمانوں کے سیاسی اور دوسرے معاملات کو لیتے ہیں کہ وہ دنیا پر اپنے کردار سے کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں ؟
جبکہ اسلام نے کوئی گوشہ زندگی ہدایت کے بغیر نہیں چھوڑا لیکن ہم جہاں اور اسلامی قوائد پر قائم نہیں ہیں وہیں سیاست اور معاملات پر بھی نہیں ہیں؟ موجودہ دنیا بری طرح تکڑیوں بٹی ہوئی ہے ان کے پاس تو ضابطہ اخلاق ہے ہی نہیں یہ ان کی مجبوری ہے؟ ہمارے پاس تو سب کچھ ہے مگر ہم اس پر چل نہیں رہے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں ایمان لانا پہلی شرط ہے؟ اسکا تقاضہ یہ ہے کہ جلوت اور خلوت جہاں بھی ہو ں ہمیں یہ یقین ہونا ضروری ہے اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟ اس سے امانت اور دیانت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے اور انسان فرشتوں کو پیچھے چھوڑجاتا ہے ۔ آج جبکہ پوری قوم چوری کے مرض میں مبتلا ہے۔ لوگ جھوٹے حلف نامے پیش کرنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں۔ کہ حج پر بھی جھوٹے حلف نامے پیش کرکے کہ ہم پہلے کبھی نہیں گئے ہر سال حج پر جاتے ہیں اور اس طرح ان کی حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ جو ابھی تک حج نہیں کرسکے ہیں ۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس لیے کہ اس سے رعب پڑتا ہے؟ اور مال بھی بنتا ہے۔ اسے کہتے ہیں ایک پنتھ دوکاج ؟ اور واپس آکر سال بھر پھر وہی کام کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں جبکہ حج مبرور کی پہچان یہ ہی ہے کہ اس میں وہ خرابیاں باقی نہ رہیں جو پہلے تھیں۔ اسمگلنگ وہ لوگ گناہ نہیں سمجھتے ۔ چیزوں میں ملاوٹ حرام نہیں سمجھتے ڈنکے کی چوٹ کرتے ہیں۔ اب نہیں معلوم کہ کیا حال ہے مگر جب ہم وہاں تھے تو دودھ ہول سیل مارکیٹ میں جس بھاؤ بکتا تھا اسی بھا ؤ شہر بھر کی خوردہ دکانوں پر بھی بکتا تھا؟ ایسا کیسے ممکن تھا ؟ کیا دودھ فروشوں نے خدمتِ خلق اختیار کرلی تھی اور سب فرشتے بن گئے تھے جنہیں کوئی حاجت ہی نہ ہو؟۔ سبھی جانتے تھے کہ ایسا تبھی ممکن تھا کہ ہر دودھ فروش اپنی مرضی سے پانی ملالیتا تھا جتنی اس کی ضروریات زندگی تھیں ، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ ؟ کیونکہ اس میں میونسپل کارپوریشن والوں کی مٹھی بھی گرم کرنا پڑتی تھی۔ ان کا خرچہ بھی اسی میں سے نکلتا تھا۔ محکمہ مال میں سب چھوٹا عملدار پٹواری ہے جو بڑا بدنام ہے کہ وہ چوری کرتا ہے ؟ دوسرے تھانے بدنام ہیں کہ وہ رشوت لیتے ہیں، جنکے ہاتھ میں ڈنڈا ہے جو قنون کے محافظ ہیں ؟ جبکہ سب سے بڑا عہدہ وزیرا عظم کا ہے۔ جس طرح مشہور ہے کہ ہاتھی کے پاؤں سب کا پاؤں وہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ لیکن اس پہ کوئی بات نہیں کرتا کہ یہ سب مال خرچ کرکے عہدے خریدتے ہیں کمانے کے لیے آتے ہیں ان میں جن کے پاس بچت ہے وہ دوسروں ملکوں میں رکھتے ہیں یعنی وہ اس پر عامل ہیں کہ سارے انڈےایک ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہیئے؟ اس کے لیے انہیں متعدد ملکوںا پنے گھر بار رکھنے پڑتے ہیں ۔ رہی فارن پالیسی وہ متوازن اس لیے نہیں ہوسکتی کہ انہیں جس کا پلڑا بھاری پڑجا ئے اس کی بات ماننا پڑتی ہے؟ یہ بڑوں کی مجبوریاں ہیں۔ اب چھوٹوں کی مجبوریاں دیکھیے کہ ان میں سے پٹواری زندگی بھر تنخواہ ہی نہیں لیتے کیونکہ وہ “ رسائی “میں جاتی ہے اور یہ صرف پے بل پر دستخط کرنے کے گناہ گار ہوتے ہیں؟ جس میں سب کا حصہ ہوتا ہے ؟ اس پر بھی مطالبہ جاری رہتا ہے ۔ ڈو مور (Do more)؟اگر وہ قصائی نہ بنیں تو پھر کیا کریں؟ رہے تھانےدارانہیں تھانے نیلام میں خریدنے پڑتے ہیں؟ وہ رقم کہاں جاتی ہے سب کو پتہ ہے مگر بدنام یہ دوہی ہی محکمہ ہیں؟ جبکہ انہیں ہی کی نہیں ہر محکمہ کی یہ ہی حالت ہے؟ سفید پوشوں کا اب یہ حال ہے کہ ان کے سامنے دو رراستے ہیں ۔ یا تو رات کی تاریکی میں ڈکیتی کر یں یا پھر دن کے اجالے میں بھیس بدل کر بھیک مانگیں ۔ یہ سب کیوں ہے صرف اس لیے کہ ہم نسلی مسلمان ہیں اصلی مسلمان نہیں ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہوں،اسوہ حسنہ (ص)پر چلتے ہو ں ؟ نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹ پر ہمارا تکیہ ہے اور ہر وقت بجائے عقبیٰ کہ دنیا میں جان اٹکی رہتی ہے؟ جبکہ نہ ہم کسی پر اعتبار کرتے ہیں نہ کوئی ہم پر اعتبار کرتا ہے۔ کیونکہ وعدے سب سےکرتے ہیں، مگر وفا کسی سے نہیں کرتے؟ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو من حیتیت ا لقوم ہمارے زوال کا باعث ہیں ۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے