حضور (ص)اور تمام صحابہ کرام ماہ ِ رجب سے رمضان کی تیاریاں شروع کردیتے تھے ۔ ان کے لیے رجب خیر ، خیرات کا مہینہ تھا! اور وہ زیادہ تر زکات رجب میں ہی ادا کرتے تھے تاکہ ضرورت مند اپنا بجٹ بنا کر رمضان اور پھر عید کے لیے تیار یاں اور بندوبست کرلیں۔اس کے بعد شعبان میں سب سے زیادہ روزے رکھ کر رمضان کے لیے مشق کریں تاکہ روزے رکھنے کے عادی ہو جائیں، نہ رمضان میں عبادتوں میں کساہلی آئے نہ کوئی پریشانی لا حق ہو؟ یعنی جو کچھ پریشانی آنا ہے اس کا مشاہدہ روزہ رکھ کر ماہ ِ شعبان میں ہی ہوجا ئے اور اگر ممکن ہواس کا تدارک کرلیا جائے؟ اس کے لیے بہت سی احادیث ہیں۔ جن میں صحابہ کرام اور صحابیات (رض) کا یہ تاثر عام ہے جن میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بھی شامل ہیں ۔ کہ ماہ شعبان میں حضور (ص) اتنے تواتر سے روزے رکھتے تھے کہ ہمیں یہ خیال گزرتا تھا کہ وہ شایدکوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے لیکن رمضان شروع ہونے سے پہلے وہ یکایک روزہ چھوڑ دیتے تھے۔ تاکہ شعبان اور رمضان کی پہچان باقی رہے۔ اس میں کسی اضافے کی میں نے ضرورت اس لیے نہیں سمجھی کہ اس وقت ہم تکڑیوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے اوراسلام تھا ہی اتباع رسول (ص) کا نام یعنی اسوہ حسنہ پر چلنے کانام ؟ رہے باقی راستے حضور (ص) نے یہ فرما کر امت کو ان کے پردے اٹھا کر جھانکنے تک سے منع فرمادیا تھا۔کہ “صحیح اور سیدھاراستہ صرف میرا راستہ ہے اسی پر چلنا ہی صراط مستقیم ہے اس کے علاوہ اس راستے کے دونوں طرف تمہیں اور بھی بہت سے راستے نظر آئیں گے جن پر پردے پڑے ہوئے ہونگے تم ان پردوں کو اٹھا کر جھانکنے کی بھی کوشش مت کرنا ورنہ بھٹک جا ؤگے “
لیکن ہم نے اسے نظر انداز کردیا اب ہمارے ہاں تربیب کچھ اس طرح ہے کہ رجب سے بھی پہلے سے ذخیرہ اندوزی اور دوسری تمام تدابیر اختیار کرلیتے ہیں تاکہ ہم روزہ داروں کی زندگی آسان بنانے کے بجائے جتنی مشکل ہوسکے، مشکل کردیں !اس کارِ خیر میں ہم من حیثیت القوم اس طرح حصہ لیتے ہیں۔ ؟ کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں؟ کیا یہ کردار واقعی اسلامی ہے ؟ اگر لوگ تھوڑا سا غور کریں تو وہ روزہ داروں کو اس طرح سہولیت فراہم کر سکتے ہیں کہ جو صاحب ِ حیثیت ہیں، پہلے وہ تمام چیزیں اپنے پاس ذخیرہ کرلیں جو کی جاسکتی ہیں۔ مثلا ً کھجوریں ، چنا ، گندم دالیں وغیرہ اس سے ذخیرہ اندوزوں کی ہمت شکنی ہو گی اور وہ اپنے ذخائر سے مارکیٹ کوکنٹرول نہیں کر سکیں گے ، اگر وہ رمضان کے دوران صارفین کے لیے محدود تعداد میں آہستہ ،آہستہ معمولی منافع یا اللہ توفیق دے تو بغیر منافع کے روزہ داروں کو یہ سہولت فرا ہم کرکے اپنی دین دونوں بنالیں یعنی جنت کما لیں ۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ صرف خلوص دیکھتا ہے اور ایک نیکی کا ثواب جو عام دنوں میں دس گناہ ہے اس ماہ میں بے حساب عطافرماتاہے۔ دوسرے اس سے فائدہ یہ ہو گا کہ ذخیرہ اندوز جو حکومتوں سے مکمکا کرلیتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے ہیں؟ وہ اس سے ڈرتے رہیں گے کہ متقی لوگوں کی اس کاروائی سے کہیں ان کا مال گوداموں میں پڑا ہی نہ رہ جا ئے، غلہ اور کھجوروں کو گھن کھا جائے؟ بہت سے لوگ مجھ سے سوال کریں گے کہ میاں! تمہاری اس تجویز پر عمل کون کرے گا ،جبکہ پوری قوم زیادہ سے زیادہ مال بنا نے کے چکر میں ہو؟ بہر حال ہم تو اس کے قائل ہیں کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے ؟ لہذا ہم نے یہ سوچ کر یہ تجویز پیش کر دی ہے کہ کوئی ایک بھی اللہ کابندہ جسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بے انتہا مال دیا ہے اس کارِخیر میں کود پڑا اور میدان میں آگیا تو پھر اس کی دیکھا دیکھی اگلے سال اس سے بہت سے چراغ جل جائیں گے اور وہ سب مل کر ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کا ناطقہ بند کر دیں گے؟ دوسرے رمضان شریف میں مسلمانوں کا زور راتوں کو جاگنے اور قرآن پڑھنے پڑھانے اور سنے سنانے پر صرف ہوتا ہے۔ ان میں بہت سے ان اوصاف کے حامل لوگ ہونگے جوسورہ الزمر کی آیت نمبر 18کےعامل ہونگے جن کی تعریف وہاں یہ فرمائی گئی ہے کہ وہ اچھی باتیں غور سے سنتے ہیں اور ان میں سے چن کر عمل کرتے ہیں اور یہ ہی اہل ِ جنت ہیں جونوازے جائیں گے “ چونکہ قرآن میں ان کا ذکر ہے تھوڑے سہی مگر ہونگے ضرور ؟ یہ اور بات ہے کہ وہ فوٹو سیشن کے لیے کام نہ کرتے ہوں؟ چونکہ وہ صرف اللہ کے لیے کام کر تے ہیں لہذا ان کا نام اخباروں میں نہ آتا ہو؟ اس لیے ہمیں وہ بظاہر دکھائی دیتے نہ ہوں؟ لہذا ہم اس رائے پر قائم رہنے کے لیے حق بجانب ہیں کیونکہ یہ ہمارے رب کے لفاظ ہیں اور ہمارااان پر ایمان ہے۔
جبکہ ہمارے یہاں خوش گمانی کا خانہ اس لیے آجکل سرے سے موجود ہی نہیں ہے کہ جو کوئی بھی کام کرتا ہے وہ یہاں دنیا کے لیے ہی کرتا ہے۔ نہ وہاں جاکر یوم حساب پر یقین رکھتا ہے اور نہ اللہ سے ڈرتا ہے۔ کیونکہ لوگ ہرکام میں گھپلا کرتے ہیں ؟ میدے اتنے مضبوط ہیں کہ زکات ہضم کر جاتے ہیں، قربانی کی کھالیں کھاجا تے ہیں ؟ حاجیوں کو ٹھگ لیتے ہیں ،جن میں سے تین کو دس سال سے لیکر تیس سال تک کی سزا ابھی کل ہی سنائی گئی ہے ؟ جن میں ایک سابق وزیر مملکت مذہبی امور ، دوسرے ڈائریکٹر جنرل حج اور تیسرے ایک بچپئی؟ جن کے بغیر کوئی کام وہاں چلتا ہی نہیں ؟ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کوئی بھی افتاد آئے چندہ مانگنے کے لیے پوری قوم با جماعت کھڑی ہوجاتی ہے جبکہ دینے کے لیے غیر مسلم سب سے زیادہ آگے بڑھ کر چندہ جمع کر کے دیتے ہیں !لیکن جب وہ حساب مانگتے ہیں تو چندہ لینے والے ٹال مٹول پر اتر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض تو اس امید پر دنیا سے ہی گزر جاتے ہیں کہ حساب اب ملے کہ تب ملے ؟ اس سے جو غیروں میں بد گمانی پیداہو تی ہے اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ دوسری مرتبہ وہ چندے کی اپیلوں پر کان ہی بند کر لیتے ہیں ۔ جبکہ اپنے اس سلسلہ میں پہلے ہی اتنے بدگمان ہو چکے ہیں کہ وہ خوش گمانی کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے؟ جو ہماری اس مثال سے آپ پرواضح ہوگا جو لطیفہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ “ ایک جماعت جو خدمت خلق او رسیاست دونوں ساتھ چلاتی ہے اس لیے کہ مسلمان کی پوری زندگی ضابطہ اسلامی کے تابع رہنا چا ہیے؟ اس کا ایک کارکن ایک شخص سے کھال مانگنے گیا تو وہ کہنے لگا ۔ کہ میں تمہیں کھال کیوں دوں! تم بھی تو کھال بیچ کر جلسہ ہی کرو گے نا، میں بھی سیاسی آدمی ہوں اپنی کھال بیچ کر خود ہی جلسہ کیوں نہ کرلوں ؟ ایسے دور میں ایسی تجاویز پیش کر نا گوکہ وقت کا زیاں ہے۔ مگر شاعر ہماری طرح یاہم شاعروں کی طرح خوش فہم واقع ہوئے ہیں؟ دیکھئے علامہ اقبال (رح) کسی خوش فہمی میں ہی فرما گئے ہیں کہ “ ملت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ “ یا پھر “ ذرا نم تو ہونے دو بڑی زر خیز ہے مٹی؟ ہم بھی انکی پیروی میں۔ اس امید پریہ کہتے رہتے ہیں ۔ “شاید کہ اتر جا ئے کسی دل میں میری بات “ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے توفیق عطا کردے کوئی اس پہ عمل کر بیٹھے اور ہماری یہ تجویز ہمارے لیے صدقہ جاریہ کا ذریعہ بن جا ئے۔ خصوصاً ان ملکو ں میں جہاں ہم اسلام کے سفیر ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ وہ کردار پیش کریں جس کو دیکھ کر دوسرے اسلام کی طرف راغب ہو ں ؟تاکہ ان کے ساتھ ہم بھی ثواب کے حقدار بنیں ؟ جبکہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے بھائی چندہ لیکر حساب نہ دیں اور ٹال مٹو ل سے مقامی لوگ اتنے بد ظن ہوجا ئیں کہ وہ اس کا الٹا اثر لیں؟ تو اس طرح ہم اس عذاب کے بھی مستحق ہو نگے کہ ہمارے اس فعل سے اللہ کے دین کے پھیلنے میں ہم رکاوٹ بنے؟کاش اس کے بارے میں بھی مسلمان بھائی ایسا کرنے سے پہلے کچھ سوچیں ؟کیونکہ صرف زبانی جمع خرچ سے نہ کو ئی اچھا اس دنیا میں بنا ہے نہ بن سکتا ہے ا ور اس دنیا میں تو با لکل ہی نہیں، جہاں وہ مالکِ کل ہمارے ہر فعل اور اس کے پورے پس ِ منظر اور نیت تک سے واقف کرسی ِ انصاف پر اس دن تشریف فرما ہو؟
الحمد للہ! ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک موقعہ ہماری زندگی میں رمضان البارک کی شکل میں پھر عطا فرمایا ہے۔ لہذا حضور (ص) کے ارشاد کے مطابق ہم ہلاک ہو نے سے بچ جا ئیں تو بہتر ہے اور اس کی وہی ایک صورت ہے کہ تو بہ کر لیں ؟ اور اپنی مغفرت کروالیں؟ ویسے تو تمام احادیث ہم میں سے بہت سوں کو زبانی یاد ہیں خصوصا ً ہمارے علما ئے کرام کو تو جانتے ہی ہیں ۔ مگر وقت آنے پر بعض اوقات یاد نہیں آتی ہیں؟اور آدمی گھبراہٹ میں سب کچھ بھول جا تا ہے۔ چونکہ امت پر وقت پڑا ہوا ہے! ہم اس مشہور حدیث کو پیش کر کے یاد داشت کو تازہ کر دیتے ہیں کہ “ایک دن حضور (ص) نے تین مرتبہ آمین فرمایا ؟ صحابہ کرام نے وجہ پو چھی تو فرما یا کہ ابھی جبرئیل (ع) تشریف لا ئے تھے۔ انہوں نے فر ما یا کہ وہ ہلاک ہوا ، جس نے آپ کا اسم ِ مبارک سنا اور درود شریف نہیں پڑھی ! میں نے کہا آمین، پھر فرما یا کہ وہ بھی ہلاک ہوا کہ جس نے اپنے ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو پایا اور اپنی مغفرت نہیں کرالی ! میں نے کہا آمین۔ پھر فرمایا کہ وہ بھی ہلاک ہوا جس نے رمضان کا آخری عشرہ پایا اور اپنی مغفرت نہیں کرالی، میں نے پھر آمین کہا!
آئیے ماہ رمضان شروع ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ اور رمضان سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے؟ (آمین)
اس لیے اس میں سے ایک موقع تو ہم روز ہی کھوتے رہتے ہیں ۔ جس کو کہ آج کی میڈیا نے ہمارے لیے بہت آسان کر دیا ہے یعنی حضور (ص) کے اسم مبارک کے آنے اورسننے پر درود شریف پڑھنا اور ثواب کمانا؟ رہا دوسرا موقعہ وہ مجھ جیسے طوالت عمر کے با عث کھوچکے ہیں کہ ماں باپ ہماری طویل عمری کے باعث داغ ِ مفارقت دے چکے ہیں۔ جبکہ رمضان المبارک کے دن تیزی سے گز رہے ہیں اور آخری عشرہ آنے ہی کو ہے ؟ اگر یہ عشرہ بھی گنوا دیا تو ہماری ہلاکت میں کیا کمی رہ جا ئے گی۔ جبکہ علماءاس بات پر متفق ہیں کہ مسلمان کا آج کل سے بہتر ہونا چاہیے ہر کام میں اس کی جیت ہی جیت ہے۔ “ مر جا ئے تو شہید جیتا رہے تو غازی“ اگر ہم پھر بھی جنت نہ بنا سکیں تو ہم سابد قسمت کون ہے؟