تمام نائبان رسول (ص) کے لیے لمحہ فکریہ! از۔۔۔ شمس جیلانی

حضور (ص) کی تمام حیات طیبہ جو عوام ا لناس اور اور صحابہ کرام (رض)کے درمیان گزری اس میں وہ ہمیشہ دوباتوںکے لیے کوشاں رہے جس میں پہلی تو یہ تھی کہ دین اسلام کو تمام دنیا قبول کر لے۔ جس کی تصدیق قرآن نے بار بار کی؟ اور ساتھ ہی ان کو اس پر مطلع فرمایا کہ آپ سب کے لیئے پریشان نہ ہوں،ہدایت انہیں کو ملے گی جن کو کہ “میں عطا کرنا چاہونگا “ آپ اس غم میں کیا اپنے آپکو ہلاک کرلیں گے؟ اس کی ایک عملی مثال اس مسئلہ پرحضور (ص) کی وہ دعا ہے جو حضور نے حضرت عمر (رض) ، اور ابو جہل دونوں میں سے ایک کے لیے کی تھی کہ “ ان میں سے ایک کو مشرف بہ اسلام فرمادے“ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت عمر  (رض)کو مشرف بہ اسلام فرمادیا۔ جبکہ دوسرا ابو جہل کے لقب سے دنیا میں مشہور ہوا اور اسے ذلت کی موت مقدر تھی وہ میدان بدر میں نصیب ہوئی ۔حالانکہ ایک دور تھا جس میں اسلام دشمنی میں یہ دونوں ہی مشہور تھے ذہین بھی دونوں ہی بے انتہا تھے؟ مگر ایک نے سلام قبول کرنے سے انکار کردیا ،جبکہ حضرت عمر (رض) نے قبول فرما لیا۔ آج جب حضرت عمر (رض) کانام کسی مسلمان کے سامنے لیا جاتا ہے تو اس کی زبان سے بے ساختہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکل جاتا ہے اور ان کے وہ کارنامے یاد کرکے اسکا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جو وہ اسلامی فلاحی ریاست کی شکل میں دنیا کو دیکرگئے۔ جس کی ان سے پہلے معلوم تاریخ میں کہیں مثال نہیں تھی ؟ اس سے نبی ِ صادق (ص) کے اس ارشاد گرامی کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے کہ میرے  (ص)بعد اگر کوئی نبی (ع) ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ جبکہ جہاں تک دنیاوی علم کا تعلق ہے۔ ابو الحکمہ جو بعد میں بگڑ کر ابو الحکم ہوگیا وہ زمانہ جاہلیہ میں اس شخص کا لقب تھا جس کو ہم “ ابو جہل“ کے نام سے جانتے ہیں ۔ اور یہ لقب اس کے اس علم کی وجہ سے ملا تھا جسے وہ اپنی خداداد ذہانت کی بنا پر ا پنے ساتھی طالب علموں سے مقابلہ میں بہت جلد بہت سے علوم پر عبور حاصل کر کے آگے نکل گیا تھا؟ اور اس طرح اس خطاب کا مالک بنا۔ کیونکہ عربی زبان میں کنیت جیسا کہ ہم بارہا لکھ چکے ہیں دو طرح کی ہوتی ہے ایک نسبی اور دو سری صفاتی ۔جبکہ حضرت عمر (رض) کے کارنامے بلا تخصیص مذہب اور ملت تمام عالم انسانیت کو ازبر ہیں ۔ ان کے برعکس جو ابو الحکمہ تھا، وہ تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے “ابو جہل “ آج بھی کہلاتا ہے۔ کیونکہ قر آن کہہ رہا ہے کہ جو چیز انسانو ں کو فائیدہ پہونچا تی ہے وہ قیامت تک قائم رہے گی اور بطور صدقہ جاریہ اپنے موجد کے کھاتے میں لکھی جاتی رہے گی۔ آج آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں فلاحی مملکتیں چل رہی ہیں یہ حضرت عمر (رض) کی رہین منت ہیں ۔ اگر میں تفصیل میں جاؤں تو انہوں نے دنیا کو اتنا کچھ دیا ہے جس کی ایک طویل فہرست ہے؟ اگر اختصار اختیار کروں اور مسلمانوں کی حد تک محدود رہوں اور اس میں سے بھی صرف عبادات کی حد تک قلم کو محدود کرلوں تو اللہ والوں سے سال میں ایک مہینہ جو مساجد میں رونق رہتی ہے وہ انہیں کے دم سے ہے اور یہ کروڑوں مسلمانوں کو جو زبانی قر آن یاد ہے وہ بھی انہیں کے اجتہاد کی وجہ سے ہے! اگر وہ تراویح کو یہ شکل نہ دیتے جو آج ہے تو مسلمانوں میں حفاظ کی یہ تعداد کہاں ہوتی؟ کیونکہ تراویح کو رواج دینے کے لیے انہوں نے حکومتی سرپرستی میں طبقہ حفاظ پیدا کیا اور ان کے وظیفہ مقرر فرمائے۔ اگر وہ یہ نہ کرتے تو آجکل جو مساجد بھری نظر آتی ہیں ان میں یہ چہل پہل نہ ہوتی ؟ کیونکہ حضور (ص) نے صرف تین رات تراویح با جماعت پڑھائی تھی اور اس طرح امت کی رہنمائی کے لیے ایک اشارہ چھوڑا تھا؟ کیونکہ یہ وہ دور تھا کہ قرآن نازل ہورہا تھا اوردین نا مکمل تھا ؟ حضور (ص) اپنی امت کے لیے آسانیا ں پیدا فرما نا چاہتے تھے تاکہ جولوگ نئے نئے دین میں آرہے ہیں انہیں اسلام میں مشکلات کم اور آسانیاں زیادہ نظر آئیں اور جب وہ اس طرح اپنے ایمان میں پکے ہوجائیں گے پھر ان کو مشکل عمل بھی آسان ہو گا؟ لہذا وہ ایک اشارہ یہ فرماکر چھوڑ گئے کہ “کل رات تمہاری بے چینی مجھ سے دیکھی نہیں جارہی تھی مگر میں دوسرے دن با جما عت تراویح پڑھانے کے لیے اس لیے باہر نہیں آیاکہ کہں تم پر فرض نہ ہو جائے اور پھر تم اس پر پورے نہ اتر سکو “ چونکہ ان کے بعداس کی فرضیت کا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عمر (رض) کے سامنے ایک محفل میں فرشتوں کا رمضان شریف میں بیت المعمور میں عبادت اور تلاوت قرآن کا ذکر کیا اسے ان سے سن کر انہوں نے اس کو عملی شکل دیدی؟ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہواکہ کروڑوں مساجد جو دنیا میں موجود ہیں ان میں سے اکثر میں رمضان شریف میں قر آن پڑھنے اور سننے میں مسلمان مصروف رہتے ہیں ! جبکہ قر آن کی خوبی یہ ہے کہ جب بھی اسے غور سے پڑھا جا ئے تو ہر دفعہ ایک نئی بات معلوم ہو تی ہے۔ جو لوگ بایک وقت اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کیئے ہوئے ہیں اور حافظ بھی ہیں انہیں کسی آیت کو کسی موقعہ پر پیش کرنے میں دیر نہیں لگتی؟ جبکہ جو صرف حافظ یا عالم ہیں وہ ان کی طرح قرآن سے ااستفادہ حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ انہیں کسی مطلوبہ آیت کی تلاش میں کچھ وقت لگتا ہے؟
اسی طرح حضور (ص) کی بصارت افروز نگاہیں جوہمارے مقابلے میں بہت دور تک دیکھ سکتی تھیں وہ دیکھ رہی تھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اور مذاہب کی طرح اس دین کوبھی منجمد کرکے مشکل بنادیا جائے؟ حضور (ص) ہمیشہ اپنے صحابہ کرام کو ایک ہی بات تلقین فرماتے تھے۔ کہ “دیکھو دین میں آسانیاں پیدا کرنا اس کو مشکل مت بنا نا ؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بہت بڑی سورت نماز میں پڑھتا تو وہ یہ فر ما کرا س کی ہمت شکنی فرماتے تھے کہ کیا تم لوگوں کو دین سے بھگانا چاہتے ہو ؟ جب حضرت معاذ یمن کی طرف بطور پہلے عامل اور نائب ِ رسول (ص) تشریف لے جارہے تھے۔ تو حضور (ص) کئی میل تک ان کی باگ پکڑ کر چلتے رہے ۔ سوالات پوچھتے اور ہدایات عطا فرماتے رہے ؟پہلے پوچھا کہ تم وہاں انصاف کیسے کروگے ؟انہوں نے جواب دیا کہ ً میں اسے پہلے قر آن میں تلاش کرونگا، اس میں نظر نہیں آیا تو آپ کی سنت میں تلاش کرونگا۔ پھر پوچھا کہ اگر اس میں بھی نہ ملا تو؟ جواب دیا کہ پھر میں اپنے طور پر فیصلہ کرونگا ؟ یہ سن کر حضور (ص) بہت خوش ہو ئے اور یہ فرما کر گلے سے لگا لیا کہ یہ امت اس وقت تک گمراہ نہیں ہو گی جب تک وہ اس پر قائم رہے گی۔ آج عالم یہ ہے کہ بہت سے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ہمیں ان کا جواب دینے والا کوئی کہیں نہیں ملتا ؟ کیونکہ ہرایک ذمہ داری لینے سے پہلو تہی کرتا ہے اور اس طرح دین مشکل بنتا جارہاہے مثال کے طور پر سحور کے ٹائم میں ایک گھنٹے کی کمی خودساختہ کمی کرنے کی وجہ سے اب کئی کلینڈر استعمال ہورہے ہیں ؟ جبکہ مسلمان بفضل تعالیٰ دنیا کے ہر کونے میں پہونچ گئے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے قریبی شہر “ قطب جنوبی “ پروہاں بھی سات مسلمان ہیں جنہوں نے جگہ لیلی ہے اور وہ مسجد بنا رہے ہیں۔ ان کے لیل نہار ہما رے جیسے نہیں ہیں ۔ اسی طرح اسکینڈی نیوین ممالک ہیں، جن کے ایک حصہ میں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے، وہ روزے کیسے رکھیں نماز کیسے پڑھیں ؟ اس کا جب جواب علماءسے پوچھتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ ہمسایہ ملک کانظام الاوقات لیلو؟ جو وہاں تو چل سکتا ہے جہاں وقت میں معمولی فرق ہو؟ جہاں غیر معمولی فرق ہو تو اس کے لیے ایک مرکزی کونسل ہونا چا ہیئے جو ایسے اسکالرز پر مشتمل ہو، جو اسلامی تعلیمات میں بھی ماہر ہوں اور جدید علوم میں بھی؟ میں ایک طالب علم ہوں! مجھے حضور (ص)  کے ارشادات میں اس کے حل کے لیے ایک اشارا ملا! وہ یہ ہے کہ ایک روز حضور (ص) نے قرب قیامت کی باتیں کر تے ہوئے فرمایا کہ “ ایک دور ایسا آئے گا کہ کبھی دن ایک لمحہ کا ہوگا اور کبھی چالیس دن کا “ تو صحابہ کرام (رض) نے پوچھا کہ اگر وہ دور ہم میں سے کوئی پا جا ئے تو نماز کیسے ادا کر ے(ایک لمحے میں پانچ نمازیں کس طرح، اور چالیس دن میں بھی پانچ نما زیں) تو جواب میں حضور (ص) نے ارشاد فرما یا کہ تب ندازے سے نظام اوقات مقرر کر لینا؟ یہ حدیث میں نے ایک مفتی صاحب کے سامنے  جوکہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ا لتحصیل ہیں مسجد میں پیش کی تو انہوں نے فرمایا کہ “ یہ حدیث ہے تو مگر! ۔۔۔ “آگے وہ کچھ نہ کہہ سکے کہ اس کے آگے مجبوری حائل تھی کیونکہ جو بھی اس سلسلہ میں پہل کریگا وہ نکو بن جائیگا؟
اس کا حل ایک ہی ہے کہ کوئی اس کا مستقل حل دریافت کیا جا ئے تاکہ اراکان اسلام پر مسلمان کاربند رہ سکیں ؟ میں پہلے بھی علما ئے کرام کی توجہ اس طرف دلا چکا ہوں، پھر اپنی معروضات پیش کر رہا ہوں؟کہ نئی نسل مشکلات دیکھ کر دین سے راہ ِ فرار اختیار کر رہی ہے جس میں یہ کہہ کر والدین بھی معاون بن رہے ہیں کہ روزہ انیس گھنٹے کا ہے دن بڑے ہیں، گرمی بہت ہے اسکول بھی کھلے ہوئے ہیں اگلے سال رکھ لینا۔ جبکہ عادتیں بچپن سے ہی پختہ ہوتی ہیں اگر ارکان اسلام آج چھوڑ دیئے تو کل ان کے لیے ان پر عامل ہونا بہت مشکل ہوگا؟ اور اس طرح بے عمل مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ جو پہلے ہی ما شاءاللہ کافی ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.