سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ کو جھٹلائے۔۔ شمس جیلانی
پورے سال ہم سب سیاست پر لکھتے رہتے ہیں جو اکثربلا تحقیق ہوتا ہے؟ جس کے لیئے سختی سے قرآن میں وعید ہے کہ جب تک تمہیں با وثوق ذرائع سے تصدیق نہ ہو جائے کسی خبر کو یونہیں نہ اڑاتے پھراکرو؟ اس عمل ِ قبیح کی بہت ہی سخت الفاظ میں ممانعت حضور (ص) نے اپنے خطبہ وداع میں فرمائی کہ “جس طرح آج کا یہ دن حرمت والا ہے اسی طرح مسلمان کی عزت ،آبرو اور مال مسلمانوں پر حرام ہے “ حضور (ص)نے یہ پہلے ہی فرما دیا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ کسی بات کو بلا تحقیق وہ آگے بڑھادے ؟ اور یہ بھی کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا؟
جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو جھٹلانا یہ بھی ہے کہ بظاہر کوئی اپنا نام مسلمانوں میں لکھوائے مگر اپنے عمل سے اسے جھٹلائے ، اس کے نبیوں (ع) کو جھٹلائے کتابوں کو جھٹلائے؟ جبکہ مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ ان سب پر یقین رکھتا ہو، مگراسلامی قوانین کو تمام دنیا کے قوانین سے بہتر سمجھتا ہو، کیونکہ یہ خدا کے آخری نبی (ص) کے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں؟ اس کے لیے ضروری ہے جو خود کو مسلمان کہلاتا ہو، کہ روزانہ صبح سے شام تک جو کچھ اس نے کیا ہے خود اپنا احتساب کرے اور دیکھے کہ اس نے اس دوران کوئی اللہ کی نافرمانی تو نہیں کی؟ بشریت ہے بفرضِ محال اگر ہوگئی ہوتو! اس کا حل یہ ہے کہ اس وقت تک نا سوئے جب تک کہ توبہ کرکے کم ازکم اتنی ہی نیکیاں نہ کرلے۔ کیونکہ برائی ایک ہی لکھی جاتی ہے وہ بھی سرزد ہونے پر اور اگر کوئی اللہ سے ڈرکر رک جائے تو برائی بھی ثواب میں بدل دی جاتی ہے۔اس کے برعکس نیکی صرف ارادہ کرنے پر ایک شمار ہوتی اور اسے پورا کرنے پرکم ازکم دس اور اگر بندہ خدا کے ساتھ واقعی پر خلوص ہے تو “ بغیر ِ حساب “ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خلوص کی پہچان کیا ہے ؟ بڑا سیدھا سا جواب ہے کہ آپ جسے بہت چاہتے ہیں اگر وہ ناراض ہوجا ئے تو حالت یہ ہوتی ہے کہ اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کے اسے منا نہ لیں ۔ یہ ہی حالت اسوقت ہوناچاہیئے اگر آپ نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اپنے کسی عمل سے ناراض کیا ہے تو اس کو توبہ کرکے منانہ لیں بے چین رہیں ؟ کیونکہ مسلمان کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول (ص) کو اپنی جان سے بھی زیادہ چاہے۔ حضور (ص) نے فرمایا کہ جب کوئی گناہ کرے اورتوبہ کرلے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ جیسے کہ کو ئی مسافر جنگلِ بیابان میں ہواسکا تمام اسباب اور پانی ایک ہی اونٹ پر لدا ہو، وہ گم ہوجا ئے اورا چانک خود بخود واپس آجائے؟۔ جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد توبہ قبول کرنے والا ہے، اور یہ بھی کہ کبھی انسان اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو؟ ہم اس مہینے میں آگے بڑھ رہے ہیں، اب جو جاری عشرہ ہے وہ مغفرتوں کا ہے، اس میں بھی پورے رمضان ِ مبارک کی طرح ہر نیک عمل کا اجر بے حساب ہے؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ پکار پکار کرکہہ رہا ہے کہ “ ہے کوئی جو اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کرالے اور جہنم سے نجات پالے ؟ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں جب یہ مضمون آپکے ہاتھوں میں پہونچے گا تو اس ماہ مبارک کا پہلا عشرہ توگزر چکا ہو گا ؟ جو عشرہ رحمت کہلاتا ہے ۔اب ہم اس عشرے میں داخل ہوچکے ہیں جس کو عشرہ مغفرہ کہتے ہیں جنہوں نے گزشتہ عشرہ سے فائیدہ اٹھایا وہ قابل ِ تحسین ہیں؟ لیکن جو سستی یا کسی اور وجہ سے پیچھے رہ گئے ان کے لیے بھی ابھی تک وقت نہیں گزرا ہے، موقعہ ہے کہ اس عشرے میں بھلے کام کرکے اگلے عشرہ میں جب داخل ہوں تو دوزخ سے نجات حاصل کرلیں اور حدیث کے مطابق “ ہلاک ہونے سے بچ جا ئے“ جبکہ مسلمان کے لیے بھلائی کا میدان بہت وسیع ہے ! اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “رحم کرو تاکہ رحم کیے جاؤ ، معاف کرو تاکہ معاف کیے جاؤ “اگر کسی کے ساتھ برائی کی ہے تو معافی مانگ لو اگر کسی پرظلم کیا ہے تواسے منالو ؟ یہاں ہم ظلم صرف اس فعل کو ہی کہتے ہیں کہ ہم نے کسی کو ستایا ہو ؟ جبکہ عربی میں لفظ ظلم کی معنوی تفصیل بہت طویل ہے! اس میں کسی کو کسی طرح سے بھی جھٹلانا یا کسی کے حقوق کا انکار کرنا جس کا وہ مستحق ہے ظلم ہے ؟ سب سے بڑا ظلم اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے حقوق کو جھٹلانا ہے ؟ جو کہ اپنی تمام مخلوق اور خصو صاًانسان پرسب سے زیادہ مہر بان ہے کہ اس نے اسے اپنا خلیفہ بنایا، کیونکہ یہ شرف سوائے انسان کے اور کسی کو اس نے عطا نہیں فرمایا؟ جس کی عطا کر دہ ساری نعمتیں گننا بھی انسان کی پہونچ سے باہر ہے،وہ صرف ہم سے یہ کہتا ہے بس میری بات مان لیا کرو؟ وہ بھی وہ اپنے لیے نہیں فرماتا، کیونکہ وہ تو بے نیاز ہے بلکہ یہ طلب ہمارے ہی لیے ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ “ جو اچھا کام کریگا وہ اپنے لیے کریگا جو برا کام کرے گا وہ بھی اپنے لیے ہی کریگا؟ میں سب کو دیتا ہوں کسی سے بدلہ میں مانگتا کچھ نہیں ہوں “ یہاں وہ فرمارہا ہے کہ“ میں نے تمہیں یہ مہینہ عطا فرمایا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کر کے متقی بن جاؤ؟ اور پھر وہاں پہونچ کر اس دائمی جنت کے مزے لوٹو جہاں کبھی موت نہیں آئے گی جہاں تمام نعمتیں بے جدوجہد کے ملیں گی کبھی گھٹیں گی نہیں“ پھر بھی اس سے زیادہ بد قسمت کون ہو گا کہ اس اعلانِ عام سے فائیدہ نہ اٹھائے بلکہ گناہوں میں ڈوبا رہے کبھی اپنے لیے تو کبھی دوسروں کے لیے؟ کبھی اولاد کے نام پر، کبھی ذات اور برادری کے نام پر، کبھی پارٹی کے نام پر کبھی ہم عقیدہ ہونے کی وجہ سے ؟ یہ جانتے ہو ئے کہ ساتھی ظالم ہیں ؟ گوکہ اسلام رشتہ توڑنے والوں کی مذمت کرتا ہے اور قرابت داروں کی مدد کرنے پر دگنا ثواب بھی دیتا ہے؟ مگر بھلائی کے کاموں میں برائیوں میں مدد کرنے پر نہیں؟ جبکہ سہولت یہاں تک ہے کہ اگر کوئی ظالم ہے تو آپ اسکی مدد بھی کر سکتے ہیں، وہ کیسے؟ حدیث ِ پاک کے مطابق “ اسے ظلم سے روک کر “ دیکھئے ثواب کمانے کی یہاں بھی گنجائش ہے آپکو بھی اور آپکے اس عزیز دوست کو بھی جو اس ماہ میں ظلم کا مرتکب ہورہا ہے وہ توبہ کرکے برائی سے رک جائے؟
روزمرہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں ہم سب ظلم پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں! رشوت خوری اور بڑھ جاتی ہے ، چونکہ سب کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں؟ لہذا کمانے کے نئے نئے طریقہ نکالے جاتے ہیں ؟ جس پر سزا بھی اسی حساب سے ہونا چاہیئے تھی جس حساب سے ثواب ہے، مگر اللہ تعالیٰ چونکہ رحیم ہے سزا دینے پر خوش نہیں ہے ؟ یہ اس کی رحیمی ہے کہ سزا وہی رہتی ہے اسی طرح اس مہینے میں بھی داہنے داہنے ہاتھ والا فرشتہ انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ شاید یہ توبہ کر لے اور جہنم کے بجائے جنت بنا لے؟ پھر بھی کوئی نہ مانے تو مجبوراً وہ بائیں ہاتھ والے فرشتے کوگناہ درج کر نے کی اجازت دیدیتا ہے؟ یہ کیا اس رب کی مہربانیوں کو جھٹلانا نہیں ہے؟ اس کی دی ہوئی سہولت سے فائدہ نہ اٹھانا بھی کفران نعمت ہے جو کوئی عبد ِشکور نہیں کر سکتا ،کوئی ناشکرا ہی کرسکتا ہے؟ صرف کوئی نافر مان ہی کر سکتا ہے جھوٹا ہی کر سکتا ؟ کیونکہ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ پر یقین ہوگا وہ یہ ہرگز نہیں کریگا؟ وہ تو سال بھر اس مہینے کے انتظار میں گزارتا ہے اور بے انتہا ثواب کمانے کے لیے رقومات جمع کر کے رکھتا ہے اور اس موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے کہ ماہ ِ رمضان شریف آئے تومیں لوگوں کی خدمت کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کرڈالوں اور ان گنت ثواب کماؤ ں اور خود کو اس مہربان سے جس کا کوئی مہربانی میں ثانی نہیں ہے! ان میں شامل کرالوں جو “ بغیر ِحساب قیامت کے دن جنت میں داخل ہونگے ؟ اس انسان کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہے جو اس سوچ پر عمل کر رہا ہو؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ،اس کی کتاب اور اس کے نبی تینوں پر یقین رکھتا ہو ۔ اور یہ کہ وہ مجھ پر نگراں ہے ہر فعل میرا اس پر عیاں ہے، بے شک وہ جنتی ہے اسے جنت کے آٹھوں دروازے قیامت کے دن پکار رہے ہوں گے کہ اے اللہ کے پیارے بندے تو مجھ میں داخل ہو کر مجھے اپنی قدم بوسی کاشرف عطا فرما ۔ جبکہ ان تینوں میں سے کسی کو جھٹلانے والا، اللہ کو جھٹلانے والا ہے والا علما ءکے نزدیک کافر ہے ؟ جبکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ میں اپنی سنت نہیں بدلتا اور اپناوعدہ پورا کرنے والا مجھ سے زیادہ کوئی نہیں ہے؟ اگر ہم پھر بھی اس کی بات نہ مانیں تو ہم سے زیادہ بد قسمت کون ہے جس نے اس ماہ مقدس پر یقین نہ کر کے یوم قیامت پر یقین نہیں کیا؟ ہم نے شک میں رہتے ہوئے سارا وقت کھودیا ؟ بلکہ اس مہینے میں برائیوں میں اور بڑھ گئے اس لیے کہ ہمارے اخراجات بڑھ گئے تھے اس طرح ہم نے اس ماہ ِ مقدس میں بھی ظلم کیا۔ اگر بغیر توبہ کہ اس میں سے ہم نے بجائے مال ِ حلال کے مال حرام کی دیگیں چڑھا بھی دیں تو بجا ئے کسی ثواب کے عذاب کے ہی مستحق ہونگے اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیزوں کو قبول کرتا ہے؟ کوئی ناپاک چیز اس کے دربار میں شرف قبولیت نہیں پاسکتی، کیونکہ کوئی کھو ٹا سکہ اس کے یہاں چلتا ہی نہیں ہے جو کہ ظلم سے ،حرام کاری سے ،دھوکا دہی سے ، ذخیرہ اندوزی سے اورگراں فروشی سے حاصل کیا گیا ہو؟ کتنی ہی اچھی افطاریاں کرائیں اس کے نام پر لنگر خانے کھول دیں ؟ یہ سب جتن کرنے والوں کے وہ قیامت کے دن منہ پر ماردے گا؟۔ کیونکہ اس ظلم کی وجہ سے گناہوں کا پلا بھاری ہوگا؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب کو اس انجام سے بچا ئے جس کو حضور (ص) اس دن سب سے بڑامفلس( کنگال) قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس کے پاس دینے کے لیے حقداروں کو کوئی نیکی بچے گی نہیں، تب وہ اپنے ان پیاروں سے مانگے گا جنکے لیے اس نے ظلم کیے تھے۔ وہ کہیں گے کہ ہمیں تو آج خود ہی ضرورت ہے تمہیں کہا ں سے دیں؟