ظالموں رمضان المبارک میں تو انسان بن جاؤ ۔۔۔از۔۔ شمس جیلانی

ہم ہر بات کا الٹ کرتے ہیں جبکہ عہد جاہلیہ میں بھی رمضان شروع ہوتے ہی جنگ و جدال بند ہوجاتا تھا ۔ ہم نے نئی طرح ڈالی ہے کہ جہاں رمضان شریف شروع ہو ئے اس دن سے ہنگامے بھی شروع ہوگئے۔ اس کے پیچھے کون ہے یہ سوال پیدا ہورہا ہے اصل میں اس کے پیچھے وہ درندے ہیں جو اپنے سواکسی کو مسلمان نہیں سمجھتے ۔دشمن ہماری ہی تاریخ پڑھ کر اس راز سے واقف ہوا کہ کچھ ہمارے ہی ساتھیوں نے ہمیں سے باغی ہوکر اسلام میں اصلاح کے نام پر فتنہ خارجیہ پیدا کیا جو مدتوں تک چلتا اور قتل اور غارت کرتا رہا جس کو چنگیزیزیوں نے ختم کیا۔بس اسی فتنہ کے دوبارہ بیج بوکر انہوں نے آبیاری کردی؟ میری اس معروضات پر بہت سے لوگ کہیں گے کہ پھر رمضان میں غزوہ بدر کیوں ہوا تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفاراس وقت اسلام دشمنی میں اتنے پاگل ہوگئے تھے کہ جسطرح ہم آجکل پاگل بنے ہوئے ہیں۔کہ انہوں نے بھی اپنی قدریں جو حضرت ابراہیم (ع) سے چلی آرہی تھیں پہلی دفعہ چھوڑ کر رمضان میں جنگ یوں لڑی گئی کہ وہ اسلام کانام مٹانا چاہتے تھے اور اس کے نتیجہ میں انہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے عذاب نے ایساپکڑا کہ نہتے مسلمانوں کے ہاتھو ں ان کے بہتر سردار مارے گئے اور بہتر ہی گرفتار ہوئے۔ یہاں یہ ہی کچھ کئی عشروں سے ہم کر رہے ہیں اور قر آن میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا؟
اب زمینی حقائق یہ ہیں کہ امن کے لیے سب سے زیادہ کوشاں ادارے! یعنی رینجرز کو جوکہ فوج کی ہی ایک شکل ہے جس نے اس فتنے کو پچھلے دو سالوں سے بڑی کامیا بی سے اسی فیصد ختم کردیا تھا اسے باوجوہ سب نے ملکر غیر فعال بنا دیا ہے۔ ایسا کیا کیوں کیا اور اسکے پیچھے کون ہے؟ اس میں بعض لوگ تو اس لیے حائل ہیں کہ وہ پاکستان کوا یک جمہوری ملک سمجھتے ہیں۔ اور عوم کو وہ سہولیات عطا کرنا چاہتے ہیں جو جمہوری ملکوں کے باشندوں کو حاصل ہیں ۔ جبکہ نہ یہاں عوام دوسرے جمہوری ملکوں جیسے ہیں، نہ خواص جمہوری ملکوں جیسے ، اور نہ ہی لیڈر جمہوری ملکوں جیسے ہیں ۔ ان سب کے بیچ میں سب سے زیادہ مقدس پاکستان کا وہ دستور ہے جس میں ہر دور میں ترامیم ہوتی رہی ہیں جن کی تعداد اب تک بائیس ہوچکی ہے ؟ جبکہ اس کا ٹائیٹل انتہا ئی خوبصورت اور دل آویز ہے جس میں جلی حرفوں سے لکھا ہوا ہے کہ یہاں “ حکمرانی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہوگی اور یہ بھی کہ قرآن اور سنت کے مطابق ہوگی۔ جوقوانین اس وقت قر آن و سنت کے مطابق نہیں ہیں انہیں دس سال کے اندر اسلامی سانچے میں ڈھالا جا ئے گا “ اسی دستور میں کچھ خصو صی دفعات عطا فرما دی گئیں تھیں، جن میں لکھا ہوا ہے کہ حکمراں کیسے ہونگے “ان کے لیے شرط اول یہ ہے کہ وہ امین ہوں“ جس کے خلاف تمام حکمراں با جماعت ٣ ا کے الیکشن سے پہلے دہائی دیتے سنے گئے کہ “ خدارا ہمیں اس چھلنی سے مت گزارو اس پر ہم میں سے کوئی بھی پورا نہیں اتر سکتا “ اوراس صورت میں جو قیادت آ ئے گئی وہ صرف علماءکی ہوگی “ جبکہ نہ جانے کیوں علماءکی قیادت نہ سیاستدانوں کو پسند ہے نہ عوام کو، جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انہیں ووٹ ہی نہیں دیتے۔ لہذا سب کے بے حد اصرار پر ان دفعات کو بغیر دستور میں تبدیلی کیئے معطل کردیا گیا ؟ پھرنہ جانے کیوں اس سے سب نے، اور خصوصاً شعبہ عدل نے بھی چشم پوشی اختیار کر لی؟ شاید وجہ یہ رہی ہو کہ سب جانتے تھے کہ علما ئے باعمل کا اتنی بڑی تعداد میں فراہم ہونا مشکل ہے، ایک ہزار سے زیادہ علما ءبا عمل کہاں سے آ ئیں گے جو اسمبلیوں میں رکنیت پوری ہو؟ کیونک سب ایک تجربہ اس سے پہلے کر چکے تھے کہ مشرف صاحب نے رکنیت کے لیے گریجویٹ ہونا لازمی قرار دیدیا تھا اور اس کے لیے درس نظامی کے ہر فاضل کو جوکہ علماءعام طور پر ہوتے ہی ہیں ،گریجویٹ کے مساوی قرار دیدیا ۔ اس میں نہ جانے کیسے ان میں اچھی خاصی تعداد علماءوالی سند لیکر اسمبلی میں پہونچ گئی،۔جنہیں کہ علم القرآن وسنت اور فقہ تو بہت دور کی بات ہے، سورہ اخلاص جیسی چھوٹی سورہ بھی یا دنہیں تھی۔ یہ سب راز کی باتیں ہیں ا ور اہلِ راز ہی جانتے ہیں کہ علما ئے کرام میں کالی بھیڑیں کیسے آئیں؟ جنہوں نے سندیں ہدیہ کیں اور اپنے علاقے کے جاہل ممبروں کو اپنے آبائی اور پشتینی کانسی ٹیونسی سے محروم کر نا پسند نہیں کیا! شاید ترس کھاکر بروقت ڈگریاں عطا فرمادیں تاکہ انہیں کوئی جہالت کا طعنہ نہ دے؟ اس کے نتیجہ طور پر جو حکمراں آئے تو وہ ایسے ہی تھی جیسے انہوں نے خود کو بتایا تھا۔ مگرکم از کم انہوں نے خود کو مسلمان ثابت کردیا ! کیونکہ حدیث شریف کے مطابق “ مسلمان سب کچھ ہو سکتا جھوٹانہیں “۔ اگر اس مرتبہ بھی وہ کوئی چکرچلا کر اور اس امتحان سے گزر اسمبلی میں آجاتے تو مشرف صاحب کی سابق اسمبلیوں کی طرح عدالتو ں کے چکر لگانے میں پورا عرصہ گزر جاتا دوسرے کم ازکم انہوں نے اس سے ایک بات ثابت توکی کہ “ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں “ یہ تو ہم نے ایک دفعہ اور بھی دستور کے چند سیکشنوں کی بات کی تھی! اس کے علاوہ بھی بہت سے قوانین دستور میں موجود ہیں جن پر عام طور پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ لیکن اگر کوئی قائد کا ساتھی ہو تو وہ کسی بھی آمر یا ظالم کی مشکل کشائی ان سے کر سکتا ہے اور اسے کام میں لاکر چلتی گاڑی کو بریک لگا سکتا ہے یابریک تھرو دے سکتا ہے یہ سب کچھ کرنا اس کی صوابدید پر ہوتا ہے جیسی ضرورت پڑے؟ اسی سے نظریہ ضرورت کے تحت پہلی دفعہ کام لیا گیا تھا۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ نیا میدان تیار ہورہا ہے اورایک گروہ اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی بچانے کے لیے رو بعمل ہوگیا ہے !کیونکہ دنیا نے انہیں پہچان لیا ہے۔کہ شر پسندی کے ذمہ دار کون ہیں ۔ اور دوا کہاں سے ملے گی۔موت اس مرتبہ ایک بیچارے قوال کی آگئی جس کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے تھا کہ وہ انسان بھی تھا اور دامہ درہمے انسانیت کی خدمت بھی کرتا رہتا تھا۔ اس نے لالو کھیت میں آنکھ کھولی تھیں اور آج تک اس نے وہ علاقہ اورہمسایہ نہیں چھوڑے جبکہ وہاں رہنا کچھ بن جانے کے بعد دل اور گردے کا کام ہوتا ہے ؟ کیونکہ ہم اپنے ایک رشتہ دار سے واقف ہیں کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی لالو کھیت میں گزاری ،مگر بعد میں جب ان کی لڑکیا ں بڑی ہوگئیں اور وہاں کی رہائش کی وجہ سے رشتے نہیں آئے، کیونکہ اس میں سماجی تقسیم حائل تھی؟ تو انہوں نے یہ جانے بغیر نقل ِ مکانی کی ٹھانی کہ موت ان کی گھات میں ہے ؟ اس نے ان کا انتطار بھی نہیں کیا ،ابھی وہ منتقل بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ شاید ان کی روح محلہ چھوڑ نے کو تیار نہیں ہوئی جیسے مغرب میں پہلے ماں باپ بڑے چا ؤ سے اپنے بچوں کو لیکر آتے ہیں ان کو وہاں تعلیم دلاتے ہیں۔ پھر واپس جاناچاہتے ہیں تو بچے جانے کو تیار نہیں ہوتے ؟ اسی طرح جو لوگ رمضانیوں میں رہنے کے عادی ہوں، تو وہ نقل مکانی سے بہت گھبراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں وسائل کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں کیونکہ وہاں روز ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں مگر کوئی دقّت نہیں ہوتی جس چیز کی ضرورت ہو پڑوسیوں کے یہاں سے مل جاتی ہے اور کبھی تو کوئی پڑوسن کسی گھر سے دھواں اٹھتے نہیں دیکھتی تو وہ خود جاکر اور ہانڈی کا ڈھکنا اٹھا کر دیکھ لیتی ہے ، اور روز مرہ کی چیزیں پہونچا آتی ہے۔ کیونکہ قرآن میں ان کی مذمت کی گئی ہے “ جو اپنی چیزیں دوسروں کو برتنے کو نہیں دیتے ۔ ویسے بھی یہ سہولتیں ایسے شہرمیں بہت کام آتی ہے جہاں آئے دن ہڑتالیں ہو تی رہتی ہیں۔ جبکہ وہ وہا ں جاکر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں جہا ں برابر میں پڑوسی مر جا ئے اور جب تک فضا میں تعفن نہ  پھیلے تب تک اس کے مرنے کا علم نہیں ہوتا؟ آج سے چند دن پہلے جب ہم سوکر اٹھے تو پہلی خبر صابری قوال کے قتل کے شکل میں پڑھی اس سے پہلے پیمرا نے دو چار دن پہلے کچھ لوگوں اور دو چینلز پر پابندی بھی عاید کی تھی کہ وہ اشتعال انگیز گفتگو کر رہے تھے۔ یہ کاروائی کس کے اشارے پر کی ہمیں پتہ نہیں!  یہاں جب پرایئویٹ چینل آئے تو مشرف صاحب کا دور دورہ تھا؟ وہ اسلام کو ماڈر ن نائزڈ کر نا چا ہتے تھے لہذا سب کو دل کھول کر چھوٹ دی گئی کہ پاکستان کو ماڈرن ثابت کرسکیں۔ ہر ایک کو پاکستان اور نظریہ پاکستان پر کھلے حملوں کی عام اجازت تھی گو کہ ڈرون حملوں کی طرح وہ کہیں ضابطہ تحریر میں نہیں لائی گئی تھی کہ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ برطانیہ کا آدھا دستور ضابطہ تحریرمیں آئے بغیر نافذ ہو سکتا ہے تو ہما را کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟ وہ آئے بھی رخصت بھی ہوگئے؟ مگر اس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا کیونکہ زرداری صاحب “ مکمکاو “ اورکام چلا ؤکے عادی تھے؟ جبکہ موجودہ حکمراں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے فارمولے پر عمل پیراہوکر حکومت کرنےکی پالیسی اپنا ئے ہوئے ہیں؟ پس اس تمام بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ عوام بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم اپنے پہلے دو ادوار میں بھی عوام کی پہونچ سے باہر رہ کر ہی حکومت کرتے تھے اور عوام نے انکا طرز حکمرانی دیکھااور برت کر ان کو دو تہائی اکثریت دی ہے لہذا انشاللہ وہ آئندہ بھی انہیں کو ووٹ دیںگے۔ یہ طرز وہ ہے جوکہ انگریزوں نے کبھی رائج کیا تھا اور کامیاب ترین طرز حکمرانی سمجھا جاتا ہے؟جسے انہوں نے تقریبا ً دو ڈیرھ سوسال بخوبی چلایا کہ براہ راست حکومت نہ کرو! بلکہ بل واسطہ حکومت کرو تاکہ بد نامی بیچ والو ں کے سر آئے اور پھل خود کھا ؤ؟ اسی پر یہ بھی عمل پیرا ہیں ۔ نعرے جمہوریت کے کام آمریت کے ہیں اس طرح تمام ادارے ایک ہی پیج پر ہیں؟آ گے کیا ہونے والا وہ کسی کو پتہ نہیں ؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ؟ اس تمام بحث و مباحثہ میں ایک ادارے کے نائب سربراہ کی بات کچھ میرے دل کو لگی جو انہوں نے کامران خان کے شو میں اس سوال کے جواب میں دبے دبے لہجے میں کہی تھی کہ کافی بچے ایسے ہیں جو بے روزگار ہیں ؟ لہذا ہمیشہ رمضان میں چھوٹی موٹی واردتیں بڑھ جاتی ہیں ؟جسے انہوں نے ریکارڈ سے بھی یہ کہہ کر ثابت کیا تھاکہ پچھلے سال بھی رمضان میں جرائم بڑھ گئے تھے؟ اب بات وہیں جاکر رک جاتی ہے کہ حکمراں بجائے شہروں کو پیرس بنا نے کے، کہ جو دیکھے وہ واہ واہ کرے؟ رشوت خوری اور بد عنوانی کو ختم کر دیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ؟ پھر پہلے کی طرح ملازمتیں رقم کی بناد پر نہیں، قابلیت کی بنیاد پر ملنے لگیں گی، تو نہ کوئی قرضہ لیکر یااپنی آبائی زمنیں پیچ کر ملازمتیں خریدے گا ۔ نہ پولس اسٹیشن نیلام میں لےگا ۔ نہ  ہی کوئی بے ایمانی کریگا۔ مگر اس میں ً ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ نہیں چل سکے گا۔ جس میں حکمرانوں کی دولت میں اس تیزی سے اضا فہ ہوسکے جس میں گزشتہ چند عشروں میں ہوا ہے؟ میں اس مضمون کو اپنے ہی اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔ ع
ہوس ِزر ہے عارضہ  ایسا  جس میں اکتفا نہیں ہوتا
سب کو حالات ہی بنا تے ہیں کوئی پیدا برا نہیں ہوتا

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.