پچاس مفتیان ِ عظام کا ایک جرائت مندانہ فیصلہ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

ہمارا دعویٰ سچا ہے کہ دینِ اسلام قیامت تک کے لیے ہے جوکہ ہمارے نبی محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ (ص) قرآن کی شکل میں لیکر آئے تھے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے؟ اس لیے کہ ہمارے نبی (ص) آخری نبی ہیں اور وہ جو کتاب لیکر آئے ہیں وہ بھی آخری کتاب ہے ؟ قرآن میں متعدد جگہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کفار سے پوچھا ہے کہ “ ا گر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لا ئیں گے تو پھر کس پر ایمان لا ئیں گے“آپ سب ہی جانتے ہیں کہ سارے الوہی دستور تین چیزوں پر مشتمل تھے لہذااسلام بھی ؟اول اس کی بنیادیات ، دوئم اس کی وہ تفسیر جو لانے والے نے بتائی ، جبکہ ہمارے پیغمبر (ص) نے ہمیں عمل کر کے بھی دکھایا۔ اورتیسرا حصہ وہ ہے جس میں روزمرہ کی قانون سازی آتی ہے۔ دنیا میں یہ تینوں چیزیں مل کر کسی نظام کو چلاتی ہیں ان میں سے کسی بھی ایک کو ترک کردیا جائے تو پورا نظام ٹھہر جائے گا اور وقت کا ساتھ نہیں دے سکے گا؟ اس کے حلقہ اقتدار میں افرا تفری پھیل جا ئیگی ؟ جیسی کہ آجکل ہمارے یہاں پھیلی ہو ئی ہے؟ کہ ہر ایک اپنی مرضی سے تفسیر کر رہا ہے، قانون وہ ہے جواس کی زبان سے نکل جائے؟ جبکہ اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے۔ ہم نے داعیِ اسلام (ص) کی تعلیمات میں سے ایک جز کو ترک کر دیا ہے ، وہ ہے روز مرہ کے لیے قانون سازی؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں احکامات کیا دیے تھے تاکہ ہماری یاداشت تازہ ہوجائے؟
پہلا حکم تو یہ تھا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد نبی (ص) پر ایمان لانا لازمی ہے، اس کے بغیرکچھ بھی قابل قبول نہیں ہے؟ پھر یہ کہ ان (ص) کی اطاعت اللہ کی اطا عت ہے، پھر یہ فرمایا کہ جو یہ نبی دیں وہ لیلو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ پھر یہ فرمایا کہ “یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے بلکہ ان پر جو ہمارے طرف سے وحی کیا جاتا ہے وہی فرماتے ہیں “ پھر نبی (ص) کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ “ آپ قرآن (اس خدشہ کی وجہ سے کہ بھول نہ جا ئیں جلدی جلدی نہ پڑھا کریں بلکہ آہستہ آہستہ پڑھیں ) اس کو آپ کایاد رکھنا اور اس کی تفسیر یہ دونوں ہماری ذمہ داریاں ہیں اور آخر میں ہم سے فرمادیا کہ “ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کااسوہ حسنہ کافی ہے “  جبکہ قرآن اپنی اصلی شکل میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے ، اسوہ حسنہ (ص) کی بھی ا یک ایک تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے؟ ان دونوں میں ہر مسئلہ کا حل ہر موقعہ پر تلاش کرنے سے عموماً مل جاتا ہے یہ اور بات ہے کہ ہم تن آسانی کا شکارر ہیں یا، تو محنت ہی نہ کریں یا پھر حق کہنے یا کرنے میں بھی اللہ کے بجا ئے غیر اللہ سے ڈریں؟ اگر میں زیادہ تفصیل میں جا ؤنگا تو یہ چھوٹا سے مضمون اس کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔
اس سلسلہ میں صرف ایک واقعہ جوکہ متفقہ علیہ بھی ہے بیان کر دیتا ہوں۔ وہ ہے یمن کے لیے تاریخ اسلام میں پہلے عامل حضرت معاذ (رض) بن جبل کاتقرر اور ان کو تخویص کردہ ہادی ِ اسلام کی ہدایات؟ ان کو سب سے پہلی ہدایت تو یہ فرمائی کہ “دین میں سختی مت کرنا آسانیاں فراہم کر نا، پھر حضور (ص) نے ان سے سوال پوچھا کہ تم انصاف کیسے کروگے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے مسئلہ کا حل قرآن میں تلاش کرونگا ۔پھر دربار رسالت مآب (ص) سے سوال ہوا کہ اگر وہاں نہ ملاتو؟ “ فرما یا آپ (ص) کے اسوہ حسنہ میں تلاش کرونگا ۔پھر سوال فرما یا گیا کہ اگر وہاں بھی نہ ملا تو؟ جواب میں عرض کیا کہ میں پھر اپنی صوابدید پر ہی فیصلہ کرونگا۔ یہ جواب سن کر حضور (ص) نے ان کو گلے سے لگا لیا اور فر ما یا کہ جب تک اس پر امت پر قائم رہے گی ، فلاح پاتی رہے گی۔ اس طرح حضور (ص) ہمارے لیے رہتی دنیا تک کے لیے اجتہاد کا بحر بیکراں چھوڑ گئے تھے ؟ جب ہم فرقوں میں بٹ گئے تو اورں نے تو اسے جاری رکھا اور اس سے فیض یاب ہو بھی رہے ہیں ۔مگرہم جو سنی مسلمان کہلاتے ہیں اور اکثریت بھی ہمیں پر مشتمل ہے، بقول علامہ اقبال (رح) چند کلیوں پر قناعت کر گئے؟ اور روز مرہ کی قانون سازی کے لیے کوئی نیا طریقہ کار نہیں بنا یا؟ جب سے دین میں جمود پیدا ہوگیا اب ہزاروں مسائل ہیں ؟جو جمع ہو تے جا رہے ہیں مگر جواب کسی کا کسی کے پاس نہیں ہے؟
خوش آئند بات یہ ہے کہ بارہ تیرہ صدیوں کے بعد پاکستان کے پچاس مفتیان ِ کرام نے ایک مسئلہ پر اجتہاد کیا ہے جو کہ قابلِ ستائش ہے؟جس پر ایک طبقہ کے مستقبل کا دار ومدار ہے اور اس پر اگر مزید تحقیق ہو تو وہ طبقہ معاشرہ کے لیے قابل ِ قبول بن سکتا ہے اورجس کا علاج ہونے کے بعد وہ گناہ سے بھی بچ سکتا ہے؟ وہ طبقہ ہے مخنث جسے عرف عام میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے، بہت سے انہیں کوئی نام ہی نہیں دیتے اور صرف تالیا ں بجا دیتے ہیں اور اس طرح ہنسی کا سامان پیدا کردیتے ہیں جبکہ قرآن میں سورہ حجرات کی آیت نمبر١١ میں منع کیا گیا ہے کہ“ نہ کوئی مرد کسی مرد کا ہنسی ٹھٹا اوڑائے نہ کوئی عورت کسی عورت کانہ کوئی قوم کسی قوم کا( اس لیے کہ تم نہیں جانتے اللہ کی نگاہ میں کون بہتر ہے) ، کیا برا ہے مسلمان ہوکر فاسق ہونا اور وہ لوگ ظالم ہیں ۔ابھی ان مفتیان عظام نے ہمت کرکے ان کومشروط طور پرشادیوں کی اجازت دیدی ہے۔ میں اس پر اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا کہ اسے میں نے پڑھا نہیں ہے مجھے یہ خبر میڈیا کے ذریعہ پہونچی ہے۔
چونکہ یہ پچاس مفتیان عظام کی کاوش ہے یقیناً اس میں دلائل وغیرہ سب ہی کچھ تفصیل کے ساتھ ہوگا۔ اس سے پہلے اس گروہ کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ نہ چاہتے ہو ئے بھی گناہ آلود زندگی گزاریں؟ کیونکہ والدین خود انہیں گناہ کی بستیوں کی نذر کردیتے تھے ؟ مسلمان باپ جسے اسلام حکم دیتاہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنی پہچان دے تاکہ ان جانے میں وراثت اور شادی بیاہ کے دوسرے مسائل پیدا نہ ہوں ؟ وہ انہیں اپنانے سے انکار دیتا ہے ،ماں جو محبت کا سرچشمہ کہی جاتی ہے وہ اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں سے غیروں کے سپرد کردیتی ہے۔ اس فعل سے اس بچے کی وراثت بھی ساقط ہوجاتی تھی جوکہ بہت بڑا ظلم ہے ایسے لوگوں کو قرآن نے ظالم قرار دیا ہے؟ جبکہ وقت سے پہلے بچے کی پیدائش یا بچوں میں نقائص کاہونا اور علاج آجکل عام سی بات ہے؟ دوسرے بچوں کے علاج کے لیے ماں باپ اپنی پوری سی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح بچہ صحت یاب ہو جائے،چونکہ مڈیکل سائنس بہت آگے جا چکی ہے لہذا اکثر ایسے بچے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں وہ اپنی ہی اولاد کے لیے دہرا معیار اپنا تے ہیں، پھر زندگی بھر ایک کڑہن کے ساتھ زندہ رہتے ہیں؟ کیونکہ ایسا بچہ پیدا ہونے پر وہ مخصوص گر وہ جو خود کواس قسم کے بچوں کے لیے خدائی ٹھیکیدار سمجھتا ہے ! خبر ملتے ہی دوڑا ہوا آتا ہے اور بچے کو لے جاکر اپنے گروہ میں شامل کرلیتا ہے۔ جبکہ جراحی کے ترقی کر جانے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگ عمل ِ جراہی کے ذریعہ صحت مند ہوسکتے ہیں، جیسے جڑواں بچے یا دوسرے اعضاءسے محروم بچے۔ مگر جنسی نقائص میں مبتلا بچوں کے والدین پر رسم ورواج کااتنا غلبہ ہے کہ وہ اپنے جگر کے تکڑوں کو اس ناپسندیدہ گروہ کے حوالے خاموشی سے کردیتے ہیں۔ جبکہ انسانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ بیمار کو بیمار سمجھا جا ئے اور اپنی جہالت یا رسم ورواج کی وجہ سے کسی نفس کو ضائع نہ کیا جائے ؟ چلیے دیر سے سہی کچھ علما ٰ ءنے جراءت توکی مسائل کو حل کرنے کی؟ کیوں کہ اس سے آئندہ دوسرے الجھے ہوئے مسائل کو سلجھانے میں مدد ملے گی؟ اور دوسری سمتوں میں بھی پیش رفت ہوگی ،مزید راہیں بھی کھلیں گی، جیسے کہ نارتھ پول سٹی کے لیے اوقات روزہ نماز ،جہاں سات مسلمان ہیں اور وہ مسجد بنا رہے ہیں اور اس سے ملحق کنیڈا کے دو صو بے برٹش کولمبیا اور البرٹا، یا پھر اسکینڈینیوین ممالک کا وہ حصہ جہاں چھ مہینے دن رہتا ہے اورچھ مہینے رات رہتی ہے۔ اس قسم کی کوششوں کی نئی نسل کو ہمت افزائی کرنا چاہیے، شاید اس طرح کوئی بین الاقوامی تنظیم علماءکی بن جا ئے اور وہ مسائل کا حل نکال لے اور امت کودرپیش تازہ مسائل کا حل دریافت کر نے میں آسانی ہوجا ئے ، کیوں کہ کھلے ذہن والے لوگ اس سلسلہ میں لب کشائی کر تے ہیں تو کہدیا جاتا ہے کہ وہ کوئی عالم تھوڑی ہیں، پھر ا نہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہیں تو بیچاروں کو ملک چھوڑنا پڑتا ہے؟ کیونکہ عالم ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس نے درسِ نظامیہ سے دستار فضیلت حاصل کی ہو ؟چاہیں وہ علم میں صفر ہی کیوں نہ ہو ؟ الحمد للہ یہ پچاس مفتیان عظام جنہیں اللہ نے توفیق دی ہے با قاعد ہ فارغ التحصیل ہی نہیں بلکہ مفتی بھی ہیں۔ اس لیے یہاں یہ مسئلہ نہیں پیدا ہوگا ۔ اور اگر وہ ڈٹے رہے اور نئی نسل نے ان کی ہمت افزائی کی تو اور بھی بہت سے مسائل ہیں جو گزشتہ ہزار سال میں پیدا ہوئے ہیں ان کا حل بھی نکل آئےگا؟ کیونکہ اسلام میں حل ہر مسئلہ کاموجود ہے ؟ مگر اپنی عزت آبرو جان اورمال سب کو پیارا ہے؟ اگر ہم اولیت اور ترجیحات حضور (ص) کی ہدایات سے لیں تو “ پہلی شرط ہے دین میں آسانیا ں فراہم کر ناجبکہ ہم نے اسکا الٹ کرنےکی ٹھان رکھی ہے، دوسری ہے عدل ، طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے تلاش کرنا ہے قر آن میں، پھر اسوہ حسنہ (ص) میں اور اگر دونوں میں نہ ملے تو ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجمائے امت کے یا اجتہاد کے ذریعہ حل تلاش کرنا ہے؟ اگر ہم اس پر عمل کریں تو پھر یہ نہیں ہوگا کہ لاوڈ اسپیکر کی طرح ڈیرھ صدی کے بعد کہیں جا کر علمائے کرام اسے استعمال کر سکے، جبکہ وہ پوری دنیا میں اس وقت تک رائج ہو چکا ہو تھا اور آجکل مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ وہی استمال کررہے ہیں؟ جبکہ ابھی بھی بعض علماءاسے نماز میں استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہیں، اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.