چند دن پہلے تین خبریں ایک ساتھ آئیں جن میں ایک اندوہناک خبر یہ بھی تھی کہ حضور (ص) کے روضہ مبارک اور جنت البقیع کے درمیا ں جو پولس چوکی تھی اس پر ایک شدت پسند پھٹ پڑا ؟ یہ انتہا ہے اور نتیجہ ہے اس شدت پسندی کا جو سعودی عرب کی تاسیس کے ساتھ شروع ہوئی؟جس کوکہ بڑی مشکل سے خوارج کے فتنہ کی شکل میں کئی سو سال تک جاری رہنے کے بعد چنگیزیوں نے ختم کیاتھا۔ جبکہ اس سے پہلے مسلمان اور عیسائی ملک کر اسے ختم کرنے میں ناکام رہے تھے۔ میں نے دوسری قوموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اسوقت ہندؤں اوریہودیوں کی حکومت اول تو تھی نہیں اور کہیں تھی تو خود مختار نہیں تھی۔ بدھ مت کو ماننے والے خود کو امن پرست کہتے تھے اور دنیا کے سامنے ان کاوہ رخ ابھی تک نہیں آیا تھا جو کہ آج کل برما میں دیکھا جا رہا ہے؟ اس وقت صرف دو ہی قومیں شدت پسندوں سے نبرد آزما ہوئیں۔ دوسری بھی اس وقت جبکہ خارجیوں نے مسلمانوں با دشاہوں اور علماءکو قتل کرتے کرتےہ فرانس کے بادشاہ کو بھی قتل کر ڈالا ۔ خارجی فرقہ بھی عمال کی نا انصافیوں کی وجہ سے معرضِ وجود میں آیا تھا جبکہ آج بھی نا انصافیوں کا دور دورہ ہے اورخاص طور پر عالم اسلام اس میں زیادہ مبتلا ہے۔ شدت پسندی کی ابتداءیہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ تھا اور حضرت عثمان (رض) خلیفہ تھے؟ اسوقت علماءکے بجائے حفاظ کازور تھا اور وہی ہر مسجد میں سرکاری طور پر حضرت عمر (رض) کے تراویح کو موجودہ شکل میں رائج کرنے کی وجہ سے امام بنے اور ہر مسجد میں تعینات ہوئے تھے؟ یہ قدرتی امر تھا کہ انہیں وفادار حکومت کا ہونا چاہیئے تھا اور کچھ عرصہ وہ رہے بھی، لیکن مروان بن الحکم کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے وہ حکومت کے خلاف صف آرا ہو گئے ۔ اور چاروں طرف سے اپنی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں لیکر دارالخلافہ پہونچے جو کے اسوقت تک مدینہ منورہ تھا۔ ویسے توا ن کے بہت سے مطالبات تھے مگر اس میں سے پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مروان کو اس کے عہدے سے بر طرف کیا جائے اور انہیں جن دوسرے عمال کے خلاف شکایات ہیں ان کو بھی برطرف کیا جا ئے؟ خارجیوں میں مصر ی زیادہ تھے ۔ کیونکہ مصر میں سب سے زیادہ بیچینی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان پر موجودہ دور کی طرح ٹیکسوں کا بار بہت زیادہ کردیا گیا تھا اور وہ اس کا ذمہ دار موجودہ عاملِ مصر حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو سمجھتے تھے ۔ جبکہ ان سے پہلے حضرت عمر و بن عاص عامل تھے جوکہ عوام میں بہت مقبول تھے، انہیں اسی وجہ سے بر طرف کردیا گیا کہ انہوں نے مصریوں پر ٹیکس لگانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب اس اونٹنی کے تھنوں میں دودھ نہیں ہے؟ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں بر سر ِ اقتدار آئے اور انہوں نے مرکز ی ہدایت کے مطابق ٹیکس دگنا کرکے دکھا دیا؟ اس واقعہ پر کسی مورخ نے تو روشنی نہیں ڈالی ہے مگر میرے خیال میں اس سازش میں بھی دراصل مروان بن الحکم کا ہاتھ تھا؟ جوکہ حضرت عثمان (رض) کے دور میں تمام سیاہ اور سفید مالک بن بیٹھا تھا اور حضرت عثمان (رض) کےنام اورجعلی دستخطو ں سےفرمان جاری کرنے کا عادی تھا اور اکثر عمال کو کبھی اپنی اور کبھی ان کی خواہش پر جاری کرتا رہتا تھا ۔ جبکہ حضرت عثمان (رض) سےکوئی ایسا فرمان جاری کرنے کا تصور تک کرنا میری لیے تو قطعی ناممکن ہے ؟ مگر نہ جانے کیوں تاریخ دانوں نے مروان کو اس معاملے میں با لکل نظر انداز کردیا جو کہ حضور (ص) سے ذاتی پر خاش رکھتا تھا اور بعد میں میں وہ سلطنت بنو امیہ کا بانی بھی بنا ، مدینہ کا عامل بھی بنا اور کچھ عرصہ خلیفہ بھی رہا؟
وجہ پرخاش یہ تھی کہ حضور (ص) نے اس کے باپ الحکم بن امیہ کو اس کی حرکات کی بنا پر مدینہ سے طائف شہر بدر کردیا تھا جبکہ اسکو تاحیات معاف نہیں فرمایا ، جبکہ حضرت عثمان (رض) کا وہ رشتہ دار تھا چونکہ وہ بہت ہی نرم طبیعت کے انسان تھے انہوں نے حضور (ص) کے بعد بھی حضرت ابو بکر (رض) کے دور میں اس کے لیے معافی کی کوششیں کی مگر انہوں نے اسے واپسی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ، پھر حضرت عمر (رض) دور میں بھی کوشش کی مگر اسے معافی نہیں ملی، جب حضرت عثمان (رض) کا دور آیا تب کہیں جاکر اس کے خاندان کو واپسی کی اجازت ملی“ نہ صرف اجازت “ بلکہ اس کو حضرت عثمان (رض) نے اسے اپنے شرف دامادی سے نوازا اوراسے اپنا کاتب (سکریٹری ) بھی بنا دیا اس طرح وہ مہرِ خلافت کا امین بن گیا، مزید یہ کہ اس کو ایک لاکھ درہم جہیز میں عطا کیے اور اتنی ہی رقم ا سے بطور عطیہ عطا فرما ئی۔ اسی زمانے میں دربار ِ خلافت سے مصریوں پر ٹیکس بڑھا نے کا خط لکھا گیا اور حکم عدولی پر عبد اللہ بن رواحہ جو کہ پہلے سے متنازعہ شخصیت تھے ان کو مصر کا عامل بنادیا گیا، جبکہ وہ ان میں شامل تھے جو آٹھ افراد فتح مکہ کے موقعہ پر واجب قتل قرار دیے گئے تھے ؟ انہیں حضرت عثمان (رض) نے اس دن اس صورت میں حضور (ص) کے سامنے پیش کیاکہ حضرت عثمان (رض) انہیں پناہ دے چکے تھے جبکہ اسلامی اصول یہ تھا کہ ایک مسلمان کا پناہ دینا سب کی طرف سے پناہ سمجھا تھا۔لیکن ان کے جرائم بڑے سنگین تھے، کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور وہاں آکر حضور (ص) کے درباری شاعروں میں شامل ہو ئے ۔ لیکن انہوں نے ایک غلام کے ساتھ زیادتی کی، جب انہیں قریش کی فرسودہ روایات کے زعم کے مطابق حضور (ص) سے معافی کی توقع نہ رہی تو وہ سزا کے خوف سے مکہ واپس چلے گئے ؟ اور وہاں جاکر حضور (ص) اور اسلام کے بارے میں الٹا پروپیگنڈہ اور جھوٹی اختراع پردازی شروع کردی اور ا سکو وہ اپنی دولونڈیوں کے ذریعہ ہر میلے ٹھیلے میں اور عکاظ کے بازار میں گھما پھراکر برسوں گواتا رہا؟ حضور (ص) نے اسے حضرت عثمان (رض) کی دی گئی پناہ کی وجہ سے با کراہیت معاف تو کردیا ،مگر اکثر صحابہ کرام (رض) نے اسے معاف نہیں کیا اور اسے “ حکم “ماننے سے انکاری رہے ۔ جن میں حضرت محمد بن ابوبکر (رض) بھی شامل تھے، جب حضرت عثمان (ص) کے دور میں حضرت معاویہ کو قبرص فتح کرنے کی اجازت ملی تو وہ پہلے اسلامی بحری بیڑے کے “امیرالبحر“ بنا دیے گئے۔ تب فوجی سرداروں کے ایک گروہ نے انہیں “ حکم “ماننے اوران کے زیر کمان جہاد کرنے سے انکارد کردیا؟ جس کی قیادت حضرت محمد بن ابوبکر (رض) کر رہے تھے؟ ۔ان کے علاوہ خارجیوں کو کوفہ ، موصل کے عمال سے بھی شکایات تھیں، حضرت عثمان (رض) نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ثالث بنادیا اور انہوں نے اس یقین دہانی کی بنا پر ان کو واپس بھیجدیا کہ جو ان کے مطالبات ہیں وہ حضرت عثمان (رض) پورے کریں گے؟ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ انہیں ایک مشکوک سوار تیزی سے مصر کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیاجوکہ حضرت عثمان (رض) کا غلام ِ خاص تھا اور سوار بھی ان کی مخصوص اونٹنی پر تھا۔ انہوں نے اسے روکا تو اس کے پاس سے ایک خط ملا بر آمد ہواجو کہ گورنر مصر کے نام تھا کہ “ جب یہ لوگ تمہارے پاس پہونچیں تو انہیں قتل کردو “ خارجی واپس وہاں سے پلٹ آئے اور یہ سفارت بغاوت میں بدل گئی ؟ یہاں سے خارجی تحریک نے جنم لیا اور پھر صدیوں تک چلتی رہی ان میں سے چار ہزار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں مارے گئے ،جبکہ بیس ہزار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عام معافی سے فائدہ اٹھا کر وہاں سے پوری مملکت اسلامیہ میں پھیل گئے ۔ چونکہ وہ خود حضور (ص) کی پیش گوئی کے مطابق “ بظاہر عام مسلمانوں سے بھی بہتر مسلمان تھے “ مگر خارجی اس وجہ سے کہلاتے تھے کہ وہ دوسرے صوبوں کے با شندے تھے؟ اوران کا شدت پسندی میں یہ ہی عالم یہ تھا کہ وہ اپنے سوا ئے سب کو کافر اور واجب القتل سمجھتے تھے جوکہ انہوں نے کر کے بھی دکھایا۔ آج جیسے فدائین ان کے پاس بھی موجو د تھے ،جن سے وہ ناخوش ہوئے وہ جان سے جاتے، حتیٰ کہ دو خلیفہ راشد (رض) کے بعد خود حضرت معاویہ بھی ان کے ہاتھوں شدید زخمی ہو ئے مگر زندگی تھی جو بچ گئے؟ اس تمام تفصیل میں میرے جانے کا مقصد تاریخ سے یہ ثابت کرنا ہے کہ شدت پسند ی وہ جن ہے جس کا نشانہ خود سرپرستی کرنے والے ہی بنتے ہیں۔ یہاں میں نے جومختصر اً بیان کیا ہے وہ تاریخ ابن کثیر (البدایہ النہایہ ) کی جلد نمبر4 سے 10 تک پھیلاہوا ہے ) تاریخ یہ ہی ہے جس نے بھی شدت پسندی کی سر پرستی کی وہ اس کے دشمن ہوتے رہے او ر پکے دوست کسی کے نہ بن سکے ؟ اسی شدت پسند انہ سوچ کو کہ “ ہمارے سوا سب کافر یا بدعتی ہیں سعودی عرب نے اپنے یوم ِ تاسیس سے اپنایا اور دنیا بھر میں رواج دیا اور آج وہ انہیں کو نشانہ بنا نے پر تلے ہوئے ہیں جنہوں نے ان کی دامے درہمے ہر طرح سرپرستی کی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم ہند نریندرمودی کے ایک اُپ منتری (وزیر مملکت) پریشان ہیں اور پریشانی کی وجہ سعودی اعزاز یافتہ“ جناب ذاکر نائیک “ ہیں جو ایک ایک دن میں لاکھوں کے مجمع کو خطاب کرتے ہیں اور اس میں چند آدمی لازمی طور پر روزانہ اسلام قبول کر لیتے ہیں اور شبہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جو سات شدت پسند ہوٹل پر حملہ آور ہوئے ان میں سے کم از کم دو نائیک صاحب کے پیرو کار تھے۔
جیسے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں انہیں بھی زیادہ دنوں تک دوست نہیں رکھا جاسکتا؟ بہتر ہے کہ دوسروں کے تجربات سے بشمول ِ بھارت دنیا والے فائدہ اٹھائیں اور اس فتنہ کو سب ملکر ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ یہ خدائی فوجدار ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہی بم بن چکے ہیں جو ان کی جنت موعودہ، یا غربت کی وجہ سے رقم کے عیوض خود کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے مرشدوں کے حکم کے منتظر رہتے ہیں یوں یہ تمام انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر آج ان کی تو کل تماری باری ہے اللہ سبحانہ انہیں ہدایت دے اور ہم سب کو اس طفلانہ خیال سے بعض رکھے کہ شدت پسند کسی کے دوست ہوسکتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ جو لوگ زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں انہیں روکا جائے اور یہ کام اقوام متحدہ کرے۔ ایسی تمام کتابوں کو ضبط کرلیا جو ان مذموم مقاصد کے لیے قطع اور برید شائع کی گئیں ہیں اور جن میں“ تحریف یاتخصیر “ کی گئی۔
، دوسرے یہ کہ مقامات مقدسہ کو محفوظ رکھنے کا حل یہ ہے کہ انہیں سعودی عرب سے علا حدہ کرکے کسی بین الاقوامی مسلم ٹرسٹ کے سپرد کردیا جائے جو سیاست سے بالا تر ہو ؟کیونکہ یہ علاقہ اسلام سے پہلے بھی کسی باد شاہ کے زیر تسلط نہیں رہا ، اسلام آنے کے بعد پہلے نبوت (ص) کے اور پھر خلافت کے طابع رہا اب نبی آخر الزماں (ص) آنے کے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے۔ دنیا میں کوئی اور موجود نہیں ہے جو تمام ممالک اسلامیہ پر اقتدارِ اعلیٰ کا خلیفہ کی طرح دعویدار ہو ۔ لہذا اس پر کسی کا تسلط نہیں ہونا چاہیے یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ ًیہ نعرہ انتہائی گمراہ کن ہے کہ “ کسی کے اقتدار کا دفاع کرنامقامات مقدسہ کا دفاع کرنا ہے “ جبکہ یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ اس علاقہ پر کبھی اقتدار اعلیٰ سوائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں رہا۔ حکمرانوں کے قبضہ میں اب جو ہے وہ کیسے ممکن ہوا اور کس کی مدد سے ہوا سب کو معلوم ہے ؟ کیونکہ یہ جگہ تمام مسلمانوں کو جان سے زیادہ عزیز ہے ؟ خدا نخواستہ کوئی حرمِ ِ کعبہ کی طرف جانے میں کامیاب ہوگیا اور جاکر پھٹ پڑا تو اسلامی دنیا جان دیدے گی مگر یہ حرکت برداشت نہیں کرے گی ؟ ممکن ہے کہ نتیجہ کے طور پر امن عالم تباہ ہوجائے یا اللہ سبحانہ تعالیٰ جو اس کا مالک حقیقی اور محافظ ہے واقعہ فیل جیسا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرکے سب کو سزا دیدے ؟