کشمیر جل رہا ادھر کا روبار چل رہا ہے۔۔ شمس جیلانی

ہمسایوں سے دوستی اچھی بات ہے؟ مگر گرتی ہو ئی لاشوں پر نہیں۔ ہمارے یہاں خیر سے وراثت میں ملے ہوئے ایک مولانا بھی موجود ہیں جن کی ہر حکومت میں شمولیت کی پہلی شرط کشمیر کمیٹی کی کرسیِ صدارت ہے جس پر وہ کبھی تشریف فرما تک نہیں ہو تے، اس کی گرد تک نہیں جھاڑتے، اور عالم یہ ہے منوں کے حساب سے اب تک اس پر گرد چڑھ چکی ہے؟ مجال ہے کہیں جو وہ اپنے ہونے کا کبھی کوئی میٹنگ بلا کر ثبوت دیں یاکبھی اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے جا کر احتجاج کرڈالیں شاید یہ گھوسٹ قسم کی(غیر مرئی) کمیٹی ہے جیسے ہمارے ہاں غیر مرئی قسم کی وزارتیں ، محکمہ جات ااورملازمین ہیں اور یہ بھی بقول جمہوریت پسندوں کے جمہوریت کا حسن ہے؟ رہے بیچارے وزیر آعظم وہ دائمی مریض ہیں بمشکل پچاس دن کے بعد لندن میں زیر علاج رہ کر گھر آئے ہیں! سب کا خیال تھا کہ شاید اب وہ اپنی غیر حاضری کی تلافی کریں گے مگر کسی دل کے مریض سے یہ امید احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ابھی تک دفتر کا رخ ہی نہیں کیا ممکن ہے کہ انہیں ڈاکٹروں نے ہلکا پھلکا کام یا آرام کرنے کا مشورہ دیا ہوجسکا بلٹین شائع ہونے سے رہ گیا ہو اوروہ بعد میں شائع ہو؟ لے دے کر کوئی اگر اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہا ہے تو وہ فوج کے سپہ سالار جناب راحیل شریف ہیں جو آج کل ہر مرض کی دوا بنے ہوئے ہیں ، کسی سے ملنا ہو تو وہ ، کہیں جانا ہو تووہ۔ کسی مسئلہ پر بیان دینا ہو تو وہ ، یہ بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مملکت خداد کو ایک صحت مند سپہ سالار جناب راحیل شریف کی شکل میں دے رکھا ہے ورنہ ،نہ جانے ملک کاکیا حال ہوتا ؟ جبکہ گھوس نقب لگانے کو ہر طرف پھر رہے ہیں؟ ان کا عالم یہ ہے کہ مال تومال وہ جنازوں تک پرسیاست سے باز نہیں آتے ؟ ایک خدا ترس شخص جس کی کمپٹیشن کی وجہ سے جو اس کی زندگی تنگ کیے رہے اب انہیں کو یاد آیاکے یہ تو ہمارا بندہ ہے کیونکہ یہ بھی اردو اسپیکنگ ہے۔ مسیحا کو حکمت عملی سے کام لینا پڑا اور ایدھی صاحب کی میت کا دیدار بھی بہت سے ان کے پرستاروں کو نصیب نہیں ہوا کہ وہاں بھی خدشہ تھا کہ کوئی میت اٹھانہ لے جائے۔ ادھر جو لوگ ان کی شاندار موت دیکھ کر حسد کی آگ میں جل رہے تھے؟ وہ اب دور کی کوڑی لا رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پرکبھی ان کو “زندیق “ کہا جارہا ہے کبھی ان کو کچھ اور کہا جارہاہے، کیونکہ غلطی سے ہم میں ایک ایسا آدمی پیدا ہو گیا تھا جو مدر ٹریسہ جیسے لوگوں کی صف میں بھی سب سے قد میں اونچا دکھائی دیتا تھا،جبکہ ان کے یہاں بہت سی مدر ٹریسا ئیں تھیں اور ہیں ، جبکہ ہمارے یہاں صدیوں سے کوئی بھی پیدا نہیں ہوا؟ اس صدی میں غلطی سے اگرایک پیدا ہو گیا ہے تو بھائی، اسے مسلمان رہنے دو! مرنے کے بعد تو انتقام نہ لو تاکہ ہم بھی کچھ دن فخر کر سکیں؟ دوسرے نہ جانے ہمارے ہاں کیا مسئلہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کے بیٹے باپ سے شاکی رہتے ہیں، اور بعد میں وہ، ایسے ایسے انکشافات کرتے ہیں جو کہ پہلے کبھی نہ انہوں کیے نہ عوام نے سنے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں تفصیل جانے دیں ؟ خدا کرے کہ یہ خبر جھوٹی ہو کہ ان کے صاحبزادے صاحب نے بھی فرمایا کہ ایدھی صاحب کیوبا کے فیڈل کاسٹرو سے بہت متاثر تھے؟ کاش وہ کہتے کہ میرے والد صاحب تمام اسفیائے کرام (رض) کی راہ پر چلتے تھے جو کہ سب حضور (ص) کی راہ پر چلنے والے تھے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے مزاروں پر بھی ابھی تک بلا امتیاز سب کی خاطر مدارات ہوتی ہے جبکہ نہ کسی سے مذہب پو چھا جا تا ہے نہ مسئلک؟
ہماری عادت ہی خراب ہے ہمیشہ کی طرح شروع ہوئے کشمیر سے پہونچ گئے ایدھی صاحب کی طرف ؟ کہتے ہیں بعض لوگوں کا حسن ان کے لیے وبال جان بن جا تا ہے۔ اسی طرح کشمیر کی حالت یہ ہے کہ جو اپنے حسن کی وجہ سے مشہور ہے اوراس کا حسن اس کی جان کے لیے مصیبت بناہواہے؟ کہ “ جس نے ڈالی نظر بری ڈالی“ اسے ہر ایک اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے جبکہ سال میں صرف ایک دو دفعہ وہاں جا کر ٹھہر جاتا ہے اور بس؟ دوسرے یہ کہ سونے کی چڑیا یہ یوں بھی ہے کہ دنیا بھر سے سیاح وہاں آتے ہیں اور وہاں مال لا تے ہیں جو اب ڈرکے مارے نہیں آرہے ہیں؟ نہ جانے کیوں انگریزوں کو اس کی یہ خوبی بہت زیادہ نہیں بھائی اور انہوں نے مہاراجہ کے ہاتھ چند لاکھ میں اسے بیچ دیا ؟ اور خود کوگرمیوں میں مسوری تک ہی محدود رکھا ۔ کہتے ہیں کہ مصیبت تنہا نہیں آتی اس پر ظلم یہ ہوا کہ ہندوستان کی باگ ڈور نہرو کے ہاتھ آگئی جو کشمیری پنڈت تھے اور وہ اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اب صورت ِ حال یہ ہے کہ کشمیری آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹک گئے۔ سب کو آزادی مل گئی مگر ان کا آزادی کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا؟ انگریز نے ہندوستان تو مسلم اور غیر مسلم آبادی کی بناپر تقسیم کر دیا، مگر ریاستوں کامعاملہ جن کی تعداد چھ سو تیرہ تھی اور بعض صرف سوا مربع میل تک محیط تھیں ؟ ان کے حکمرانوں کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں اس کے ساتھ الحاق کرلیں اور اس طرح ریاستیں دونوں ملکو ں کی شکار گاہ کے طور پر چھوڑ دی گئیں، غالباً یہ سوچ کر کہ جو بڑا ہے وہی غالب رہے گا؟ وہ رہا بھی، جبکہ چھوٹے کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں چھوڑا کہ وہ انہیں کی گود میں بیٹھے اور انہیں کہ ا شارے پر چلے کیونکہ بڑا پہلے سے روس کی گودمیں  بیٹھا ہوا تھا کیونکہ نہرو آل انڈیا مزدور یونین کا جنرل سیکریٹری تھا؟ جب کے کشمیریوں کے لیڈر شیخ عبد اللہ “ کشمیری گاندھی “کہلاتے تھے اورنہرو صاحب کے دوست تھے؟ وہ کانگریسی ہونے کی وجہ سے اسے ہندوستان میں شامل رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ مہاراجہ ہری سنگھ اس کو آزاد رکھ کر اپنے زیر انتداب رکھنا چاہتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر کی سرحدیں کہیں سے بھی بھارت کے ساتھ نہیں ملتی تھیں۔ اس کے لیے تقسیم سے پہلے ہی انہوں نے پلاننگ شروع کر دی اور گورداس پور کا مسلم اکثریت کا علاقہ! قادیانیوں اور سکھوں کے اس مطالبہ کی بنا پر پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان کو دیدیا کہ ان کے وہاں “ مقدس مقامات “ ہیں لہذا یہ علاقہ پاکستان کو نہ دیا جائے ؟ وکیل دونوں فریقوں کے چودھری سر ظفر اللہ تھے۔ یہاں ان کے یہ الفاظ غور طلب ہیں کہ جو انہوں نے ان دنوں اخبار نویسوں کو جواب دیتے ہوئے فرما ئے تھے کہ “ وکیل اپنے طور پر کچھ نہیں کرتا؟ وہ وہی کرتا ہے جو اسے اس کا موکل ہدایت دیتا ہے “ اس سے کئی سوال اٹھتے ہیں پہلا سوال تو یہ ہے کہ موکل کون تھا اور اس نے انہیں کیا ہدایت دی ؟ جبکہ یہ چیز ڈھکی چھپی نہ تھی کہ قادیانیوں کی مقدس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ “سرکار ِ برطانیہ کی وفاداری ہمارے لیے بمنزلہ ایمان ہے ۔ جس میں ہم اپنے مذہب پر چل سکتے ہیں اور تبلیغ کرسکتے ہیں جبکہ کسی مسلمان ملک میں یہ ممکن نہیں ہے “ تو در پر دہ وہ کونسی مجبوری تھی کہ انہیں پاکستانی لیڈروں نے اپنا وکیل مقرر کیا اور یہ ہی نہیں انہیں بعد میں انعام کے طور پروزیر خارجہ بھی بنا دیا ۔ اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ لیاقت علی خان مر حوم نے پھر ایک خطہ زمین بھی اپنا مقدس مقام پاکستان میں بھی بنا نے کے لیے چنوٹ کاایک بڑاعلاقہ عطا کر دیا۔ جب تک ان سوالات کا جواب نہ ملے اسوقت تک مجبوری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا؟ تاریخ میں صرف ایک شخص کابیان ملتا ہے جو کہ اس وقت مرکز میں نہیں تھے بلکہ مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ تھے ، جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور پنجاب میں مارشلا ءلگا تو اخبار نویسوں نے سر ظفر اللہ خان کے بارے میں غلط خارجہ پالیسی کا ذمہ دار ہونے کی بنا پر ان سے سوال پوچھا کہ آپ اسے نکال کیوں نہیں دیتے ؟ تو انہوں نے بے بسی سے فرمایا کہ “ امریکہ مجھے نکال د یگا“ ۔ اب آئیے خارجہ پالیسی کی طرف اگر یہ کلیہ مان لیا جائے کہ کشمیر ہمارا اس لیے ہے کہ وہاں اکثریت مسلمان تھی؟ تو پھرپاکستان نے ہندو اکثریت کی ریاست جونا گڑھ کا الحاق کیوں منظور کیا ؟ حیدر باد دکن کی طرف ہاتھ کیوں بڑھا یا؟ پھر اسی اصول پر عمل پیرا رہناتھا ۔ پھر اس کا اندازہ کیے بغیر کہ نتائج کیا ہونگے کشمیر میں بجا ئے فوج بھیجنے کے مجاہدین کیوں بھیجدیے ؟ جس کی وجہ سے مہاراجہ مجبور ہوگیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر لے ؟ کیونکہ وادیِ کشمیر میں عوامی حمایت مسلم لیگ کو کبھی حاصل نہ تھی نہ رہی؟ جس علاقہ میں حمایت حاصل تھی وہ علاقہ آج آزاد ہے اور آزاد “ کشمیر“ کہلاتا ہے۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ جنہیں مجایدین کا مقدس نام دیکر بھیجا گیا تھا وہ غیر تربیت یافتہ مختلف قبائل پر مشتمل ایک گروپ تھااور کردار کے اعتبار سے وہ اتنے اونچے نہ تھے، ان کے ہاتھو ں کچھ زیادتیاں ہوئیں؟ اس طرح ہندوستان کی مقامی حمایت اور بڑھ گئی ۔ مجاہدین کو پسپا ہونا پڑا؟ تب پاکستان نے فوج استعمال کر نا چاہی ؟ جس کو اس وقت کے کمانڈر جنرل گریسی نے بغیر اپنے کمانڈر انچیف کی منطوری کے جو کہ پاکستان اور ہندوستان کا مشترکہ تھا پاکستانی قیادت کا حکم کا ماننے سے انکار کر دیا ۔ اب عالم یہ ہے کہ کشمیر کا کچھ حصہ پاکستان کے پاس ہے ،کچھ چائنا کے پاس ہے اور زیادہ تر انڈیا کے پاس ہے ۔ جنہیں تینوں میں سے کوئی بھی چھوڑ نے کوئی تیار نہیں ہے۔ جب کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں وادی کی صورت حال ابھی تک وہی ہے ہم کئی جنگیں لڑ چکے ہیں ان کی پاکستان سے لگاوٹ کا اعتراف جو لوگ پاکستانی جھنڈے لہرانے بنا پر کر رہے ہیں وہ جھنڈوں کو اپنے یہاں کی آ جکل کی صورت ِ حال پر قیاس کرلیں کہ ہماری سڑکوں پر لگے ہوئے کچھ بینرز کو کہا جارہا ہے کہ یہ مفاد پرستوں نے خود لگوا ئے ہیں ممکن یہ ہی معاملہ وہا ں بھی ہو ہمیں کہیں ہمارے جھنڈے لہراکر پھنسایا نہ جارہا ہو اور پھر65کی جنگ کی طرح نتیجہ بھگتنا پڑے۔ ؟ ان کا معاملہ بھی با لکل کردوں جیسا ہے ؟ کہ کئی ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی آزاد کر نے کو تیار نہیں ضرورت پڑتی ہے تو ہاتھ سب رکھ دیتے ہیں ؟ ضرورت نکل جاتی ہے تو سب وعدے بھول جا تے ہیں ؟وہ بھی آج سے نہیں صدیوں سے جانیں دیتے چلے آرہے ہیں ۔ کب تک یہ سلسلہ چلے گا اللہ ہی جانتا ہے۔ جبکہ بد حواسی کا ہمارا عالم یہ ہے یہ ہے کہ5ستمبر کے بجائے جوکہ کشمیر کے انڈیا سے الحاق کا دن ہے، پاکستی کابینہ نے اس دن یوم ِ سیاہ منانے کا فیصلہ کیاجو پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کے ساتھ الحاق کا دن ہے۔ اس سے جوبات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بمشول وزیر اعظم پوری کابینہ مسئلہ کشمیر سے نا واقف ہے! جبکہ اب ہر قدم  پھونک پھونک کر رکھنا چاہیئے? حماقتیں پہلے ہی بہت ہوچکیں ہیں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.