پاکستانی قوم ہو یانہ ہو، مگر حکمراں بڑے مستقل مزاج ہیں ؟ سب کا ایک ہی نعرہ ہے کہ اگر ہم نہ ہوئے تو آسمان گرپڑے گا ملک تباہ ہوجا ئے گا؟ ہم سے بہتر اور ہم سے زیادہ لائق ِ حکمرانی کوئی اور ہے ہی نہیں؟ بعضے تو اس عقیدے پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اللہ میاں کے یہاں جاتے جاتے واپس آجاتے ہیں؟ مگر انہیں خدا یاد نہیں آتا؟ حالانکہ ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ موت کو سامنے دیکھ کربندے کو خدا یاد آجاتا ہے؟ میرے خیال میں یہ ان کے لیے ہوگا جو خدا اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ دوسرا ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ جب لوگ قر آنی زبان میں “ عمر ِ ارذل کی طرف تیزی سے مراجعت فرمانے لگتے ہیں ، تو اسے اردو میں“ قبر میں پیر لٹکانا کہتے ہیں “آپ نے اکثر ایسے لوگوں کے لیے عوام الناس کوکہتے ہوئے سنا ہوگاکہ “ بڈھا قبر میں پیر لٹکا ئے بیٹھا ہے پھر بھی نہیں سدھر رہا ہے“ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمراں اس محاورے پر عامل ہیں ، جو نہ اردو کا ہے اور نہ عربی کا، بلکہ فارسی کا ہے جو آج کا ہمارا“ عنوان“ ہے ،جسے مغل ان کے لیے چھوڑ گئے اور زبانی سبق دے گئے ہیں کہ ڈنڈا مضبوط سا لیں اور مضبوطی سے اسے تھامے رہیں توا کبر اور اورنگزیب کی طرح پچاس سال تک حکومت کر سکتے ہیں؟ جنہوں نے ا بھی تک حکمرانی کے پچاس سال پورے نہیں کیے ہیں۔ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے پچاس سال پورے کریں! جب تک عوام اور حزب ِ اختلاف دونوں ہی صبر کے ساتھ انتظار کریں ؟ اس لیے کہ ان کے بڑوں نے یہ طرح ہی کیوں ڈالی اور انہیں پچاس سال تک کیوں برداشت کیا؟ اب آپ یہ عذر ِ لنگ پیش کریں گے کہ اس میں ان کا کیا دخل تھا؟ وہ باہر سے آئے اورقابض ہو گئے پھر ان کی حکومت نسل در نسل چلتی رہی؟ بھائی بہت سے لوگ موجودہ حکومت کو بھی تشبیہ انہیں سے دے رہے ہیں؟ سوائے ایک کے کہ دارالحکومت کو “ تخت ِلاہور کہہ رہے ہیں جو کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں کہلاتا تھا“ لہذا یہ تشبیہ فٹ نہیں بیٹھی جبکہ باقی سب تشبیہات فٹ بیٹھ ر ہی ہیں۔ اگر تھوڑا ساحسن ِظن رکھیں تو یہ بھی فٹ بیٹھتا ہے ا گر رنجیت سنگھ کے انصاف سے اس زمانے کے انصاف کا موازنہ کریں؟ کیوں کہ یہاں بھی وہ محاورہ صادق آجاتا ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں جبکہ یہاں دونوں ہی بخوبی رہ رہی ہیں؟ ورنہ یہاں بھی کونسی جمہوریت ہے ؟ جس میں آپ کو جمہوری اقدار کی تلاش ہے؟ موجودہ حکمراں تسلسل ہیں جنرلوں کی دور کا ،لہذا وہ مغل طرز حکومت پرعمل کر رہے ہیں تو ان کی مرضی اور مہاراجہ کا طرز حکومت اپنا ئیں تو ان کی مرضی، نہ آپ انہیں لا ئے ہیں نہ آپ انہیں ہٹا سکتے ہیں بغیر کسی کی مدد کے ؟ جس سے یہ ثابت ہوا کے نہ لانے میں آپ کے ووٹ کو دخل ہے نہ ہٹانے میں آپ کے ووٹ کا دخل ہونا چاہیے ؟ اسی طرح آپ کو جواب طلبی کا بھی کوئی حق نہیں ہے؟ کیونکہ کہ کیا؟ آپ کے اجداد نے شاہ جہاں سے پوچھا تھا کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ کی قبر پر تاج محل کیوں بنوا رہا ہے؟ اور اس پرسات سال تک تمام منصوبے روک کر سات کروڑ روپیہ کیوں خرچ کیے ؟ لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں؟ اسے کیا معلوم تھا کہ قدر ت تاج محل کو اس کے لیے آگے چل کر نشانِ عبرت بنا دے گی وہ دور سے بیٹھا دیکھتا رہے گا اور جانے کو ترسے گا؟ پھر بعد میں آنے والے حکمراں اس پر ٹکٹ لگاکر پیسہ کما ئیں گے؟
تو اب آپ موجودہ حکمرانو ں سے کیسے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ تم یہ اورنج ٹرین میٹرو بسیں کیوں چلا رہے ہو ؟ جبکہ لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے ان کے پاس کاروبار بھی نہیں ہو گا، تو وہ جائیں گے کہاں! پھر ٹکٹ کے پیسے لائیں گے کہاں سے؟ کیا حکومت انہیں مفت پاس بنا دے گی کہ خالی پیٹ تفریح کرو؟ اور کھانہ کسی مخیر “ ملک صاحب “کے دستر خوان پر کھا لیا کرو۔ جبکہ حکمراں تو یہاں تک اب بات کے پکے ہیں کہ ہمارے جیسے ناسمجھ لوگوں نے تاریخی حوالے دے کر حکمرانو ں کو سمجھا یا کہ ١نیس جولائی مناسب نہیں ہے یوم سیاہ منانے کے لیے کہ یہ اپنے ہی خلاف یوم سیاہ منانا ہے ؟اس میں آ پ کو بہت بڑا مغالطہ ہوگیا ہے۔ مگر ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ پتھر پر لکیر ہوتا ہے انہوں نے اس سے پیچھے ہٹنا پسند نہیں کیا بلکہ تاریخ تبدیل کر نا یا نئی تاریخ مقرر کرنا بھی گوارا اس لیے نہیں کیا کہ یہ روایات ہماری تاریخ میں پہلے سے موجود ہے جو حکمراں آیا وہ تاریخ بدلتا رہا ؟ جبکہ انکا اصل گھر آجکل جہاں ہے اور جہاں پر فلیٹوں کا جھگڑا چل رہا ہے وہاں کا آدھا آئین مثالوں پر چلتا ہے۔ اور یہ ہی نہیں انہوں نے ایک اور مثال بھی قائم کردی کہ بار بار ٹی وی چینل دن بھر اعلان کرتے رہے کہ دن کی مناسبت سے وزیر اعظم تقریر فرمانے والے ہیں؟ لیکن دن چھوٹا پڑ گیا اور تقریر نہیں شروع ہوئی تو مائیں بچوں کو بھوکا ہی سلا کر سوگئیں ؟ ممکن ہے کہ شاہ کے وفاداروں کو خواب میں پوری رات تقریر سنائی دیتی رہی ہو؟ ہم بھی انتظار کرنے والوں میں شامل تھے کہ نہ جانے کیوں ہمیں خیال آگیا کہ اس کو لغت میں دیکھیں تو سہی کہ یہ محاورہ جو ہم بچپن سے کسی اڑیل ٹٹو یا بندے کے بارے میں سنتے اور بزرگوں کی نقل میں بولتے آئے ہیں لغت میں کہیں ہے بھی یا نہیں ؟ ہم نے فارسی کی لغات کی ورق گردانی بھی کرلی، اردو کی لغات بھی دیکھ لیں مگر یہ محاورہ کہیں نہیں ملا ؟ ایسے موقعہ پر علامہ گوگل جو کہ ہر موقع پر کام آجاتے ہیں سوچا کہ چلو ان کو تکلیف دیں ۔ پوچھا تو ہمیں ایسا لگا کہ وہ مضمون ہمارے ہی انتظار میں تھا اور جو نوائے وقت لاہورمیں کبھی لگا تھا اور جناب تنویر صاحب کی تحقیق پر مشتمل ہے؟ جس میں اس محاورے کی پورے تفصیل کے ساتھ وجہ تسمیہ بیان ہوئی تھی؟ اس کے علاوہ جہاں کہیں دیکھا ؟تو کچھ نہیں ملا اور اس سلسلہ میں مولانا علامہ گوگل بھی بغلیں جھانکتے نظر آئے؟ ہم چاہتے تو آجکل ادبی چوری کو جائز سمجھا جاتا ہے؟ ہم بھی اس اطلاع کو چپ چاپ ہضم کرلیتے لیکن ہم جھوٹ کو جائز نہیں سمجھتے ، کیونکہ مسلمان ہیں؟ ہم نے پہلے تو اخبار نوائے وقت کے اس مفکر کا شکریہ ادا کیا اور اسکے بعد اپنے قارئین کو اس سے روشناس کرارہے ہیں۔ اس مضمون سے ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ محاورہ غیر ملکی نہیں ہے بلکہ اس کا منبع اور مخرج سب کچھ داتا کے شہر لاہور میں ہے تو ہمیں اس کی وجہ سے واقف ہو ئے کہ یہ ہماری لغات میں کیوں نہیں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم باہر والوں کی ہر چیز اپنی لغت میں شامل کر لیتے ہیں مگر اپنی چیزیں اور اپنے کارنامے اس لیے شامل نہیں کرتے کے وہ باہر والوں نے شامل نہیں کیئے ؟
آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ یہ محاورہ جن معنوں ہم 86سال کی عمر تک لغت میں نہ ہونے کے باوجود استعمال کرتے رہے اس نے لاہور میں ہی جنم لیا اس کے پیچھے ایک ولی صفت حکیم صاحب کی خوداری اور درباروں سے بیزاری کی داستان ہے جو پہلے زمانے میں ولیوں میں عام تھی کہ وہ درباروں سے بھاگتے تھے جبکہ اب انکی ہی اولاد درباروں کے پیچھے بھاگتی ہے؟ وہ حکیم صاحب جو بازارحکیمان میں کسی تنگ گلی میں رنجیت سنگھ کے دور میں رہا کرتے تھے۔ پہلے زمانے میں حکیم نہ جا نے کیوں آج کی طرح بے رحم نہیں بلکہ ولی ہواکر تے تھے ،اور عام طور پرعالم حکیم بھی ہوتے تھے، دن میں وہ دوا دیتے اور رات بھر جاگ کر شفاء کے لیے دعا کرتے تھے؟ یہ ہی وجہ تھی کہ اللہ نے ا ن کے ہاتھ میں شفا بھی دی ہوئی تھی؟ آجکل والا معاملہ نہیں تھا کہ مریض مر رہااور پرائیویٹ اسپتال والے کہتے ہیں کہ ہم ہاتھ جب تک نہیں لگا ئیں گے کہ جب تک اتنے لاکھ روپیہ جمع نہ کرادو ؟ انہیں شاید علاج شروع کرنے میں اسلامی اخوت مانع ہوتی ہوگی۔ البتہ جہاں کے لوگوں کے بارے میں ہمارے لوگوں کو دنیا بھر کی برائی نظر آتی ہے ؟ ان کا طریقہ ہم نےالٹا دیکھا کہ وہ فوراً علاج شروع کردیتے ہیں یہ بعد میں طے ہوتا رہتا ہے کہ اس کے پاس پیسے ہیں یا نہیں اور طریقہ ادا ئیگی کیا ہو گا ۔ اگر وہ ادا نہیں کرسکتا ہے تو بھی اسے گھر جانے دیتے ہیں گر وی نہیں رکھتے؟
اس محاورے کے عالم وجود میں آنے کا قصہ یہ ہے کہ اس نام کے ایک حکیم صاحب تھے جنکی اولاد آج بھی معزز شہری ہے ان کے جد امجد کا اسم گرامی “ حکیم گل محمد “تھا ،مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پشت پر پھوڑا نکلا آیا علاج کرایا مگر فائدہ نہیں ہوا( میرا خیال ہے کہ یہ کاربنکل قسم کا پھوڑا ہوگا جو شو گر کے مریضوں کو اکثر نکلتا ہے) کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ حکیم گل محمد صاحب سے علاج کرائیں جو کہ بازارِ حکیمان میں رہتے ہیں؟ مہاراجہ نے انہیں طلب فرمالیا انہوں نے جواب دیا کہ میں علاج تو کردونگا مگر مہاراجہ صاحب آپ کوخود یہاں آنا ہو گا؟ حکیم صاحب نے ان کے لیے شاہی فر مان جاری کردیا اور ایک عذر پیش کر دیا کہ گلیا ں تنگ ہیں میں وہاں نہیں آسکتا ؟ انہوں نے اس فرمان ِ شاہی کے پیچھے لکھدیا کہ “زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد “ زمین اپنی جگہ سے ہل سکتی مگر گل محمد نہیں“ یہ جملہ لکھنا گوکہ آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا مگر ان کو اپنے رب پر بھروسہ تھا؟ اس کو آنا پڑا اور ان کی شرط تسلیم کر نا پڑی؟ علاج ہوااور وہ صحت یاب ہو گیا۔ اس نے عام بادشاہوں کی طرح پوچھا ہوگا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ مگر انہوں نے فقیری کی لاج رکھ لی اور مانگا تو یہ مانگا کہ ہم وطنوں کے لیے علم مانگا اور پھر قاعدہ “ نور“ تیار ہوا جس میں تمام روزمرہ کام آنے والے علوم شامل تھے ؟ دیکھتے ، دیکھتے، وہاں تعلیم کا تناسب بہت بڑھ گیا؟ مگر ہم نے علم سے نابلد ہونے کی وجہ سے یہ محاورہ ان کے ساتھ غلط معنوں میں استعمال کرنا شروع کردیا جبکہ وہ بہت بڑے اعزاز کے مستحق تھے۔ اور ہمیں اس محاورے کو اچھے معنی میں خود بھی استعمال کرنا چاہیے تھا؟ اب سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ یہ اس تصیح کے بعد لغت میں شامل ہو تاکہ اس کا درست استعمال ہوسکے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے