حضور (ص) نے اپنے وصال کے وقت خود کو احتساب کے لیے پیش کرکے امت کو عملی سبق دیا تھا، جس پر خلفا ئے راشدین بھی عمل پیرا رہے اور اسکی مثال حضرت عمر (رض) کا مشہور واقعہ ایک چادر میں پیرہن والاہے۔ وہ خلیفہ وقت تھے انہوں نے اپنے احتساب پر کوئی بھی حیل و حجت نہیں کی ،اپنے صاحبزادے حضرت عبد اللہ (رض) کو کہدیا کہ بیٹا تم جواب دو ! اور انہوں نے مجمع کے سامنے یہ فرما کر سوال کرنے والے کی تشفی کردی کہ میں نے اپنی چادر ابا کو دیدی تھی ؟ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ الزام لگا بھی اور ختم بھی ہوگیا؟ مگرپاکستان میں اسلامی جمہوریہ تو جلی حرفوں میں لکھا ہوا لیکن اسلامی طریقہ عدل اورخود احتسابی کو کوئی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بلکہ وہاں اس کے بجا ئے ابھی تک وی آئی پی کلچر نا فذ ہے جس میں حکمرانوں کو احتساب سے تحفظ حاصل ہے۔ لہذا انصاف میں اتنے رخنے ڈالنے کا رواج ہے کہ کوئی چاہے بھی توکچھ نہیں کر سکتا۔اور اکثر لوگوں کی زندگی میں معالات حل نہیں ہوتے۔ کیونکہ اشرافیہ مقدمہ ہارنا پسندی نہیں کرتی، کیونکہ اس سے اس کے تصوراتی تقدس پر حرف آتا ہے؟
آجکل پاکستان میں یہ بحث پھر چھڑی ہوئی ہے! تقدس کی بات ہواور گائے زیر بحث نہ آئے یہ ناممکن ہے حتیٰ کہ وہ بھی جو اپنے پورے دور اقتدار میں مقدس گائے ہونے کا پوری طرح فائیدہ اٹھاتے رہے اب تردید کر رہے ہیں کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے، احتساب ہو تو سب کا ہونا چاہیئے ۔ مقدس گائے جس کا ذکر تاریخ میں قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے۔ جہاں تک اس حقیر فقیر بندہ پر تقصیر کا خیال ہے، اس نظریہ کو دنیا میں روشناس کرانے کا سہرا آرین قوم کے عروج کے ساتھ جڑاہوا ہے۔ جسے وہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور یہیں سے اس نے نظریہ ضرورت کے تحت ایک مذہبی عقیدے کی شکل اختیار کی، کیونکہ انہیں اس کی نسل ختم ہونے کا کاخطرہ تھا ۔ جب انگریز سونے کی چڑیا کو تلاش کرتے ہوئے ہوئے ہندوستان پہونچے تو یہاں وہ بھی گائے سے روشناس ہو ئے ،انہیں یہ لفظ اچھا لگا، تواپنے طریقہ کار کے مطابق جو یہ تھا کہ جو چیز انہیں اچھی لگتی تھی وہ اسے اپنے یہاں لے جاتے تھے یہ بھی لے گئے، جیسے کہ کوہ نور ہیرا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا حتی ٰ کہ فرعونوں کی ممیاں بھی مصر سے اٹھا لائے۔ اس طرح انہوں نے اسے مقدس گائے( sacred cow ( کے نام سے اپنی لغت میں شامل کرلیا۔ پھر جب امریکہ تک ان کی رسائی ہوئی تو وہاں بھی وہ اپنے سا تھ لے گئے اور وہاں کی لغت میں ١نیسویں صدی عیسوی میں یہ لفظ شامل ہوا ۔ جبکہ اس کی پرستش کا ذکر بہت پرانا ہے۔ جو با ئیبل میں بھی ملتا ہے اور آخری الہامی کتاب قرآن میں بھی گئو سالہ سامری کی شکل میں موجود ہے۔ کہ جب بنی اسرائیل سمندر پار کر کے فرعون کے غرق آب ہونے کے بعد با عافیت سرزمین عرب میں پہونچے، تو بجائے اس کے کہ وہ اسی ان دیکھے مالک کا شکر ادا کرتے جس نے انہیں فرعون اور فرعونیوں سے نجات دلائی !انہوں نے وہاں کے مقامی لوگوں کو گائے کی بو جا کرتے ہو ئے دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کر بیٹھے کہ ہمیں بھی ایک ایسا ہی بت بنادیں جس کی ہم بھی مقامی لوگوں کی طرح پوجا کرسکیں۔حالانکہ وہ نبیوں کی اولاد تھے ان کے آباو اجداد نے کبھی غیر اللہ کی نہ پوجا کی اور نہ ہی اپنے معبود کو کوئی شکل دی۔ مگر برا ہو اس پیر پریشر ( peer pressure) کے دباؤکا کہ وہ بھی برے ماحول کا شکار ہوگئے۔ اس کے باجود کہ صدیوں سے اس نجات دہندہ کی تلاش تھی جو ایک نبی (ع)آنے والے تھے ،مگر جب وہ آگئے ان کے خدا نے جن پر یہ یقین رکھتے تھے نو معجزے بھی دکھا دیے اسکے باوجود انہوں نے جو مطالبہ کیا وہ بقول حضرت موسیٰ (ع)کہ “ انتہائی ا حمقانہ تھا“ ان کی اس پر ڈانٹ ڈپٹ کے بعد بھی وہ مطمعن نہ ہو ئے۔ اور جیسے ہی حضرت موسیٰ (ص) ایک ماہ کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے۔ انہوں نے سامری کی مدد سے ا س سونے سے گئوسالہ کی شکل کا ایک بت بنالیا جو قبطیوں کی ان کے پاس امانت تھااور وہ مجبوراً ساتھ لے آئے تھے ، چونکہ ان کا ضمیر اس وقت تک زندہ تھا وہ انہیں اس خیانت پر ملامت کر رہا تھا۔ یہ قصہ بہت سی جگہ قرآن میں آیا ہے۔ وہاں پڑھ لیجئے۔
ہندوستان میں پہلی دفعہ گائے کی تقدیس کا چرچا اس وقت سنا گیا جب کہ آرین، گائیں اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور ایک مذہب بھی، بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ مقامی باشندوں کے ا ستیصال کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت انہوں نے برہم سماج اور برہما کا تصور پیش کیا، بہت سے مذہبی قانون بنائے وہیں ایک نظریہ یہ بھی عطا فر مادیا کہ گائے کا پیٹ مرنے والوں کی روحوں کا گودام( اسٹوریج) ہے لہذا ا سے ذبح نہ کیا جائے، اس طرح یہاں گائے کی پوجا ہو نے لگی وہ خود بھی مقدس سمجھی جانے لگی اور عقیدت یہاں تک بڑھی کہ اسے پن (وقف) کرکے چھوڑنے کا رواج عام ہوا اور یہ گائیوں اور اس کی نسل کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جہاں چاہیں وہیں اپنا رزق خود تلاش کریں ،ان کے گوبر کو بھی لوگ ہاتھوں ہاتھ لینے لگے اور اس سے لیپ پوت کر کے اپنے گھروں کو پوتر (مقدس) بنانے لگے۔
ہم نے جب آنکھ کھولی تو یہ دیکھا کہ گائیں اور ان کے طفیل میں ان کے شوہر (بیل) اور بچے جہاں چاہتے اور جس دکاندار کی دکان پر چاہتے جاکر کھانا شروع کردیتے وہ ان کو چیخ کر بھگاتا رہتا، جبکہ ڈندا انہیں اٹھا کر دکھا سکتا تھا ، مارنہیں سکتا تھا! ورنہ پہلے ہی عوام کے ہاتھوں وہ خودمارا جاتا اگر بچ جاتا تو جیل کی ہوا کھانا پڑتی کہ برطانیہ کی حکومت میں بھی یہ قانونا ً جرم تھا۔ بس بیچارہ اپنی کھیتی اپنا کاروبار صرف بر باد ہوتے ہوئے دیکھ سکتا تھا، کر کچھ بھی نہیں سکتا تھا؟ اب ان کی حالت اور بھی ناگفتہ بہہ ہے کہ جب تک جنگلات کی بہتات تھی تو وہاں انہوں نے گئو شالے ان کے لیئے بنا رکھے تھے جہاں وہ وہ ناکارہ گائے اور بیلوں کو چھوڑ آتے تھے، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی سارے جنگل ہضم کر گئی۔ اب وہ ان کو پاکستان کی طرف اچھی خاصی قیمت لیکر ہانک دیتے ہیں اور وہ بغیر ویزہ کے پاکستان میں داخل ہوکر کہاں چلے جاتے ہیں اس پہ آپ تحقیق کیجئے؟ ورنہ اس سلسلہ میں ہمارے پچھلے کسی کالم میں پڑھ لیجئے، وہاں سے تمام جان کاری (معلومات) مل جائے گی۔ جب کہ ان کی فصلیں ابھی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نیل گائے جیسے جنگلی جانور کو بھی جس کی شکل گھوڑے جیسی ہے اور پاؤں گائے جیسے ہیں صرف پیروں کی بنا پرمقدس قرار دیدیاتھا، نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ ان کے کھیت چر جاتے ہیں اور وہ سوائے “ دیا ، دیا اور ہائے رام ہائے رام “ کرنے کہ اور کچھ نہیں کر سکتے ۔
یہ ہی صورت حال آجکل ہمارے یہاں ہے کہ کچھ لوگ مقدس گائے نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے داؤں پیچ سے ا ن شہروں تک پہونچ گئے جو کبھی مقدس اس لیے تھے کہ وہاں سب کا جان مال محفوظ تھا۔ وہیں اب معاملات الٹ گئے ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ ڈنڈے باز جس پر بھی ہاتھ ڈال تے ہیں تو اسکی جڑیں مقدس گائے کے پیٹ میں ملتی ہیں ا ن میں جو مرگئے ہیں وہ بھی اور جو زندہ ہیں وہ بھی شامل ہیں کہ مردے پیٹ میں ہیں اور زندے ان کی دم پکڑے لائن میں لگے ہوئے ہیں ۔ لہذا یہ ڈنڈے بازوں کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے فرائض ِ منصبی ادا کرتے ہوئے کسی مقدس گائے کی انا کو ٹھیس پہونچائے بغیر احتسا ب کر سکیں۔جب کسی معاملہ کی جڑ تک پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی نہ کسی،گائے کو تکلیف پہونچتی ہے؟ اور وہ چیخنے لگتی ہے ، اکثر سینگ بھی تان کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ میں اکیلی تھوڑی ہوں، مجھ جیسی اور بھی بہت سی ہیں پہلے انکو کیوں نہیں پکڑتے ،ان کو ڈنڈے کیوں نہیں مارتے ؟ اسی کشمکش میں آج تک کسی کا احتساب ہی نہیں ہو سکا، کہ یہ نہیں طے ہوسکا کہ کس دور سے شروع کیا جائے؟ کوئی کہتا کے کہ 1947 سے احتساب شروع کرو ،کوئی کہتا ہے کہ اس دن سے شروع کرو جس دن سے ہم نے ایک پاکستان کے دو تکڑے کیئے تھے، پھر اقتدار کی خاطر قربانی پر قربانی دی۔ کوئی کہتا ہے کہ اس دن سے شروع کرو جس دن سے پاکستان مشرف با اسلام ہوا اور ایک آمر نے ہمیں ایک پرانے خاندان کی جگہ نیا حکمراں خاندان دے دیا ؟ یہ کورس کی شکل میں بھانت بھانت کی بولیاں سن کر اب ڈنڈے باز بھی بیچارے پریشان ہیں کہ نشانہ کس کو بنا ئیں۔ عدالتیں الگ پریشان ہیں با لکل اس وقت کی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام نے مقدمے کا فیصلہ تو سنادیا کہ گناہگاروں کو سنگسار کردیا جائے ۔ مگر جب سزادینے کا وقت آیا تو یہ فیصلہ بھی ساتھ دیدیا کے پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہوا۔ ایسے میں جبکہ وہاں موجود تیس ہزار علماءاور درویشوں میں سے کوئی بھی نہیں ملا جو آگے پڑھ کے کہتا کہ “ میں ہوں تو پتھر کون مارتا “ اب ہمارے یہاں بھی وہی صورت حال ہے کہ پہلا پتھر کون ما رے ، یا پہلا احتساب کہاں سے شروع کیا جائے؟ جس کی جڑ کسی مقدس گائے کے پیٹ یا دم سے نہ جڑی ہوئی ہو، رہیں مقدس گائیں اب ان کی تعداد اتنی ہوگئی ہے کہ گنتی مشکل ہے؟ سوال یہ ہے کہ یہ گائیں مقدس کیسے بنیں ؟ اس پر کوئی اور بھائی روشنی ڈالے؟ مگر ہم اس کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ پیش کر دیتے ہیں کہتے ہیں کہ ایک شاہی جامع مسجد ،شاہی خرچے پر جب بن کر تیار ہو گئی تو اسکاافتتاح کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش شروع ہو ئی جس کی کبھی تہجد کی نماز نہ قضا ہو ئی ہو۔ مگر پورے شہر میں کوئی نہیں ملا ؟ اس سے آپ یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ایسے آدمی دار الحکومت میں تھے ہی نہیں۔ تھے تو سہی مگر اول تو ان کی پولس کے پاس فہرست نہیں تھی کیونکہ وہ ان کے لیے کار آمد ہی نہیں تھے، جبکہ ا سلامی عقیدہ یہ ہے کہ کوئی زندہ بستی ان سے کبھی خالی نہیں رہتی اور ہمارا یہ عقیدہ قرآن سے ثابت ہے کہ “ جہاں اچھے آدمی نہ رہیں وہاں عذاب نازل ہو تا رہا ہے“ کیونکہ جب تک ان کا وجود بستی میں رہے وہ اسکی بچت کا باعث بنے رہتے ہیں، اللہ سبحانہ تعالیٰ پہلے ا نہیں وہاں سے نکالنے کی سبیل فرماتا ہے پھر سزا دیتا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ وہ پھر سامنے کیوں نہیں آئے؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنی دکان نہیں سجاتے ؟لہذا وہ خود کو ظاہر ہی نہیں کرتے دوسرے بادشاہ کے حواریوں کو بادشاہ کا تقویٰ بھی ظاہر کرنا تھا؟ لہذا جب کوئی سامنے نہیں آیا تو وہ خودآگے بڑھااور بادشاہ نے افتتاح بھی کیا اور پہلی جماعت کی امامت بھی فر مائی۔ کہیئے بات آئی خیال شریف میں ! آئیے اب اس کے لغوی معنوں پر بات کرتے ہیں جن میں یہ آجکل مغرب اور ان کی دیکھا دیکھی پاکستانی اور دوسرے مسلمان حکمراں بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جو اسلامی تعلیمات کے قطعی منافی ہے۔ کیونکہ اسلام کی اساس احتساب پر ہے۔ حضور (ص)جن کے اسوہ حسنہ کو قرآن نے امت کے لیئے کافی قرار دیا ہے انہوں (ص) نے بھی اپنے دور میں اور وصال سے پہلے عوامی احتساب کے لیئے خود کو پیش کیا تھا۔ لہذا کوئی بھی احتساب سے بالاتر رہ کر مسلمان نہیں رہ سکتا؟ مگر ہم میں سے تقریباً سب نے یہ سنت مدت ہوئی ترک کردی ہے؟ ہے کوئی جو اس سنت کو زندہ کرے اور 100شہیدوں کا ثواب کما ئے کہ ساتھ میں یہ حضور (ص) کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ ” اگر کوئی میری کسی متروک سنت کو زندہ کرے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا” ہے کوئی مسلمان جو سامنے آئے اور خود کواحتساب کے لیے پیش کرے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے