اداکاری، سیاہ کری اورمکاری۔ ان تینوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جبکہ ادا کاری اگر اکیلی ہو تو دل بہلانے کے کام آتی ہے۔مگر اس کے ساتھ سیاست بھی مل جا ئے تو وہ سیا ہ کا ری میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں کے دونوں با تیں بہ یک وقت اپنانے سے شخصیت دہری ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں لہذا صفت ِبصار ت اور سماعت سے مزین ہونے کے باوجود دیکھنے ولا ااور سننے ولا فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ یہ سیاست کاری ہے یا اداکاری ہے۔ اس لیے کہ وہ کبھی سیاہ کاری، معاف کیجئے گا! سیاست کاری کو ادا کاری سمجھتا ہے تو کبھی اس کا الٹ سمجھتا ہے اور فیصلہ نہیں کر پا تا کہ کسی کارکن کی موت پر خوف ِباری تعالیٰ سے رونے اوررلادینے والا مداری اسوقت سیاہ کاری کی طرف مائل ہے یا بغیر گلیسرین کی مدد لیے “ رو اور رلا رہا ہے “
ً اسی لیے دانشوروں نے دونوں پیشے ایک ساتھ اختیار کرنے والوں کو بار بار بھیس اور زبان بدلنے اور پارٹی بدلنے سے اجتناب برتنے کی ہدایت کی ہے اگر پھر بھی نہ مانیں تو معاشرے میں اپنا مقام کھوبیٹھتے ہیں؟ کیونکہ کسی شخصیت کے بھاری بھر کم ہونے کے لیے صرف گوشت اور پوست کا پہاڑ ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر لوگوں کے اعتماد کا بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہے۔ جبکہ ہر وہ لفظ جس میں آخر میں ر ًکے ساتھ ً ی ً لگا ہوا ہو۔ تو وہ اس کی بات کا وزن چھین کراسے بے وزنی کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس پر عامل شخص اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں اپنا وقار کھوبیٹھتاہے؟ اس سلسلہ میں بہت سے مشاہیر کے قصے مشہور ہیں کہ وہ اس کے تدارک میں کیا کیا جتن کرتے تھے تاکہ عوام کا اعتماد مجروح نہ ہو؟ حضرت علامہ اقبال (رح) کا ایک قصہ بہت مشہور ہے کہ ا یک صاحب ان سے ملنے آئے تو وہ جاوید منزل کے باہر درخت کے نیچے بنیان اور تہمد پہنے ہوئے آرام فرما تھے !اس نے جب علامہ اقبال سے اقبال کا پتہ پوچھا تووہ اسے انتظار کا فرماکر زنان خانے میں چلے گئے، پہلے اپنا حلیہ درست کیا پھر جاکر نشست گاہ میں تشریف فرماہوئے اور ملازم کے ذریعہ اندر ملا قاتی کو یاد فرما یا، گو کہ اب بھی وہ اسی شخصیت کے سامنے تھا مگر اس نے دیکھتے ہی پہچاننے میں دیر نہیں کی، کیونکہ یہ وہی سر محمد اقبال تھے جنہیں اس نے اخباروں ا ور جلسے جلوسوں میں دیکھا تھا ۔ اس واقعہ میں وہ سبق پوشیدہ ہے جو ہادی ِ اسلام (ص) نے مسلمانوں کوعطا فرمایا تھا کہ “ تمہیں اگر خدا نے نوازا ہوا ہے تو تمہارے عمل اور رہن سہن سے بھی ظاہر ہونا چاہیے “ ہمارے ایک اورمحسن جوکہ انتہائی نیک ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ایک معالج بلکہ اچھے انسان بھی تھے، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا ءبھی دی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھے اور ان کانام بھی ڈاکٹر نامی تھا ، انکا طریقہ کا ر یہ تھا کہ وہ جب مریض کامعائنہ کر تے تھے تو اس سے یہ ضرور پوچھتے تھے کہ کام کیاکر تے ہو؟ وہ جیسی آمدنی ہوتی بتاتا ، وہ اس کی حیثیت کے مطابق ویسی ہی رقم نسخہ کے کسی کونے میں خفیہ کوڈ میں لکھد یتے اور کمپا ؤنڈراس سے اتنی ہی رقم وصول کرتا؟ جو کہتا میں بے روز گار ہوں اس سے وہ کچھ نہیں لیتے، یہاں بھی ان کی رحمدلی کے باوجود وہی فائیدہ اٹھاتے تھے جو سچے ہوتے تھے؟جبکہ دہری شخصیت والے اکثر مار کھا جا تے تھے کہ وہ شیخی میں آکر لمبی ہانکتے اور انکا بل اسی حساب سے لمبا ہو جاتا ۔ ایک دفعہ وہ میرے شہر میں تشریف لائے تو ڈسپنسری پر بھی تشریف لا ئے ان کے ساتھ میں ایک بہت موٹا سیٹھ تھا جس کے لیے انہیں دوا چاہیئے تھی۔ میں نے پیش کردی اس نے بل پوچھا تو انہوں نے میرے بولنے سے پہلے بل 1957 کے دور میں ڈھائی سو روپیہ بتایا! جوکہ اس وقت بہت بڑی رقم تھی؟ وہ اس نے مجھے چپ چاپ دیدی ؟ جب وہ چلا گیا تو رقم میں نے انہیں پیش کر دی ؟ کہنے لگے کہ تم اس سے کیا لیتے؟ میں نے جو رقم بتائی وہ بجائے روپیوں کے آنوں میں تھی؟ سن کر کہنے لگے کہ وہ سیٹھ اس کو کبھی استعمال نہیں کرتا، باہر نالی میں پھینک کر چلا جاتا؟ان دو واقعات میں عقلمندوں کے لیئے بہت سے سبق ہیں ؟
آج کل ملک کے سب سے بڑے شہر میں ایک صاحب جو کہ کبھی کچھ نہیں تھے؟اور ان کی والدہ نے تنگ آکر انہیں اپنے بڑے بیٹے کے پاس اس دیش میں بھیجدیا، جہاں پوری دنیا جانے کی تمنا رکھتی ہے، اس ہدایت ساتھ کہ بیٹا یہ یہاں تو کچھ کرتا نہیں ہے اور نہ آئندہ کرنے کی امید ہے؟ تو اسے اپنے پاس سے بلا لے! انہوں نے کوشش کی اور بلالیا؟ وہاں پہونچ کر نہ جانے کیوں انہوں نے اکثر پاکستانیوں کی طرح ٹیکسی ڈرائیوری اختیار کر لی جبکہ وہ کچھ اور کام بھی کر سکتے تھے۔ چونکہ اللہ بڑا کارساز ہے اور ہر معاملہ میں ہمیشہ اسی کی منصوبہ بندی کامیاب ہوتی ہے ! اگر وہ ڈرائیور نہ بنتے اور کوئی اور پیشہ اختیار کرتے تو یہ ہما کہاں ملتا جو اکثر ٹیکسی ڈرائیوروں کو عوامی سر وس سے وابسطہ ہو نے کی وجہ سے بآسانی مل جاتا ہے ۔ وہ “ ہما “ان کے سر پر بیٹھنے کے بجا ئے ان کی ٹیکسی میں کیا بیٹھا کہ انکا مقدر جاگ اٹھا۔ جبکہ روشنیوں کے شہر کو اس دن سے روگ لگ گیا۔
پھرجب سے لیکر22 اگست 2016 تک کاروبار اسی طرح چلتا رہا، چلا اورخوب چلا اور اس شہر پر ان کا طوطی بولتا رہا؟ وہاں پہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے غصہ کم ہونے کے آثار یوں تو اس دن سے نظر آنے لگے تھے جس دن سے بدعنوانیوں اور بد عنوانوں کے خلاف راحیل شریف صاحب سرگرم ہو ئے تھے۔ مگر 23اگست کو وہ اس شہر پر پوری طرح مائل ِ بہ کرم ہو گیا؟اور ان صاحب کا محلِ تصور جو کہ ہوا میں معلق تھاحالات ایسے پلٹے کہ وہ وہ کسی سیارہ کی طرح زمین سے آکر ٹکرا گیا ؟
آپ کہیں گے کہ یہ کیا پہلیاں بجھوارہے ہو؟ صاف کیوں نہیں بتاتے کہنا کیا چاہتے ہو ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک پوری طرح وہاں جھاڑو نہیں پھری ہے۔ صفائی کا عمل ہنوز جاری ہے؟ پچھلے دنوں ایک انتہا ئی ذمہ دار سرکاری اہلکار نے ٹی وی پر ہماری طرح تمام اخبارات کے صفحات کالے کرنے والوں سے کہا تھا کہ “ابھی دیکھو اور انتظار کرو جو کہ خفیہ کوڈ میں تھا“ سمجھنے والے سمجھ گئے اور اتفاق سے ہم بھی انہیں میں سے ہیں ؟ وہ بیان یہ تھا کہ “ان سے جب پوچھا گیا کہ یہ پکڑ دھکڑ تو ہورہی ہے جو انہوں نے اور ان کے حواریوں نے قبضے کرکے دفاتر یا شادی ہال وغیرہ بنا ئے تھے وہ بھی کچھ توپہلے ہی ڈھا ئے جا چکے ہیں کچھ ڈھا ئے جا رہے ہیں ، اس کے آگے بھی کچھ ہو گا یا ہمیشہ کی طرح ٹائیں ، ٹائیں فش ہوجا ئے گی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ پولیس کے“ ہر تفتیشی آفیسر کو پندرہ یوم کا وقت دیا جاتا ہے اسے پورا ہونے کے بعد جو نتیجہ سامنے آئے گا اس کے مطابق کار روائی ہوگی؟ اس میں بڑا پیغام تھا تمام جلد بازوں کے لیے کہ جلد ی مت کرو؟ پندرہ دن اور انتظار کرو ساری حقیقت سامنے آجا ئے گی؟ اب آپ ہی کہیئے کہ ہم بتلائیں کیا؟
آپ اس میں پھر الجھ گئے ہونگے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر معاملہ میں بیچ میں کیوں لے آتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہر مسلمان کا شیوہ یہ ہی ہونا چاہیئے؟ وہ خوابوں کی دنیا میں ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہً ہم کچھ بھی کریں لیکن ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے استثنا حاصل ہے لہذا ہم پر عذاب آہی نہیں سکتا ؟
اسکے لیے ہم آپ کو ایک واقعہ اور سنا ئے دیتے ہیں جس میں کافی حد تک مماثلت ہے “ ہم سے پہلے ایک قوم ہوا کرتی تھی ،رہتی بھی وہ اسی شہر میں تھی جوکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرمایا تھا اور بہت چہتی بھی تھی؟اللہ تعالیٰ جب اس سے نا راض ہوا اور اس نے عذاب نازل کر نا چا ہا تو اس نے پہلے اپنی سنت کے مطابق حجت پوری کرنا چاہی تو اس شہر میں کوئی بھی اس قابل نہیں نکلا کہ جس کو کہ وہ نبی (ع) بنا کر بھیجتا ؟لہذا اس نے کنعان سے ایک نبی (ع) کو حکم دیا کہ تم جا ؤاور وہاں کے لوگوں کو میرا پیغام دو کہ وہ سدھر جائیں؟ ورنہ میں ان پر ایسا ظالم مسلط کردونگا کہ وہ عذاب کرتے ہوئے مجھ سے بھی نہیں ڈرتا ، (تاکہ عذاب کے تقاضے پورے ہوسکیں) مختصر یہ کہ وہ تشریف لے گئے پیغام پہونچایا جب انہوں نے نہیں مانا تو اس شہرپر اس وقت کی دوسپر پاوروں میں سے ایک کے بادشاہ نے حملہ کردیا اور اس نے وہاں پہونچ کر بچوں ، بوڑھوں اور ان کی عورتوں کو تو قتل کردیا اور چھ لاکھ مردوں میں جو کار آمد تھے ان کو بیگار کے لیے اپنے دارالحکومت لے گیا اور جاتے جاتے انکا شہر بھی زمیں کے برابر کرگیا؟ چونکہ ہمارے یہاں حضور (ص) کے بعد نبی نہیں آنا ہے۔ لہذا اس امت کے لیے اتمام ِ حجت کے لیے بجائے نبی (ع) بھیجنے کہ اس امت کے چیدہ چیدہ علماءاور دوسرے لوگوں کو یہ فرض سونپا کہ وہ گمراہوں کو ڈرائیں؟ اگر وہ ڈر جا ئیں تو خیر ہے، ورنہ حضور (ص) کے صدقے بقیہ عزاب معاف کرکے، مسلمانوں کے لیے فرقہ پرستی کا عذاب مقدر فرمادیا ہے اس سے دوچار ہوگے۔ اس کے لیئے آپ تفسیرِ ابن کثیر میں سورہ الانعام کی آیت نمبر 65 ملاحظہ فرمالیں تسلی ہوجائے گی، مگر ایک احتیاط ضرور برتیں کہ پرانی تفسیر یں دیکھیں وہ نہ دیکھیں جن پر بریکٹ میں لکھا ہوکہ ہم نے مصنف کے مرحوم ہونے کی وجہ سے پوچھے بغیر یہ نوٹ لگادیا ہے کہ “ تفسیر کو مختصر کردیا ہے “( اس لیے کہ وہ بادشاہ ِ وقت ہیں ، جو چاہیں کریں زندوں کی تحریریں روز سنسر کر کے کاٹتے یا ضبط کرتے رہتے ہیں ور اس کو کبھی نہ تحریف سمجھتے ہیں نہ بد دیانتی) چونکہ دین بادشاہوں کا چلتا ہے لہذا انکی دیکھا دیکھی پوری مسلم امہ وہ سارے کام اچھے سمجھ کر کر رہی جو انہیں اور ان کے شاگردوں کو کرتا دیکھتی ہے کیونکہ وہ آئے ہی بدعتیں دور کرنے اور دین کی اصلاح کے نام پر تھے۔ لہذا وہ جو کر رہے ہیں وہی ان کے جدید عقیدے کہ مطابق درست ہے؟