کہا امکان کا ڈر ہے کہا امکان تو ہوگا؟ از۔۔۔ شمس جیلانی

ایک دور تھا جس میں مذہب کی ضد میں ہرقسم کی پابندیوں سے عوام کو آزاد کرانے کی ترقی پسندوں نے ٹھانی ہوئی تھی لہذا انہوں نے سب سے پہلے شاعروں کو ردیف اور قافیوں سے آزاد کرایا ؟ اسی دور میں کسی نے پیروڈی کے طور پر ایک آزاد نظم کہہ کر موسوم جناب سیف الدین کچلو کے نام کردی جوکہ عوامی قبولیت کا درجہ حاصل کرگئی شاید وجہ یہ رہی ہو کہ اسوقت تحریک ِ پاکستان اپنے عروج پر تھی اور اس وقت تحریک کی مخالفت میں لیڈروں میں وہ اکیلے رہ گئے تھے ؟ جو نہ جانے کیوں آج بہت یاد آرہی ہے کہ جس کا مقطع تھا  “کہا کچلو سے کہدینا کہا کچلو سے کہدونگا کہا شیطان کا ڈرہے کہا شیطان تو ہو گا؟ اور ردیف تھی طوفان وغیرہ جو انہیں کے نام سے مشہور ہوگئی، حالانکہ وہ سرے سے شاعر ہی نہ تھے ، اگر ہوتے تو کوئی اور بھی ایسی کئی غلطی کرتے، جوہمیں تو کہیں نہیں ملی جبکہ انہوں نے عمر بھی طویل پائی ابتدا انہوں نے تحریک ِ خلافت سے شروع کی پھر جب کانگریس نے پاکستان دینا تسلیم کر لیا تو تو وہ کمیونسٹ پارٹی میں چلے گئے اور 1863 میں اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ لوگ تفریحا ً کسی کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں،ا لبتہ کوئی مداری خود کو ، سچ مچ کا ” ہّوا ” منوالے تو بڑی مشکل ہوجاتی۔ اور ہر وقت تمام امکانات موجود رہتے ہیں ان میں ایک بات ضرور تھی کہ جیسے پاکستان میں بہت سے لوگ پاکستان کے مخالف  تھے وہ بھی پاکستان بننے کے بعد تائب ہو کر آگئے مگر وہ مخالفت میں اتنےپکے تھے کہ امرتسر سے انہو ں نے پاکستان بننے کے بعد بھی امرتسر سے انہوں آگ میں سے گزر کر دہلی جانا پسند کیا مگر پاکستان کی مخالف ترک نہیں کی اور شہر، شہرگھوم کراپنی تحریک چلاتے اور یہ اپیل کرتے رہے کہ کہ لوگ پاکستان کو تسلیم نہ کریں؟ یاد آنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک بہت ہی زیرک ٹی وی اینکر ایک لیڈر سے کچھ سچ اگلوانا چاہ رہے تھے۔ اور وہ انہیں غوطے دے رہے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اپنے لیڈر کے خلاف ایک گروپ نے بغاوت کردی ہے۔ جو پہلے بھی ایسے ہی ایک موقعہ پر دروغ گوئی کے مرتکب ہوچکے ہیں ۔  اور یہ ہی سب کچھ کرکے پارٹی اور اپنی سیٹ بچا چکے ہیں۔  اور وہاں جہاں ہر ایک کا ریکارڈ یہ ہے کہ جو صبح کہتا وہ دوپہر تک نہیں چلتا؟ یا تردید آجاتی ہے یا وہ معافی مانگ لیتا ہے۔ اس پر انہوں نے کوئی ایسا حتمی جواب نہیں دیا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ان کے یا ان کے رہنما یاساتھیوں کا کہہ مکرنے کا امکان نہیں ہے؟
اور یہ انہیں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہر ایک کے ساتھ ہے؟ اس لیے کہ وہاں ہر ایک کو چونکہ کسی نہ کسی کے ذریعہ آنا ہوتا ہے؟ لہذا وہ اس کے بچاؤ میں درمیان میں آجاتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں امریکہ کا بیان آگیا کہ وہ پاکستان کی ایک جماعت کے دفتر گرانے کی پالیسی کو نا پسند کرتا ہے؟یہ درست ہے کہ جمہوریت میں کسی سیاسی جما عت کے دفاتر جموریت پسندوں کے لیے عبادت گاہوں کا درجہ رکھتے ہیں؟ مگر یہ تو تحقیق کرلی ہوتی کہ دوسروں کو الاٹ یا کسی دوسرے مقصد کے لیئے لیے ہوئے پلاٹوں پر دفاتر تعمیر ہوئے ہوں تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟مذہبِ جمہوریت میں تو ہمیں معلوم نہیں کہ ان کا اس سلسلہ میں کیا فتویٰ ہے، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو مسجد بھی کسی اور کی زمین پر قبضہ کرکے بنا ئی جا ئے یا اس میں ناجائز  کمائی لگی ہو تو اس میں نماز جائز نہیں ہیں؟ اور بنا نے والا یہاں اپنے گناہ کا سزا  بھگتے گا اور روز قیامت  بھی۔ اس سلسلہ میں اسوہ حسنہ (ص) میں بھی بہت نمایاں عمل موجود ہے کہ تعمیر کرنے والوں کا درپردہ منصوبہ کوئی اور ہو ،انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص نہ ہوتو ایسی عمارت کو ڈھادیا جائے جس کی مثال مسجد ضرار ہے اور حکم قر آن میں موجود ہے؟ اتنی خوفناک بعیدوں کے باوجود مسلمان دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے نئی بستیاں آباد کر رہے ہیں ان میں مسجدیں بھی بنا رہے ہیں اور ان میں نمازی نماز بھی پڑھ رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اسی مال میں سے لنگر بھی جاری ہیں اور کرنے والے مخیر بھی کہلا رہے ہیں ۔
کل صبح تو ہمیں جناب کچلو یاد آئے تھے جب یہ مضمون مکمل کرنے بیٹھے ؟ توآج ہمیں دوسرے انقلابی شاعر جناب حبیب جالب یا د آگئے جنہوں نے ہر دور میں جیلیں کاٹیں مگر موقعہ شناسی نہیں اختیار کی، انہوں نے ایوب خان کے دور میں ایک نظم کہی تھی کہ ع  “ ایک بھائی اندر ایک بھا ئی باہر بیچ میں ان کے گندھارا ،پو بارا بھئی پو با رہ، پورا بھئی پو بارا۔“اب پوچھیں گے کہ یہ کیوں یاد آئے تو وہ سن لیجئے کہ اس وقت سردار بہادر خانصاحب قائد حذب اختلاف تھے اور ان کے برادرِ حقیقی ایوب خانصاحب صدر تھے اور ان کے سمدھی جو کہ ایک ریٹائرڈ جنرل تھے ان کا ایک بہت بڑا صنعتی کمپلیکس تھا جس کا نام تھا گندھا را اور اس میں سب کے نام کسی نہ کسی طرح آتے تھے؟ اور آج کیوں یاد آیا؟ وہ اس لیے کہ ایک صاحب جن کی والدہ محترمہ ہمیشہ فوٹو سیشن میں ان صاحب کے ساتھ ہوتی ہیں جو ہر فوٹو سیشن میں گردان فر مارہے ہوتے ہیں کہ ہم اپنے قائد سے پاکستان کی محبت میں قطع تعلق چکے ہیں ، جبکہ ان خاتون کے صاحبزادے جو لندن میں ہیں وہ فرما رہے ہیں ۔ کہ ما ئینس ون والا فارمولہ ہمیں منظور نہیں ۔ ایک اور صاحب کو ہم نے یہ کہتے بھی سنا !جب ان سے ایک اینکر نے یہ پوچھا کہ کل آپ کیا اپنے لیڈر کے خلاف قرارداد مذمت پیش کرنے جا رہے ہیں۔ تو انہوں نے بتایا کہ پہلے ہم اس پر غور کریں گے کہ وہ وجو ہات کیا تھیں جن کی بنا پر ان کو اتنا غصہ آیا کہ “ ان کی زبان مبا رک سے وہ الفاظ نکل گئے جس کولوگ غداری کہہ رہے ہیں“ ان تمام باتوں سے ہر طرح کے امکانات نظر آرہے ہیں؟ اس سلسلہ میں رکھنے والوں ان کی لاج رکھ لی کی اپوزیشن اور حکومت دونوں نے مشترکہ قرارداد مذمت ان سے پہلے پیش کردی اب ان کے پاس ہاتھ اتھانے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اور انہیں ہاتھ اٹھانے میں پریشانی اس لیے نہیں کہ وہ یہ کام کچھ  کم چالیس سال کرتے آرہے ہیں یعنی کسی کے کہنے پر ہاتھ اٹھانا اور دوسروں کا کام کر نا تھا؟
اب سنیئے اس سلسلہ میں سیاسی رواداروں کی باتیں؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک چانس اور انہیں دینا چا ہیے ؟ حالانکہ اس کے خلاف حدیث یہ ہے کہ “ مومن ایک سوراخ دو مرتبہ  نہیں ڈسا جا سکتا “  اسے نطر انداز کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنا انجام نظر آرہا ہے؟ کیونکہ خبریں اب یہ بھی آنے لگیں ہیں کہ دفتر ڈھانے والے یکہ دکّا ہی سہی مگر اوروں کے دفتر بھی ڈھانے لگے ہیں جو ناجائز تھے۔ ایسا ہوا تو پھر قبضہ گروپ کا کیا بنے گا؟ جس میں کئی پارٹیوں کے حصے ہیں ؟ ہمیں تو اس کھیل کے پیچھے کچھ اور ہی نظر آرہا ہے ۔ اور وہ ہے لوگوں کے دلوں سے وہ خوف  دور ہونے روکنا؟جو ابھی تھوڑا بہت کم ہوا تھا کہ لوگ جان کے خوف سے ایک گروپ کی کراچی میں کسی بات سے انکار نہیں کر سکتے تھے وہ سب کے مفاد میں تھا کیونکہ ایک سے معاملہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتالہذا سب کی کوشش یہ ہی ہے کہ کہیں وہ خوف دلوں سے نکل نہ جا ئے ؟ چاہیں اس کے نتیجہ میں ضرب عضب  نے بے مثال کامیابیاں حاصل کرکے جو لا ءانڈ آڈر پوزیشن بنا ئی ہے وہ ضائع ہو جائے ؟کیونکہ ہر ایک کو اس امکان سے اور اس کے نتیجہ  میں اپنے انجام سے ڈر ہے۔ پھر یہ بھی ہے  کہ وہ اپنے ہی نہیں پرایوں،  کے بھی کام آتے ہیں ؟ ایسے کار آمد لوگوں کا نیٹ ورک بر باد کر دینا تو کسی بھی سیاسی گروپ کے مفاد میں نہیں ہے؟ ادھر وہ آفسر پہلے ہی پریشان ہیں اور انکا ایک افسر اظہار بھی کر چکا ہے کہ یہاں ایمانداری کی سزا موت رہی ہے؟ جو ان کے ساتھی بہت سے پہلے بھگت چکے ہیں ریکارڈ یہ ہے کہ دو سو میں سے 199 اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، جنہوں نے ایمانداری سے پہلے کام کیا تھا؟ سیاستدانوں کا کیا ہے کہیں بھی اور کسی کے  ساتھ بھی پھر سے پینگیں بڑھالیں ۔ اور بھا ئی ، بھائی بن جا ئیں؟ ہر ایک اس امکان نے سے سہما یاہوا ہے؟ اور پوچھ رہا ہے کہ خانصاحب ہم اپنی تبدیلی کرالیں یا یہیں بیٹھے رہیں ؟ با لکل اسی قسم کا سندھ میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کچھ لوگوں کو ڈاکو ؤں نے پکڑ کر پہلے تو لے جاکر ایک ایسے پل کے نیچے بٹھایا جو برساتی نالے پر بنا ہوا تھا، پھر ان کی جیبیں خالی کرکے جب جانے لگے تو انہیں اپنی فکر ہوئی کہنے لگے کہ ابھی تو سردی کا موسم ہے اس کے بعد جب گرمی کا موسم آئے گا تو بارش ہوگی یہ نالا زور شور بہنے لگے گا اور ہمیں بھی پانی بہا لے جا ئے گا؟ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر ان کو“ چور“ کہیں تو چور برا مانیں گے، پھر پکاریں کس نام سے؟ توڈرتے، ڈرتے آواز دی کہ “ سائیں چور خانصاحب“ جب بارش کا موسم آجائے تو بھی ہم یہاں بیٹھے رہیں یا چلے جائیں ؟ انہیں چونکہ اپنے تعاقب میں ان کے آنے کا ڈر تھا کہ کہیں پیچھا نہ کریں ؟ انہوں نے ڈپٹ کر کہا نہیں وہیں بیٹھے رہو چپ کرکے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.