قصور انکا بتاتے تھے قصور اپنا نکل آیا؟ از ۔۔۔شمس جیلانی

آجکل الزامات در الزامات کی بڑی دھوم ہے ایسا لگ رہا کہ محرک ِ تحاریک شاید نعرہ بازی سے اسلام کا دور ِ قرونِ اولیٰ واپس لے آئیں گے ؟ آئیے دعا کریں کہ خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا اور صرف نعرے بازی سے بغیر عمل کے کامیابی ممکن ہوتی تو حضور (ص) جو ہمیشہ سب کو آسانیاں فراہم کر نے پر زور دیتے تھے، وہ  (ص)عمل پر زور کیوں دیتے اور نہ ہی عمل کرکے ،ہمیں عمل کرنے کی راہ دکھاتے؟  مگر اس کو کیا کہا جائے کہ قوم کہہ مکرنی کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ انہیں کچھ بھی کہیں کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا؟ کیونکہ ہر ایک اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسرے کی آنکھ کا تنکا تلاش کر نے میں لگا ہوا۔ اگر ہم سب مصلحتوں سے بلند ہو کر مذہب پر عامل ہو جائیں اور ہر ایک اپنا احتساب خود کرکے میدان میں کودے تو سب کچھ ممکن ہے؟
ہماری ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے قول اور فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے ؟ اور تضاد، یو ں ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرمارہا ہے الصفات کی ابتدائی آیات میں کہ “ اے ایمان والو! تم وہ باتیں  کیوں  کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو ، یہ بات مجھے سخت ناپسند ہے “ مگر ہم اپنا گریبان عموماً نہیں جھانکتے اور سارے نا پسندیدہ کام کرتے ہوئے اس فریب میں دوسری قوموں کی طرح مبتلا ہیں کہ ہم اس کی پسندیدہ قوم ہیں؟ اگر مندرجہ ذیل باتیں ہم میں نہ ہوتیں!تو ہم واقعی بہت اچھی قوم ہوتے ۔
مثلاً ہم سے یہ کہا گیا ہے کہ مضبوطی سے قر آن کو پکڑلو ؟ ہم اسے مضبوط پکڑے ہوئے تو ہیں کہ جزدان میں بند کرکے بلندی پر رکھ دیا ہے ؟ جبکہ ہمارے یہاں بات ہی اس مشہور حدیث سے شروع ہو تی ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے “ جس کا تقاضہ  ہے کہ ہر کام خالص اس کی رضا کے لیئے ہو؟ جبکہ ہم ہر کام بے دلی سے انجام دیتے ہیں۔ خوش دلی سے نہ ہم نماز پڑھتے نہ روزہ رکھتے ہیں ؟ نہ کوئی اور کام کرتے ہیں؟ نماز جب پڑھیں گے تو اس وقت جب کہ وقت گزر رہا ہوگا۔ اگر روزہ رکھیں گے تو اس طرح کہ پورے گھر والوں ہی کو نہیں ،بلکہ پورے شہر کو پتہ ہو گا کہ ہم روزے سے ہیں ۔ کیونکہ ہم بات بات پر لوگوں سے لڑیں گے اور کہتے پھریں گے ہم روزے دار ہیں ۔ جبکہ ہمیں یہ اس وقت کہنے کے لیے کہاگیا ہے کہ “ میں روزےدار ہوں“ جب کوئی اور نا دان ہمیں تنگ کر رہا ہو تو اس سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیں کہ “ ہم روزے دار ہیں “اور قر آن کی ایک دوسری آیت مزید رہنمائی کر رہی کہ “  اسےسلام کہہ کر رخصت ہو جا ئیں “۔ خیرات کے لیے ہمیں یہ کہا گیا کہ اس ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو ؟ مگر عمل کیا ہے کہ دینے سے پہلے دوسرے ہاتھ کو خبر ہو یا نہ ہو، البتہ پورے شہر کو خبر ضرور ہو جاتی ہے کہ فلاں بھائی نے اتنی رقم فلاں نیک کام کے لیے دی ہے ۔ کیونکہ آجکل چیک دینے کا رواج ہے یاپھر وعدہ کر نے کا ، جسے انگریزی زبان میں پلیج کہتے ہیں ؟ یعنی دینے کا وعدہ کر لینا؟ اور بہت سے لوگ اتنے وعدے روزانہ کر تے ہیں کہ انہیں  وعدے یاد ہی نہیں رہتے بلکہ بعض تو اس میں اتنے دلیر ہیں کہ کہتے ہیں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو  پورا کر نے کے لیے کیا جائے ؟ جبکہ قر آن کہہ رہا کہ “ تم سے قیامت کے دن وعدوں پر سوال ہو گا“  ایساکرنے والے شاید یہ سوچ کر کرتے ہوں  کہ اس میں سوال کرنے ذکر ہے “ سزا دینے کا نہیں ہے “ قصہ یہ ہےکہ ہم سب بے انتہا نڈر ہو چکے ہیں؟ مثال کے لیے آپ ہمارے انتخابی وعدوں کی تاریخ کو دیکھ لیجئے ؟ جب ہم ہدایت پاکر دوبارہ گمراہ ہوگئے تو اس کے نتائج نظر آنے شروع ہوئے؟ قوم نے سنجیدگی سے اپنا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہونچی کہ یہ سارے ادبار اسی کا ہی نتیجہ ہیں کہ ہم نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بات نہیں مانی، کھلے عام نافرمانیاں کیں؟ لہذا اس کے سامنے جاکر گڑا گڑائے؟ از سرنواللہ سبحانہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر تو ہمیں ایک خطہ زمین دیدے تو ہم اس پر مثالی اسلامی حکومت بنا کر دکھا ئیں گے؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو رحم آگیا اور اس نے ایک ملک دیدیا ، اگر ہم وعدہ پورا کرتے تو وہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 کے مطابق  “اورزیادہ دیتا “ لیکن ہم نے ملک ملنے کے بعد ارادہ ہی بدل دیا، شایداسے پورا نہ کرنے کا تہیہ کر لیا؟ حالانکہ پاکستان بنتے ہی جو پہلا قائد اعظم کی قیادت میں ادارہ تشکیل دیا گیا وہ تھی “ دستور ساز اسمبلی “جو ماشا اللہ ایک دو دن نہیں ، سالوں رہی اور اس کے کرتا دھرتا بھی وہی رہے جو کہ بانیوں میں شامل تھے سوائے ایک کہ جودستور ساز اسمبلی کے صدر اور ملک کے گورنر جنرل بھی تھے۔ جن کے بارے میں یہ واقعہ بڑامشہور ہے کہ جب کانگریس نے بھارت کا دستور بنانے کے لیے دستور ساز کمیٹی بنا ئی تو مولانا شبیرا حمد عثمانی (رح) صاحب ان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ بھی ایک دستور ساز کمیٹی بنا دیں! تاکہ ہم پاکستان کا دستور بنا لیں؟ مگر انہوں نے فرما یا مولانا ان کے پاس تو دستور نہیں ہے اس لیے وہ دستور بنا رہے ہیں؟ ہمارے پاس تو دستور موجود ہے ! مولانا سے زیادہ کون جانتا تھا! کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے ؟مگر انہوں نے پھر بھی وضاحت چاہی کہ آپکی اس سے مراد کیا ہے؟ تو انہوں نے فرما یا کہ “ قر آن“ ان کی نیت تو اس ادارے کو سب کام پر ترجیح دینے سے ہی ظاہر ہوگئی تھی؟ لیکن انہیں وقت نے مہلت نہ دی اور وہ تیرہ مہینے میں اللہ کو پیارے ہو گئے؟ اب ان کے بقیہ ساتھی تھے اور دستور تھا اس بنے بنائے دستور کو نافذ کرنے میں سالوں لگ گئے اور وہ بن کر نہ دیا ؟ پھرچشم َ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہی مولانا پھر اسی مسئلہ پر شدید برہم قائد اعظم (رح) کے ایک ساتھی سے اس تاخیر پر الجھ رہے ہیں؟ اور انکا جواب تھا کہ “ مولانا ! پہلے یہ توطے کرلیں کہ کونسا اسلام چا ہیے“ ان صاحب کو یہ بات اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھی؟ مگر وعدہ پہلے کر لیا اور سوچا بعد میں؟ قصہ مختصر ہم نے با لکل اس شخص کی طرح کیا جو تاڑ کے درخت پر چڑھ گیا پھل توڑنے، اور رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی تو اس نے منت مانی کہ اے اللہ! تو مجھے بخیریت زمین تک پہونچا دے تو میرے پاس جو سب سے اچھااونٹ ہے تیری راہ میں قر بان کرونگا ۔ اور آہستہ آہستہ نیچے کی طرف پھسلنا شروع کیا، جب آدھا فاصلہ طے کرلیا تو اس نے سوچا کہ  وہ اونٹ تو بہت قیمتی ہے؟ گائے قر بان کر دونگا اور بتدریج گھٹتے ،گھٹتے مرغ کی قربانی تک آگیا؟ جب زمین سے پیر ٹکرائے تو دیکھا کہ چیونٹیاں جا رہی تھیں اس نے کہا کہ اللہ! جتنی تو کہے اتنی ہی میں ان میں سے قر بان کردوں ؟ ایسے متقی کو شیطانی جواب صرف شیطان سے ہی مل سکتا  تھا جو ملا! اس نے اسکو پہلے یہ راستہ دکھا یا اور اس کے اس عمل کو اس کی نگاہوں میں مزین کرکے بھی  دوبارہ دکھادیا اور اس نے  وعدے کے مطابق ایک کے بجا ئے سیکڑوں چیونٹیوں کو پیر سے کچل کر اپنی منت پوری کر لی؟ ہمارے کرتا دھرتاؤں نے اس آیت کا اگلا  حصہ پڑھا ہی نہیں تھا کیونکہ پورا قر آن پرھنے کی امت کو فرصت کہاں ہے؟ جویہ ہے کہ “ اگر کفر (نافر مانی) کرو گے تو میراعذاب بھی شدید ہے “ وہ دن اور آج کا دن ہے وعدے بہت ہو ئے اور پورے بہت کم ؟ لیکن سزا قوم بھگت رہی ہے کہ ہم نے تو تمہیں یہ حکم دیا تھا  کہ  “ تم  صرف بھلے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دوگے برے کاموں میں نہیں “    جبکہ قوم نے  اپنوں کی وعدہ خلافی کو درست سمجھ لیا اس لیے کہ اپنے ہیں؟ اس کے بعد کیسے کیسے وعدے ہوئے کیسے لوگوں نے کیے؟ اگر میں پوری تفصیل میں جاوں تو آپکو ایسے متقی لوگ بھی نظر آئیں گے جو قرآن پر سب کو عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے ؟ اور  انہوں نےعوام سے وعدے کیے کہ ہم تیس سال پہلے والے بازار کے بھاؤ واپس لے آئیں گے؟ جوکہ جب سے دنیا بنی کبھی کوئی واپس نہیں لاسکا،اللہ نے انہیں بھی اقتدار دیدیا صرف ہمیں تعلیم دینے کے لیے کہ ایسے وعدے مت کرو جو پورے نہ کرسکو؟ مگر ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ؟ وہ وعدے پورے نہیں کرسکے ؟ آخری وعدووں کی مثال 2013 کے الیکشن ہیں اس میں وہ لوگ کامیاب ہو ئے جو سالوں کے بجا ئے دنوں میں وعدے پو رے کر نے کے وعدے کرکے  برسرِ اقتدارآئے تھے؟ جو زیادہ تر توانا ئی کے بارے میں تھے؟ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے؟ اگر وہ وعدہ کرنے میں محتاط ہوتے تو اس کاجائزہ پہلے سےلے لیتے تو وہ کبھی ایسے وعدے نہ کرتے جو جھوٹے ثابت ہونا ہی تھے ؟ نہ ہی جھوٹ میں ملوث ہوتے، نہ اعتبار کھوتے انہوں نے  بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اور وعدہ کرتے رہے کہ ہمیں حکومت ملی تو ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے اللہ نے حکومت دیدی مگر لوگ وہاں جاتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ وعدہ فردہ کہاں تک پورا ہو ا! اور مایوس لوٹ آتے ہیں؟ کاش کے لوگ بار بار مایوس نہ ہوتے کوئی تو ایسا آتا کہ اس معیار پر پورا اتر تا جو ایک مسلمان حکمراںکے لیے ضروری ہے  ؟ اب بھی احتساب کانعرہ لگا کر ؟ اس میں بھی نعرہ لگانے والوں نے وہی غلطی کی کہ پہلے اپنا دامن نہیں جھانکا ِ اگر جھانک لیتے تو یہ نتجائج سامنے نہیں آتے کہ وہ بھی اسی میں مبتلا نظر آئے جس میں پہلے والے مبتلا تھے اور جس میں نتیجہ کے طور پر ڈھائی نسلیں گزر جانے کی وجہ سے پوری قوم اب مبتلا ہو چکی ہے؟ ایسے میں وہ فرشتے آئیں گے کہاں سے، جب تک پوری قوم اجتمائی توبہ نہ کرے ؟  آئیے دعا کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے عذاب سے محفوظ رکھے (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.