حضور (ص) نے خطبہ وداع میں فرمایا تھا کہ “ آج زمانہ اپنی جگہ پر واپس آگیا ہے “ اس جملہ کو سیاق اور سباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جا ئے تو بات سمجھنے کے لیے بہت آسان ہو جاتی ہے؟ لیکن سیاق اور سباق سے سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ میں بہت پیچھے جا نا پڑےگا یہاں تک کے اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم (ع) نے خود کو تمام امتحانوں سے گزارا اور اس سلسلہ میں قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں سند عطا فرمائی کہ “ ہم نے انہیں بہت سے مواقع پر آزمایا اور اس میں وہ پورے اترے “ تو انہیں اللہ سبحانہ نے اپنی سنت کے مطابق زندہ جاوید بنانے کے لیے دنیا کی پہلی عبادت گاہ کی تعمیر کا کام ان سے لینے کا فیصلہ کیا؟ پھر ان کے ہر عبادتی فعل کو ہمیشہ کے لیے اپنے حکم سے جاری کردیا؟ جو صرف ایک خدا کی عبادت پر مشتمل تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ان کے ماننے والوں نے اس میں بہت سی غلط رسمیں شامل کر لیں ؟ اور وہ اپنی اصل شکل کھو بیٹھا اس میں کچھ عربوں کی ہی بات نہیں بلکہ ہر قوم میں یہ ہی ہوتا آیا ہے کہ جو کچھ اپنے اجداد کو انہوں نے کرتے دیکھا وہ دین سمجھ کر شروع کردیا کہ یہ بھی عبادت کا ایک حصہ ہے؟ یہاں بھی یہ ہی ہوا کہ بجائے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرنے کے یہ دن بھی اپنے ذاتی تفاخر اور نسبی برتری بیان کرنے پر صرف ہونے لگے۔ چونکہ اس علاقے کو حضور (ص) نے تشریف لاکراس طرح منور کرنا تھا کہ تاقیامت ان کا نام دنیا میں لیا جاتا رہے؟لہذا حضور (ص) کے تشریف لانے سے پہلے بڑے عرصے تک نہ یہاں کہ باشندے بہکے اور نہ حضرت اسمعٰیل (ع) کے بعد کسی نبی (ع) کی ضرورت پڑی۔ حضور (ص)سے کچھ ہی عرصے پہلے یہاں بہت سی نئی رسوم پیدا ہو ئیں اور انہوں نے دین کی جگہ لے لی۔ مثلا ً برہنہ طواف کرنا؟ جس میں حجاج کی مرضی کو دخل نہ تھا بلکہ ان کی مجبوری تھی کہ منتظمینِ کعبہ نے یہ قد غن لگا دی کہ حرم کا طواف صرف ایک مخصوص لباس میں ہی ہو سکتا ہے۔ اور وہ قریش کا لباس ہے جو ان کی نظر میں شرفا کا لباس تھا۔ لہذا جو اس قابل نہ تھے کہ ویسا لباس کسی طرح اپنے لیے مہیا کر سکیں ،وہ مجبور تھے کہ وہ بغیر لباس کے حج کر یںِ۔ برائی کی شروعات یہ تھی کہ ا یک خاندان شام سے بت لے آیا اور وہ کعبہ میں رکھدیے گئے ، بعد میں وہی خاندان تمام رواجوں کا بانی بنا اور اس نے دین میں بہت سی تبدیلیاں کیں جیسے کے قربان گا ہ جو شروع سے منیٰ میں تھی اس کے بجا ئے، اب جانور بتوں کے قدموں میں قربان کیے جا نے لگے۔ ہر تین سال کے بعد ایک سال تیرہ مہینے کا ہونے لگااور ان کا نما ئندہ اعلان کرنے لگا کہ آج یہ میرے ہاتھ میں ہے کہ جن مہینوں کو چاہوں میں حرام کردو ں اور جن کو چاہوں میں حلال کر دوں! وہاں موجود حاضرین اس کے دعوے کے جواب میں اس کی حاکمیت کو تسلیم کرتے اور وہ جس طرح چاہتا یا مفاد پرست چاہتے وہ انہیں تبدیل کردیتا ؟ اس کے اس حکم سے مہینے بد لتے رہتے اور مفاد پرستوں کو لوگوں کی عدم واقفیت کی بنا پر پرانے بدلے چکانے یا حجاج کو لوٹنے کاموقعہ ملتا رہا۔ جبکہ انجان لوگ یہ سمجھ کر سفر کرتے کہ یہ حرام مہینے ہیں اور ہم بدلہ لینے والوں، چوروں اور لٹیروں کے ہا تھوں سے محفوظ ہیں ؟ اسی طرح جانوروں کی انہوں نے قسمیں بنا دیں کہ یہ حلال ہیں یہ حرام ہیں؟ انہیں میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ “ اشرافیہ عرفات نہیں جا ئیگی “ جبکہ دوسرے لوگوں کے لیے عرفات تک جانا لازمی ہوگا ۔ سن نو ہجری کا حج آخری مشرکوں اور مسلمانوں کا مشترکہ حج تھا، جو حضرت ابو بکر (رض) کی قیادت میں ذیقدہ میں ہوا۔ چونکہ اب را ہیں جدا ہو چکی تھیں اسلام غالب آچکا تھا اللہ کا نام ہرجگہ بلند کر نا اس سلسلہ کا آخری کام تھا لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسی حج کے دوران حضور (ص) کی طرف سے سورہ توبہ کے مطابق اعلان کیا کہ آئندہ کوئی کافر حج نہیں کرسکے گا ؟ دوسرے حج کے سلسلہ میں لوگ پریشان تھے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس میں ارکان ِحج کیا ہیں ؟ اور بدعیتیں کیا ہیں ۔ لہذا اس کی عملی تعلیم کے لیے حضور (ص)نے فرمایا کہ میں حج کے لیئے جا رہا ہوں جو چاہے میرے ساتھ چلے اور حج کے ارکان سیکھ لے؟ وہ مدینہ منورہ کے باہر ایک مضافاتی مسجد میں تشریف لا ئے اور دوسرے دن عازم سفر ہوئے۔ اس میں پہلی تبدیلی تو یہ ہوئی کہ سب لوگ دو کپڑوں میں تھے جسے احرام کہہ رہے تھے ،اور حجاج کرام قریش کے مخصوص لباس میں ملبوس نہ ہوئے۔ باقی جیسا حضور (ص) ہر قدم پر عمل فرماتے رہے سب اتباع کرتے رہے۔ جس کو تفصیل سے تمام سیرت نگاروں نے لکھا ہے جس میں یہ احقر بھی شامل ہے جوکہ بہت طویل ہے وہاں پڑھ لیں؟
سب سے اہم تبدیلی ، یہ ہوئی کہ یہاں اب اپنی اور اجداد کی بڑائی کے بجا ئے صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی بڑائی اختیار کی گئی، لباس ایک ہوا مقامات ایک ہو ئے، لغویات کو ترک کرنے کا حکم ہوا۔ لعو لہب ختم ہوا۔ “ وقوف عرفات “حج کا لازمی رکن قرار پایا اور حج کا دن سن ِ ہجری میں ذالحجہ کا نوادن دن مقرر ہوا جبکہ سال ہمیشہ کے لیے بارہ مہینہ کا قرار پایا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جو صاحب استطاعت تھے ان پر حج فرض ہواِ مگر اس کافیض صرف ان تک ہی محدود نہیں رہا ،جو صاحب نصاب تھے ، جو نہیں تھے ان کے لیے اس کے متبادل دو عیدوں میں سے ایک عید انہیں دنوں میں عطا کردی گئی سوائے حج کے کیونکہ وہ رحیم ہے اور کسی کو بھی اپنی رحمتوں سے محروم نہیں رکھتا؟
لیکن ہم چودہ سو سال گزرنے بعد اس پر قائم نہ رہ سکے؟ کیونکہ وہاں پر مفاد پرست دوبارہ غالب آگئے ۔ جہاں کوئی امتیاز نہ تھا وہا ں پھر وہی امتیازات پیدا ہو گئے۔ وہ لاکھوں غریب جو حرم کو چاروں طرف سے اس لیے اسے گھیرے رہتے تھے ۔ کہ حضور (ص) نے فتح مکہ کے موقعہ پر مکانو ں کا کرایہ حجاج کرام سے اپنی مرضی کے مطابق وصول کرنے سے منع فرماد یا ۔ اور اس کے نتیجہ میں وہاں لوگوں نے اپنے دروازے حجاج کرام کے لیے کھولدیئے تھے ؟ان کی دیکھا دیکھی تمام دنیا کے والیان ریاست اور صاحب استطاعت لوگوں نے حرم کے اطراف میں مسافر خانے جنہیں رباط کہاجاتا بنا کر غرباءکے لیے وقف کر دیے جو ان سے بھرے رہتے تھے، اب ان کی جگہ ہوٹلوں نے لے لی ؟ تاکہ روساءکو پیدل چلنے کی زحمت نہ ہو؟ اور غریب اتنی دور چلے گئے ہیں کہ مت پوچھیے ؟ یہ ہی وجہ ہے کہ اب حج میں مشقت اشرافیہ کے لیے نہیں رہی لہذا جب وہ لوٹ کر آتے ہیں تو بجا ئے تقویٰ کے حصول میں منازل طے کرنے کی بات کرنے کے،وہاں جو انہیں پیسہ کے زور پر سہولیات میسر تھیں اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسکا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ وہاں بڑا “ فن “ تھا۔ جبکہ خطبہ حج جو کبھی صرف اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے لیے مخصوص تھا اب اس میں بھی بادشاہ سلامت کا بھی ذکر ہوتا ہےِ۔ اسلام کا یہ اجتماع جو ان اجتماعات میں سب سے بڑا ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے امہ کو عطا فرما ئے ہیں ۔ جس میں حکم ہے کہ اگر دو آدمیوں ہوںتو اس میں سے ایک کو امیر بنالو تاکہ وہ امامت کرے ، پھر روزمرہ کے اجتماع، محلے کی مسجدیں اور ہفتہ میں جمعہ بڑی مسجد میں عبادت ۔پھر سال میں ایک بین الاقوامی اجتماع حج کی شکل میں ؟ اس میں ایجاد بندہ یہ ہے کہ اس میں عبادت کے سوائے حجاج اور کوئی بات نہ کریں ورنہ گرفتار کرلیئے جائیں گے اور پھر پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کہاں گئے؟ جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ “ اوقات ِ عبادات کے علاوہ تجارت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے “ نقصان امہ کا یہ ہوا کہ وہ درپش مسائل کو وہاں زیرِ بحث نہیں لاسکتی ؟ اور حج کے پورے فضائل حاصل نہیں کرسکتی ؟ جبکہ دین کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان کا ہر فعل بشمول سیاست اسلام کے مطابق ہو ؟ اللہ ہمیں دین کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) جبکہ دوسری طرف مسلمان من حیثیت ا لقوم لعو لہب کو ہی دین سمجھنے لگے ہیں حرام مال ہے اور دکھاوا ہے،منڈیوں میں قیمتی جانوروں کے آگے رقاسائیں ناچتی ٹی وی پر دکھائی جارہی ہیں،پوری قوم بجائے عبادت کے گوشت کھانے میں مصروف ہے؟ ان کے نمائندے عوام سے بہت ہی سادگی سے پوچھ ر ہے ہیں کہ سنت ابراہیمی کی کو ئی شق باقی تو نہیں رہ گئی ؟ کاش ! وہ یہ طنز یہ کہتے تاکہ جو عامل ِ قرآن وسنت ہیں ان کو خوشی ہوتی ۔انا للہ و انا الیہ راجعون ہ
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے