اتنی بلندی اورایسی پستی ۔۔۔از ۔۔۔ شمس جیلانی

اتنی بلندی اورایسی پستی ۔۔۔از ۔۔۔ شمس جیلانی
پانا  مالیکس پر وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف صاحب کا رد ِ عمل دیکھ کر ایسا محسوس ہو تا تھا کہ قرون اولیٰ کا دور واپس آگیا ہے، اس کی وجہ ان کی وہ رضاکارانہ پیش کش تھی کہ آؤسب سے پہلے میرا احتساب کرو! اگر وہ اس پر قائم رہتے تو قوم کی آنکھوں تارا بن جاتے ۔پھر اس قوم سے یہ بعید نہ تھا کہ وہ انہیں “امیر المونین“ بھی مان لیتی اورانکی وہ خواہش بھی پوری ہو جاتی جو مدتوں سے ان کے دل میں تھی ۔ کیونکہ انکا خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا انہیں ان بلندیوں پر لے گیا تھا جو صرف خلفائے راشدین کا طرہ متیاز تھا ان کے بعد معدوم ہوگیا ۔ ہر انسان کے ساتھ ازل سے شیطان لگا ہوا ہے ۔ اسے ذرا سا موقعہ ملا نہیں اور وہ اس خوبصورتی سے بہکا تا ہے۔ کہ انسان کے جد ِ امجد حضرت آدم (ع) اس سے نہیں بچ سکے ؟ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ہر مومن کی روز نئی شان ہو تی ہے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہونا چاہیئے۔ مگر وہ بہتر جبھی ہو تی ہے کہ انسان اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہو ئے ہر تحریص سے بچ کر نکل جا ئے۔اور شیطان کتنے ہی سبز باغ دکھا ئے اور وہ اس کی سنی ان سنی کردے ؟ بہت سے لوگ بہت کچھ کہتے رہے کہ اس کے پیچھے یہ ہے اور وہ ہے ۔ مگر ہم تو اس کے قائل کے ہیں کہ اپنے ہر مسلمان بھائی کے لیے اپنے دل میں خوش گمانی رکھو ، بد گمانیوں سے بچو کہ وہ گناہ کی طرف رہنمائی کر تی ہیں اورجہنم کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ ابھی برے وقتوں سے گزر کر آئے ہیں ۔ ایک دو دن نہیں کئی سال جلا وطنی میں گزارے اور جلا وطنی بھی ایسی جگہ کہ جہاں جانے کی آرزو ہر مسلمان دل میں رکھتا ہے۔ وہاں جنہیں حج مبرور میسر ہو جا ئے تو لوگ پورے کہ پورے بد ل کر آتے ہیں ۔ شیطان سے فرشتہ بن جا تے ہیں ۔ ہم نے جب ان کے صاحبزادوں کو ہر بات پر الحمداللہ ٹی وی پر کہتے سنا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ وہ نہ خود بدل گئے ہیں بلکہ اپنی اولاد کی بھی اصلاح کر لی جبھی تو وہ بھی بات بات  پرالحمد للہ کہہ رہے ہیں۔ مگر نہ جانے کیا ہوا کہ جب تجزیہ نگار پیچھے پڑے تو ان کے بیانات میں تضاد پر تضادنظر آئے۔اور اس کے بعد سے وہ ٹی وی  پر بھی  نہیں آئے اور وزیر اعظم  بھی  دوروں پر باہر رہنے لگے۔ جبکہ چند دن پہلے تو حد ہو گئی کہ بجا ئے احتساب کے لیئے خوشی خوشی خود کو پیش کرنے کہ انہوں نے یہ فرما دیا کہ پنا ما لیکس میں لگا ئے ہوئے الزامات کا جواب دینا بھی میں اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہوں۔
جبکہ لوگ توقع یہ کر رہے تھے۔ کہ وہ اگر حضرت عمر (رض)  کے رویہ کو اپنا تے ہوئے بیٹوں کو اپنی صفائی میں سامنے لا ئے ہیں۔ تو وہ اس معاملہ میں کردار بھی ویسا ہی رکھیں گے جیسے ان کہ صاحبزادے حضرت عبد اللہ(رض) بن حضرت عمر (رض) نے ادا کیا کہ“ جب لو گوں نے بھری مسجد میں پوچھا کہ سب کے حصہ میں ایک ایک چادر آئی تھی اور وہ اتنی چھوٹی تھی کہ کسی کا پیرہن اس میں نہیں بن سکا تو آپ کا کیسے بن گیا“ حضرت عمر (رض) جو کہ بہت ہی غصے والے مشہور تھے۔ نہ وہ بگڑے نہ انہوں نے مہلت چاہی وہیں منبر پر کھڑے کھڑے اپنے صاحبزادے کو فرمایا بیٹا تم ان کو ان کے سوال جواب دو؟ وہ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں نے اپنی چادر بھی با با دیدی تھی“اس معاملے کو ایک منٹ سے بھی کم کا عرصہ لگا کہ حضرت عمر (رض) پرالزام لگا بھی اور ختم بھی ہو گیا؟ اور وہ اپنے اس عمل سے جوکہ پہلے ہی “ عظیم “ تھے، عظمتوں کی اس بلندی پر پہو نچ گئے جو ان کے بعد کسی اور کو حاصل کرنا مشکل تھی۔ یوں تو ہر آنے والے نے حضور (ص) کے  بعدایک ہی بات کہی کہ مجھ سے وہ توقع نہیں رکھنا جو کہ میرے پیش رو نے سے رکھتے کہ وہ ایسی مثالیں چھوڑ گئے ہیں کہ میں تمہاری توقعات پر پورا نہیں اتراسکونگا ؟ سب سے پہلے یہ الفاظ خلیفہ منتخب ہو نے کے فوراً بعد حضرت ابو بکر (رض) نے فرما ئے! کہ“ میں اگر قر آن اور سنت کے مطابق کوئی حکم دوں تو ماننا اور اگر اس کے خلاف ہو تو مجھے روکدینا ! نیزمجھ سے وہ توقع مت رکھنا جوکہ حضور (ص) سے اس لیے کہ وہ نبی (ص) تھے ان پر وحی آتی تھی ؟ پھر پہلے دن جب کپڑا بیچنے وہ بازار کی طرف تشریف لے چلے تو یہاں ایک روایت تو یہ ملتی ہے کہ لوگوں نے کہا کہ“ آپ اپنے لیے کچھ بیت المال سے مقرر کرلیں ۔ دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے کہا اگر آپ کپڑا فروخت کر یں گے؟ تو پھر سب آپ ہی سے لیں گے اوروں کا کا روبار ٹھپ ہوجائے گا۔ انہوں نے ان کا کہامان لیا اور وہ بیت المال سے اتنا باکراہیت لیتے رہے جس سے کہ بمشکل انکا گزارا ہو تا تھا۔ پھر جب ان کا آخری وقت آیا تو پہلے تو یہ حساب کیا کہ اب تک انہوں نے کتنی رقم بیت المال سے اپنے خرچے کے مد میں لی ہے؟ جوکہ ایک روایت کے مطابق پنسٹھ ہزار بنی اس کے لیے حکم دیا کہ میری فلاں جا ئیداد فروخت کرکے ادا کر دی جا ئے؟ ااس کے بعدحضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کہ حضور (ص) کی تکفین میں کئے چادریں استعمال ہو ئی تھیں؟ انہوں بتایا تین۔ فر مایا ایسا کرو! میرے پاس چار چادریں ہیں دو میں اسوقت پہنے ہو ئے ہوں ، دو دھلی رکھی ہیں ،دو وہ لیلو اور ایک بازار سے منگوالو؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرما یا کہ ہم تینوں ہی کیوں نہ نئی خرید لیں؟ فرما یا نہیں نئے کپڑوں کی مرنے والے کے مقابلہ میں زندوں کو زیادہ ضرورت ہے؟ ان کے سامنے حضور (ص) کی زندگی عملی زندگی (اسوہ حسنہ تھا) لہذا انہوں نے خود کو خلافت کے لیے بطور  امیدوارپیش نہیں کیا کہ وہ حدیث انکے سامنے موجود تھی کہ  “عہدوںکی جوخود خواہش کرے وہ خائن ہے “ انہوں نے بنی سقیفہ بنی ساعدہ میں سب کے سامنے حضرت ابو عبیدہ (رض) بن الجراح کا اور حضرت عمر (رض)نام پیش کیا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرلو! جبکہ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر(رض) کا نام پیش کرکے بیعت کرلی س طرح سے حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ منتخب ہوئے اور انہوں نے اپنے پورے دور ِ خلافت میں کہیں بھی اسوہ حسنہ سے رتی بھر اختلاف نحراف نہیں کیا۔ جبکہ حضرت عمرکو  انہوں نے ان کی صلاحتیں دیکھتے ہوئے اپنا جانشین نامزدکر دیا۔اور انہوں نے بھی ان کی راہ پر چلتے ہوئے جو بیت المال سے خرچہ کے لیے لیا اور اپنے آخری وقت میں اپنی جائداد فروخت کر کے واپس کردیا وہ بہت ہی با کمال انسان تھے، تفصیلات بہت ہیں وہ ان کی سیرت میں جاکر پڑھیئے ۔مختصر یہ کہ ان کے عدل، اور فلاحی مملکت کے عمل کو اپنا کردنیا نے فلاح حاصل کی۔ طرز حکمرانی یہ تھا کہ ان کے دور میں قحط پڑگیا تو انہوں نے شہد کھانا چھوڑدیا کے یہ عام لوگوں کو نہیں مل رہا ہے اور یہ فرمایا کے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جا ئے تو بھی عمر  (رض)قیامت کے دن اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔؟ اب تیسرے خلیفہ کی انتخاب کی بات لے لیجئے، انہوں نے اپنے آخری وقت میں فرمایا کہ حضرت ابو عبیدہ (رض) بن الجراح حیات ہوتے تو مں انہیں نامزد کردیتا ! اسوقت جولوگ ان کے پائے کہ موجود ہیں ان پر مشتمل ایک بورڈ بنا ئے دیتا ہوں؟ جس میں ان کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عمر اپنے تقویٰ  کی بنا پر شامل تھے ؟ مگر مشروط کہ ان کو خلیفہ نہیں  بنایا جاسکتا؟ “ اور عمر ہی اس خاندان میں خلافت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی ہے “۔حضرت ابو عبیدہ (رض) بن الجراح کے بارے لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ حضور (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی اس درخواست پر کہ “ ہماری طرف کسی ایماندار آدمی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے مقرر فرمادیں“ تو حجور(ص) نے یہ فرماکر ان کو اس عہدے پر مقرر فرمایا کہ “ ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے ؟میری امت کے یہ امین ہیں“ان کا اسوہ حسنہ  (ص)پر عامل ہونے کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے سب کی کوششوں کے باوجود وہیں رہ کر جان دیدی کہ “جہاں طاعون پھیلا ہو وہاں سے کو ئی شخص دوسری آبادیوں میں نہ آئے اور نہ جائے  “ ا انہوں نے پانچ میں سے دو امیدواروں کو نامزد کردیا ، جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت عثمان (رض)۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو الیکشن کمشنر بنا دیا اور انہوں نے جہاں تک وسائل میسر تھے ہر ایک سے رائے لی جن میں خواتین بھی شامل تھیں؟ اکثریت نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حق میں فیصلہ دیا ۔انہوں نے مسجد میں جاکر انکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اعلان کردیا کہ“ آپ اللہ اور رسول(ص) اور شیخین  کے اتباع پرمیرے ہاتھ پر بیعیت کرتے ہیں؟۔حضرت علی  کرم اللہ وجہہ  نے فرمایا میں اللہ اور رسول (ص) کے اتباع پر بیعت کرنے لیے تیار ہوں مگر شیخین کے اتباع پر نہیں، اس پر میں ا پنا  حقِ اجتہاد استعمال کرونگا۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر عثمان یہ شرط مان لیں توکیا آپ ان کے ہاتھ پر بیعیت کرلیں گے؟  توانہوں نے فرما یاکہ ہاں! حضرت عثمان (رض) یہ شرط مان لی اور سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بعیت کرلی۔  “وہ بہت مالدار تھے، انہیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ “ انہوں بیت المال سے کچھ نہیں لیا۔خارجیوں نے انکامحاصرہ کرلیا۔انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ “ حضور (ص) خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ “ اگر تم لڑوگے تو اللہ کی طرف سے نصرت کی جائے گی اور فتح یاب ہوگے“  ورنہ شام کو آکر ہمارے ساتھ روزہ افطارکرو ؟ انہوں نے روزہ افطارنے کو ترجیح  دی اور سب کو منع کردیا کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی خون میرے وجہ سے بہے اور وہ شہید ہو گئے ۔ اب سب کی نگاہیں آخری امین کی طرف لگی ہوئی تھیں،کیونکہ انکو اور ان کی اولاد کو حضور (ص) نے قیام ِ “ خم غدیر “ میں امت پر نگراں بنایا تھا۔ وہ شروع سے دن سے خلافت کا بار اٹھانے سے گریزاں رہے ۔ پہلے تو حضور (ص) وصال پر حضرت عباس (رض) نے کہا کہ چلو بنی سقیفہ بنی ساعدہ چلیں شاید ہمارا کام بن جا ئے؟ انکا جواب یہ تھا کہ چچا آپ تشریف لے جا ئیے میں حضور (ص) کے پاس رہونگا، اس کے بعد انہوں نے حضرت عمر (رض) کے انتخاب پر جو تقریر فرمائی وہ دیکھئے؟ حضرت عثمان (رض) کے انتخاب پر بھی انہوں نے انکار کیا؟ اس کے بعد اب کوئی تیار ہی نہیں تھا کہ اس بار کو اٹھا سکے ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ مدینہ سے باہر باغ میں چلے گئے۔ وہاں بھی لوگوں نے تلاش کرلیا اور جب بہت مجبور کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تین دن تک خلافت کو کھلا رکھو اگر کوئی اور تیار ہوجا ئے اس کو منتخب کرلو جب اس کے بعد بھی کوئی تیار نہیں ہوا تو انہوں یہ ذمہ داری قبول فرمالی ؟ انکا طرز حکومت کیا تھا کہ وہ یہ کہ جب ان سے کوفہ پہونچنے پر درخواست پیش کی گئی کہ دارالخلافہ میں قیام پذیر ہوں ۔ تو جواب ملا کہ میں فوج کے ساتھ ہی رہونگا ۔ جبکہ غذا وہی سوکھی روٹی رہی، بیت المال سے صرف چراغ جلانے کے لیے تیل لتے تھے روزمرہ کا حساب کتاب لکھنے کے لیے؟ اس دوران بھی کوئی دوست ملنے آجائے توپہلے چراغ  گل کردیتے پھر بات کرتے تھے۔ ان لوگوں سوال ہے کہ جو “ امیر المونین بننا چاہتے ہیں وہ ان میں سے کس کے پیروی   کریں گے  یہ پہلے طے کرکے امت کو بتادیں۔ کیونکہ امت کے آئیڈیل یہ ہی ہیں۔ ورنہ کوئی تسلیم نہیں کریگا۔ زبردستی کی بات اور ہے(نوٹ۔ میں نے مندرجہ بالا مضمون کی تیاری میں حضرت ابن ِ کثیر (رح) کی تاریخ ِ اسلامی پر کتاب “البدایہ والنہایہ نامی سے سارے واقعات لیے ہیں مزید تحقیق کے لیئے اسی میں پڑھ لیں)۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.