اس وقت تین جما عتیں ہیں جو مہاجروں کی نما ئند گی کی دعویدار ہیں۔ اس میں پہلی تو وہ ہے جس کا لیڈر مدتوں سے کراچی والوں کے دلوں پر راج کر رہا ہے جبکہ اس نے مہاجروں کے لیے کیا کچھ بھی نہیں۔ صرف ا ن کے نام پر وہ اورانکے ساتھی راج کرتے ر ہے۔ مگر لوگ ہیں کہ ان کے تابوت کو بھی پوجنے کے لیے تیار ہیں ۔اگر انہوں نے کچھ کیا ہوتا تو پھر تو نہ جانے وہ کیا کرتے؟ جبکہ یہ جماعت عالم وجود میں آئی ہی اس لیے تھی کہ بقول ان کے مہاجروں کے ساتھ سندھ میں بڑی زیادتی ہورہی تھی اور انہیں انکا حق دلانا تھا؟ جبکہ قدیم سندھی خود کہہ رہے تھے کہ جب تک ون یونٹ رہا ہمارے ساتھ بہت نا انصافی ہو تی رہی ۔حالانکہ ون یونٹ بنا نے والوں کا مقصد انتہائی نیک تھااور وہ پاکستان کو بچانا چاہتے تھے۔ لیکن اس وقت بھی توڑنے والی طاقتیں کامیاب رہیں اور ملک ٹوٹ گیا؟ون یونٹ کے بجا ئے چار صوبے بن گئے ، سندھ ، بلوچستان ، سرحد اور پنجاب اس وقت بھی کچھ لوگ جو مشرقی پاکستان میں تھے وہ اس بات پر ڈتے رہے کہ ہم پاکستانی ہیں لہذا ہم بنگلہ دیش کی شہریت قبول نہیں کریں گے؟ جبکہ ویسٹ پاکستان جس کانام اب پاکستان ہو گیا تھا؟ وہ انہیں نہ پاکستانی ماننے کو تیار تھا ،نہ لینے کو تیار تھا؟ بھٹو صاحب نے اس خطہ کو 1973 ءمیں آئین دیکر اور ایک ملک بنا کر تمام دنیا سے دوبارہ روشناس کرایا؟ اس دن وہ بہت خوش تھے جس دن کہ آئین سے غداری کرنے اور اس میں معاونت کرنے والوں کی لیے سزا ئے موت کی دفعہ دستور میں شامل کی تھی؟ انہوں نے اسی دن پریس کانفرنس میں فرمایا کہ اب کبھی اس ملک میں مارشلا ءنہیں لگے گا اور اگر کسی نے کوشش کی “تو میں انڈیا سے ٹینک پر بیٹھ کر آؤنگا“ جنرل ضیاءالحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ لیا جس کو کہ وہ اپنا خاص آدمی سمجھ کر لائے تھے۔ اور ان کی یہ حسرت اور جملہ اخباروں کی آرکائی میں ابھی تک کہیں پڑا ہوا سڑرہا ہوگا کہ “ وہ انڈین ٹینک پر بیٹھ کر آئیں گے“ ۔مگر وہ آنے والوں کو یہ راہ دکھا گئے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟ اور اس کے بعد سے بقیہ پاکستان کے غیر مطمعن خطوں نے انڈیا کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور انڈیانے ان علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کا جال بچھایا تاکہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالکر اپنی بڑائی منوا سکے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ بھارت کا یہ مطمح نظر کبھی نہیں رہا کہ وہ پاکستان پر قبضہ کرلے یا پاکستان کا کوئی بھی تکڑا بھارت میں شامل کرلے ؟ وہ ہمیشہ سے صرف یہ چاہتا ہے کہ اسے بھوٹان کی طرح علاقے کے تمام ممالک اپنا لیڈر تسلیم کر لیں جو کہ نہرو کا ہمیشہ سے خوا ب تھا۔ اس لیے کہ آج کے دور میں کسی آزاد ملک کو نوآبادی بنانا ممکن نہیں ہے۔دوسرے پھر ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے ہند ؤ ں کاراج قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ ہمیشہ کے لیئے مسلمان اور نیچلی ذات کے ہندو ملکر حکومت بناتے رہیں گے جبکہ دونوں کاتناسب ملکر اُس وقت پچاس فیصد تھا اب ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہے ۔میرے دعوے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے پاکستان کو تودو لخت کر دیا لیکن بنگلہ دیش پر اور مغربی پاکستان کے کچھ حصے پرقبضہ کرنے کے باوجود اپنی فوجیں دونوں جگہ سے واپس بلالیں؟ ورنہ مجھے کوئی یہ بتائے کہ وہ دوسری وجہ کیا تھی جو وہ بنگلہ دیش سے چلاگیا ؟ کیا اس لیے کہ وہ بہت بڑا انصاف اور جمہوریت پسند تھا یا وہ دنیا سے شرماتا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر کشمیر کے مسئلہ پر وہ اپنی جگ ہنسائی کے لیے کیوں تیار ہوا اور اب تک ڈٹا ہوا ہے؟ چونکہ میرا آج یہ موضوع نہیں ہے۔ لہذا یہ میں اپنے ذہین قارئین کو سوچنے کے لیے چھوڑتا ہو ں۔ اور اصل موضوع پر واپس آتا ہوں۔
اس میں دورائیں نہیں ہو سکتیں کہ الطاف حسین کراچی یونیورسٹی میں فارورڈ بلاک کے لیڈر بننے کی کوششیں کرتے رہے مگر کراچی کے ہی نہیں ملک کے تمام تعلیمی اداروں پر جماعت اسلامی قابض تھی لہذا ان کی والدہ محترمہ نے انہیں اپنے دوسرے بیٹے کے پاس شکاگو بھیجدیا جہاں وہ ٹیکسی چلانے لگے ۔ وہیں سے کچھ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب یہ واپس آئے تو سرکاری میڈیا نے ا ن کو اتنا اچھالا کہ وہ مہاجروں کے لیڈر بن گئے؟ ان کانعرہ تھا کہ میں مہاجروں کو بنگلہ دیش سے لاؤنگا ،اسی بنیاد پر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ نواز شریف کی حکومت میں شریک ہو گئے۔ نواز شریف صاحب اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے کچھ مہاجروں کووہاں سے لا ئے بھی اوران کو پنجاب میں آباد کرنا چاہا جس پر وہاں شدید رد ِ عمل ہوا ؟ بعد میں وہ لوگ وہاں رکنے کے بجا ئے کراچی واپس آگئے، جو کہ پہلے ہی سے سندھ کے لوگ کہہ رہے تھے کہ ایسا ہوگا۔ جس کانتیجہ یہ ہوا کہ الطاف حسین صاحب کراچی کے بے تاج بادشاہ بن گئے، اور جس نے بھی ان کی مخالفت کی وہ نہ جانے کہاں چلاجاتا تھا جس کاپھر پتہ نہیں چلتا تھا۔ اس کے بعد سالوں تک ان کا خوف دلوں پر اتنا غالب تھا کہ کسی بھی شعبہ کے لوگ ان کی مخالفت کرنے کی جراءت کر ہی نہیں سکتے تھے۔
اس کے باوجود کہ اب وہ دم خم ان میں نہیں رہا لیکن ابھی تک کراچی کے لوگوں کے دلوں سے خوف نہیں نکلا ؟حالانکہ بعد میں انہوں نے اپنی جماعت کا نام بھی تبدیل کرلیا اور مہاجر مہاذ کے بجائے یہ قومی متحدہ محاذ بن گئی۔لیکن ان کے اس دعویٰ کہ باوجودکہ وہ تمام پسماندہ طبقے کے نما ئندے ہیں اور ان کو “وڈیراشاہی کے چنگل سے نکالنا چاہتے ہیں“ انہیں وڈیروں کے ساتھ بیٹھ کر ہمیشہ حکومت کرتے دیکھا ، دوسری طرف وہ گاہے بہ گاہے مہاجروں کے کے بھی نمائندے بنے رہے کہ وہ انکا ووٹ بنک تھا؟ اس طرح دو چہروں کے حامل ہو نے کی وجہ سے وہ بقیہ ملک میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا سکے؟ مگر کراچی سے ان کی شہنشاہیت نہیں گئی ؟ جوکہ صرف خوف کی وجہ سے قائم رہی؟ سب سے پہلے جس شخصیت نے سر ابھارا وہ مصطفیٰ کمال تھے جوکہ اپنی خدمات کی وجہ سے کراچی میں مقبولیت رکھتے ہیں ۔ جو کہ کچھ ہی عرصہ پہلے ملک اور سنیٹری دونوں چھوڑ کر دبئی چلے گئے تھے؟ وہ واپس آئے اور انہوں نے اپنی جد وجہد کا آغاز بجا ئے غریب آبادیوں سے شروع کرنے کے ڈیفنس سے شروع کیا ؟ ان کے پیچھے کون ہے یہ کوئی نہیں جانتا؟ مگر لوگ اس پر غور کریں تو بآسانی اس کی جڑ تک پہونچ سکتے ہیں؟ صرف وہ اس سوال کا جواب اگر جاننے کی کوشش کریں کہ وہ دبئی میں کس کے پاس کام کر رہے تھے؟
کراچی پہونچ کر انہوں نے اپنے سابقہ قائد کی کھل کر مخالفت شروع کردی اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی پارٹی کانام پاک سرزمین پارٹی رکھا ، لیکن ان کی ذات میں ایسی کوئی مقناطیسیت ہے ضرور کہ ان کے ساتھ بہت سے قومی متحدہ محاذکے مبران اسمبلی تک اپنی سیٹیں چھوڑ کر آگئے۔ جسکا سلسلہ ابھی تک جاری ہے؟ ادھر الطاف حسین صاحب نے زمینی حقائق سمجھنے میں غلطی کی اور پاکستان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے لگے یہ ان کی آخری سیاسی غلطی تھی؟ جب انہیں احساس ہوا کہ زمین ہاتھ سے نکلی جارہی ہے تو ان کے ذہن میں وہ پرانا خیال عود کر آیا، جو ان کا پہلے سے آزمودہ تھا اور بعد میں پی پی پی بھی اپنے برے دنوں میں اسے آزما چکی ہے ۔وہ تھاکسی مقامی لیڈر کے نام سے پارٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرانا ۔ پی پی پی نے مخدوم امین فہیم کے نام سے پی پی پی کا پارلیمانی گروپ رجسٹرڈ کرایا اور فائیدہ اٹھایا مگر اسے چلاتی بینظیررہیں اور اب انکے جانشین، بظاہرجناب بلاول چلا رہے ہیں اور بہ باطن زرداری صا حب چلا رہے ہیں اور امین فہیم مرحوم کے صاحبزادے خلیق الزما ں کا کہیں ذکر بھی نہیں ہے ؟ یہاں بھی“ ایم کیو ایم الیکشن کمیشن کے پاس ڈاکٹر فاروق ستار کے نام سے رجسٹرڈ ہے“ لہذا سب کچھ الطاف صاحب ہی رہیں گے اور جب چاہیں گے وہ قبضہ کر لیں گے“ اس بات کو مصطفی کمال صاحب نے بھانپ لیا ہے اور فاروق ستار صاحب کو امتحان میں ڈال دیا ہے ،اب ان کے مستقبل کا انحصار ان کی ذہانت اور ان کے اس فیصلہ پر ہے کہ وہ کدھر جاتے ہیں ؟ دوسری طرف تازہ خبر لندن کے ایک مقدمہ میں انہیں با عزت بری کرواکر ایک بڑے یا کئی بڑوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ ان سے ڈرو، کیونکہ ابھی تک وہ ہمارے لیے کار آمد ہیں؟ اس کے بعد لندن کی رابطہ کمیٹی کے قیام کااعلان بھی آگیا ہے ۔اسی لیے ہم اپنے قارئین سے مستقل عرض کر رہے ہیں کہ دیکھئے اور انتظار فرمائیے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے