اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے ؟ اس لیے کہ ہمارے ہاں سچ بولنے کا رواج ہی نہیں ہے ۔اگر لوگ سچ بولتے ہوتے تو ہم جیسے باہر والوں کے لیے یہ فیصلہ کرنابڑا آسان ہوجاتا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم تو اپنے تجربہ کی بنا پر کچھ نہ کچھ پرکھ بھی لیتے ہیں، مگر ہماری نئی نسل جو یہاں پیداہوئی ہے وہ جھوٹ نہ بولتی ہے نہ جانتی ہے۔ جبکہ جو لوگ حکومت میں ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام نے حزب ِ اختلاف کو رد کردیا اوراس پر وہ عوام کا شکریہ ادا کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف حزب اختلاف والے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمیں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم لڑے نہیں ؟ اور یہ کہ جو لوگ شیخ رشید کو نہں پکڑ سکے، وہ کنٹینرز اور پولس کے سخت گھیرے کہ با وجود جلسہ کرکے چلےگئے وہ اور کیا کریں گے۔؟
چونکہ آج کل سب چیز کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوجاتی ہے! اس کے لیے دنیا کو دیکھنا آسان ہوجاتا ہے؟ ہم نے بھی ہاتھ پاؤں بندھے دیکھے جو محاورے کے اعتبارسے درست کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ پولس کو ہم نے دیکھا کہ لوگوں کوگرفتار کر رہی تھی، پولس وین میں بٹھاکر لے جارہی ہے ۔ سڑکیں بند کرے کھڑی تھی ۔ شیخ رشید صاحب کو دیکھا کہ ایک موٹر سائکل پر رومال لپیٹے لال حویلی کے قریب والے چوک میں تشریف لائے چونکہ ہونٹ ہلتے دکھا ئی دے رہے تھے، اسے ان کے دعوے کے مطابق تقریر بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ انہوں نے وہاں اپنا مخصوص سگار سلگایا اور پیا؟ یہ کیسے ممکن ہوا؟ وہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے ہمارے لیے نہیں؟ اس سے جو بات ثابت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ پولیس کے بڑے افسر حکومت ساتھ ہو سکتے ہیں؟ مگر چھوٹے نہیں جو کسی کو گرفتار کرنے کام آتے ہیں اور وہی ان کے ہاتھ پاؤں ہوتے ہیں؟ لہذا انہوں نے نہ شیخ صاحب کو آتے دیکھا نہ جاتے دیکھا ، جیسے کہ پولس اکثر اسوقت نہیں دیکھتی ہے جبکہ مفرور ملزمان بھی اسکے سامنے اپنی تقاریر کر کے چلسے سے چلے جاتے ہیں اور اپنی با قاعدہ انتخابی مہم بھی چلا تےہیں ۔ اس لیے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ پاکستان میں کون کب ان کا وذیر بن کر آجائے ،پھر ان کو اس کے زیر عتباب نوکری کرنی مشکل ہو جائے؟ اگر بات یہ نہیں ہے تو پھر یہ ماننا پڑیگا کہ چھوٹے افسروں کی ہمدردیاں حکومت کے ساتھ نہیں، بلکہ اپو زیشن کے ساتھ ہیں جو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جبکہ مرکزی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت یہاں تک چلی گئی کہ اس نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ وفاق کے ایک یونٹ کے انتظامی سربراہ ایک جلوس کی قیادت کررہے ہیں اورا س کا راستہ روکنے کے لیے پہلے تو ریت اور بجری کے ٹرک ڈالدیئے ،جب وہ اس سے بھی نہیں رکے تو کنٹینر ز کھڑے کر کے ان کو روکاگیا ، اور جب انہوں نے اس رکاوٹ کو بھی عبورکرنے کا ارادہ کیا تو بات آنسو گیس سے گزرتی ،ہوا ئی فائرنگ پر جا کر ختم ہو ئی ؟ یہ وہ نازک لمحہ تھا کہ اگر ذرا سی بھی غلطی کوئی کر جا تا، تو وفاق کو شدید نقصان پہنچتا ۔ کیو نکہ یہ اس علاقے کے لوگ تھے ۔ جنہیں شروع سے ہی پنجاب سے شکایات تھیں وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے ہی ایک مہاراجہ کی حکومت سے گذر چکے تھے جسکا تخت لاہور تھا اور انہوں نےبمشکل اس سے جان چڑھائی تھی اسی دوران انہوں نے جنگ آزادی بھی لڑی جس میں وہ ناکام ہوئے اور مولانا سید احمد (رح) اور حضرت اسمعٰیل (رح) شہید ہوئے۔ بعد میں پھر جب انہیں اللہ اور رسول (ص)کے نام پر مولانا شبیر احمدعثمانی (رح) اور ان کی قیادت میں دوسرے علماءاور علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا نے گاؤں ،گاؤں جاکر سمجھایا تو وہ ریفرینڈم کے ذریعہ پاکستان میں شامل ہو نے پر راضی ہو گئے۔ اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کانگریس کی حکومت تھی اور خان عبد الغفار خان جو سرحدی گاندھی کہلاتے تھے ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب صوبائی وزیر اعظم تھے۔ اب چونکہ وہاں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں جب فیصلہ دیدیااور ان کی حکومت اسے تسلیم کرتے ہو ئے مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھا رہی تھے، تو انہیں معاف کرکے ایک موقعہ دینا ضروری تھاجو کہ جمہوری طریقہ تھا۔یعنی ان کی حکومت سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ آپ نئے حالات میں دوبارہ صوبائی اسمبلی سے ا عتماد کا ووٹ حاصل کر یں۔ اگر نہ کرپاتے تو وہ خود بخود حکومت کرنے کا قانونی جواز کھو بٹیھتے ؟ بجا ئے اس کے ان کی حکومت کو بر طرف کر دیا گیا اور یہ پاکستان کا واحد صوبہ تھا ،جس کو پاکستان بننے کے نتیجہ طور پر اپنے منخب نمائندوں سے ہاتھ دھونا پڑے اس کے بعد انہوں نے جو طرز ِ حکمرانی دیکھا وہ کچھ تابناک نہ تھا۔ جبکہ صرحد پار کا مسلمان ملک جس میں ان کا نصف قبیلہ آباد تھا، پہلے ہی سے ہندوستان کی گود میں تھا۔ وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام ِمتحدہ کی رکنیت کے لیے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ایسے میں ہمیں جو بہت ہی دانشورانہ قدم نظرآیا وہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی (رح) کا تھا، ( فسوس کہ انکی زندگی نے وفا نہ کی جو ایک اعلان کے ذریعہ انہوں نے قدم اٹھایا تھا پائے تکمیل کو نہیں پہونچا ورنہ وہ ان کے دل بھی فتح کرلیتے جیسے علاقے کو دو سو سال میں انگریز فتح نہیں کر سکا وہاں سے یہ کہہ کر فوج ہٹالی) کہ “ اب پاکستان بن چکا ہے یہ حکومت تمہاری ہے، سرحدوں کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے “ اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ افغانستاں اور پاکستان کے درمیان پختونوں کا آزاد علاقہ ایک بفر اسٹیٹ بن گیا اور جو وقتی خطرا ت تھےوہ ٹل گئے۔ ایسی صورت میں جبکہ آپس میں غلط فہمیاں ہوں دل صاف نہ ہوں اس خطے کے لوگوں کو دوبارہ چھیڑنا کوئی دانداشمندانہ فعل نہ تھا۔خدا کا شکر ہے کہ جس نے یہ ملک بنایا تھا اپنی کریمی سے ہماری بد عہدیوں کے باوجود اسے ایک مرتبہ پھر بچا لیااور وہ خطرہ ٹل گیا کیسے ٹلا ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھاکہ پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ بنا نا چاہتا اس نے بنادیا، اور جب سے اب تک اس کو بچاتا چلاآرہا اس مرتبہ پھر بجا دیا۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا اپنے بھید وہ خود ہی جانتا ہے ؟ بظاہر جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ عدلیہ آڑے آگئی جس کی سر براہی اس خاندان کا ایک فرد کررہاہے ۔ جس کے سپرد ایک حدیث کے مطابق اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) ذریت کو مسلم امہ کی نگہبانی کا کام قیامت تک کے لیے سونپا ہوا ہے۔ اور وہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر تاریخ میں اس وقت متحرک نظر آئی ہے۔ جب سب ہمتیں چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو حضرت امام حسین (ع) اس کے آڑے آئے اور دین کو بچایا؟ اس کے بعد سے کوئی نہ کوئی انکی اولاد میں سے سامنے آتا رہا اور دین کو بچا رہا؟ جیسے کہ ہندوستان میں دین الہیٰ ا کبر شاہی کے مقابلہ میں حضرت احمد سرہندی (رح) ۔ اس مرتبہ بھی حضرت بابا فرید گنج شکر (رح) کے خاندان کا ایک فرد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بھیجدیا اور خطرات فل الحال ٹل گئے۔ جس کو کہ وقت ایک ایسے موڑ پر لے آیا تھا اور لانے والوں نے کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی، بس ذراسی چنگاری دکھانے کی دیر تھی کہ مراقش کی طرح آگ بھڑک۔ اٹھتی اور پھر بجھائے نہ بجھتی۔ جناب عمران خان صاحب نے اس پر یوم ِ تشکر منایا! بہت اچھی بات تھی۔ اگر ان کواس کوحدیث اور سنت پر عمل کرنے کے ساتھ منانا مشکل تھا ،جو کہ روز بروز مسلمانوں کے لیے مشکل ہو تا جارہا ہے اس کے لیے ان کا ماڈرن ازم مشکوک ہوتا ہے۔ تو بہتر تھا کہ اپنے اجداد کی روایات پر چلتے ہو ئے اس طرح جشن تشکر منا لیتے ، جیسے وہ مناتے تھے یعنی پہلے دو رکعات نماز شکرانہ ادا کرلیتے؟ رہے دوسرے کام ان کے لیے تو پورا دن پڑا تھا جوکہ آجکل پاکستانی کلچر کا حصہ ہیں۔ اس سے کم از کم دیکھنے والوں کو یہ تسلی ضرور ہو جاتی کے شاید قوم اس طرف آہستہ ،آہسہ واپس آتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اس پر ادبارآیا ہوا ہے اوراسے بلاؤں نے گھیرا ہو ا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے