وہ قربتیں یہ دوریاں ،ہا ئے ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

“ ہم بچپن سے ایک کہاوت سنتے آئے ہیں کہ سوسونار کی اور ایک لوہار کی “ اس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ ہمیں مت چھیڑو ورنہ ہم ایک ہی چوٹ میں تمہارا قصہ تمام کر دیں گے۔ اس لیے کہ سنار جو ہے وہ کھیلتا تو سونے اور جواہرات سے ہے مگر چھوٹی سی ہتھوڑی سے دن بھر کھٹ ،کھٹ کرتا رہتا تھا تب کہیں جاکر شام تک کچھ بنا پاتا تھا۔ جبکہ اس کے شو کیس پر اگر لوہار کاہتھوڑا پڑجائے تو اس کی سب جمع پونجی آنکھ جھپکتے ہی ختم کر دیتا تھا۔اس مثال سے طاقت والے کی طاقت ظاہر ہوتی تھی ،جبکہ سننار کی کھٹ کھٹ اس کی کمزوری کا مظہر تھی۔ ہم نے وہ دور دیکھا ہے کہ جب لوگ صرافہ بازار میں جوہری کی دو کان کے کونے میں بیٹھ کر لکڑی کے ہتھوڑے سے سونے اور چاندی کے ورق بنارہے ہوتے تھے ،جنہیں اس دور کے روساءطاقت کے حصول کے لیے حکیم جی کی تجویز پر استعمال کرتے تھے۔ حالانکہ اس کے طاقت بخش ہونے کی کوئی سند کہیں نہیں ملتی ۔ البتہ جدید تحقیق سونا انسان میں خودکشی کی رغبت پیدا کرتا ہے ویسے بھی ہر زر پرست انسانیت کے لیے مردوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہ مشکل تو وقت اور مشینوں نے آسان کردی کہ سونا چاندی اتنے مہنگے ہوگئے ،سونا تو تقریباً عوام اور خواص دونوں کی پہونچ سے باہر ہوگیا، چاندی بھی اسی حساب سے مہنگی ہوگئی، اس کے بجا ئے سیسے کا ورق مٹھائیوں پر زیادہ ترلگا ملتا ہے ، لوگ اسے کیوں کھاتے ہیں یہ مت پوچھیے؟ بس ہم سب رسم و رواج کے اسیر جوئے ہوئے۔ چونکہ پاکستان میں کوئی زیادہ صحت پرزور نہیں ہے؟ اس لیے وہاں انسانی خون میں سیسے کا تناسب نہیں معلوم ؟مگر ہندوستان میں مٹھائیوں کارواج سب سے زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہاں خون میں سیسہ کا تناسب بے انتہا بڑھ چکا ہے جس سے عجیب عجیب بیماریاں پیدا ہور ہی ہیں جو کہیں اور نہیں پائی جاتیں۔ لہذا ہندوستان جانے والوں کو کنیڈا کے ڈاکٹر وہاں کی مٹھائی کھانے منع کرتے ہیں۔ یہ بات ویسے ہی درمیان میں آگئی۔
زمانے کے ساتھ قدریں بدلتی رہتی ہیں ۔ پہلے مسلمان کہا کرتے تھے کہ ہمارے مسائل کا حل دین اسلام میں ہے اور اللہ سے دعا مانگتے تھے کہ ہمیں تو کوئی چھوٹا سااہی زمین کا تکڑا دیدے تاکہ ہم وہاں مثالی اسلامی حکومت بنا کر دکھا سکیں! کیونکہ وہ ایسا برا وقت تھا کہ دنیا میں کہیں بھی نام نہاداسلامی حکومت بھی نہیں تھی۔ میڈیا کا دور شروع ہوچکا تھا پروپیگنڈے کے زور پر بادشاہ گر جیسے چاہتے اسے بادشاہ بنا دیتے تھے۔ ایک قبیلے کے سردار نے وعدہ کیا کہ ہم خالص اسلام نافذ کریں گے اور ایک مولوی صاحب کو ہمنوا بنا لیا۔ اللہ نے ان کا پردہ فاش کرنے کے لیے کہ وہ بادشاہ بننے کے بعد کیا کریں گے، ان کو سونا اگلنے والی انتہائی مقدس زمین عطا فرمادی ۔ انہوں نے اپنے ہزاروں شہزادوں کو مالدار بنانے کے لیے ہر وہ کام کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا حتیٰ کہ غریب کے لیے حج کرنا ناممکن ہوگیا۔ پھر اقتدار کو مزید پائیدار بنانے کے لیے اپنے فقہ کو دنیا پر مسلط کرنا چاہا اور ہر ایک کو بدعتی کہہ کر اتنی نفرت پیدا کی کہ ن کے پروردہ اوروں کو ڈستے ، ڈستے خود انہیں کو الٹا ڈسنے لگے؟ اسی دور میں ہمارے یہاں بھی اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیئے ہندوستانی مسلمان بھی تحریک چلا رہے تھے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کہا لوتم بھی لو اورپاکستان کے نام پر دو تکڑے زمین کے دیدیےجو کہ ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور اور اسلامی اخوت کی وجہ سے مل گئے تھےکہ دیکھیں اب یہ کیا کرتے ہیں ۔ انہوں نے بھی تمام وعدے طاق میں رکھدیے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلے کیئے تھے کیونکہ انہیں اللہ کا قانون نافذ کرتے ہوئے شرم آنے لگی کہ یہ چودہ سو سال پرانا قانون ہے لوگ ہمیں دقیانوسی کہیں گے تلخیاں بڑھیں اور ایک حصہ الگ ہوگیا؟ بقیہ نصف بجائے اللہ پر بھروسہ کر نے کے ہم کہنے لگے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف ایٹم بم میں بنانے میں ہے ہم گھاس کھا ئیں گے اور ایٹم بم بنا ئیں گے۔ اللہ سبحانہ نے کہا کہ لو تمہارا یہ شوق بھی پورا کردیتے ہیں! حالات ایسے پیدا کردیے کہ دشمنوں کو آنکھیں بند کرنا پڑیں اور پاکستان کو ایٹم بم بنا نا آسان ہو گیا ؟مال اسقدر آیا کہ وہی بدمستیا ں یاد آنے لگیں جس میں پہلے حکومتیں کھوئی تھیں کہ دین اپنانے کے بجائے ہندوستانی کلچر کو اپنا کلچر کہہ کر فروغ دینے لگے یہ جانتے ہوئے کہ جو ان کے یہاں خوب ہے ہمارے یہاں ناخوب ہے ہمارا رب اس سے خوش نہیں ناراض ہوتا ہے ۔ عوام کی شاید عقلیں گھاس کہا گئی تھیں اور وہ یہ بھول گئے تھے کہ ہمیں تو پہلے ہی پیٹ بھرروٹی نہیں مل رہی ہے؟ اگر جو آدھی تہائی مل رہی وہ بھی ملنا بند ہوگئی تو گھاس بھی ملنا مشکل ہو جا ئے گی اس لیے کہ گھانس اگانے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پانی پر جو اوپر قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ روک لیں تو صرف بارش کے سہارے اتنی گھاس ہم اگا بھی سکیں گے؟ جتنی کہ اس وقت گھانس کی ضرورت ہوگی جب من حیثیت القوم سب گھاس استعمال کرنے لگیں گے؟ اور اس طرح موقعہ پرستوں کی چاندی ہوجا ئے گی جب وہ پانی کی بلیک کرنے لگیں گے۔ پھر اسی پر پڑوسی بھی بلیک میل کرنے لگے گا۔ مگر عوام کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان کی یاد داشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ انہیں کبھی یاد نہیں رہتا کہ کل کس نے کیا ،کیا، وعدے کیئے تھے جو اس نے پورے نہیں کیے،اب اس کے آنے والے کل پر ہم دوبارہ اعتبار پھر کر رہے ہیں ۔ گوکہ ہم ایٹمی طاقت بننے کے بعد لوہار وںکی صفوں میں شامل تو ہو جائیں گے۔ مگر ہماری ساری آمدنی آی ایم ایف والے لے جائیں گے اور جانے والے غیر ممالک میں اپنا گھر بنا کر ہاتھ میں کاسہ گدائی ہمیں دے جا ئیں گے۔ اگر کچھ رقم چھوڑ بھی گئے، تو ایٹم بم اور اس کی چوکیداری پر خرچ ہو جائے گی۔ یہ ہی صورت حال آجکل ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم بھی ہے اورجانے کیا کیا ہے۔ مگر صرف دھمکانے اور شیخی بگھار نے کے لیے ہے، اسکا ثبوت یہ ہے کہ لوگ روز شہید ہورہے ہیں ۔ پہلے ہمارے دفترِخارجہ کے ترجمان احتجاج کرتے ہیں ،پھر کوئی اور بڑا اس پر اپنا شدید رد عمل ظاہر کرتا ہے اور رسمی احتجاج کرتا ہے اگر مرنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو اورایک آدھ فوجی آفیسر بھی شہید ہوجا ئے تو پھر مجبوراً وزیر اعظم کو بھی لب کشائی کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح صاحب اقتدار جب بات بہت آگے بڑھے ہکے بعد دیگرے احتجاج کرتے رہتے ہیں ۔ اور بہت بات بڑھ جائے تو ہندوستان کے ہائی کمشنر کو بلاکر ایک زور دار احتجاج اس کی نذر کر دیتے ہیں ۔ لطف یہ ہے اس سے حکمرنوں کی ذاتی دوستیاں بالکل متاثر نہیں ہوتیں۔ انکا وزیراعظم سالگرہ کا کیک کاٹنے جب چاہے چلا ّآتا ہے اس کا ہم کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ خیال کریں یا نہ کریں ۔ مگر ہم اپنا اخلاق کیوں بگاڑیں آخر پڑوسی ہیں ۔ کاش کبھی ہمارے وزیر اعظم بھی اسی بے تکلفی سے جاکر دکھائیں اور عوام پر گولہ باری بند کراکر  واپس آئیں؟
اس کے برعکس ہمارے ایک پڑوسی نے دنیا کی دوسری سپر پاور کا حشر دیکھ کر جو پالیسی اپنائی ہے وہ یہ تھی کہ پہلے اپنی تجوریاں بھر لو، کیونکہ اب طاقت ایٹم بم میں نہیں ہے بلکہ معاشی خوش حالی میں ہے؟ اس نے اس پر عمل کیا اور وہ ہمیں پیچھے چھوڑ کر اس لیئے آگے نکل گیا۔کہ اس کی تجوری میں مال تھا۔ گھاس بھری ہوئی نہیں تھی ۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ ہم اس کے پیچھے چل رہے ہیں کل کیا ہوگا اور ہم بہ یک وقت کس کس کے پچھے چل سکیں گے؟ یہ وقت بتائے گا کہ بہ یک وقت کئی کی تابعداری میں ہمارا حشر کیا بنے گا۔ کیونکہ جو مال دیگا وہ اپنے مفادات دیکھے گا ہمارے نہیں ؟ پچھلا تجربہ یہ ہے کہ دنیا کو جنگوں نے برائیاں دیں۔ حالانکہ ہر جنگ بھلائی کے نام پر لڑی گئی۔ لیکن نتیجہ میں مہنگائی  اوربڑھی نفرتیں بڑھیں ۔  جنگ عظیم1939 سے پہلے رشوت کانام تک نہیں تھا لیکن صرف پانچ سال میں نودولتیوں کی فوج ابھر آئی اور رشوت کے بغیر اپنا حق بھی ملنا مشکل ہوگیا۔ اگر خدا نخواستہ تیسری چھڑ گئی تو آگے کیا ہوگا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.