چونکہ نام و نمود ریاکاری میں آتا ہے س لیے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فخرِموجودات فخرِ انبیاءمحمد مصطفی احمد مجتبیٰ (ص) کا دور ہمارے لیے مشعل راہ اور مثالی  ہے۔ اور دین وہی ہے جس پر ا نہوں (ص) نے عمل کرکے دکھایا۔ وہ کیسا تھاا یک مثال پیش ِ خدمت ہے۔ دنیا کی جو پہلی مسجد بنی جس میں خود سرکارِ دوعالم (ص) اور تمام صحابہ کرام بطور رضا کار کام کر رہے تھے۔ وہ کچے گارے اور کچی اینٹوں سے تعمیر ہورہی تھی۔ اس کا فرش مٹی کا تھا وہ بھی ہموار نہیں بلکہ ایسا تھا کہ نمازی سجدہ کرتے تو ان کے ماتھے میں کنکر چبھ جاتے تھے۔ گردو دھول سے ماتھے اٹ جا تے تھے۔ اوپر کجھور کے پتوں کا چھپر تھا جو بارش اور دھوپ سے بچا نے کی ناکام کوشش کرتا نظر آتا تھا۔ مینارہ اور گنبد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ یہ تھی مسجدِ نبوی (ص) جو کہ حرم کے بعد سب سے زیادہ مقدس اور محترم ہے اور قیامت تک رہے گی۔جہاں کہ ایک رکعت کا ثواب حرم کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ حرم میں سجدہ کر نے کا ثواب ایک لاکھ رکعات کے برابر ہے۔خود حرم شریف کا طول و عرض اور بلندی کیا ہے وہ جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تو فیق دی اور وہ وہاں گئے اور دیکھ بھی آئے ہیں ان سے پوچھ لیجئے۔کہ اس پر بھاری غلاف نہ پڑا ہو تو وہ ایک عام سی عمارت ہے جو کہ حضور (ص) کے مبعوث رسالت ہونے سے پہلے از سر نو تعمیر ہوئی تھی، لیکن تعمیر اس لیے ادھوری رہ گئی کہ سامان کافی نہ تھا اور حضرت ابراہیم (ع) کے خطوط پر بنا ئی ہوئی عمارت کا کچھ حصہ جسے حطیم کہتے ہیں بغیر چھت کے کھلا ہوا چھوڑ دیا گیا جو کہ آج تک اسی طرح کھلا ہوا ہے۔ جیسا کے حضور  (ص)نے اپنے دور میں چھوڑا تھا۔ اور عمرہ کرنے والے اورحجاج اس میں نوافل پڑھتے ہیں۔ان کے لیے بھی سوائے دو چادروں کے بدن پر اور کچھ نہیں ہو تا تاکہ سب میں سادگی اور یکسانیت رہے؟ حالانکہ آج کے حرم کے چاروں طرف شاہی محلات اور ہوٹل بن گئے ہیں مگر کسی کی جرا ءت نہیں ہوئی جو اس بیت العتیق کو تبدیل کر سکے؟ جبکہ مسجد نبوی بھی حضور (ص) کے زمانے سے لیکر حضرت ابو بکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے زمانے تک ویسی ہی ر ہی جیسی تھی۔ جبکہ حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں آبادی جب بہت بڑھ گئی تو اس میں توسیع ناگزیر ہوگئی تو تبدیلیاں وجود میں آئیں ۔ کیا یہ ا س وجہ سے  تھاکہ رقم کی کمی تھی۔؟ نہیں اور ہر گز نہیں حضرت عمر (ص) کے زمانے تک مال کی فراوانی اس قدر ہوچکی تھی کہ مدینہ منورہ میں کوئی زکات لینے والا نہیں ملتا تھا فوج کو با قاعدہ تنخواہیں اور عوام کو وظیفے وغیرہ ملنا شروع ہوچکے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی ان کی تربیت حضور (ص) نے فرمائی تھی۔ ان کے سامنے یہ آیت تھی کہ “ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں “ اس لیے سادگی ان کے مزاج میں رچ ، بس گئی تھی۔ وہ اپنے اوپر انسانی ضروریات کو ترجیح دیتے تھے اپنی جھوٹی شان و شوکت کو نہیں ۔ ان کے نزدیک بڑائی قرآنی تعلیمات کے مطابق عمارتوں میں نہیں بلکہ “تقوے “ میں تھی۔ اوراس نے انہیں باربار فائیدہ دیا اور دنیا کو مرعوب کیا۔ آپ نے بھی پڑھا ہو گا کہ ایک وفد مدینہ آتا ہے خلیفہ کی تلاش ہوتی ہے وہ ایک کھجور کے باغ میں سر کے نیچے کوڑارکھے محو استراحت ہیں ۔ دو سرا عظیم واقعہ وہ ہے کہ بیعت المقدس کی حوالگی کے لیے وہاں کے باشندوں طرف سے ایک انوکھی شرط رکھدی گئی ہے کہ ہم جب تک مسلمانوں کے امیر کو نہ دیکھ لیں اس وقت تک ا طا عت قبول نہیں کریں گے؟ حضرت عمر  (ص)امیر المونین ہیں وہ ا نسانی جانیں بچانے کے لیے جو بصورتِ دیگر جنگ کی نظر ہوتیں اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنا تے ہیں اور بہ نفس نفیس روانہ ہوجا تے ہیں۔ اونٹوں کی کوئی کمی نہیں تھی مگر یہ اسوہ حسنہ (ص) کے خلاف تھا کیونکہ حضور (ص) کے ہمراہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی اونٹ پر ہمراہ سوار ہوتا تھا۔ وہ ایک ہی اونٹ لیتے ہیں؟ جس پر باری باری ایک دن وہ نکیل پکڑ کر چلتے ہیں تو دوسرے دن انکا غلام، جب فلسطین کی فصیل کے قریب پہونتے ہیں تو نکیل پکڑ کر چلنے کی باری حضرت عمر(رض) کی ہو تی ہے؟ اس سے پہلے لشکر ِ اسلام کے تما م سپہ سالار آتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیے اور زرق برق پوشاک زیب ِ تن فرمالیجئے، کیونکہ یہاں کے ا میر شان و شوکت کو پسند کرتے ہیں اور اس سے ایک دوسرے کو مرعوب کرتے ہیں! وہ فرماتے ہیں نہیں،میں ایسے ہی جاؤ نگا جیسے کہ چل کر یہاں تک پہونچا ہو ں؟ فلسطین کے درویش اور علماءجن کی تعداد ہزاروں میں تھی قلعہ کی فصیل سے اس حالت میں ایک اونٹ کوآتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ دو اصحاب ایک جیسے لباس میں ملبوس تشریف لا رہے ہیں ایک اونٹ پر تشریف فرما ہیں اور دوسرے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے ہیں تو پوچھتے ہیں ان میں سے تمہار ے امیر کون سےہیں؟ تو جواب ملتا ہے کہ وہ جوکہ اونٹ کی نکیل پکڑے ہو ئے ہیں ؟ چونکہ ان کی روایات میں فاتح فلسطین کی یہ ہی پہچان تھی وہ بغیر لڑے بھڑے اطاعت اختیار کرلیتے ہیں ۔ ان تمام چیزوں سے واضح یہ ہوتا ہے کہ عزت دلوں میں ہوتی ہے مال وا سباب اور محلات میں نہیں اور وہ عطا بھی ا للہ سبحانہ تعالیٰ کرتا ہے؟ جس کو چاہے عطا کرے جسے چاہے نہ عطا کرے۔ جو وسائل کے ذریعہ عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرنے کا سامان پیدا کردیتا ہے کیونکہ وہاں پر ارشادِ باری تعالیٰ یہ ہے کہ “ جو لوگوں سے عزت چاہتے ہیں انہیں ذلیل اور خوار کردیتا ہوں “ آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ محلوں میں رہنے کے باوجود اگر کردار ویسا نہ ہو اور ان کی اپنی کرتو توں کی وجہ سے اللہ سبحانہ تعالیٰ انہیں عزت عطا نہ کرے تو آپ نے سنا بھی ہو گااور دیکھا بھی ہوگا کہ سب کچھ ہو نے کے باوجود لوگ عجیب عجیب ناموں سے انہیں پکارے تے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک رو چل نکلی ہے کہ مسجد ایسی ہو کہ دور سے دکھا ئی دے ،ہم نے اکثر منبروں سے اپیل اپنے کانو ں سے سنی کہ مسجد تو بن گئی ہے ، بھائیوں دل کھول کر چندہ دو اگر منارہ بھی شاندار بن جا ئے تو دور سے نظر آئے گا اور اسلام کی شان بڑھے گی؟
جبکہ اسلام کی شان ا ونچے میناروں سے نہیں بلکہ اس کے ماننے والوں کےا ونچے کر داروں سے ہمیشہ بڑھی ہے اور لوگ انہیں دیکھ کر مسلمان ہو ئے ہیں۔ ؟ وہ کلیہ یوں بدل نہیں سکتا کہ اسے سب سے پہلے یہ ہادیِ اسلام (ص)  نےاپنا یا پھر ان کے صحابہ کرام نے اپنایا ، اور انہیں دیکھ کر اولیا ئے عظام نے اپنایا۔ کیونکہ شاندار مسجد ااور سادی مسجد کاثواب برابر ہے وہ کم یا زیادہ نہیں ہے اور وہ ہے بنانے والوں کے لیے جنت میں ایک گھر ۔البتہ آج کے دور میں دیار ِ غیر میں مساجد جتنی نمایاں ہونگی ان کی حفاطت کامسئلہ ہو گا ۔کیونکہ مسلمانوں نے اپنے کردار بدل کر اور غیروں کے اسے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے آج کی دنیا ا سلامی فوبیا کا شکار ہوچکی ہے۔ اس سے متاثر ہوکرکوئی بھی پاگل اگر کسی مسجد میں جا کر فائرنگ شروع کردے یا کوئی خود ساختہ بم پھینکد دے تو نقصان کا احتمال ہے کسی فائدہ کانہیں۔  جب کنیڈا جیسے ملک میں  یہ ہوسکتا ہے جو کہ تارکین ِ وطن کی جنت ہے  تو پھر یہ ہی کچھ کہیں بھی ہوسکتا ہے؟اس معاملے پر غور کرتے ہوئے یہ دیکھئے کہ جذبات میں بہنے کے بجا ئے عقل ودانش کاتقاضہ کیا ہے۔ اپنے خلاف مزید نفرت کو بھڑکایا جا ئے یا کم کیا جائے؟ دنیا میں کہیں بھی نئے آنے والوں کو بہت زیادہ پھلتے پھولتے دیکھ کر مقامی لوگ کبھی خوش نہیں ہوتے۔ یہ میگا ٹائپ محلات جنہیں ہم دیار ِ غیر میں آکر بناتے ہیں ان پر کوئی اچھا تاثر مرتب نہیں کرتے ؟ اسلام نے تو ہمیں یہ سکھا یا ہے ۔ خود کھانے سے پہلے اپنے پڑوسیوں کے گھر کھانا پہنچادو، موسم کے نئے پھل خود کھانے سے پہلے ان کے گھر پہونچادو ! اپنے دروازے کے باہر پھلوں کے چھلکے مت پھینکوتاکے ہمسایوں میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ ایک طویل فہرست ہے جو اسلام نے ہمیں ہمسایوں کے حقوق بتائے ہیں وہ کرکے دیکھو؟ پھر وہی صورت ِ حال واپس آجا ئے گی جیسا کہ ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ ان کے پڑوس میں رہنے والا ایک شخص جوکہ مسلمان نہیں تھا وہ اپنا مکان فروخت کر رہا تھا مگر بازار سے اس کی قیمت زیادہ مانگ رہا تھا۔ اس سے جب وجہ پوچھی گئی تواس نے بتایا کہ یہ ایک مسلمان کا پڑوس ہے اس لیے اسکی قیمت زیادہ ہے۔ ذرا اسلام پر عمل کرکے دنیا کو دکھا ؤتو پھر دیکھو کہ لوگ تمہیں یہاں کس طرح خوش آمدید کہیں گے۔؟
میں ایک واقعہ بیان کر کے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں جو کہ اس وقت کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے میں نے سیکھا ہے۔ وہاں بھی اس زمانے میں آہستہ آہستہ یہ احساس بیدار ہو رہا تھا؟  بہاریوں کے خلاف نفرت جو پہلے سے موجود تھی بڑھ رہی تھی۔ اس پر جب میں نے تحقیق کی توپتہ چلا کہ اان کے خلاف نفرت کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بیروزگاری عام ہے جبکہ یہ ان کے پڑوسی تھے چھوٹے موٹے کام وہ آکر کرلیتے تھے یہ محروم رہ جاتے تھے ۔ جبکہ مارواڑی سیٹھ جو ان کی غربت کے اصل ذمہ دار تھے ان کی طرف ان کی نگاہ نہیں جاتی تھی ؟  میں نے ایک سیٹھ سے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے !تو اس نے بتایا کہ وجہ یہ ہے کہ “ ہم انہیں طرح رہتے ہیں ۔ جیسے وہ رہتے ہیں“وہ کیسے رہتے تھے۔ ان کی کل کائینات ایک دکان ہوتی تھی جہاں وہ لاکھوں کا کاروبار کرتے تھے اس میں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی بس ایک بیت کی بنی ہوئی چٹائی تخت پر بچھی ہو تی تھی۔ دکان کے پچھلے حصہ میں ان کا باورچی خانہ ہو تا تھا رات کو وہیں دکان کا دروازہ بند کر کے وہ سوجاتے تھے۔ جبکہ جو کچھ کماتے تھے مارواڑ بھیجدیتے تھے۔ جبکہ مہاجر جو کماتے ہیں اس سے زیادہ نام نمود پرخرچ کرتے ہیں ۔ جس سے ان میں احساس ِ محرومی پیدا ہوتا ہے؟ یہاں بھی یہ ہی صورت حال  ہےکہ عوام کو یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ تارکین وطن ترقی یافتہ ملکوں کی ضرورت ہیں کہ ان کے یہاں بچوں کی پیدائش کم ہو رہی ہے۔ بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ دوسری طرف  “یہ کمپوٹر ایج ہے“ جوکہ روز گارکو خاموشی سے نگلتی جارہی ہے۔ یوں پرانے باشندے نئے آنے والوں کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں؟ ایسے میں کوئی چیز آپ کی مدد کرسکتی ہےتو وہ آپ کے کردار میں تبدیلی ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.