) پرسوں جب ہم اپنے معمولا ت سے فارغ ہوئے جناب صفدر ھمدانی سے لندن بات کرنا چاہی؟ پتہ چلا کہ ابھی چند لمحوں پہلے لندن کی پارلیمان دھماکوں سے گزرچکی ہے۔ خبریں آرہی ہیں مزید تفصیل نہیں معلوم؟ ہمارے منہ سے ہمارا اپنا پرانا شعر جو کہ ہم نے کبھی کراچی کی صورت ِ حال پر کہا تھا بے ساختہ نکل کہ گیا کہ ع “ ناشتہ صبح تو لاشوں سے شروع ہو تا ہے آ ج کتنے ہیں مرے تازہ خبر کو دیکھو “مگر کیا لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے خالقوں نے کبھی یہ سوچا ہو گا کہ یہ “ بلا“ ایک دن لندن تک پہونچ جائے گی؟ اس میں سبق ہے ان کے لیے جو برائی کے موجد بنتے ہیں کہ “ جو کسی راہ میں کھودے کنواں خود گرے اس میں اور کھو وے اپنی جاں “ یہ جملہِ معترضہ تو یونہیں درمیان میں آگیا۔ لیکن لندن کی میڈیا کا صبر قابل ِ ستائش ہے اور اس کی داد دینا پڑے گی کہ اس دن کے بعدا یک رات بھی گزرگئی، مگر مزید خبریں نہیں ملیں۔ اور ہم دعا مانگتے رہے کہ خدا کرے کہ اس کے پیچھے کوئی دہشت گرد نہ ہو اور اگر ہو تو مسلمان نہ ہو اور اگر مسلمان ہو تو کم از کم پاکستانی باشندہ یا پاکستانی نزادنہ ہو؟ کیونکہ وہ کسی اورملک کا باشندہ ہو گا تو اسے صرف دہشت گرد کہا جائے گا اوراگر وہ پاکستانی ہوا تو اس کے ساتھ مسلمان دہشت گرد لکھا جا ئے گا۔ چاہیں اس کا اسلام سے دور دور کا واسطہ نہ ہومگر جرم اسلامی کہلا ئے گا؟ اس تاخیر کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حادثہ نہیں ہوا ! ہوا تو تھا،مگر یہ جانے کس مٹی کے بنے ہوئےلوگ ہیں کہ کسی خبر کی اس وقت تک تشہیر نہیں کرتے جب تک کسی نتیجہ پر نہ پہونچ جائیں ۔ حالانکہ یہ کبھی مسلمانوں کا وطیرہ ہوا کرتا تھا کیونکہ قرآن میں ایک آیت ہے کہ “ بلا تصدیق خبریں مت پھیلایا کرو پہلے کسی اولامر سے تصدیق کرلیا کرو، ممکن ہے کہ تم اسطرح کسی قوم کو نقصان پہونچانے کا باعث بنو ؟ اور ایک حدیث بھی ہے جس میں حضور (ص) نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھادے “ اور دوسری حدیث میں یہ بھی فرمایا کہ “ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے،مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا“ مگر آجکل تمام چیزوں کی طرح یہ سب بھی اوروں کے پاس ہے جو اس پر عمل کرکے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ اگر یہ واقعہ پاکستان میں ہوا ہوتاتو اب تک اتنی تفصیلات آجاتیں کہ خبر وں کو جمع کرکے ایک کتاب لکھی جاسکتی تھی، صرف سب سے پہلے خبر دینے کا کریڈٹ لینے کے لیے ، بس جو کچھ جس کے ذہن میں ہوتا وہ گڑھ لیتا اور پھر خبریں ہی خبریں چاروں طرف بکھری ہوئی ہوتیں کیونکہ معاملہ تھا لندن کی پارلیمان کا جو پارلیمانوں کی ماں کہلاتی ہے؟ لیکن لندن میں افواہیں پھیلانے کو غیر ذمہ دارانہ فعل سمجھا جاتا ہے ۔ نہ نام کاپتہ چلا نہ حملہ آور کی شہریت معلوم ہوئی دوسرے دن کہیں جاکر معلوم ہوا کہ وہ پیدا برطانیہ میں ہوا ور نام خالد مسعود تھا ۔
جبکہ پاکستان میں تو صرف ایک ہی قسم کی دہشت گردی ہوتی ہے۔ جو کہ اس نے خود ڈالر کے عیوض میں خریدی ہوئی ہے؟ جبکہ باقی دنیا میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی بہت سی قسمیں ہیں؟ مثلاً یورپ میں آئی ایم ایف کاجہاں اجلاس ہو رہا ہو وہاں جاکر لوگ مظاہرے کرتے ہیں ۔ یا جہاں آٹھ بڑوں وغیرہ جیسی کانفرنس ہورہی ہو تو وہاں مظاہرے ہورہے ہوتے ہیں اور وہاں دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ ہو تا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آجکل مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں صرف ایک ہی قسم کی دہشت گردی کا خطرہ ہے اور دوسری قسم کی دہشت گردیا ں اس کی گرد میں ڈھکی ہوئی ہیں اسی کا چرچا وہاں چاروں طرف ہے۔ باقی دنیا میں کیا ہورہا ہے جانے ان کی بلا کہ آئی ایم ایف اور بڑوں کے خلاف نفرت کیوں ہے؟ اس لیے کہ اِن کی سوچ بہت آگے تک کا سوچتی ہے؟ یہ دراصل سرمادارانہ نظام سے شاکی ہیں جہاں آمدنیوں میں زمین اور آسمان کافرق ہے اس پر طلم یہ کہ ہر روزہوس زر میں کچھ ملازمتیں یہ نظام کھا تاجا رہا ہے؟ جہاں کبھی لاکھوں کلرک گروسری اسٹوروں میں کام کرتے ہوئے نظر آتے تھے وہاں اب ایک یا دو انسٹرکٹر ان کے بجا ئے کھڑے ہوکر کمپیوٹر کا استعمال گراہکوں سکھا رہے ہو تے ہیں؟ انہیں سب کو فکر کھا ئے جا رہی ہے کہ اگر یہ ہی لیل ونہار رہے تو وہ دن دور نہیں ہے کہ سارے کام روبوٹ کر رہے ہونگے اور انسان بھوکے مر رہے ہونگے؟ لہذا وہاں دوسرے قسم کا فرسٹریشن عام ہے اور اس جھنجھلاہٹ میں وہ لوگوں کو خوامخواہ گولی مارتے اور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں کہ جس کے پیچھے نہ کوئی منصوبہ ہو تا ہے نہ کوئی مقصد؟ جبکہ ہمارے یہاں جب سوچنے کا رواج ہے جب سر پر آپڑتی ہے؟ تب کہیں جاکر حکومت کمیشن یا تحقیقاتی کمیٹی بنا تی ہے، جس میں کبھی سالوں فیصلے محفوظ رہتے ہیں ۔ کبھی رپورٹ شائع نہیں ہوتی جبکہ وہاں کے لوگوں کو کوئی اور کام نہیں ہے وہ اپنے یہاں کے درختوں کو کاٹنے والوں کی بھی نگرانی کرتے ہیں کہ جنگلات کا تناسب کم ہونے سے موسم بد ل جا ئیں گے ،بارشیں کم ہو جائیں گی۔لہذ وہ آئے دن درخت کاٹنے والوں کے خلاف بھی مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی میونسپلٹی زرعی زمینوں کو “ سکنی“ کرنے کی اجازت دیدے تو اس کا مئیر اور سارے کاؤنسلر جو کہ برسوں سے اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس حرکت کی بنا پر اپنی ضمانتیں تک ضبط کرا بیٹھتے ہیں ۔ جب کہ وہ صحیح سمت میں چلتے رہیں تو کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کون کتنے سال سے ہے؟ مگر ہمارے یہاں رواج مختلف ہے کہ ہم اسکو اپنی مدت پوری کرنے کا بھی موقعہ نہیں دیتے اس لیے کہ ہمیں ہر تھوڑے دنوں کے بعد تبدیلی چاہئے ہوتی ہے؟لیکن وہاں جب تک جی چاہے اس وقت تک وہ کام کریں، لوگ ووٹ دیتے رہیں گے۔ کیونکہ وہاں ووٹ کسی برادری اور رشتہ داری وغیرہ کے نام پر نہیں ملتا ،صرف امید وار کی اپنی کارکردگی کی بنا پر ملتاہے۔ یہاں بات میونسپل کارپوریشن سے شروع ہوتی ہے۔ پھر اس کی اپنی کا رکردگی پر ہے کہ وہ کہاں تک پہونچ سکتا ہے۔اورا کثرا میدواروں کو اپنی کارکردگی کی بنا پر ووٹ ملتے ہیں ۔ ہم نے وقت گزاری کے لیے یہاں اور وہاں کا موازنہ اس لیے پیش کردیا کہ دونوں جگہ کے خادم ِ اعلیٰ اور خدمت گزاروں میں کیا فرق ہے معلومات میں اضافے کا باعث ہو۔ اب اصل خبر کی طرف آتے ہیں تنگ آکر ہم نے پاکستان کا رخ کیا تو وہاں کی میڈیا نے ہمیں نا امید نہیں کیا، سب سے موقر اور دیرینہ اخبار کو کھولا تو ہمیں فوراً تفصیلات مل گئیں ، کہ وہ ایک مسلمان تنظیم کا لیڈر بھی رہا ہے اس کا نام ابو عزالدین تھا۔ کیونکہ اس کی شکل ابو عزالدین سے ملتی ہے ،پہلے بھی وہ چاقو رکھنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا لیکن آجکل اس کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہورہی تھی۔ تھوڑا آگے بڑھے تو الفاظ سے معلوم ہوا کہ ابھی کچھ اور سنسنی خیز معلومات بھی عطا ہونگی ؟ اورآگے بڑھے تو نظر نواز ہوا کہ خبر کی تردید بھی وہیں موجود ہے لکھا ہوا تھا کہ اس کے وکیل نے اس کے وہاں ہونے کی تردید کی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ آجکل جیل میں ہے؟اب بتائیے کہ اس خبر کو لگانے کا فائدہ کیا تھا جس کی تردید بھی خود ہی کرنا تھی۔ یہ کوشش کہاں تک اوپر دی ہوئی آیت اور احادیث کی روشنی میں اسلامی صحافت کہلا سکتی ہے فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں؟ کیونکہ مسلمانوں کا تو ہر فعل قرآن اور سنت کے تابع ہونا چاہیے؟ اور یہ مسئلہ ان کے غور کرنے کے لیئے بھی چھوڑتا ہوں جو ہر بات میں اسلام کو موردِ الزام گردانتے ہیں ۔ جبکہ اسلام عمل کانام ہے زبانی جمع خرچ کانہیں؟جبکہ وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جو مسلمانوں میں شدت پسندوں کے تناسب کو بھی جانتے ہیں جو کہ چند فیصد سے زیادہ نہیں ہے؟ ورنہ مسلمان ایک امن پسند قوم ہیں جنکا کسی قسم کے جنونیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ کہیں کوئی دوسرا یجنڈا تو نہیں ہے جو انہیں اسلام کو بد نام کرنے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ اس میں ہر قسم کے مظلوموں کے لیے مرہم ہے۔ ؟اس راز کو سمجھنے کے لیے تمام دنیا کے دانشوروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے تاکہ دنیا کا امن اورچین واپس آسکے؟ جو اس سے برباد ہورہا ہے۔ اور دنیابھر کے لوگ مسلسل دباؤ کی وجہ سے ذہنی مریض بنتے جارہے ہیں؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے