کیاحقیقت پسندی بھی کوئی چیز ہے۔۔۔ از۔۔۔شمس جیلانی

غالباً آجکل حقیقت پسندی نام کی کوئی چیز ہمارے یہاں نہیں پائی جاتی ؟ جیسا کہ پچھلے دنوں کے ایک حادثے سے ہمیں پتہ چلا جو کہ پاکستان میں ایک ٹرین کو پیش آیا تھا؟ وہ یہ تھا کہ ایک آئیل ٹینکر کا ایکسل ٹوٹ گیا جسکی بنا پر وہ ریلوے کی پٹری کے رمیان میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ اس گیٹ پر گیٹ کیپر تو موجود تھا جبکہ گیٹ نہیں تھا؟ اس نے افسران ِبالا کو اطلاع دینا چاہی مگر اس کی اطلاع پر حسب روایت کسی نے کان نہیں دھرے ؟ اور ایک ایکسپریس ٹرین جس کو وہاں سے گزرنا تھا اسکو بروقت اطلاع نہیں ملی ، نتیجہ کے طور پر اس کا لائن پر کھڑے آئیل ٹینکر سے تصادم ہوگیا،جس سے آئیل ٹینکر کے تین تکڑے ہو گئے اور تیل ریلوے لائن پر پھیل گیاجس نے آگ پکڑلی جس کے نتیجہ میں اس ٹرین کا ڈرائیور اور اس کا نائب شہید ہوگئے؟ ٹرک کے ڈرائیور کو گرفتار کرلیا گیا ، جرم یہ ہوگا کہ اس نے ایکسل کو وہاں کیوں ٹوٹنے دیا  جواس سلسلہ میں اس سے پوچھ گچھ ہورہی ہے اور پوچھ گچھ کیوں ہوتی ہے وہ ہم آپ سب جانتے ہیں کہ پولس آفیسر وں کو تھانےمفت نہیں ملتے بلکہ وہ ٹھیکے پر حاصل کرتے ہیں؟ اور اس گیٹ کیپر کو بھی حراست میں لیلیاگیا جو کہ فریاد ی تھا ؟ جرم غالباًیہ ہوگا کہ اس نے بروقت اطلاع دینے کی کوشش کیوں کی تھی۔ اس حادثہ میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے کیونکہ اس میں چھ بوگیا ں بھی جل کر خاک گئیں ۔ حادثہ پر جو میڈیا کی طرف سے تبصرے ہوئے وہ بڑے دلچسپ تھے۔ کہ “ اربوں روپیہ کا ریلوے کا بجٹ ہے۔ مگر انظا میہ ایک حاد ثہ نہیں روک سکی لہذا متعلقہ وزیر کو مستعفی ہو جاناچاہیئے اور یہ ہی نعرے اپوزیشن بھی لگارہی ہے ۔جس میں وہ اپوزیشن کی جماعت بھی شامل ہے جس کے دور ِ حکومت کے آخر میں ریلوے صرف جزوی طور پر چل رہی تھی ٹرینیں بند تھیں جو چل بھی رہی تھیں ان کا یقین نہیں تھا کہ وہ کب منزل ِ مقصود تک پہونچیں گی؟ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک طبقہ جس کا بسوں اور ٹرکوں کا کروبار تھا وہ ریلوے ریلوے کا حریف تھا۔ انہیں میں سے ایک صاحب ریلوے کے وزیر بن گئے؟ اسی دور میں یا ان سے پہلے ریلوے کے کماؤ پوت “ شعبہ گڈس “کو تباہی سے دوچار کیا گیا؟ کب وہ ہمیں معلوم نہیں ؟ کیونکہ ہم تو اسے ستائیس سال پہلے منافع میں چلتا ہوا چھوڑ آئے تھے؟
البتہ اِن وزیر کی صاحب کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے محض اس بنا پر ایک خاتون ریلوے آفیسر کومعطل کردیا تھا کہ انہوں نے ان کے ڈھائی سو آدمی ریلوے میں کیوں نہیں رکھے ؟ جب وہ فریادی ہوئیں اور عدالتِ عالیہ میں چلی گئیں توو زیر صاحب نے ٹی وی پر آکر فرمایا کہ “ یارا گر ہم لوگوں کے کام نہیں کریں گے تو ہمیں ووٹ کون دے گا اور منتخب کیسے ہونگے “ اس نے یہ کہہ کہ کر میرے سارے آدمی رکھنے سے انکار کردیا کہ میں نے سارے امید وار میرٹ پر رکھے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ “ گینگ مین “ کے لیے میرٹ کیا ہو تا ہے “ ایسی حالت میںریلوے کو جس نے بھی لیا اور دوبارہ با قاعدہ چلنے کے قابل بنا یا وہ قابل ِ تحسین و ستائش توہوسکتا ہے؟ مگر اس سے استعفیٰ مانگنا میڈیا کی لاعلمی پر دلیل اور ظلم ہے ۔؟ جس سے اس کی بیخبری کا پتہ چلتا ہے؟ کہ وہ وہاں کے زمینی حقائق سے بھی قطعی واقف نہیں ہے۔ ابھی تک جو محکمے پچھلے دور میں فیل ہو ئے تھے۔ ان میں سفارشی لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں نہ کوئی بھی بمع سٹاف کے خریدنے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی چلا نے تیار ہے۔ کیونکہ سفارشی لوگ کہیں کام نہیں کیا کیاکرتے ؟ اس لیے  کہ انہیں بجائے اپنے کام کے رسوخ پر بھروسہ ہو تا ہے؟ ہمارا خیال ہے  “اس گیٹ مین“ نے اپنی سی پوری کوشش کی ہو گی لیکن جو صاحب ڈیوٹی پرہونگے وہ کسی اور کام میں مصروف رہے ہونگے ؟یا ڈیوٹی پر سرے سے موجود ہی نہیں ہو نگے؟ اگر ایسی صورت حال میں استعفٰی لینے کا سلسلہ شروع کیا  گیاتو کوئی بچے گا ہی نہیں۔ اور وہ ادارے جو ابھی کچھ رینگنے لگے ہیں وہ پھر کھڑے ہو جا ئیں گے۔ گیٹسں کی کہانی یہ ہے کہ تقریبا ً ایک ہزار کے قریب گیٹ ایسے ہیں جن پر پھاٹک نہیں ہیں ۔ مگر گیٹ مین موجود ہیں ان کا کام یہ ہے کہ وہ جب ٹرین گذر رہی ہو تو ہری اور لال جھنڈی لیکر کھڑے ہوجائیں اور لوگوں اور ٹریفک کو لا ئین پر سے گزرنے نہ دیں ؟ ہمارے یہاں کے لوگ اتنے قانون کے پابند ہیں کہ وہ اکثر اسکی دی ہو ئی اطلاع پر یقین نہیں کرتے بلکہ انہیں جب تک یقین نہیں آتاہے جب تک وہ ٹرین کو اپنی آنکھوں سے ملا حظہ فرمالیں ؟ ایک آدمی اس قسم کی مخلوق کوکس طرح کنٹرول کرسکتا ہے جسے پولس اور فوج کنٹرول نہیں کرسکتی جبکہ اربو ں کھربوں کا بجٹ اان کے پاس ہوتا ہے؟ تو بیچارہ گیٹ مین اسے کیسے کنٹرول کر سکتا ہے۔ اب رہاان سب ریلوے گیٹسں پر پھاٹک لگانا! تو اسکے لیے ایک بڑی رقم اور سالوں کا عرصہ درکار ہے؟
یہ ٹرین بھی نہ ہوتی اگر انگریز نہ آتے ؟ مغل بادشاہوں نے تو کوئی ایسابیکار کام کیا ہی نہیں جس سے عوام کو فائدہ پہونچتا ؟ اگر ہندوستان کی تاریخ میں ایسا کوئی بادشاہ ملتا بھی ہے تو وہ بھی مغل نہیں بلکہ پٹھان تھا جس نے گرینڈٹرنک روڈ کلکتہ سے پشاور تک بنا ئی جبکہ اس کا دورِ حکمرانی انتہائی قلیل تھا۔ا وراس تھوڑے عرصے میں اس نے وہ کام کردکھایا کہ ہندوستان کے مسلمان سر اٹھاکر کہہ سکیں کہ ہم نے بھی ہندوستان میں رفاعی کام کیا کیا ہے؟ ورنہ تاریخ میں ان کے اپنے اور اپنی بیویوں کے مزارات توملیں گے مگر فلاحی کام تلاش کرنے سے بھی نہیں ملےگا؟ سوائے چند مساجد اور مسافر خانوں کے؟ یہ ہے وہ دردناک حقیقت جو ہم شروع سے دیکھتے چلے آرہے ہیں ؟ آنکھ بچاکر گزر جائیں تو اور بات ہے ۔ کسی اسپتال پر کسی گنگارام کا نام لکھا ہے تو کسی“ پیاؤ “  پر پرسرام کا۔ ہمیں کہیں شاہجانی پیاؤ نظر آٰیا۔ اور ہم اسی وضع داری پر آج بھی قائم ہیں ۔ کہیں بھی ہوں کسی ملک کے فلاحی کام میں کبھی دلچسپی نہیں لیتے ۔ جبکہ بعض مملکوں نصف  سے زیادہ کام رضا کاروں پر چلتا ہے ؟حالانکہ سب سے زیادہ اس کی تلقین اور اس پر عمل ہادی برحق محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ (ص)  نے کرکے دکھلایااور انہوں (ص) نے نبوت پہلے اپنے (ص) چالیس سال عبادت ا ور خدمت خلق میں گزارے؟ پھر نبوت  کے بعد بھی ان کا مشن یہ ہی رہا جسے انہوں نے تا حیات جری رکھا اور بعد میں اپنے (ص) صحابہ کرام کے لیے چھوڑا جس کو انہوں نے پروان چڑھایا دنیا کو فلاحی ریاست کا تصور پیش عطا کرکے۔
مگر موجودہ دور میں ہم آ ج تک اس میدان میں کوئی خاص نام نہیں کماسکے سوائے ستار ایدھی مرحوم کے؟ ایسے میں کوئی وزیر بیچارا بھی کیا کریگا ؟ کہ وہ کسی کے آدمی کوبھی چاہیں وہ ملزم ہو اس کے سرپرست کے رسوخ کی وجہ سے معطل کرنے تک پر قادر نہیں ہے، اور نہ ہی برخواست کرنے پر ؟ من حیثیت القوم ہما ری جو حالت ہے وہ ہم سب پر عیاں ہے؟ لہذا فرشتے آئیں گے کہاں سے جب تک ہم خود اپنی اصلاح نہ کریں؟ ورنہ بروں میں آپ چھے ٹٹولیں گے تو جو زیادہ برا ہے وہی ہاتھ میں آئےگا، جیسے کہ پتھروں کو ٹٹولاجائے تو سب سے بڑا پتھر ہی ہاتھ میں آتا ہے ؟ جہاں خوف خدا نہ ہو ، لوگوں میں حیاءنہ ہو، جس سے معاشرہ کاخوف دلوں پیدا ہوتا ہے، تو پھر کوئی کسی سے ڈریگا کیوں ؟ اور معاشرے میں سدھارکی صورت کیا ہوگی؟ میری سمجھ سے تو باہر ہے ؟ آپ ہی بتا ئیے؟ ایسی صورت میں رہے حادثے وہ ہمیں ڈرانے اور جگانے کے لیے اللہ کی طرف سے آتے رہتے ہیں جیسے زلزلے اور طوفان وغیرہ  آتے رہتے ہیں تاکہ ہم کان دھریں، جسکا انکشاف اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد جگہ فرمایا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث حضور (ص) نے بھی  عطافرمائی ہے کہ قرب ِ قیامت میں سب سے پہلے اللہ کی حکمرانی دنیا سے اٹھ جا ئیگی ، کیونکہ اسے چھوڑ کر لوگ طبقہ عمراءکو پکڑلیں گے، اور اسی طرح درجہ بدرجہ پستی سے پستی کی طرف جاتے رہیں گے؟ ہم اسی دور سے آجکل گزر رہے ہیں ؟ اسکا علاج کیا ہے ؟ انفرادی اور اجتماعی توبہ ؟ جو ہم کرنے کو تیار نہیں ہیں ؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی طبقہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ہم بگڑچکے ہیں ،ہم غلطی پر ہیں ؟ اس لیئے ہمارا اللہ سے رشتہ  بہت کمزور ہوگیاہے۔ا س سلسلہ میں حضرت عمر (رض) کی نصیحت حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کو جو انہوں نے کی تھی بہت اہم ہےجب انہیں ایران کے محاذ پر بھیج رہے تھے ً دیکھیں آپ کا حضور (ص) سے رشتہ کہیں آپ کو ہلاک نہ کردے کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کاکسی سے کوئی رشتہ، رشتہِ اطاعت کے سوا نہیں ہے“

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.