پچھلے دنوں صدر پاکستان نے فرمایا تھا کہ “میری کوئی سنتا ہی نہیں“ اور پرسوں کوئٹہ میں فرمایا کہ “ ہم نے ملک میں بد عنوانی کے تمام دروازے ہی بند کر دیے ہیں “ا ن متضاد بیا نات کو دیکھ کر ہم سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کس کو سچ مانیں کس کو غلط۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں صدر ِ جمہوریہ انتہائی محترم ہوتا ہے اور اس کے ٹرم آف ریفرنس میں اس قسم کے بیانات جاری کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہی نہیں کیونکہ وہ آئینی سربراہ ہوتا ہے اورا س عہدے کے احترام کاتقاضہ یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کہے جو میڈیا میں زیر بحث آئے ؟ پھر تضادکی بھی ایک حد ہوتی ہے اور ممنونیت کی بھی اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کے ہم ممنونیت کے خلاف ہیں کیونکہ حضور(ص) کاا رشادِ گرامی یہ ہے کہ“ جو بندو ں کا شکر گزار نہ ہو وہ خدا کا کیا ہو گا “ لیکن اس بحث سے ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ممنونیت تو ہمارے ایمان کا جز ہے مگر توازن شرط ہے؟ مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں جس کو جو بھی عہدہ مل جائے وہ کبھی ٹی ۔او۔ آر۔ کا پا بند نہیں رہتا؟اب آپ پوچھیں گے کہ پاکستان کی سرکا ری زبان تو اردو ہے ؟ یہ ٹی ۔ او ۔ آرکیا بلا ہے؟ پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ جبکہ ہمیں قرآن میں اس پر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے یہ فرماکر متنبہ کیا ہے کہ “ مسلمانوں وہ کہتے کیوں ہو، جو کہ کرتے نہیں ہو اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے“ جب کہ ہماری ضد یہ ہے ہم وہی کریں گے جو ہماری مرضی ہوگی۔ اور پھر یہ بھی ضد ہمیں کہو بھی مسلمان ؟ جبکہ مسلمان آزاد نہیں ہوتا اسکی کل زندگی دائرہ اسلام کے اندر گھومتی ہے جوکہ اسوہ حسنہ (ص) گرد گھومتا ہے اور اسوہ حسنہ (ص) کیا ہے؟ وہ وحی جلی اور وحی خفی کا وہ عملی مظاہرہ ہے جو حضور (ص) نے ہمیں کر کے دکھایا اور ہم کو ان کا اتباع کرنے کے لیے ہمیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے پابند فرمادیا؟
گوکہ دستور کے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہے مگر عدالت عظمیٰ کی بار بار کی تنبیہ کے باوجود ہم کام سترسال سے انگریزی سے ہی چلا رہے ہیں ؟ رہے ٹی۔او ۔ آر کے معنی تو جواباً عرض ہے کہ یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے اور مخفف ہے ٹرمس آف ریفرینس (Terms of reference)جو کہ یورپ میں عام بولا جاتا ہے ۔وہاں ہر ایک اپنے عہدے کاچارج لے نے سے پہلے اس کا بغور مطالعہ کرتا ہے اور اگر کوئی نیا عہدہ تخلیق ہو تو بھی اس کا سب سے پہلے ٹرمس آف ریفرینس بنتا ہے پھر کسی کا اس پر تقرر ہوتا ہے؟چونکہ پاکستان میں یہ سب چیزیں موجود ہیں مگر ان پرعمل کرنے کا رواج نہیں ہے لہذا بہت سی چیزوں کی طرح یہ بھی بے مصرف تھا شیلف پر رکھا ہوا تھا؟ جبکہ پاکستان میں وزیر بے قلمدان بھی ہوتا تھا حاکم بے محکمہ بھی تھے ۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ کوئی اگر کسی صاحبِ اختیارکی بہن، کسی کا بیٹا یا بیٹی ہو تو اس کے اختیارات بغیر عہدے کے بھی لامحدود ہوتے ہیں؟ ایسے میں ٹرمس آف ریفرنس شہِ فضول ہونے کی وجہ سے شیلفوں میں دبا پڑا تھا، استعمال نہیں ہورہا تھا؟ پھر کسی نے نکالا اور وہ رواج پاگیا؟ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ“ پناما لیکس“ کے مقدمہ میں،کبھی بینچ کی تشکیل کے سلسلہ میں تو کبھی کمیشن کی تشکیل کے سلسلہ میں یہ بار بار زیر بحث آتا رہا اور چونکہ اب یہاں رواج پاگیا ہے لہذا آجکل ہر ایک کی زبان پر ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ جس طرح کوئی کسی قسم کی چوری کوچوری نہیں سمجھتا! جیسے ادب وغیرہ، بشمول ِبھینس کی چوری کہ اسی طر ح کسی کے تکیہ کلام کو اپنا تکیہ کلام بنا لینا بھی معیوب نہیں سمجھتا ؟ مثال کے طور پر ایک ادارہ منہاج القرآن کے بزرگ سیاست میں وارد ہو ئے تو ان کا تکیہ کلام تھا “ کٹاگوریکلی “ (Catagorically )اسے لوگوں نے سنا اور اتنا پسند کیا کہ گرہ میں باندھ لیا اب آپ جس چینل پر بھی چلے جائیں وہاں آپ کو “کٹا گوریکلی “سننے کو ملے گا ۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ہمیں صف بندی کی شکل میں تنظیم سکھائی گئی ہے نقل بھی با جماعت ہی کرتے ہیں ؟ لہذا ہم بھی آج ٹی۔ او۔ آر کی شکل میں ؟اپنے ہم وطنوں کا اتباع کر رہے ہیں تو تعجب کی بات کیا ہے۔ چونکہ ممنونیت پاکستان میں عام طور پر آجکل استعمال ہو رہی ہے لہذا ہم بھی آج دل کھول کر اس پر بات کر رہے ہیں تاکہ اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دے سکیں تو حیرت کی بات کیا ہے ؟جبکہ پاکستانی ہمیں پاکستانی ماننے کو تیار نہیں ہیں جو اس سے ثابت ہے کہ وہ ہمارے محنت سے کما ئے ہوئے ڈالر تو رکھ لیتے ہیں مگر ہمیں ووٹ کاحق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اور وہ ہی کیا آجکل کو ئی بھی کسی کا حق ماننے اور دینے کو تیار نہیں ہے؟مثلا ً امریکہ کے نو منتخب صدر روس کے ویٹو پر تو چراغ پا ہیں جو اس نے شام کے خلاف ایک قرارداد پراستعمال کیا ہے؟ اور جواب میں انہوں نے انہیں جانے کیا کیا کہہ ڈ الا ؟ جب کہ امریکہ 1948 سے عزرائیل کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کرتا آرہا ہے تو کوئی بات نہیں ہے۔ یہ جرم تقریبا سب نے ہی کیا ہے یہ اور بات ہے کہ کسی نے کم کسی نے زیادہ ؟ کیونکہ اقوام متحدہ کی بنیادرکھنے کے ساتھ ہی اس کے پانچ رکن ملکو ں کو جو مستقل رکن کہلاتے ہیں، یہ حق اس لیے دیا گیا تھا کہ اگر کوئی نا انصافی کرے تو دوسرا اس کو روک دے مگر ہوا یہ کہ وہ بجا ئے ظالموں کے خلاف استعمال ہونے کہ ان کے حق میں استعمال ہوتا رہا؟نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ادارہ جو اس لیئے قائم ہوا تھا کہ یہ تحفظ فراہم کرے ،کہ آئندہ جنگ نہ ہو ؟ اس کا اس کا الٹ کرنے پر مصر رہا اور اس کی قراردا دوں کی کوئی وقت بھی نہ رہی؟ بس جس مسئلہ پرسب متفق ہوگئے تو اس کو دنیا کے لیے “ ہوا “ بناڈلا اور تباہ کرکے بھی نہیں چھوڑا یا بعدمیں ًسواری ً (sorry)کہتے ہو ئے چلے گئے جیسے کہ صدام اور عراق کا معاملہ ، لبیا کا معاملہ ۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ تیسری بین الاقوامی جنگ بھی برپا ہو نے ہی کو ہے اور وہ کسی وقت بھی شروع ہوسکتی ہے۔ جس طرف بھی دیکھئے جنگ کی چنگاریاں سلگتی نظر آرہی ہیں ؟ ہمارے کچھ علما ءتو کہتے ہیں وہ آگ تو گزر چکی جس کی حضور (ص) نے یمن سے شروع ہونے کی پیش گوئی فر مائی تھی کہ “ وہ یمن سے شروع ہوکر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیگی “جبکہ کچھ علماءاس کے حامی ہیں کہ نہیں وہ ابھی ہونا باقی ہے ہماری ناچیز رائے ان کے پڑلے میں ہے؟ وہ اسوقت بھی سلگ رہی ہے اور اس کے مقابلے میں 39 مسلمان ملک اپنی فوجیں بھی اسکی سرحد پر جمع کر رہے ہیں؟ اس میں ایک جوہری طاقت رکھنے والا ملک بھی شامل ہے۔ دوسری طرف دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر یہ ہی رفتار رہی تو ساری دنیا کانظام ہی درہم بر ہم ہو جائے گا اور شاید یہ ہی جنگ پوری انسانیت کی تباہی کا پیش خیمہ نہ بن جا ئے؟ افسوس ان سیٹھوں پرجن کی تجوریاں بھری کی بھری رہ جائیں گی ، ان کو خرچ کرنے کا موقعہ بھی نہ ملے گا ؟ کہ اس کی راہ میں خرچ کر کے وہ سکہ وہ کماسکیں ؟ جو کہ اس وقت کاسکہ ہو گا اور جب ہرایک کی ا للہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہو گی۔ اس وقت نہ وکیلوں کےہتھکنڈے چلیں گے نہ جھوٹے گواہوں کی گواہی چلے گی ۔ کیونکہ منصف ذاتی طور پر سب کچھ جانتا ہو گا ؟ مگر انصا ف کے تقاضے پو رے کر نے کے لیے؟ وہ ملزم کے ا پنے اعضا ءکو قوت ِ گویائی عطا کر دیگا جو اس کے خلاف بول رہے ہوں گے، وہ اس زمین کو بھی قوتِ گویائی دے دیگا جس پر گناہ سرزد ہو ئے ہو نگے؟ اس دن سب سے زیادہ خسارے میں وہی لوگ ہونگے جو یہاں آج تجوریوں پرتجوریاں بھر ر ہے ہیں وہ نہ ا ن کے کام آئیں گی، نہ ان کے وارثوں کے ؟ جب کہ چاروں طرف سے فریادی ٹوٹے پڑ رہے ہونگے؟ جوا س کے منکر ہیں ان کے لیے میں لمحہ فکریہ چھوڑ رہا ہوں کے اگر یہ سب نہیں ہونا ہے جو قرآن کہہ رہا ہے اور حضور (ص) فرما گئے ہیں ؟ تو وہ صرف کسی ایک آدمی کو زندہ کر کے دکھا دیں جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوچکا ہو، اور روح نرخرے میں پھنسی ہوئی ہو ؟ میں ان کی بات مان لونگا ؟ یا وہ پھر یہ بات مان لیں کہ یہ سب کچھ ہونا ہے؟ اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اس لیے کہ دنیا کی بقا کاراز اسی میں ہے کہ“ جو اپنے لیے چاہو وہ اپنے بھائی کے لیے بھی چاہو “ جب بھی کسی قوم نے انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہے وہ ہمیشہ تباہ ہو ئی ہے ؟ اب حالات ایسے ہی پیدا ہوتے جا ر ہے ہیں کہ پوری دنیابے انصافی پر کمر بستہ ہے؟ تو بے انصافی کا مدا و کون کریگا ؟ جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاارشاد گرامی ہے کہ “دنیا بغیر غذا کے تو زندہ رہ سکتی ہے مگر بغیر انصاف کے نہیں ؟ اللہ ہم سب کو اس عظیم تباہی سے محفوظ رکھے (آمین)