پاکستانی قوم ہر مسئلہ کو اٹھانے کے لیے حادثے کی محتاج ہے؟ یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ جب کوئی حادثہ ہوجائے جب ہی عوام اور خواص دونوں کی آنکھیں کھلتی ہیں ور نہ وہ آرام سے چادر اوڑھے سوتے رہتے ہیں۔ جس کا ثبوت سرگودھا میں ایک مزار پر بیس انسانوں کا قتل ہے؟ اس توہم پرستی کے ہاتھوں ایک مدت سے پاکستانی ڈسے جارہے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعدجب کوئی حادثہ رونماہوجاتا ہے تو کچھ ہل چل ہو پیدا جاتی تی ہے؟ پکڑ دھکڑ بھی ہوتی ہے لیکن اس میں کچھ شیرینی ایسی ہے کہ ہر برائی کی طرح یہ برائی بھی اپنے محور پر بہت تیزی سے پھر سے گھومنے لگتی ہے۔ کئی بار پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ کبھی سو سالہ بنگالی بابا پکڑے گئے۔ ااور جب انکی وگ اتاری گئی تو اندر سے نوجوان نکلا؟ تھوڑے دن خبروں میں آئے پھر کوئی اور واقعہ ہوگیا؟ سب کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی اور بنگالی بابا پھر وہیں بیٹھ کر کاروبار کرنے لگے ، جنہیں نہیں پتہ تھا وہ بھی جان گئے کہ بابا ہیں با کمال آدمی؟ جبھی تو چھوٹ گئے کہ بجائے جیل کے گدی پر بیٹھے ہیں اور اس طرح ان کے دھندے میں اور بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جو کہنے کی حد تک توتوحید پرستی کی دعوےدارہے؟ لیکن عملاً توہم پرستی کی وجہ سے وہ اتنے شریکوں کو پوجتی ہے جن کی تعداد خود انہیں بھی نہیں معلوم ؟ چونکہ یہ کاروبار ہر قسم کے ٹیکس اور لائسنس سے مبرا ہے۔ لہذا یہ ا ربوں اور کھربوں روپیہ بغیر ٹیکس ادا کیے بے حساب مال بنارہے ہیں ۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کچھ توایسے ہیں کہ ان کے ضلعوں میں سارے بڑے افسر ان کی آشیر واد کے بغیر تعینات ہو ئی ہی نہیں سکتے؟ وہاں آفیسرعہدے کا چارج بعد میں سنبھالتے ہیں۔ پہلے سائیں کے دربار میں حاضری دیتے ہیں۔ جس طرح کسی زمانے میں بادشاہوں کے درباروں میں منصب دار ہوا کرتے اور وہ پانسو سے شروع ہوکر یک ہزاری، پنج ہزار ی اور لاکھوں تک پہنچ جاتے تھے۔ اب اس میدان بھی جو کبھی ایک مرید سے شروع ہوا ہوگا اور پھر گدیوں کے وراثت میں تبدیل ہونے کی بنا پر مریدوں کی تعداد لاکھوں تک پہونچ جاتی ہے ؟کیونکہ شادیاں تک گدیداروں میں آپس میں ہوتی ہیں اور اکثر گدیاں جہیز میں ملنے کی وجہ سے مریدوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرجاتی ہے؟ چھوٹی گدیاں بھی بہت ہیں ا گر ہم انہیں گنیں تو یہ مضمون ان صفحات میں سما ئے گا نہیں؟ لہذا صرف ایک صوبے سندھ کی دو بڑی گدیوں کا ذکر کر کے بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک گدی کے مریدوں کی تعداد کہتے ہیں پچیس لاکھ ہے اور دوسری کے مریدوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ ہے جن میں بارہ لاکھ پاکستان میں اور چھ لاکھ انڈیا میں ہیں ۔ صرف قدرے چھوٹی گدی کوہی لے لیں تو اگر سوروپیہ فی کس سالانہ بھی نذرانہ پاتے ہوں تو آپ گن لیں کہ آمدن کتنی ہوگی ؟ مگر آپ کو پتہ ہو نا چاہیے کہ آجکل وہاں فقیر بھی سو روپیہ نہیں لیتا ؟ ان میں سے ایک کی روایات آج سے تین عشرے پہلے تک یہ تھی کہ اگر کوئی مرید دعوت کرنا چاہے تو ان کے خلیفہ ایک وقت کے ناشتہ پر بمع چیدہ چیدہ مریدین کے تشریف لانے کی فیس دس ہزار روپیہ، ظہرانے پرجانے کے لیے25 ہزار اور عشایہ کو رونق بخشنے پر ایک لاکھ نقد وصول کرتے تھے موجودہ آمدنی آپ اس سے اخذ کرلیں؟ یہ پیرا مریدی اتنی بلندی پر کیسے پہونچی ؟ وہ اسطرح ہے کہ صرف اسی امت کے نبی (ص) کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بطور خاص اس اعزاز سے نوازا تھا جو ان سے پہلے کسی اور نبی (ع) کو نہیں عطا کیا گیاکہ “ وہ تزکیہ نفس بھی کرائیں “ تاکہ متقیوں کا ایک طبقہ پیدا ہو سکے اور وہ اسلا می نظا م چلانے کے لیے اپنے تقوے کی بنا پر کارآمد ثابت ہوں ؟ اس کے ذریعہ حضور (ص) نے جو صحابہ کرام شکل میں جماعت تیار کی وہ ایسی تھی کہ وہ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے تھے؟ چونکہ حضور (ص) کے بعد کوئی نبی (ع) نہیں آنا تھا لہذا حضور (ص) نے اس میں سے دوجماعتیں بنا دیں ایک نے انتظامیہ کی جگہ سنبھالی اور دوسری نے مسلمانوں کو تزکیہ نفس سکھانے کے لیے خود کو وقف کیاجو پوری دنیا میں پھیل گئے اور وہی اسلام کو پھیلانے کا باعث بھی بنے؟ یہ وہ لوگ تھے جوکہ محبت سب سے کرتے تھے اور نفرت کسی سے بھی نہیں اور انہوں نے پنے پرکھنے کا معیار یہ ر کھا تھا کہ اگر ان میں سے کسی کا بھی ا یک فعل خلاف ِ اسوہ حسنہ (ص) ہو تووہ شیطان ہے ولی یا پیر نہیں ہوسکتا؟ ان کے مریدوں میں سے جو اس مرتبہ کوپہونچ جاتے انہیں اپنے پیروں کی طرف سے خلافت ملتی اور انہیں کو رشدوہدایت کو عام کر نے کے لیے دعوت دینے کی اجازت ملتی ،وہ دوسرے لوگوں کو اپنا جیسا بنانے کے لیے اپنے مریدوں کو کہاکرتے تھے کہ جو پیر کہے اس پر عمل کرو، اس سے سوال مت کرو اور اس کے بارے میں خوشگمان رہو؟ چونکہ پرائمری درجہ کا طالب علم یونیورسٹی کا مقالہ نہیں سمجھ سکتا؟ اس کو علامہ اقبال (رح) نے اپنے ایک شعر میں بہت اچھی طرح سمجھایا ہے کہ “ اقبال یہاں ذکر نہ کرلفظ خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات “ مگر ان بزرگوں کے بعد آنے والوں نے اسی ایک جملہ کو پکڑ لیا کہ جو پیر کہے وہ کرو ؟ اوراس سے سوال بھی نہ کرو اور اپنے دل میں بد گمانی کو بھی اس کے خلاف جگہ نہ دو؟ اب کس کی مجال تھی کے کوئی ان کا محاسبہ کرے؟ لہذا ان میں بگاڑ پیدا ہوتا چلاگیا ۔ پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے پیروں کے پاس جاتے تھے۔تا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس فرمان کو پورا کریں کہ فرض تو فرض ہیں۔ اس کوادا کرنے سے آدمی مومن ہو جا تا ہے ؟مگر جو میری قربت چاہے وہ نوافل ادا کرے تاکہ وہ میرے قریب آجا ئے ؟ ۔“ پھر میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، اسکے پاؤں بن جاتا ہوں۔۔۔۔ الخ (مشہور حدیث ِ قدسی) اس طریقہ سے انہوں نے کمال حاصل کرکے وہ کردکھایا جو پہلے انبیائے کرام (ع)نے کرکے دکھایا تھا اور حدیث کاعملی نمونہ پیش کردیا کہ علمائے امت محمدیہ انبیائے بنی (ع) اسرائیل کے برابر ہیں؟ یہاں شاید میری بات لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے کہ یہ تو علماءکے بارے میں کہا گیا ہے میں نے اولیا ئے کرام کے بارے میں یہ بات کیسے کہدی؟ ان کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کے اس دور میں جب تصوف عروج پر تھا تو وہ عالم پہلے بنتے تھے اور طریقت میں بعد میں قدم رکھتے تھے جیسے کہ حضرت عبدالقادر جیلانی کی مثال ہے کہ پہلے علم ِ دین حاصل کیا پھر علم طریقت اور انکا نمبر فقہ حنبلیہ میں اس کے بانی حضرت امام احمد (ص) کے بعد دوسرا تھا اور یہ ہی حال باقی دوسرے اولیا ئے کرام تھا۔ جن بزرگوں نے اسلام کو پوری دنیا میں پھیلایا اور انہیں بزرگوں کی کرامات اور علم سے تاریخ اور تصوف کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر مریدوں کے قلب پر ہوتی تھی؟اب ان کی جگہ جب سے وراثتی پیر آئے اور وہ بھی پیر بن گئے جن کو حضور کے اسوہ حسنہ (ص) سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا؟ پھر مریدی اس حد تک چلی گئی کہ نذرانہ پیش کرو اور مرید بن جاؤ،بس سال کے سال نذرانہ دیکر تجدید کرالیاکرو؟ اب زیادہ تر لوگ مرید اس لیے بنتے ہیں کہ پیر صاحب کی سرکار دربار میں بات چلتی ہے ،چٹھیاں، چلتی ہیں اورنام چلتا ہے؟ ہر مرید کو سو خون معاف ہیں ہر کوئی ان پر ہاتھ ڈلتے ہوئے خوف کھاتا ہے؟لہذا جس طرح بازار میں جعلی دوائیں ہیں اسی طرح جعلی پیری اورمریدی بھی چل رہی ہے جو لوگ پاکستان سے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آجکل وہاں “ کالے جادو کا بڑا زور ہے “ اور اس کے باعث گھروں میں لڑائیاں اورجھگڑے بڑھ گئے ہیں ۔ جبکہ قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “ میری مرضی کے بغیر کسی کو کوئی مصیبت نہیں پہونچ سکتی “ جو اس کے برعکس مانتے ہیں انہیں توحید پرستوں کی اس آیت کی موجودگی میں آپ کس صف میں کھڑا کریں گے؟ کہیں ان میں تو نہیں جس میں اللہ تعالیٰ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہر گناہ معاف کرسکتا ہوں ، مگر “ شرک “معاف نہیں کرسکتا؟ مگر ہم ان تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ ہم ان جعلی پیروں میں وہ خواص ڈھوندتے ہیں ۔ جو کبھی ان میں ہوا کرتے تھے اور ان کے چکروں میں پھنس جاتے ہیں ؟ جس طرح جعلی دواؤں سے آدمی مرتوسکتا ہے۔ مگر صحت یاب نہیں ہوسکتا؟ اسی طرح جعلی یا سیاسی پیروں سے“ تزکیہ نفس حاصل ہونا بھی ناممکن ہے“ رہے “اللہ والے “ وہ آج بھی ہیں مگر وہ کاروباری نہیں ہوتے، ان کی دکانیں نہیں ہوتیں، وہ پیسہ نہیں مانگتے جھوٹ نہیں بولتے یہ ہی ان کی پہچان ہے ؟ کیونکہ وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ایک پورا نظام ہے جیسا کہ قرآن میں حضرت خضر اور موسیٰ (ع) کے قصے سے ثابت ہے؟ اگر وہ نہ رہیں تو وہاں اللہ سبحانہ تعالیٰ عذاب نازل فرمادیتا ہے جس پر قرآن کی دوسری کئی آیات شاہد ہیں۔ مگر ان کو ڈھونڈھنے کے لیے بھی وہی طریقہ اپنانا پڑے گا جو کہ پہلے زمانے سے لوگ کرتے آئے ہیں کہ خو د پہلے مومن بنیں پھر مزید درجات کے حصول کے لیے ان کی تلاش کریں۔ اگر عوام الناس سدھر جائیں گے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ عذاب اٹھالے گا اور اپنے وعدے کے مطابق مومنوں پر اپنی رحمتیں عام کر دیگا ۔ اس کی راہ میں کوشش کر کے دیکھئے ۔ اس کے دروازے ہر وقت ہر ایک فرد اور قوم کے لیے کھلے ہوئے ہیں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں کھرے اور کھوٹے کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے