آیارمضان مسلمان پریشان؟ ۔۔۔ از۔۔۔شمس جیلانی

ہمارا بچپن تھا راج بر طانیہ کا تھا ملک میں ہندواکثریت تھی چونکہ مسلمان کاروبار کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیئے وہ اس کے قریب نہیں جاتے تھے وہ انہیں کے ہاتھ میں تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہنددھرم میں کھتریوں کو تیسرے نمبر پر رکھاجاتاتھا۔ پہلے درجہ میں برہمن تھے جو برہما جی کے سر سے پیدا ہوئے دوسرا درجہ چھتریوں کا تھا جن کے ہاتھ میں تلوار تھی وہ راجپوت یاٹھاکر کہلاتے تھے جو بر ہما جی کے سینے سے پیدا ہوئے تھے ا ور آخری تھے اچھوت جو برہما جی کے پیروں سے پیدا ہوئے تھے۔ جن کاکام سب کی بیگار اور خدمت کرنا اور ظلم سہنا تھا،اس میں بقیہ کل قومیں شامل تھیں۔ ہم نے بھی برہما کو تو نہیں مانا مگر ان کی یہ سماجی تقسیم مان لی جس کی وجہ سے اسلام کو بے انتہا نقصان پہونچا اس لیے کہ اسلام کی ترقی رک گئی کیونکہ اگر کسی کو مسلمان ہونے کے بعد بھی اچھوت ہی رہنا تھا تو وہ مسلمان کیوں ہوتا جبکہ اسلام میں تو سب برابر تھے اور معیار تقویٰ ہے؟ یہاں ہم ان کا ذکر اس لیئے کر رہے ہیں کہ اس کے باوجود کہ وہ اسلام نہیں لائے، مگر پاپ (برائی) اور پن (بھلائی) دونوں کو مانتے تھے۔ اور رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے شہر کے تمام بنئے منوں کے حساب سے آم کا اچار بنواکر مسلمان گراہکوں کے گھر بھجوادیتے تھے۔ کہ کچھ نہ کچھ ثواب وہ بھی کمالیں روز داروں کی سیوا (خدمت )کر کے کہ پن (ثواب) کا کام ہے؟ بعد میں اللہ نے ہمیں اپنا ملک دیدیا جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ مگر انہوں نے نفرتوں کے باوجوداپنی یہ روش جاری رکھی ہوئی ہے جس کا تجربہ چند سال پہلے ہمیں ہوا جب بھارت یاترا پر گئے اور رمضان وہاں گزارے ؟۔ جبکہ اپنے ملک کا حال یہ ہے کہ جیسے ہی رمضان کی آمد ہوتی ہے اپنے ہم مذہبوں کو سہولت مہیا کرنے کے بجائے ہم ذخیرہ اندوزی میں لگ جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہر چیز کے بھاؤ آسمان کو چھونے لگتے ہیں؟ جبکہ یہ ہمیں کہا گیا تھا کہ اچھے کام میں ایک دوسرے کی مددکرو اور برے کام میں نہیں۔جب میں یہ حالت دیکھتا ہوں تو سو چتا ہوں کیا ہم واقعی مسلمان ہیں، کیا ہم نے سوچ سمجھ کر سلام قبول کیا ہے؟ اگر کیا ہو تا تو کیا ہمارا کردار ایسا ہو تا؟کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر اپنی کتابِ مقدس کی سورہ البقر ہ کے شروع میں سمجھا دیا ہے کہ“ یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی قسم کے شک اور شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے اور یہ صرف ان کے لیے ہے جو تقویٰ یاتوا ختیار کرچکے ہوں یااختیار کرنا چاہیں“ لہذا اس کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہم من اور عن قبول کرلیں ۔ ہم اگر رسمی مسلمان نہ ہو تے تو ہم ان تعلیمات کو مانتے ہو تے؟ جب اسے مانتے تو یہ بھی مانتے کہ آگے قر آن کیا کہہ رہا ہے؟ آگے حضور (ص) سے رب فرمارہا ہے کہ“ جو مجھ سے محبت کے دعوے دارہیں ان سے فرما دیجئے کہ وہ آپ کا اتباع کریں“ پھر قرآن میں اور آگے بڑھیں تو یہ لکھا نظر آتا کہ “تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کا اسوہ حسنہ کا فی ہے، اور دوسری آیت یہ بھی کہ “ یہ اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے سوائے اس کے جو ان پر میری طرف سے وحی کیا جا ئے “مگر ہمیں مسلمانوں کے کردار سے اس کے ماننے کا ثبوت نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو صرف ظاہر داری کی حد تک مگرا س پر عمل نہیں ہے جیسے کہ مال ِ کثیر خرچ کرکے ہم حج کرنے جاتے ہیں جس کے بارے میں حضور (ص) نے فرمایا کہ“ جسے حج مبرور عطا ہوجا ئے تو وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے“ اور اس کی پہچان یہ بتائی کہ“ اس کی واپسی پر وہ تمام خامیاں دور ہوجاتی ہیں جو اس میں پہلے تھیں“ مگر ہم کرتے کیا ہیں بس تن پر ثوب (توب) پہن لیا سر پر عمامہ باندھ لیا اور نام کے ساتھ حاجی لکھ لیا رہا عمل رہے ویسے ہی کہ ویسے ؟
یہ ہی حال نماز کا ہے جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا کہ“ یہ ہر برائی سے دور رکھتی ہے۔“ جبکہ حضور  (ص)نے فرمایا کہ “ مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن نماز پڑھتا ہے اور کافر نماز نہیں پڑھتا“ ہم میں سے بہت سے اس پر عمل پیر ا ہیں مسجدیں پہلے سے کہیں زیادہ بھری ہوئی ہیں کیونکہ الحمد للہ بہت سی جماعتیں اس کی تبلیغ پر اپنے شب وروز اور مال کثیر خرچ کر رہی ہیں۔ لیکن انہوں نے بھی اپنی جدوجہد میں سے اسلام کے سب سے اہم رکن کو چھوڑ دیا ہے جسے  “تزکیہ نفس “کہتے ہیں جوکہ صرف حضور(ص) کو عطا ہوا تھا اس لیے کہ یہ انکی اکملیت کا تقاضہ تھا اور ان کے بعد ہمیں چونکہ حضور (ص) کی نیابت کامنصب ہمیں بطور امتی سونپا گیا ، چونکہ کہ ان کے بعد کوئی نبی(ع)نہیں تھا۔ جو دوسرا رکن نظر انداز کیاگیا وہ بندوں کے ساتھ معاملات تھے(حقوق العباد ) اس لیے اس ادھوری تبلیغ سے وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جو نمازی کی پہچان ہے ابھی رمضان آنے پر دیکھئے گا جو کبھی پورے سال مسجد میں نہیں دکھا ئی دیتے ہیں وہ بھی وہاں نظر آئیں گے؟ لیکن اس سے پہلے ہم اس کے استقبال کی جو تیاریاں کرتے ہیں ملاحظہ فرماتے رہیں کہ ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے، ہر چیز بازار سے غائب ہوجاتی ہے۔ اسی مال سے ایک طرف تولوگ ثواب کے لیئے روزے کھلواتے نظر آئیں گے تودوسری طرف بازار کے بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہے ہونگے ۔ اس لیے کہ ان کا ان اسلامی تعلیمات پرایمان نہیں ہے کہ “ جھوٹا ہم میں سے نہیں ہے ،ذخیرہ اندوز ہم میں سے نہیں ہے“ نتیجہ یہ ہے کہ ہم دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اور ظلم اس پر یہ بھی کہ قسم بھی اللہ کی کھاتے ہیں کہ قسم اللہ! کی ہمیں یہ چیز اس بھاؤ پڑی ہے؟ (جبکہ رمضان شریف سے چنددنوں پہلے وہ اس سے آدھی قیمت میں پڑی ہوتی ہیں مگر خریدی انہوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے نام سے ہوتی ہے ان ہی سے مہنگے داموں خریدکر حاجی صاحب برابر میں فروخت کر کے روزے داروں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں)، جب کہ یہ احادیث ہر طرف کتبوں کی شکل میں آویزاں ہوتی ہیں کہ “کم تولنے والا ہم میں سے نہیں ہے، ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ، ذخیرہ اندوزی کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ، افسروں کو ناجائزمال کھلانے والا ہم میں سے نہیں ہے رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے“ جبکہ یہ تنبیہ بھی ہے کہ اس کے گلے میں ساتوں زمینی طبقوں کے طوق لاکر ڈالے جائیں گے جو کسی کی ذراسی بھی زمین نا جائز طریقہ سے قبضہ کرے گا۔اس طرح ہم اس رمضان کو کھودیتے ہیں حاصل کچھ نہیں کرتے! جس کے بارے میں حضور (ص)  کاارشاد یہ ہے کہ “وہ ہلاک ہوا جس نے رمضان کا آخری عشرہ پایا اور اس نے اپنی جہنم سے نجات نہیں کرالی؟ اس پر بھی سب کے سب متفق ہیں کے رمضان رحمت کامہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں پر رحمتیں عام کردیتاہے۔ مگر ہم بجائے اس کی رحمتوں سے فیض یاب ہو نے کہ اس مہینے میں سب سے زیادہ برائیاں خود کرکے ا نعامات دونوں ہاتھوں سے سمیٹ نے کہ بجا ئے غضب کودعوت دیتے ہیں؟ کیونکہ ہمارا وہ اخلاق ہی نہیں بن پاتا جو کہ حضور (ص) کے نقش قدم پر چلنے سے بن سکتا تھا۔ مثلاًانہوں نے فرمایا کہ میں مکرم الاخلاق بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ اور ہم پورے مہینے صبر کرنے کے بجا ئے مغلوب غضب دکھا ئی دیتے ہیں ہر ایک کو کاٹنے کودوڑتے ہیں کہ ہمارا روزہ ہے؟ بازاروں میں شور مچارہے ہوتے ہیں ، ہر ایک سے لڑرہے ہوتے ہیں کہ ہمارا روزہ ہے ۔جبکہ قرآن بازاروں میں شور مچانے کی سخت مذمت کرتا ہے اور عبادات جتانے سے منع کرتا ہے ، حضور (ص) اور مسلمانوں کی تعریف کرتا ہے کہ“ وہ بازروں میں شور نہیں کرتے“ لیکن ہم شور برپا کر نا اپنا حق سمجھتے ہیں جہاں بھی ہو تے ہیں؟ اور زیا دہ تر اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں کہ بجا ئے دلیل کے آواز کے زور پر لوگوں کو مرعوب کرو ؟ جبکہ قرآن نے سورہ لقمان میں سب سے بری آوازگدھے کی بتا ئی ہے ۔ جاہلوں کی بات چھوڑ دیجئے ہمارے اعلیٰ تعلیم یا فتہ لوگ جن سے معاشرہ بنتا ہے انہیں ٹی وی ٹاک شو میں جا کر دیکھ لیجئے کہ کتنا چیخ رہے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے دریا بہا رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ مہینہ وقت کی پابندی کا سبق دیتا ہے جس میں ہم دنیا کی قوموں سے بہت پیچھے ہیں، اللہ نے سورہ والعصر میں اس کی قسم کھا کر وقت کی اہمیت جتائی ہے اور“ ہمیں اپنا وقت صرف بھلائی میں خرچ کرنے کی تلقین کی ہے“حتیٰ کہ رمضان گزر جاتے ہیں عیدآجاتی ہے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اسکا انعام کیا ہے جس مزدور نے ایمانداری سے مزدوری کی؟ تو وہ جواب دیتے ہیں۔ کہ ا س کی اجرت فوراً ادا کر دینا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتا ہے میں نے سب کو بخش دیا ۔ مگر یہاں بھی کسے! صر ف انہیں جنہوں نے مزدوری ایمانداری سے کی ہو؟ وہ وہاں کیا منہ لے کر جا ئیں گے جنہوں نے پورا مہینہ برائیوں میں گزارا ہوگا یا وہ دونوں کام ایک ساتھ کرتے رہے ہونگے؟پھر وہ اسی طرح عادتا ًعمل کرتے ہو ئے سورہ التکاثر تک پہونچ جا تے ہیں ۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے خبردار کردیا ہے کہ “ تم کیا اسوقت سمجھو گے جب قبر دیکھ لوگے“اس کی تفسیر میں ایک حدیث آتی ہے ۔ کہ “ قیامت کے دن سب چیز کا حساب لیا جا ئے گا؟ “سوائے ان کے جن کے پاس سرچھپانے کے لیے جھونپڑی ،تن ڈھاپنے کے لیے کپڑے اور پیٹ بھر نے کے لیے روٹی ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز مستثنیٰ نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ وہ پانی بھی نہیں جو نماز کے لیے وضومیں بیجا استعمال ہوا ہو؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی فہم عطا فرمائے اور نیک کام کرنے اور برائیوں سے بچنے کی توفیق بھی تاکہ ہم اس مقدس مہینے سے فیض یاب ہوسکیں ۔(آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.