رہنما ہیں کائیاں ،باعثِ رسوائیاں؟۔۔۔از ۔۔۔ شمس جیلانی

آرمی چیف نے کل نئی نسل سے بڑی درمندانہ اپیل کی ہے کہ ہر کام فوج نہیں کرسکتی جبکہ ہر کام کے لیئے فوج کی طرف دیکھا جاتا ہے مطلب یہ تھا کہ اگر پوری قوم ملکر کام کرے جبھی کام چلے گا۔ پھر وہ یہ انکشاف کرنے پر بھی مجبور گئے کہ پہلے جب مجھے ٹارگیٹ بنایا گیا تو میرے بیٹے نے کہا آپ نے برا کیا؟ پھر جب میں نے اس کا جواب دیا تو اس نے کہاکہ آپ نے اچھا کیا؟ یہ ایسی عارفانہ باتیں ہیں کہ جوکہ عوام کی سمجھ سے باہر ہیں؟ جو بھی بات کرے اس کو کھل کر کہنا چاہیئے وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ پہلیاں بوجھنا عوام کے بس کا کام نہیں ہے؟ بات ان کی سمجھ میں آئیگی تو یقیناً وہ اپنی بیرو کریسی ور فوج کے ساتھ کھڑے ہونگے جس خواہش کا انہوں نے اظہار کیا ہے؟ رہیں پہلیاں وہ دانشور ہی سمجھ سکتے ہیں؟ جو سمجھتے بھی ہیں مگر اظہار نہیں کرسکتے؟ اس لیے کہ ان کے فوراً منہ بند کردیئے جاتے ہیں۔ا س کے باوجود بھی وہ جرات دکھا رہے ہیں؟  یہ فوج کے لیے بڑا مشکل وقت ہے؟ اگر میں اور آگے بڑھوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ میں ،میں بھٹو صاحب کا وہ مجذوبانہ نعرہ یاد دلانا چاہونگا جب پاکستان دولخت ہوا تھا اور انہوں نے شملہ معاہدے کے بعد فرمایا تھا کہ “ اگر اب فوج نے آنے کی کوشش کی تو میں انڈیا سے ٹینک پر بیٹھ کر آونگا ‘ لیکن وہ بھول گئے تھے کہ ایک ہستی اوپر بھی ہے جو بقول حضرت علی (ع) کہ “ صرف ا رادوں کے ٹوٹ جانے سے پہچانی جاتی ہے؟ لہذاوہ جنرل ضیا الحق سے مار کھا گئے؟ اور انہیں کچھ بھی کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ پھر موجودہ وزیراعظم جنرل مشرف کے ہاتھوں مار کھا گئے وہ بھی کچھ نہ کر سکے ؟رہے وعدے وہ یہاں کسی نے کبھی نہیں نبھائے؟ مگر اب موجودہ وزیر اعظم میں تبدیلی یہ ہے کہ وہ بلا قلعے کے شطرنج کھیل رہے ہیں؟ اسی لیئے انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنائی ؟ ممکن ہے کہ جو شطرنج کے کھلاڑی نہیں ہیں وہ نہ سمجھ پائے ہوں کہ قلعہ کے بغیر کھیلنے میں اور قلعہ بنا کر کھیلنے میں کیا فرق ہے تو عرض ہے کہ“ قلعہ بند کھلاڑی کے یہاں قلعہ بندی نظر آتی ہے لہذا دشمن پہلے قلعہ ڈھانے کی کوشش کرتا ہے “ اگر وہ قلعہ کے بغیر کھیل رہا ہے اور شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلا رہا ہے تو اس کی اگلی چال کا تعین کر نا ممکن نہیں ہے ۔ تاریخ میں چلے جائیں تو ایسے واقعات بہت ہیں کہ اپنی ریاستں خود مسلمانوں نے تباہ کر دیں ؟ رہے عوام وہ سب سے دھو کا کھائے ہوئے ہیں ہرا یک انہیں اپنے مطلب کے حصول کے لیئے استعمال کرتا ہے اور جب کامیاب ہو جاتا ہے تو انہیں استعمال شدہ “ نپکین“ کے تکڑے طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔لہذا وہ اس حدتک لا تعلق ہو چکے ہیں کہ کچھ بھی ہوتا رہے ان کی بلا سے؟ اب تک کی تاریخ یہ رہی ہے کہ عوام کے ذریعہ ہر ایک  دباؤ ڈالتا ہے؟ لیکن سمجھوتا بند کمروں میں کرلیتا ہے؟ یہ تماشہ ابھی بھی جاری ہے؟ لہذا وہ ہر ایک کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو بعد میں ثابت بھی ہو جاتا ہے۔ رہے ً“لفظ صادق ور امین “یہ اردو کی لغت میں تو ملتے ہیں۔مگر پاکستان میں عنقا ہے؟ اس کے لیے میری بات پر مت جائے گذشتہ ا نتخابات کے دور کے اخبار اٹھا کرپڑھ لیجئے؟ ہر طبقہ کا کہتا تھا کہ“ نہ“ ہم صادق اورنہ ہی امین ہیں اور نہ ہی بن سکتے ہیں نہ صداقت اور امانت پاکستان میں چل سکتی ہے“کیونکہ ہر شخص بے ایمانی کرنے پر مجبور ہے کہ پورا نظام ہی اس پر چل رہا ہے؟ یہ ایک مضبوط جال ہے جسے انگریزی میں“ نیٹ ورک کہتے ہیں “ اس کے تانے بانے ایک دوسرے سے جڑے ہو ئے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے ،مگر پکڑا کوئی نہیں جاتا ؟ا س لیے کہ اس میں ا ن پردہ نشینوں نام آتے ہیں جو ان کے پیچھے ہیں کیونکہ پیسے وہاں تک پہونچتے ہیں ؟ زیادہ شور مچتا ہے تو چھاپے پڑنے شروع ہوجا تے ہیں ؟ جو کہ پہلے سے ہر کالا کاروبار کرنے والے سے طے شدہ ہے کہ تم جو چاہوکرو ؟ ہمیں ہر حالت میں اتنا دینا ہو گا؟ اور سال میں ایک دفعہ چالان بھی کرا نا ہو گالیکن ہم تمہیں نہیں،صرف تمہا رے کارندوں کو پکڑیں گے ؟ بعد میں ہم ثبوت ہی نہیں دینگے اور وہ چپکے سے چھٹ جا ئیں گے، بات ختم ہو جا ئے گی؟ چنددنوں پہلے میڈیا میں ایک خبر آئی تھی کہ ایک مقام پر چھاپہ پڑا وہاں سے ساڑھے پانچ ہزار گدھوں کی کھالیں بر آمد ہو ئیں ۔ کیونکہ آجکل گدھوں کی کمبختی آئی ہو ئی ہے؟کہ سنا ہے کہ ان کی کھال حسینوں کے افزائش حسن میں کام آتی ہے؟ چلیئے کھالیں تو وہاں کھپ جاتی ہیں، مگر انکا گوشت کہاں گیا جو ٹنوں کے حساب  سےہونا چاہیئے۔ اگر وہ لوگوں کہ پیٹوں میں نہ جا تا تو تعفن وجہ سے پورا شہر ہی سڑ جا تا ؟ کیونکہ وہاں کچرہ پھینکنے کا کوئی نظام ہی سرے سے موجود ہی نہیں ہے؟ وجہ یہ ہے اور پورا ملک اس لیے عدم تعاون کا جیتا جاگتا شاہکار بنا ہوا ہے؟ کہ ہم ہر کام الٹا کرتے ہیں!  چونکہ ہادیِ(ص) اسلام نے صفائی کو  “نصف ایمان فرمایا ہے“ اس لیے ہم کوڑا پڑوسی کے دروازے کے سامنے پھینکدیتے ہیں، جبکہ اس کو بھی سختی سے انہوں (ص)  نےمنع فرمایا ہے کہ“ اگر اپنے دروازے کے سامنے بھی کوڑا پھینکو اور س میں موسمی پھلوں کے چھلکے ہوں تو پہلے پڑوسیوں کے گھران پھلوں میں کچھ بھجوادو؟ تاکہ ان میں احسا س محرومی پیدانہ ہو“ جبکہ ہمارا عمل کیا ہے؟ ہم پڑوسیوں کو ہر کانہ اور اپنی برتری ثابت کر نے لیئے ان کے دروازے پر ڈالدیتے ہیں ؟ جبکہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی شریف آدمی اسے پھینکنا بھی چاہے تو جائے کہاں؟  جبکہ کوڑا اٹھانے کاکوئی انتظام ہی نہیں ہے۔ جہاں وہ لیجائیں اور پھینک دیں؟ شہر میں چاروں طرف  “کچرے کے ڈھیر ہیں اور وہ ہیں دوستو!  “ جبکہ اس کام کے لیئے ترقی یافتہ ملکوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر شہر کے باہر ڈمپنگ گراؤنڈہو تے ہیں یہ وہ زمین ہو تی ہے جو تھوڑی سی نشیبی ہو؟ اس کے لیے میونسپلٹی اپنا عملہ بٹھا دیتی ہے وہاں ٹیکس وصول کرتی ہے اور وہ کھڈا بھی بھر کر کا ر آمد بن جاتا ہے، جبکہ فالتو کوڑا بھی ٹھکانے لگ جا تاہے۔ ہر میونسپلٹی میں ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ شہرسے با قاعدہ کچرا اٹھایا جاتا ہے۔جس میں ہر گھر سے کچھ کارٹن رکھنے کی اجازت ہوتی ہے؟ اس طرح شہر صاف رہتا ہے؟ جبکہ سڑک پر کچرا پھینکنے پر سخت جرمانہ ہے ۔ جو ایک چھوٹے سے کاغذ کے تکڑے یا“ سگریٹ کے ٹوٹے“ پر بھی دوہزار ڈالر تک ہو سکتا ہے؟ لہذا ہر ایک محتاط رہتا ہے؟کراچی کے کچرے کو دیکھ کر بین لاقوامی اداروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے؟ جی ہاں! یعنی اپنو ں میں ہی نہیں غیرو ں میں بھی اس قوم کے چرچے ہیں جہاں “ صفائی نصف ایمان ہے “ اور آبادی اٹھانوے فیصد مسلمان ہے؟ پانی کی نکاسی  کاکوئی انتظام ہی نہیں ہے مچھروں کی فزائش نسل کے لیے فضا بڑی ساز گار ہے؟ اس کے لیے عملہ بھی ہے محکمے بھی ہیں، مگر ان میں بھوت بھرتی کیئے ہوئے ہیں جوکہیں دکھا ئی نہیں دیتے جبکہ وقت ضرورت یا تنخواہ دن ان کی نمائش کردی جاتی ہے؟ اس وجہ سے تمام صفائی کام سالوں سے حکمرانوں کے ذمہ “ ا دھار “ہے اور یہ ادھار روز بروز بڑھتا جا رہاہے ، ہر خالی جگہ پر کچرے کی پہاڑیاں اُگ رہی ہیں جوکہ کراچی بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ سنا ہے کہ “ یہ کام بھی اب کچھ علاقوں میں اپنے چینی بھائیوں کے سپرد کردیا گیا ہے“ کیونکہ وہ اس کے بدلے میں بقول پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے کچھ نہیں مانگتے ہیں ۔ یہ تصوراتی طور پر تو سچ ہو سکتا ہے۔ مگر عملی طور پر سچ نہیں ہو سکتا؟کیونکہ چین مدت ہو ئی سوشیلزم کا جامہ اتار کر پھینک چکا ہے اور اس نے عملی طور پر کیپٹل ازم اپنا لیاہے؟ یہ اور بات ہے کہ ہم میں احساس زیاں نہ رہا ہو؟ نظر تو ایسا آرہا ہے کہ جوکام روس اپنی پوزیشن ،مال، ااور گولہ بارود گنواکر حاصل نہیں کرسکا یعنی گرم پانیوں تک رسا ئی اس نے اسے مفت حاصل کر لیا؟ لیجئے بجٹ بھی آگیا ہے ، اعداد شمار بہت ہی امید افزا ہیں۔ اس کی صداقت اس سے ظاہر ہے کہ اس میں“ گدھوں“ کی تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی ہے ،جبکہ اونٹوں اور گھوڑوں گھٹتی ہوئی دکھا ئی ہے؟ جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے؟
خدا نہ کرے کہ ہمیں وہ دن دیکھنا پڑے جسے نگریزی کے ایک محاورے میں کہا جاتا کہ “ کیمل ان شیخ آوٹ “  یہ اگر آپ کی سمجھ نہ آئےتو اپنے بچوں سے پوچھ لیں جنہیں آپ انگریزی اسکولوں میں انکا اور اپنا مستقل بنانے کے لیے پڑھا رہے ہیں ؟ جبکہ ہم نےاپنےعلماء کو ایک ٹی وی یہ تلقین فرما تے کہ اپنے بھائیوں کے بارے میں “ حسن ِ ظن“ رکھیں؟  ہمیں حکم بھی یہ ہی ہے مگر“ان بھائیوں“ کے لیے جوکہ آجکل ہم میں نا پید ہیں۔ اس کی تعمیل میں کیاآپ چوروں ڈکیتوں اورٹھگوں کے لیے آپنا دروازہ کھولنا پسند کریں؟ اللہ ہمیں سب کو عقل دے( آمین) کہ ہم جہاں بھی ہیں اسلام اور ملک کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں جبکہ فلاح صرف اتبائے رسول (ص) میں ہے جس کو ہم نے چھوڑ رکھا ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.