حادثہِ احمد پور شرقیہ۔ کاذمہ دارکون؟ از ۔۔۔ شمس جیلانی

مکرم اخلاق حضرت محمدمصطفیٰ (ص) کے نام لیوا جوکبھی بہت ہی بلند اخلاق تھے اب ا تنے پست کیوں ہوگئے ہیں کہ کہیں سے بھی سوائے بری خبروں کے کوئی اچھی خبر نہیں آتی ۔ پاکستان کو دیکھئے تقریباً دوسال سے زیادہ عرصہ گزرگیا صبح کو ٹی وی کھو لیئے تو پانامہ ،اخبار کھولیئے تو پناما کسی محفل میں جائیے تو پناما زیر بحث ملیگا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام دوسرے مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔ اگر حکمراں اپنی تمام رقم ایڈورٹائز پر خرچ کردیتے تو بھی اتنی شہرت نہ ملتی جتنی کہ انہیں مفت میں اس طرح مل گئی۔ قوم کا کتنا پیسہ ، وقت اوراعلیٰ عدالتوں کا کتنا وقت اس پر خرچ ہو ا ہوگا ، خود ہی قیاس فرمالیں۔ حاصل کیا ہو گا ۔۔۔۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے جوکہہ رہے ہیں ان کی مرضی  کہ انہیں کچھ  توکہنا ہے۔ پہلے ہی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد بہت زیادہ تھی اب اور بھی اضافہ ہو گیاہو گا۔ قومی مسائل اور دوسری فائلیں گرد میں اٹی ہوئی کہیں پڑی سڑرہی ہونگی ان کی کسی کو یاد دلانے کی فرصت ہی کہاں ہے؟ ۔
ہم سوچ رہے تھے حادثہ ِاحمد پور شرقیہ کے بارے میں کوئی اور ضرور کچھ لکھے گا  مگر کل ہم نے پاکستان کے وزیرِ تیل وگیس کو اس پراٹک کر اٹک بات کرتے دیکھا تو یہ معاملہ، جس میں اب تک دوسو چوبیس جانیں ضائع ہو چکی ہیں یادآ گیا۔ شاید وجہ یہ ہی ہے کہ آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ کسی کو انسانی جانیں جانے پر کوئی ملال نہیں ہے۔ عوام اور حکمران دونوں نے ہی بڑھتی ہوئی آبادی کا حل یہ ہی سوچا ہو اہے کہ مرنے دواللہ اور دیگا؟ ورنہ قومیں تو اپنے ایک ایک فرد پرجان دیتی ہیں۔ مگر وہاں ابھی تک تلاش ہورہی ہے کہ ا س حادثہ کا ذمہ دار تھا کون؟ مجھے یقین ہے کہ  وہ ہمیشہ کی طرح آخر میں کوئی چھوٹا سا پولس کا عہدیدار نکلے گا۔ جبکہ میرے خیال میں اس کے لیے پورا معاشرہ ذمہ دار ہے۔ اس لیے کہ  حادثہ کی وجہ جہالت ہےاور ذمہ دارغربت ہے۔ وہ لوگ ہیں جو پیسہ یہاں سے کما کر ملک سےباہر لے جاتے ہیں اور مقامی باشندوں کو نان شبینہ کے لیے ترستا چھوڑ جا تے ہیں ۔ اسلام جس نے قرآن میں متعدد جگہ ارتکاز دولت کی مذمت کی ہے ۔ اس کے برعکس اتنا ہی اس کے پیرو من حثیت القوم اس مرض میں مبتلا ہیں۔ آپ تمام اسلامی دنیا کا جائزہ لے لیں یہ ہی صورتحال ملے گی۔  ایٹمک طاقت کے حامل ملک پاکستان میں چلے جائیں !آپ کو بہت سے بچے جن کی عمریں اسکول جانے کی ہیں وہ کچرے کے ڈھیروں پر کھانے کی بوسیدہ چیزیں تلاش کر تے ہوئے ملیں گے، مافیا کے لیے بھیک مانگتے نظرآئیں گے۔ کیونکہ پرائیوٹ ااسکولوں میں تعلیم بہت مہنگی ہے ،جبکہ سرکاری تعلیمی ادارے نام کو ہیں جس میں پڑھائی کم اور چوری زیادہ ہے۔ وہاں بھی سیاست چلتی ہے اثر و رسوخ چلتے ہیں اس کے تحت جولوگ آتے ہیں وہ پڑھانے اسکول جا تے ہی نہیں، صرف تنخواہ لینے جاتے ہیں۔ جو بھی نئے اسکول کھلتے ہیں وہ کچھ دنوں کے بعد وڈیروں کے اوطاق بن جاتے ہیں مگر شرماتاکوئی نہیں ہے۔ جبکہ تعریفوں کے ڈونگرے لیڈروںکے مداحین برساتے رہتے ہیں ۔ان کے فعلوں کو حضرت فاروق اعظم (رض) سے مثال دیتے ہیں جو کہ اپنے دور خلافت میں فرماتے تھے۔ کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرجائے تو عمر (رض) ذمہ دار ہے۔وہ محلوں میں نہیں رہتے تھے جہاں عوام تو کیا خواص کی رسائی بھی ناممکن ہے ۔ ان کاحال یہ تھا کہ جہاں نیند آگئی کسی درخت کے سایہ میں “  پناکوڑا“ سر کے نیچے رکھا اور سو گئے۔ وہ قحط میں شہد کھانا بند کر دیتے تھے کہ عوام کو کھانے کو نہں مل رہا ہے۔ان کی حفاظت کے لیے لاکھو کی تعداد میں مختلف قسم کی سکوریٹی کے اندر سکورٹی ایجینسیز کا نظام نہیں تھا۔ ان کے لیئے ٹریفک بند نہیں ہو تا تھا ۔ ان میں بر داشت اتنی تھی کہ ایک عام خاتون حضرت خولہ (رض) بنتِ ثعلبہ ان کے ساتھیوں کے سامنے ٹوک دیتی تھیں کہ اے عمر (رض)! اللہ سے ڈرو؟ تم جو کچھ بھی آج ہو اسلام کی وجہ سے ہو۔ ورنہ تم کو میں نے تمہارے بچپن میں دیکھا تھا کہ تم عکاظ کے بازار میں بکریاں چرایاکرتے تھے۔ وہ ہاتھ باندھے اور سر جھکائے غور سے انکی باتیں سن رہے ہیں۔ تھوڑی بہت دیر نہیں کافی دیر تک ۔ جب وہ خاموش ہو کر چلی گئیں تو اپنے ساتھیوں کے پاس واپس تشریف لائے ، ساتھیوں نے کہا کہ اے امیر المونین (رض)! آپ نے ایک خاتون کے لیےاتنا وقت خرچ کردیا  جبکہ وہ آپ کو ناحق ڈانتی رہیں اور آپ خاموشی سے سنتے رہے؟فرمایا کہ اگر وہ اسی حالت میں پورا دن اور رات بھی گزاردیتیں تو میں سوائے نمازوں کے اوقات کے اسی طرح سنتا رہتا،جانتے ہو یہ کون تھیں؟ یہ وہ خاتون تھیں جن کی فریاد آسمان پر سنی گئی ۔ اور ظہار کے مسئلہ پر سورہ مجادلہ نازل ہوئی۔ سب ساتھی خاموش ہوگئے ؟  وہ بیت المال  کوبیت المال سمجھتے انہوں نے اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانے سے منع کردیا کہ میرے خاندان میں عمر (رض) ہی بہت ہے اس بارگراں کو قیامت میں  اپنے کندھوں پر اٹھانے  کے لیے۔ انہوں نے اپنے آخری وقت جوکچھ اپنے گزارے کے لیئے بیت المال سے لیا پائی پائی کا حساب کرکے رقم واپس کردی تھی؟ آج کے دور میں کوئی ایسا کہیں پایا جاتا ہے جسے ان (رض) سے مثال دی جائے؟ جواب مثال دینے والوں پر چھوڑتا ہوں؟ کہ شایدانکے علم ہو اور مجھے بتاکر میری معلومات میں اضافہ کریں۔
رہاذمہ داری کاسوال اگر وہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق تعلیم عام ہو تی تو کھلے برتنوں میں پٹرول بھرنے والے (وہ جس نیت سے بھی بھر رہے تھے کہ نیتوں کے حال توصرف اللہ ہی جانتا ہے ! ممکن ہے  کہ پھٹے ٹینک میں واپس ڈالنے کے لیے جمع کر رہے ہوں) مگر وہ یہ ضرور جانتے ہو تے کہ کھلے برتنوں میں پٹرول بھر رہے ہیں اگر کسی تماشہ بین یا راہ گیر نے سگریٹ جلتی ہو ئی زمین پر پھینک دی تو آگ لگ جا ئیگی۔ تب یہ حادثہ کبھی رونما نہ ہوتا کیونکہ وہ اس کے قریب ہی نہ جا تے؟ کیا بجا ئے تعلیم کے اس کے بدلے میں ا نہیں رقم ِ کثیر دینے سے ان کے یتیم بچے، باپ والے اوران کی بیوہ مائیں سہاگن ہو سکیں گے۔ کاش اس ملک میں فعال قسم کے اسکول ہوتے جن کے ذریعہ ان میں بیداری پیدا کی گئی ہوتی کہ حادثات سے کیسے نبٹا جا تا ہے؟  ان کےپیٹ بھرے ہوئے ہو تے تاکہ بھوک کی وجہ سے ان میں لالچ نہ ہوتی، تو وہ اپنی جانوں کو جان کر ہلاکت میں نہ ڈالتے؟ اس سلسلہ میں حکومت ہنگامی حالت کے لیے کتنی مستعد تھی  وہ  اس سےظاہر ہے کہ بقول متعلقہ وزیر کے پانچ بجے واقعہ پیش آیا اور ڈھائی گھنٹے کے بعد  آگ لگی۔اب تحقیق طلب بات یہ ہے کہ کیا ڈرائیوریا ٹریفک پولس نے کسی ذمہ دار کو اطلا ع دی اور اس پر ایکشن کیا ہوا یا سب سوتے  ہی رہے اورسڑک پر تیل کاسمند ر بہتا رہا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.