حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ۔۔۔از۔۔ شمس جیلانی

یہ محاورہ ہم سےعمر میں بڑا ہے کیونکہ ہم اسے بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ایسا بھی ہوتاہے۔ مگر پہلے کبھی دیکھا نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے کسی نے کسی کو ایسا کرتے دیکھا ہو، اگر کسی بھائی نے دیکھا ہو توہمیں بھی مطلع فرما دیں تاکہ ہم ا پنا ریکارڈ درست کرلیں۔ لیکن کہ اس میں سے موجودہ دور کو نکال دیں کیونکہ اس دور میں تو یہ اب عام  ہے۔  سب نے دیکھا کہ مالِ حرام سے پچھلے مہینے روزے کھلوائے گئے ،عمرے کرا ئے گئے۔ “نہ کھانے والے ٹھٹکے نہ جانے والے ٹھٹکے“ اگر کوئی صاحب اپنی گاڑھے پسینے کی کمائی سے یہ کام کرواتے تو ہم مان جاتے اور انہیں ذاتی طور پر مبارک باد دینے ان کی خدمت  میں حاضر ہوتے؟گوکہ درباروں میں حاضری ہمارا شیوہ ہی نہیں ہے اور یہ “ جوئے شیر“ لانے سے کم بھی نہیں ہے کہ وہاں عوام تو عوام وزراء تک کی رسائی نہں ہے۔ دوسرے “جوئے شیر“ خالص دودھ کی ہوتی ہے اور وہاں خالص دو ھ کاحصول ہی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے ۔ ممکن ہے کہ “ جاتی امراہ“ کے باشندوں نے اپنی ہاں بھینس پال رکھی ہو ں ؟ان کو اور نعمتوں کی طرح خالص دودھ بھی میسر ہو۔ رمضان میں تو عمرہ کرانے کی بہت سی ورداتیں ہوئیں جوکہ حلال کے مال سے نہیں تھے۔ اگر کسی نے اپنی جیب کرایا ہو تو ہمیں علم نہیں کہ حکم یہ ہے کہ اس ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو “ ورنہ محنت ا ور دولت ا کارت جا ئے گی۔“کیونکہ حدیث یہ کہ “ جو کام دکھاوے یا کسی اور مقصد کے لیے کیا جا ئے وہ ریاکاری میں آتا ہے چاہیں شہادت ہی کیوں نہ ہو؟ کیونکہ وہ بیکار چلا جا تا کہ وہ خالص اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے نہیں ہوتا؟
خدا کا شکر ہے کہ پوری قوم جب سجدے میں گر گئی تواللہ سبحانہ تعالیٰ نے نمعلوم کس برزگ  یا بچےکی دعا قبول کرلی کہ “مدت کے بعد کرکٹ ٹیم ایک میچ جیت گئی“ جبکہ ہم نے تو یہ حدیث بھی پڑھ رکھی ہے کہ “ جب تم من حیثیت القوم برائی کو برائی سمجھنا چھوڑ دوگے اور برائی پر لوگوں کو ٹوکنا بھی چھوڑ دوگے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ تمہارے بدترین لوگوں کوتمہارے اوپر حاکم مقرر کر دے گا،پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن قبول نہیں ہونگی “ اس قبولیت سے جو بات ثابت ہوئی وہ یہ ہے کہ ابھی کچھ لوگ وہاں باقی ہیں جو برائی کو برائی سمجھتے اورکہتے ہیں؟  یہ اور بات ہے کہ وہ کہتے اور ٹوکتے نہ ہو ں، صرف دل سے برا مانتے ہوں جو کہ سب سے نچلے درجہ کی نیکی ہے۔ اللہ کے بھید تو اللہ ہی جانتا ہے ۔یا عمرے پر بھجوانے والے جانتے ہو نگے کہ کس، کس نے قومی بجٹ میں کہاں کہاں عمرہ کروانے کے لیے پہلے سے اپنی روشن ضمیری کی بنا پر اس مد میں رقم مخصوص کر رکھی تھی۔ اگر وہ کسی اور مد سے دی تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیانت کہ زمر ہ میں آتا ہے ۔ چلیں رمضان لمبارک تو گیا، اب ایک سال کے بعد پھرآئے گا اس دوران قوم کتنی ترقی کرتی ہے کون جا نے؟ اور ہم جیسے آوٹ آف ڈیٹ لوگ جانے دیکھنے کے لیے اسوقت تک زندہ بھی رہیں یانہ رہیں۔
مگر ہم نے کچھ دنوں پہلے رمضان کے بعد ایک کھیل ٹی وی پر دیکھا کہ ایک لمحہ پہلے ٹریفک سارجینٹ سفید وردی میں ملبوس ایک کار کوکسی بنا پر رکنے کا اشارہ کر بھی نہیں پایا تھا کہ اس کے بجا ئے اس کی کھوپڑی سڑک پر گیند طرح لڑکتی نظر آئی، مگر کار رکی نہیں۔ اسے کون چلا رہا تھا اس کا پتہ نہیں۔ لیکن کار کس کی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔کہ وہ ایک شاہ کے مصاحب اور دوسرے وہاں کے گورنر صاحب کے قبیلہ کارکن تھی۔جبکہ وہ خود بھی خیرسے صوبائی اسمبلی کا رکن تھا۔ یہ اس کارمالک کے ساتھ انتہائی بے انصافی ہے کہ خطا اس کی کار کرے اورمالک کو گرفتار کرکے اسی صوبے کی پولس کے سپرد کردیا جا ئے تاکہ گھر جیسی سہولت اسے میسر رہے؟ لیکن اس سلسلہ میں متعلقہ ڈپٹی کمشنر نے جو چابکد ستی دکھائی وہ ایک کہانی عام کر رہی کہ گاڑی  “ڈرائیور “ نہیں کوئی اور چلا رہا تھا ورنہ وہ پکڑا وادیا جاتااور بات ختم ہو جاتی۔ یہ کوئی اور ہی تھا جس کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بہ نفس نفیس سارجنٹ کے گھر جا کر اس کے “ورثا“ کی اشک شوئی کر نا پڑی اور جیب ِ خاص سے اسے ایک رقم ِ کثیر  بھی بطور عیدی دینا پڑی، پھر ایک معاہدہ وجود میں لا یا گیا ۔ جس میں دونوں میں طے پایا کہ مرحوم کو شہادت کا درجہ حکومت عطا کرے گی ؟ (جبکہ اس سے پہلے ہم اس سے واقف نہیں تھے کہ شہادت کا درجہ حکومت بھی عطا کرتی ہے؟) بیٹے کو نوکری دی جا ئے گی، رہنے کے لیے سول لا ئن میں اسے مکان بھی دیا جا ئے گا، وغیرہ وغیرہ ۔ا س کے بدلے میں مرحوم کا خاندان مقدمہ میں ظالم کی مدد کریگا۔ اللہ مرحوم ضیاالحق کو قبر میں کروٹ ، کروٹ جنت نصیب فرمائے کہ وہ ادھورا اسلامی نظام نافذ کرگئے ۔ جس سے ظالموں کے لیئے یہ گنجائش نکل آئی کہ مقتول کے ورثا کو“ دیت“ دیکر ظالم خود کو معاف کر وا سکتے ہیں۔ جس میں صرف اپنے ہی نہیں امریکن ملزم بھی با عزت رہا ہو کر چلے گئے۔ پھر اس معاملہ کو میڈیا نے حسب عادت اچھالا تو ہم نے تردید دیکھی جوکہ اس کے بیٹے کی طرف سے آئی تھی کہ انہوں نے سادھے کاغذ پر زبردستی انگھوٹھا لگوالیا ہے، ہم نے کوئی تصفیہ وغیرہ نہیں کیا ہے ۔  “میں اپنے باپ کے خون کا بدلہ لونگا“۔ جبکہ تعزیزیرات پاکستان میں  دفعہ 406الف کے تحت تھوڑی سی سزا ہوسکتی ہے۔ مگر اس میں سزائے موت جبھی دی جاسکتی ہے جبکہ ثابت ہو جا ئے کہ قتل عمد تھا  اور دفعہ 302  لگائی جائے۔ چونکہ عدالت نے اس مقدمہ کا ازخود خود نوٹس لےلیا ہے لہذا ہم اپنا قلم روک لیتے ہیں اس لیے کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں یہ ہی رواج ہے۔ جبکہ وطن ِ عزیز کا رواج کیا ہے اور سرکاری حلقے کیاکر رہے ہیں، وہ ایک دوسر ے مقدمہ میں آپ وی ٹی وی ٹاک شو اور اخباروں میں ملا حظہ فرمالیں ۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.