ہمیشہ سےمسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی لغت میں غداری کے معنی یہ ہیں کہ جو حکمرانوں پر انگلی اٹھائے وہ غدار اور جوگردن نیچی کرلے وہ وفادار ۔ اور بھی مختصر الفاظ میں بس یوں سمجھ لیں کہ “ جوانکی تانا شاہی کو بے نقاب کرے وہ غدار“ حتیٰ کہ جو جمہوریت اور جمہور کی بات کرے وہ بھی غدار۔جبکہ دنیا میں غدار اسے کہتے ہیں جو ملک کے مفاد کے خلاف کوئی کام کرے، وہی صرف غدار کہلاتا ہے؟ اس کی سزا زیادہ تر ملکوں میں موت ہے۔ مگر پاکستان میں غداری کی عجیب عجیب قسمیں رائج ہیں مثلا ً “جو مودی کا یار ہے وہ غدار ہے“ایک مدت تک یہ بھی نعرہ گونجتا رہا کہ “جوامریکہ کا یار ہے وہ غدار ہے “جبکہ اس کے بغیر نہ کوئی وہاں آتا ہے نہ کوئی جاتا ہے۔ اس معاملہ میں یہ ملک اتنا بد قسمت ہے کہ ا یک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ اس کے فا ؤنڈر بھی غدار کہلائے، مثلا ً قرارداد پاکستان 1940 کے جو صاحب محرک تھےاور قوم نے انہیں“ شیر بنگال “کے خطاب سے بھی نوازا ہوا تھا“ وہ اس کے محرک تھےجس قرارداد میں صوبوں کی یونین بنانے کی بات تھی جس میں حدود بعد میں متعین ہونا تھیں نام بھی نہ تھاجس کو آجتک پاکستانی ہر سال مناتے بھی ہیں ان کا نام تھا مولوی اے کے فضل الحق ۔ وہ نہ صرف پاکستان بننے کےبعد غدار کہلائے بلکہ انہیں جیل میں بھی ڈالدیا گیا جس پر محسن بھوپالی کو یہ کہنا پڑاکہ ع “ تلقین ِ اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے“ لیکن اللہ کا کر نا کچھ ایسا ہوا کہ وہی کچھ دن کےبعد پاکستان کے وزیر داخلہ ہو کر تغلق ہاؤس کراچی میں سریرآرائے کرسی ہو گئے۔ اور ان کےساتھ یہ کھیل اس وقت تک جاری رہا جب تک وہ اللہ کو پیارے نہیں ہوگئے۔ یہ ہی نوازشات ان پر بھی رہیں جن کانام حسین شہید سہروردی تھا۔جو 1946ءکی “قرارداد پاکستان“ کے محرک تھے۔ وہ بنگال سے صوبائی وزیر اعظم تھے جس میں مسلم لیگ غالب اکثریت لے کر آئی تھی اور وہ ایک اسپیشل ٹرین بھر کر غیر تقسیم شدہ بنگال کے مسلم لیگی پارلیمانی پارٹی کے لیڈروں کو لیکر دہلی آئے تھے، جس کا استقبال خود دہلی کےاسٹیشن پرجا کر قائد اعظم مرحوم نے کیا تھا۔ اور دہلی میں قیام کےدوران آل انڈیا مسلم لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ایک بار پھر“ قرارداد پاکستان“ منظور ہوئی جس میں ملک کا نام بھی پاکستان لکھا گیا تھااور اس کی حدود بھی۔ مگر وہ اس لیے “ قرارداد پاکستان“ کا درجہ نہ پاسکی کہ ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کے “ مخالف“ کی پیش کردہ قرار داد کو قردادِ پاکستان کا درجہ دیا جائے۔
جس کا فائدہ بعد میں مجیب الرحمٰن نےاٹھایا۔ یہ وہ واحد وزیرِ اعظم تھے جن کے پاس رہنے کو گھر پورے پاکستان میں نہ تھا اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کے گھر میں رہتے تھے جو برٹش دور کے مشہور مسلمان جج جسٹس سر محمد سلیمان مرحوم کی بہوتھیں ۔ یہ ان کی حالت تھی جن کی کلکتہ میں واقع جائیداد اس وقت25 لاکھ روپیہ میں انڈین گورنمنٹ نے نیلام کردی تھی جبکہ بعد میں وہ ووٹوں کے ذریعہ پاکستان کے وزیرِا عظم بن گئے۔ لیکن جب انہوں نے “ زمینداری“ کے خاتمہ کی بات کی تو ان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا؟ اُن پر ایبڈو لگایا گیا نا اہل اور غدار قرار دیئے گے۔ جیل بھیجے گئے؟ یہ تو ان کا حال تھا جو قرارداد ِ پاکستان کے محرک اور قوم کے ہیرو تھے۔ ایک تیسری اہم شخصیت جنہوں نے تحریک پاکستان کو صوبہ سندھ میں اس قابل بنا یا کہ وہ وہاں صرف ایک سیٹ سے اکثریت لے سکے اور وقت آنے پر پاکستان میں شمولیت کے حق میں قرارداد پاس کر سکے ۔ وہ تھے جی ایم سید۔ جو کہ بعد میں غدار پائے کیونکہ وہ ایک درمیانہ درجہ کے زمیندار تھے۔ جب حالات بدلے اور پاکستان بنتا نظر آیا۔ تو سارے بڑےبڑے زمیندار راتوں راتوں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اورجی ایم سید کے صوبائی پارلیمانی بورڈ کے دیئے ہوئے سارے ٹکٹ اپیل میں مرکزی پارلیمانی بورڈ نے منسوخ کرکے نئے آنے والوں کو دیدیے ۔ جب انہوں نےاس نا انصافی پر آواز اٹھائی تو ان کو مسلم لیگ سے نکا لدیا گیا غدار قرار دیدیا گیا۔ پھر جو بھی آیا انہیں اس نے جیل میں رکھا۔حتیٰ کہ وہ قید وبند کی زندگی سے آزاد ہو گئے۔ یہ تھا انکا حال جو مسلم لیگ کے “رمضانی“ قسم کے ہیرو تھے۔ جب پاکستان بنا تو صرف بنگال میں مسلم لیگ کوواضح اکثریت حاصل تھی وہ ایک آدھ کو چھوڑ کر رمضانیوں پر مشتمل تھی اس نے پہلی فرصت میں جیسے ہی اسے مو قعہ ملا وہاں زمینداری ختم کردی جب کہ یہ ہی بات انہوں نے مغربی پاکستان کے لیے تجویز کی تو پھر کسی بنگالی کو مغربی پاکستان وزیر اعظم بنانے کو تیار نہ ہوا جب کہ وہ آبادی کے 54فیصد تھے۔ آزادی سے پہلے مغربی پاکستان کی صورت حال یہ تھی کہ سندھ میں ایک ووٹ سے مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ بلوچستان صوبہ ہی نہ تھا۔ وہاں بلوچی گاندھی خان عبدالصمد مرحوم کا طوطی بول رہا تھا ااورحاکم ا یجنٹ ٹو دی گورنر جنرل تھا لاتعداد ریاستیں تھیں ، سوائے کوئٹہ میونسپلٹی کے کہیں بلوچستان میں کوئی منتخب حکومت نہ تھی۔ پنجاب جو بعد میں دوحصوں میں بٹا۔ تقسیم سے پہلے وہاں یونینسٹ عملی طور پر حکمراں تھے اور سر چھوٹو رام کی زیادہ تر حکومت رہی۔ پاکستان بنا تو وہاں دونوں طرف آگ لگ گئی اور پورا پنجاب خون کی ہولی کھیل رہا تھا اور بری طرح جل رہا تھا۔ جبکہ صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کے برادرِ حقیقی ڈاکٹر خان کی صاحب کی نیم کانگریسی حکومت تھی۔ وہاں ریفرنڈم ہوا جب وہ ریفرنڈم ہار گئے اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہو گیا۔ تو انہوں نے چاہا کے تعاون کریں مگر ان کی حکومت کو “غدار“ کہہ کر برطرف کردیا گیا پھر ان کی نظر بندیوں اور پابندیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن انہں ڈاکٹر خان کو جب ویسٹ پاکستان میں تمام صوبوں اور ریاستوں کو توڑ کر ون یونٹ بنا یا گیا تو اس کا وزیر اعلیٰ بنادیاگیا۔ ان تمام چیزوں سے جو چیز ابھر کر سامنے آئی وہ یہ تھا کہ سہاگن وہی “ جسے پیا چاہے۔ورنہ غدار“ آج کل بھی تمام اپوزیشن کو غدار کہا جارہا ہے ۔ اور الزام یہ ہے کہ یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں کوئی ترقیاتی کام ہو؟ جس ملک “ چین “کی آج دھوم ہے وہ پاکستان سے صرف ایک سال بعد آزاد ہوا تھا وہ کہاں سے کہاں پہونچ گیا اور ہم کہاں ہیں۔ ہر حکومت مخالف کو غدار قرار دیکر؟ یہ قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے بہت کافی ہے کہ“ کسی کی اصلی شخصیت وہ نہیں ہوتی جو عوام کو دکھائی جاتی ہے اور نہ دکھانے والے کی اصل شکل وہ ہو تی ہے جوآپ کو دکھائی جاتی ہے ۔اس کا ادراک اس قوم کو کب ہو گا خدا ہی جانے! عدالت نے بھی اپنافیصلہ پھر محفوظ کرلیا ہے؟ جبکہ حکمراں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ کچھ ہوا تو ہم عوامی عدالت میں فیصلے کے لیے چلے جائیں گے؟ عوام کس کی جھولی میں آئندہ الیکش میں ووٹ ڈالیں گے وہ عوام جانیں؟ کیا ان ہی کی ؟جو2013 کے انتخابات کے موقع پر خود چیخ ، چیخ کر کہہ رہے تھے کہ خدا کے واسطے ہمیں اس قانون سے بچاؤ جس میں امیدوار کا “ صادق ا ورا مین“ ہونا شرط ہے؟اگر یہ لاگو رہا تو صرف “مولوی“ ہی الیکشن لڑسکیں گے کیونکہ ہم نہ صادق ہیں نہ امین ہیں اور نہ ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی بنیں گے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے