اللہ اکبر!اللہ اکبر! اللہ اکبر! ۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی
لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں اور اس تاریخی فیصلہ کا کریڈٹ مختلف اشخاص اپنے من پسند لوگوں کے نام کر رہے ہیں لیکن اس تاریخی فیصلے کے بعد سارے منکروں اور فرعونوں کویہ ماننا پڑیگا کہ کوئی پیش بندی کام نہیں آتی اور کوئی قلعہ بندی کاربند نہیں ہوتی، بس وہی ہوتا ہے جو ا للہ سبحانہ تعالیٰ چاہتاہے۔ اور وہ جب چاہے جس فرعون کو چاہے ڈبودیتا ہے۔ صرف موسیٰ بدلتے رہتے ہیں ،فرعون بدلتے رہتے ہیں؟اس موضوع پر ساری دنیا کے کان کھولنے کے لیے باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول مشعل راہ ہے کہ “ میں نے اللہ کو ارادوں کے ٹوٹ جانے سے پہچانا“وہ کون سی پیش بندی تھی جو جناب نواز شریف نے اپنے تیس سالہ حاکمانہ تجربے کی بنا پر نہیں کی، بس بادشاہ بننے کی دیرتھی باقی سب کچھ موجودتھا صرف تاج پوشی اور اعلان ہونا باقی تھا۔ کہ عدلیہ نے انتہائی تحمل اور سعی ِ محکم کرکے قسط وار سہی مگر وہ فیصلہ کردکھایا جو قوم کے سارے ایماندار لوگوں کی خواہش تھی۔
کبھی کوئی سوچ سکتا تھاکہ پاکستان میں جس منصوبہ بندی سے اپنوں اور اغیار نے جواسلامی قدریں تبدیل کیں اور اخلاق بگاڑنے کی ستر سال میں کوششیں کی تھیں اور مطمعن ہوگئے تھے کہ اب یہ قوم کبھی ہمارے خلاف کھڑی نہیں ہوگی اور اس میں کوئی نیک اب آدمی ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا!جو کوئی اچھا کام کرسکے ۔ لیکن وہ اللہ جس کے نام پر 27 رمضان المبارک کو یہ ملک بنا تھا اسے پھر رحم آگیا اور اس نے دوبارہ قوم کو ایک بار اور آزمانے کا فیصلہ کرلیا کہ چلو تمہیں ایک موقع اور دیتے ہیں، جیسے تمہیں پہلے دیا تھا اور تم سے پہلے والوں کو تباہ کرنے سے پہلے دیا تھا، جو ہم ہمیشہ قوموں کو عذاب سے پہلے دیتے ہیں کہ وہ سدھر جائیں کیونکہ ہم کسی کو عذاب دیکر خوش نہیں ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پاکستان کی تاریخ میں جانا پڑیگا۔
پہلی دستور سازاسمبلی جو ترجیحات کی بنیاد پر بنی تھی کہ قوم کے سامنے اللہ سے کیا ہوا پہلا وعدہ پورا کرنا تھا کہ “ اب جو ملک ملے گا “اس ملک میں ہم تیرا نام بلند کریں گے اور تیرا نظام قائم کریں ۔ ورنہ دنیا میں ایک اور نام نہاد جمہوری مسلمان ملک کا اضافہ کرنا تھا توا سے پارلیمنٹ کا نام دیا جاتا۔ جس کے صدر خود قائد اعظم محمد علی جناح (رح) بنے ایک تو موت نے انہیں مہلت نہ دی شدید علیل ہوگئے، دوسرے کچھ ہی عرصہ بعد ان کو کاروبار ریاست سے دور رکھنے کے لیے نادیدہ قوتوں کے منصوبوں کے تحت ایک دور دراز پہاڑی جگہ “ تربت “ منتقل کر دیا گیا! جہاں سوائے ایک انگریزوں کے زمانے کے بنے ہوئے سرکاری بنگلے کے کچھ بھی نہ تھا ۔ پھر جب انکی حالت انتہائی غیر ہوگئی تو کراچی لایا گیا ،جبکہ ا ن کے استقبا ل کے لیے وزیر اعظم اور وزیر تو کیا، کوئی سرکاری افسر بھی موجود نہیں تھا۔ ان کی امبولینس کا ٹائر پھٹ گیا ڈیڑھ گھنٹے تک کوئی بندوبست نہ ہو سکا؟ اس کے بعدپاکستان کے پہلے وزیرا عظم بھی نہ جی سکے اور ا للہ کو پیارے ہوگئے۔
قصہ مختصرآخر اس نکمی دستور ساز اسمبلی کو جو 1953 ءتک دستور بنانے میں ناکام رہی تھی جس کے بارے میں 51 ہر مکتبہ فکر کے علماءنے یہ کہہ کر اور دستوربنا کر پہلے وزیرآعظم کو دیدیا تھا کہ ہم ایسا دستور چاہتے ہیں۔ بمشکل تمام وہ مولانا شبیر احمد عنثمانی صاحب کی کوششوں اور دباؤ کی بنا پر “ قراردد مقصد “ کے طور پر اسمبلی سے پاس ہوگیا مگر دستور نہیں بن سکا ۔ آخر غلام محمد نے جو اسوقت گورنرجنرل تھے۔ اس کے حال پر ترس کھا کر اسمبلی کو برطرف کردیا۔سند ھ چیف کورٹ غلام محمد کے آڑے آئی وہ اپیل میں فیڈرل کورٹ چلے گئے وہاں جسٹس “منیر“ نے عدلیہ کے وقار کو نظر انداز کردیا اور نظریہ ضرورت کا سہارا لیکر فیصلہ انکے حق میں دیدیا؟ وہ سلسلہ ستر سال تک چلتا رہا! ستر سال کے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس قوم پر پھر رحم آگیا ۔ اسلام کی تاریخ میں“ ستر “ کا ہندسہ بڑی اہمیت کاحامل ہے ۔ جیسے کہ حضور (ص) کے ستر مرتبہ روازنہ استغفار کرنے والی حدیث سے ظاہر ہے، فلسطین کو بھی پہلی دفعہ تباہ کرنے کے ستر سال بعد ہی دوبارہ آباد کیاگیا تھا وغیرہ وغیرہ؟ یہاں بھی وہی عدلیہ آزادی کے ستر سال کے بعد حرکت میں آئی، اسے ا س معاشرے میں جہاں اللہ سے ڈرنے والے بظاہر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ہیں، ایسے جج فراہم کردیئے گئےجو اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ ایسے جے آئی ٹی کے ارکین فراہم کر دیئے جو کسی دباؤ یا لالچ میں نہ آئیں؟کیا یہ اس بات کو ظاہر نہیں کرتا کہ اللہ پھر مہربان ہو گیا ہے اور اس نے اس قوم کو ایک موقع اور دیدیا ہے کہ قوم شکر ادا کرے اوراپنا وعدہ پورا کرے اور ملک میں اس کانام بلند کرے؟ مگر وہ اس طرح جس طرح سے اس نے اپنا نام بلند اور شکر اداکرنے کاحکم دیاہے۔ ویسا نہیں جیسا کہ اس نے پاکستان کی تاسیس کے بعد کلچر کے نام پر سیکھا ہے ۔ورنہ یہ قوم بھی اس کی سنت کے مطابق جو کبھی تبدیل نہیں کرتا، دوبارہ عتاب کا شکار ہوجا ئے گی “ اور مغضوب “ قوموں کی تاریخ میں ایک اور اضافے کا باعث ہوگی؟ اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھے (آمین)